aik tabah saath | Imran Junior

سیاہ۔سیات۔۔

سیاہ۔سیات۔۔

علی عمران جونئیر

روزنامہ نئی بات، کراچی

01-Feb-2019

دوستو،لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی کا کہنا ہے۔۔سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے جو شخص غصے یا گالی کو کنٹرول کرلے وہ ’’ولی ‘‘ہے یا پھر خود ان حالات کا ذمہ دار۔۔۔اس لئے ہم غصہ کررہے ہیں نہ ہی گالی دے رہے ہیں،البتہ آج سیاست کے حوالے سے کچھ ہلکی پھلکی باتیں کررہے ہیں، کیوں کہ فی زمانہ سیاست اور مذہب دو ایسے موضوعات ہیں جن پر بات کرتے ہوئے فریقین کا پارہ اچانک ہائی ہوجاتا ہے اور بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ تلخ کلامی سے ماراماری تک جاپہنچتی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ آج کل گھوڑے اور گدھے میں کوئی فرق نہیں۔۔ کیوں کہ اسمبلیوں میں جب ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے تو اکثریت ’’ہارس‘‘ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی تجارت کہاجاتا ہے ، اور جب ان لوگوں کا کوئی کام پھنس جائے تو یہ گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں، اس لئے گدھے ہی کہلاتے ہیں۔۔
ہمارےپیارے دوست کا دعویٰ ہے کہ ، پاکستان میں سائیں قائم علی شاہ کے بعد سب سے زیادہ پرانی اشیا میں امریکن سنڈی اور مالاکنڈ کی برف باری ہے۔۔وہ مزید کہتے ہیں جس طرح سے ’’چینی‘‘ کا چائنا سے کوئی تعلق نہیں، ’’ بھُٹے‘‘ کا بھوٹان سے، کشمیری کا کشمیری چائے، ’’افغانی ‘‘کا افغانی پلاؤ۔۔’’چاول‘‘ کا رولز رائس سے کوئی تعلق نہیں، اسی طرح سے تحریک انصاف سے’’انصاف‘‘ کا بالکل بھی کوئی تعلق نہیں۔۔گزشتہ روز انہوں نے فون کرکے ایسا سوال پوچھا کہ ہم اب تک لاجواب ہیں۔۔پیارے دوست پوچھ رہے تھے کہ اگر لڑکی پی ٹی آئی کی ہو اور لڑکا نون لیگ کا تو کیا ان کا نکاح ہوجائے گا؟؟؟۔۔انہوں نے ہی ہمیں اطلاع دی کہ ۔۔لوہے کے چنے کو ہلکی آنچ پر گلنے کے لئے مزید 7 روز تک نیب کے حوالے کر دیا گیا، شاید وہ خواجہ سعدرفیق کے کیس کی طرف اشارہ کررہے تھے۔۔

ایک بڑبولے قسم کے وزیرکو ڈینگیں مارنے کی عادت تھی، ایک ’’گیدرنگ‘‘ میں لمبی لمبی ’’پھینک‘‘ رہے تھے، کہنے لگے، پچھلے دنوں اپنے مکان کی تعمیر کے لئے مجھے اپنے گاؤں جانا پڑا۔۔جب زمین کھدوائی گئی تو بجلی کی تاریں دستیاب ہوئیں۔۔اور بجلی کی وہ تاریں اندازاً دو تین ہزار سال پرانی تھیں۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دو تین ہزار سال پہلے بھی ہمارے گاؤں میں بجلی موجود تھی ۔۔ان کے ایک دوست جن کا فیصل آباد سے شاید تعلق تھا کمال متانت سے برجستہ بولے۔۔ جی ہاں، اور میں نے اپنا مکان بنوانے کے لئے جب زمین کھدوائی تو کچھ بھی نہیں ملا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے وقتوں میں ہمارے گاؤں میں موبائل فون استعمال کیا جاتا تھا۔۔کلاس میں اردو گرامر کا پیریڈ چل رہا تھا، ٹیچر نے بچوں سے سوال کیا، بچو، میں جملہ بولتا ہوں، آپ بتائیں گرامر کی رُو سے یہ کون سا زمانہ ہے؟؟ میں رو رہا ہوں۔۔تم رو رہے ہو۔۔ہم رو رہے ہیں ۔۔اب بتاؤ یہ گرائمر کی رو سے کونسا زمانہ ہے ؟بچوں نے یک زبان ہوکر جواب دیا۔۔ جناب،یہ تو پی ٹی آئی کا زمانہ ہے۔۔تحریک انصاف نے یو ٹرن لیا تھا مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر گول چکر متعارف کروا دیا تاکہ عوام سڑکوں پہ ہی گھومتے رہیں۔۔کہتے ہیں،مرد ہمیشہ عورت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سمجھ آتی ہے۔تو لگ سمجھ جاتی ہے۔۔بس اب جملے میں مرد کی جگہ عوام اور عورت کی جگہ حکومت کو کرلیں، اور ایک بار پھر اس جملے کا لطف اٹھائیں۔۔

نیویارک کے ایک ’’پب‘‘میں بحث ہورہی تھی، موضوع الیکشن تھا، برطانوی گورا بولا، ہمارے ملک میں پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت ہے۔ جرمن باشندہ کہنے لگا، ہمارے ملک میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ انٹرنیٹ سے آن لائن ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔ امریکی نے کہا، ہم اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ موبائیل میسیج سے ہی ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ آخر میں پاکستانی کا نمبر آیا، معصومیت سے کہنے لگا۔۔ ہم لوگ گھر پر ہی بیٹھے رہتے ہیں اور ہمارا ووٹ کوئی کاسٹ کرجاتا ہے۔یہ ہوتی ہے اصلی ترقی۔۔۔ترقی ہویا تبدیلی اصل میں ہوتی کچھ اورنظر کچھ آتی ہے۔۔ اس کی ایک مثال دیتے چلیں، جب ہم لاہور سے کراچی آرہے تھے، کراچی ایکسپریس شام پانچ بجے لاہور سے روانہ ہوتی ہے، غلطی سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اسٹیشن پر پہنچ گئے،سوچا انتظارگاہ میں تشریف رکھی جائے، ابھی پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے،ہلکے آسمانی رنگ کا سوٹ پہنے، کھلی زلفیں ٹوٹیاں کان کو لگائے اک ناری سامنے آکر بیٹھ گئی، موصوفہ کے ہاتھ میں سینڈوچ تھا، جسے وہ اس انداز میں کھانے کی کوشش کررہی تھی کہ لپ اسٹک خراب نہ ہو، دوسرے ہاتھ میں اس نے جوس پکڑا ہوا تھا جس کے وہ ہلکے ہلکے سپ بھی لے رہی تھی، کبھی اپنے کپڑے دیکھتی، کبھی چہرے پہ آنے والی زلفوں کو بڑے نازو انداز سے پرے جھٹکتی، دوپٹہ تو اس کے پاس تھا ہی نہیں۔۔ہم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ سینڈوچ چباتے ہوئے اپنے زیادہ ہونٹ نہیں کھول رہی تھی۔۔ابھی ہم اس کے سینڈوچ ختم ہونے کا انتظار ہی کررہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں انتظارگاہ کے اندر ایک آنٹی نے انٹری ماری اور ایک گرج دار قسم کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔۔ ایتھے منہ چک کے بیٹھی بیگ تیرے پیو نے چْکنے سی۔۔۔

اک شیخ صاحب کے گھر میں مہمان آیا ۔وہ بھی بہت دور سے، مہمان نے آتے ہی دہشت ناک خبر سنائی کہ چار پانچ دن قیام کرے گا، شیخ صاحب بھاگ کے بازار گئے اور بہت زیادہ عمر کی گائے کا ایک پاؤ گوشت لے آئے، آتے ہی بلند آواز سے بیگم کو بولے ،مہمان کی خاطر میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، آج بھنڈی گوشت بناؤ، بھنڈی گوشت تیار ہو گیا، لیکن گوشت بہت سخت تھا مہمان سے کھایا نہیں گیا، اس نے بھنڈی کھا لی،، اگلا دن ہوا، تو شیخ صاحب بولے آج آلو گوشت بناؤ مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، آلو گوشت پک گیا، لیکن گوشت پھر بھی سخت تھا، مہمان نے آلو کھا لئے، اور گوشت ویسے کا ویسا رہا، تیسرے دن، دال گوشت، چوتھے دن پالک گوشت،، پانچواں دن ہوا تو شیخ صاحب بولے بیگم آج مہمان کا آخری دن ہے آج کریلے گوشت بنا لو،، مہمان بے چارہ بھی تنگ آ چکا تھا، غصے سے بولا گوشت کھا کھا کر میں تنگ آ چکا ہوں، آپ خالی کریلے ہی پکا لو۔۔اب اس واقعہ کو سیاست سے مت جوڑ لیجئے گاپلیز۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں