Seena Ba Seena 99

سینہ بہ سینہ 99

 دوستو۔۔سب سے پہلے تو آپ سب کو میری اور پپو کی طرف سے رمضان المبارک کی خوشیاں مبارک ہوں، ہم دعاگو ہیں کہ آپ سب لوگ اس ماہ کی بھرپوررحمتوں، برکتوں سے فیض یاب ہوں، اپنی دعاؤں میں مجھے اور پپو کو بھی ضرور یاد رکھئے گا۔۔چلیں اپنی کچھ باتیں بھی شیئر کرتا چلوں۔۔ آپ سب کے فیوریٹ سلسلے سینہ بہ سینہ کی سینچری صرف ایک قدم کی دوری پر ہے، فیصلہ کیا ہے کہ اب اس سلسلے کو بند کردیا جائے، کیوں کہ اپنے عروج کے زمانےمیں ہی ریٹائرمنٹ لے لینے سے عزت بحال رہتی ہے۔۔اس لئے اب اگلا سینہ بہ سینہ مارکیٹ میں آنے کے بعد اسے بند کردیا جائے گا۔۔ دوستوں کا اصرا ر ہے کہ اسے جاری رکھا جائے کیونکہ اس سلسلے کی بدولت پپو بہت سی اندرونی باتیں بتادیتا ہے۔۔ جس پر ہمارا کہنا ہے کہ اندرکی باتیں اور مخبریاں تو بند نہیں ہوں گی، پپو ” ویب” پر مخبریوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔۔مصروفیت بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک تو یہ ہفتہ وار نہیں لکھا جارہا ،دوسری بات یہ تو آپ کو پتہ ہی کہ ہماری ویب صرف اور صرف میڈیا سے متعلق خبروں کے لئے مخصوص ہے اس لئے اس کے نارمل خبروں کا حصول بھی کبھی کبھار مشکل ہوجاتا ہے۔۔ پپو کی بھی اپنی مصروفیت ہوتی ہے۔۔اسے پان کا کیبن بھی دیکھنا ہوتا ہے۔۔میری بھی جاب ہے ۔۔ایسے کئی عوامل ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے اب اس سلسلے کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔ قسط نمبر 98میں آپ کو بتایا تھا کہ ۔۔ ہم آپ کو بتائیں گے کراچی سے نکل کر کون سے اینکرز “سرعام” عشق کی پینگیں بڑھاتے رہے۔۔کچھ خفیہ شادیوں پر بات کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔۔سما کا دانہ اور کچھ اندرونی کہانیاں بھی شیئر کریں گے۔۔ابتک نیوز میں ہراسمنٹ کے واقعہ بھی سنانے کا وعدہ کیا تھا۔۔بالکل یہ سب تو ہوگا ہی لیکن اس کے لئے بھی بہت کچھ ایسا ہوگا جس کی پپو سے آپ کو توقع ہوتی ہے۔۔مخبریاں بے تحاشہ ہیں۔۔سب نمٹانے کی کوشش کریں گے۔۔تو چلیں پپو کی باتوں کی طرف چلتے ہیں۔۔

سینہ بہ سینہ کا آغاز رمضان المبار ک کی مبارک باد سے ہوا تھا تو پہلے کچھ بات رمضان ٹرانسمیشن کی کرلی جائے۔۔جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تمام چینلز کی رمضان ٹرانسمیشن کا پہلا دن ہوگا۔۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے رمضان ٹرانسمیشن پر کچھ پابندیاں لگائیں۔۔جس کا ملک میں ہر طبقے اور ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے انسان نے خیرمقدم کیا۔۔۔لیکن پی بی اے نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی۔۔(تفصیلی خبر ویب پر موجود ہے) ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 9 مئی کو فیصلہ سناتے ہوئے رمضان المبارک میں لاٹری ، جوا اور سرکس جیسے پروگرامز پر پابندی عائدکی تھی  اور حکم دیا کہ وزارت اطلاعات اور داخلہ کے سیکرٹریز اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی رمضان کے پہلے عشرے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔  عدالتی فیصلے کے مطابق  مارننگ شوز اور رمضان ٹرانسمیشن میں اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں پیمرا کی گائڈلائن کے خلاف کوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا اور تمام پروگراموں کی سخت نگرانی کی جائے گی جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ رمضان المبارک میں تمام چینلز پانچ وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان مقامی وقت کے مطابق نشر کریں گے ، اس کے علاوہ مغرب کی اذان یعنی افطار کے وقت سے پانچ منٹ قبل تک کوئی اشتہار نہیں چلایا جائے گا بلکہ درود شریف اور پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور امن کے لئے دعا کی جائے گی۔۔جس پر پی بی اے(چینل مالکان کی تنظیم) کے وکیل نے بہت ہی عجیب و غریب موقف اپیل میں اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔  آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار آزادی کی اجازت ہے۔۔ سماعت کے دوران وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔۔ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ عدالتی حکم سے چینلز مالکان کے “مفادات” پہ ضرب پڑی ہے اور “آمدن” متاثر ہونے کا شدید خدشہ ہے۔۔ اسی لئے تو اپیل دائر کی گئی۔۔ پپو نے سوال اٹھایا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ چینل مالکان سے یہ سوال بھی کرے کہ رمضان ٹرانسمیشن سے  رواں سال اے آر وائی کو 80 کروڑ، جیونیوز کو 40 کروڑ۔۔ایکسپریس نیوز کو بیس سے تیس کروڑ کی آمدنی ہورہی ہے۔۔ پچھلے کچھ عرصے سے تمام چینلز ہر سال رمضان ٹرانسمیشن دکھاتے ہیں ،اگر سب کا آڈٹ کیا جائے تو سارا حساب کتاب سامنے آجائے گا کہ کس نے کتنا کمایا، لیکن کیا آج تک کسی چینل نے کوئی یونیورسٹی، کالج، مدرسہ بنایا؟ رمضان ٹرانسمیشن سے ہونے والی آمدنی سے کتنے غریب،مساکین اور غربا کی فیملیز کی مدد کی گئی؟ کتنی بیواؤں کا ماہانہ وظیفہ باندھا گیا، کتنی یتیم بچیوں کی شادیاں کرائی گئیں، کتنے یتیم بچوں کے تعلیمی اخراجات یہ چینلز اٹھارہے ہیں جو اب تک اربوں کھربوں روپیہ پچھلے کئی سال کے دوران رمضان ٹرانسمیشن کی مد میں کماچکے ہیں؟۔۔

رمضان ٹرانسمیشن کی کمائی پر بات کی جائے تو پپو نے دلچسپ مخبری دی ہے۔۔ بتایا ہے کہ رواں سال سما پر کوئی  باقاعدہ رمضان ٹرانسمیشن نہیں ہورہی،  اسی طرح دنیانیوز، 24 گروپ، آج نیوز، ڈان نیوز کی افطار ٹرانسمیشن بھی ایسی ہے کہ صرف اپنا خرچہ ہی نکال سکیں گی، یعنی نو پرافٹ نو لاسٹ۔۔پپو نے ایک ایسے چینل کی رمضان ٹرانسمیشن کے بارے میں کچھ بتایا ہے جس کے بارے میں چینل مالکان کی تنظیم پی بی اے نے 2 دن تک مسلسل سر جوڑے رکھے جس کے بعد ایک حکمت عملی بھی تیار کرلی۔۔ پپو نے وہ حکمت عملی بھی بتائی ہے لیکن پہلے پپو کی یہ مخبری تو سن لیں کہ اصل کہانی کیا ہے اور کس وجہ سے پی بی اے کو ٹینشن ہورہی ہے۔۔؟

سین کچھ یوں ہے کہ بول نیوزنے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ اب وہ اشتہار لینا شروع کررہا ہے۔۔ اچھی بات ہے، بالکل کرنے چاہیئے۔۔کچھ اشتہار چلانے بھی شروع کردیئے اور رمضان ٹرانسمیشن میں بھی اشتہارات چلائے جائیں گے۔۔ بالکل چلائیں اس پر عام عوام اور ناظرین کو بھلا کیوں اعتراض ہونے لگا، لیکن چینل مالکان کو شدید اعتراض ہے۔۔جس کی وہ ٹھوس وجہ بھی بتاتے ہیں۔۔ لیکن پہلے پپو نے جو اندرونی کہانی نکالی ہے وہ بھی سن لیں ، لیکن تھوڑی توجہ کے ساتھ۔۔ کیونکہ بے دھیانی میں پڑھیں گے تو بات سرپہ سے گزرجائے گی۔۔کہانی شروع سے سنیں۔۔ بول پر اشتہارکچھ عرصہ تو بالکل چلے نہیں، بول والے یہ دعوے کرتے رہے کہ ہم اشتہار نہیں لیں گے۔۔پھر اچانک پچھلے کچھ دنوں سے انہوں نے اشتہار چلانا شروع کردیئے، یہ اشتہار آئے کیسے، ملین ڈالر سوال یہ ہے، پی بی اے والے بھی سن لیں۔۔پپو اندر کی کہانی سنا رہا ہے۔۔پپو کا دعویٰ ہے کہ بول پر اشتہارات اصل میں ایڈورٹائزمنٹ کے دو گروپس کی جنگ ہے، گروپ ایم اور اسٹارکوم۔۔ پہلے بول نے گروپ ایم کو آفر کی، پپو کا کہنا ہے کہ یہی وہی گروپ ہے جس نے جیونیوز کی رمضان ٹرانسمیشن بھی خریدی ہے۔۔گروپ ایم چونکہ پی بی اے کے ضوابط پر عمل کرتا ہے اس لئے بول کو منع کردیا کہ آپ لوگ پی بی اے کے ممبر نہیں اس لئے ہم آپ کے ساتھ کام نہیں کرسکتے، جس کے بعد یہ آفر اسٹار کوم نے قبول کرلی۔۔بول کے مارکیٹنگ ہیڈ صاحب جوکہ اتنے “معصوم” ہیں کہ انہوں نے اپنے چینل کی اس گروپ سے “ڈیل ” کرادی ،جس کاایک ذیلی گروپ “کرکٹ جنونی “پچھلے تین سال سے  پاکستان سپرلیگ کرارہا ہے۔۔جس میں وہ “معصوم” صاحب اور اسٹارکوم گروپ کے مالک پارٹنر ہیں۔۔یعنی معصوم صاحب پارٹنرشپ کا منافع بھی لیں گے اور بول سے تنخواہ الگ، یعنی چپڑی اور دودو۔۔پپو نے بتایا کہ مارکیٹ میں یہ پراپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ جیسے بول نے بہت بڑا معرکہ سرکرلیا اور اشتہارات کے ساتھ رمضان ٹرانسمیشن کی اسپانسرشپ میں اسے پچاس کروڑ سے زائد کی انکم ہوگی، حالانکہ ایسا کچھ نہیں،رمضان کے اختتام تک صرف چار سے پانچ کروڑ کی ڈیل ہوئی ہے۔۔ اور یہ پیسے بھی ایک سال بعد ملیں گے، حالانکہ پی بی اے کے ضوابط کے تحت کسی بھی اشتہار کی ادائیگی نوے روز کے اندر کرنا لازمی ہوتی ہے، اب چونکہ یہ ساری ڈیل پی بی اے کے دائرہ اختیار اور اس کی مرضی کے بغیر باہر ہی باہر طے ہوئی ہے اس لئے تمام معاملات بھی فریقین نے اپنی مرضی سے طے کئے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بول انتظامیہ نے اسٹارکوم گروپ کو یقین دلایا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پی بی اے کی رکنیت حاصل کرکے میٹرریٹنگ پہ آجائے گا، اگر ایسا نہ ہوسکا تو کی گئی ڈیل کے  مطابق ایک سال بعد جو ادائیگی ہونی ہے وہ بھی نہ کی جائے۔ ۔  پپو نے مزید انکشاف کیا ہے کہ بول انتظامیہ نے میڈیا لاجک سے بھی رابطہ کیا اور درخواست کی کہ ہمیں بھی ریٹنگ میٹر پر لایا جائے ، لیکن میڈیا لاجک نے ان کی درخواست رد کردی کہ پہلے آپ پی بی اے کی ممبرشپ حاصل کریں، میڈیا لاجک نے بول انتظامیہ کو یاد دلایا کہ آپ لوگ تو ہمیں جعلی کمپنی کہتے تھے، ہمارے خلاف کیسز بھی کئے،ہمارے مقابلے میں اپنی ریٹنگ کمپنی بھی لانچ کی جس کی کراچی کے ایک ہوٹل میں “”خرچے “والی تقریب بھی کی۔۔پی بی اے کے خلاف بھی مقدمہ بازی کی، پہلے یہ کیسز تو واپس لیں پھر پی بی اے کی رکنیت لیں اور اس کے بعد ہمارا رخ کریں۔۔پپو نے بتایا کہ بول پر اشتہارات بالکل اسی طرح چل رہے ہیں جیسے کوئی ائرلائن “سول ایوی ایشن ” کی مرضی کے بغیر اپنی پروازیں شروع کردیں، اب اگر مسافر کو کچھ ہوجاتا ہے، کسی بھی قسم کا حادثہ ہوتا ہے یا پرواز ہی منسوخ ہوجاتی ہے تو مسافر کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟  چینل پر کوئی بھی اشتہارچلایا جاتا ہے تو اس کا ایک طریقہ کار پی بی اے نے طے کیا ہے، ایڈورٹائزمنٹ ایجنسی اور چینل اس ضابطہ اخلاق کے پابند ہوتے ہیں کوئی ایک فریق بھی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پی بی اے اس کے خلاف ایکشن لیتا ہے۔۔اشتہارات بھی ریٹنگ کی بنیاد پر ملتے ہیں اور تمام چینل مالکان مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود میڈیا لاجک کی دی گئی ریٹنگ کو ماننے کے پابند ہیں۔۔پی بی اے نے تمام ایڈورٹائزمنٹ ایجنسیوں کو خبردار کیا ہے کہ جو بھی بول پر اشتہار دے گا وہ غیرقانونی قرار دیا جائے گا اور اس ایجنسی کو پی بی اے بلیک لسٹ کردے گی جس کے بعد وہ پی بی اے کے کسی رکن چینل کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکتا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول جس انداز میں من مانی کرتے ہوئے اشتہارات چلا رہا ہے ،یہ مجموعی طور پر میڈیاانڈسٹری کی تباہی کا باعث بنے گا۔۔کل کو اگر جیونیوز، اے آر وائی، دنیا نیوز، سما، ڈان گروپ یا کوئی بھی میڈیا گروپ اگر اپنا “اثرورسوخ” استعمال کرکے اشتہارات لینا اور اسے چلانا شروع کردے تو پھر “افراتفری” پھیلے گی۔۔ اور چھوٹے موٹے کئی چینلز خود بخود بند ہونا شروع ہوجائیں گے۔۔ کیونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس یا جنگل کا قانون رائج ہوتوصرف طاقتور ہی زندہ رہ پاتا ہے کمزور تو ویسے ہی مرجاتا ہے۔۔پی بی اے نے اس سلسلے میں تمام ایڈورٹائزرز کو پندرہ مئی کو لیٹر بھی جاری کردیا ہے اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ بول سے کسی بھی قسم کی کمرشل یا نان کمرشل ڈیل اپنی ذمہ داری پر کریں۔۔پپو نے لیٹر کی کاپی بھی ارسال کی ہے جس میں کافی کچھ بیان بھی کیاگیا ہے۔۔جسے ہم یہاں لکھ کر آپ کا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے۔۔

بول کاذکر چل رہا ہے تو کچھ مخبریاں بول کی بھی سن لیں۔۔ لاڑکانہ میں بول کا پرائمری ٹیچر رپورٹر گوشہ نشین ہوگیا ہے، بہانہ بناکر کام کرنا چھوڑ دیا ہے اب ضلع قمبر میں گھر بیٹھ ادھر ادھر سے خبریں لے کر بھیج دیتا ہے اور فوٹیج کے لئے کیمرہ مین کو کہہ دیتا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اسے بھی بول نے کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی جب کہ سرکاری اسکول میں بائیومیٹرک ہونے کے باعث سختی ہوگئی ہے اور اسے روزانہ قمبر میں اسکول جاکر حاضری لگاکر لاڑکانہ آنا پڑتا تھا اس لئے روز روز کی آمدورفت سے اور ڈائریکٹر نیوز کے بار بار ایز لائیو مانگنے سے تنگ آکر ایکسیڈنٹ کا بہانہ کرکے گھر بیٹھ گیا،اپنے قریبی حلقے کو بتارہا ہے کہ بول والے تو تنخواہ ہی نہیں دیتے اب ایسا نہ ہوکہ سرکاری ملازمت بھی چھوٹ جائے۔۔اس لئے سوشل میڈیا پر زخمی ہونے کی تصویر ڈال کر کام کرنا چھوڑ دیا۔۔پرائمری ٹیچر رپورٹر کو اس بات کا بھی افسوس ہورہا ہے کہ اس نے آج نیوز چھوڑ کر بول کیوں جوائن کرلیا۔۔

بول کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، ہیڈآفس کی بھی سن لیں، پپو کہتا ہے کہ اسے بول کی مخبری دینا بہت آسان لگتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پپو کا گھر بھی کورنگی بھی ہے اور بول ہیڈآفس بھی کورنگی پر اس لئے قریب ہونے کی وجہ سے وہ اس چینل کے متعلق زیادہ باخبر رہتا ہے۔۔ پپو نے بتایا کہ گزشتہ سینہ بہ سینہ میں کراچی بیوروچیف کے چھوڑ کر ہم نیوز جوائن کرنے کی جو خبر دی تھی اس کی اپ ڈیٹ یہ ہے کہ ان صاحب کو روک لیاگیا ہے، ایک بند کمرہ اجلاس میں بول کے “دوبڑوں” نے ان کے ہاتھ پیر جوڑے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر اس طرح چلے گئے تو عام ملازمین کا مورال ڈاؤن ہوجائے گا۔۔ ہم نیوز کراچی کے لوگ بھی بتارہے کہ کہ ان کا معاملہ کچھ گڑبڑ ہوگیا ہے، اور وہ اب نہیں آرہے۔۔بول کے دوستوں کی اکثریت بار بار ان باکس میں تنخواہوں سے متعلق ہم سے پوچھتی رہتی ہے کہ تنخواہ کب ملے گی، ہم پپو سے پوچھتے ہیں ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو کل تنخواہ دے دی گئی اور کچھ کو آج اور کل میں دے دی جائے گی۔۔ بقایا جات یعنی پچھلی بقایا سیلریز کے بارے میں بول انتظامیہ انہیں یکم جولائی سے اقساط میں پچھلا حساب چکتا کرے گی، اب وہ دو قسطیں ہوں، پانچ ہوں یا دس۔۔ یہ تو تنخواہ پر انحصار ہوگا کہ کس کی کیا تنخوا ہ ہے۔۔

اب کچھ ذکر ہوجائے نائنٹی ٹو نیوزکا۔۔جہاں ملازمین کی برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے۔۔ اسلام آباد کے سینئر رپورٹر امجد بھٹی کے بعد جمشید خان بھی فارغ ہوگئے۔۔ایک رپورٹر میاں شاہد نے پبلک نیوز جوائن کرلیا تو کورٹ رپورٹر شاہ خالد نے اے آر وائی میں پناہ لے لی۔۔پپو کا کہنا ہے ملازمین کو زبانی نوکری سے نکالنے کے بعد انہیں کسی بھی صحافتی یونین یا پریس کلب سے رجوع نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے ساتھ ہی وارننگ بھی دی جاتی ہے کہ اگر انتظامیہ کی مٹی پلید کرنے کی کوشش کی توواجبات بھی روکے جاسکتے ہیں۔۔پپو کے مطابق پشاور بیوروچیف کے رویہ کے باعث ٹی وی کے دو رپورٹر، اخبار کے نیوزایڈیٹر،فوٹوگرافر اور ایک رپورٹر کے استعفے کے بعد اب وہاں نئے لوگ جوائننگ سے گھبرارہے ہیں۔۔ بیوروچیف سے متعلق پشاور کی صحافی کمیونٹی میں انہیں ٹھیکیدار بیوروچیف کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بیوروچیف جو نائٹی ٹونیوزاخبار کے ایڈیٹر بھی ہیں ، ان کے رویہ کے ہاتھوں تنگ آکر اخبار کے سینئر سب ایڈیٹر طارق متین واپس ایکسپریس چلے گئے۔۔نیوٹی وی سے 92نیوزجوائن کرنے والے ایک سینئر رپورٹر بھی وہاں کے حالات سے گھبراکے واپس چلے گئے۔۔واحد فوٹوگرافر نے بھی نالاں ہوکراستعفے میں عافیت جانی۔۔پپو کاکہنا ہے کہ بیوروچیف کو ناشتہ کھلانے اور مہینے میں ایک یا دو بار گھر سے خاص دش بنواکے لانے والوں کے وارے نیارے رہتے ہیں، جو فیوریٹ نہ ہوں ان پر کام نہ کرنے کے الزامات کوئی نئی بات نہیں رہی۔۔موصوف کا زیادہ وقت ای میل پر اپنے ہی کارکنوں کے خلاف شکایتی ای میل اور دفتر میں  نیند پوری کرنے میں صرف ہوتا ہے کیوں کہ جناب صبح نو،دس بجے آفس میں انٹری مارتے ہیں تو رات تین بجے کے بعد گھر جاتے ہیں۔۔کسی چھن جانے کا اس قدر خوف ہے کہ ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کرتے۔۔آفس کے ڈرائیور کو گھر کے کام کاج میں لگادیتے ہیں یا پھر اس کی ڈیوٹی بچوں کو سیرسپاٹے یا شاپنگ کرانے کی ہوتی ہے۔۔ موصوف جب  ڈان نیوز میں خود رپورٹر تھے تو اپنے بیوروچیف سے اس بات پرلڑتے تھے کہ ان کی خبر پر بیپر کیوں دیا؟ لیکن جب سے خود بیوروچیف کا منصب سنبھالا ہے تو اپنے رپورٹرز کی خبروں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر بیپر دینےکا شوق دل میں جگہ بناچکا ہے، اس حوالے سے رپورٹر سے دو بار ہاتھاپائی بھی ہوئی اور گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا۔۔نیوزروم میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی کا نوٹس تو لگاہے لیکن خود ان کے کمرے میں ایک ٹیوٹر گھنٹوں کسے ٹیوشن پڑھارہاہوتا ہے یہ بات موصوف ہی نہیں پورا اسٹاف اچھی طرح جانتا ہے۔۔پپو کے مطابق ہیڈآفس کی ہدایت کے باوجود پشاور بیورو میں کوئی سی سی ٹی وی نہیں لگایاگیا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیند آفس مٰں پوری کی جاتی ہے، خراٹے لینا شروع کریں تو خوشامدی گروپ لوگوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتے ہیں تاکہ “صاحب” کی نیند میں خلل نہ پڑے۔۔پپو بتارہا تھا کہ چینل میں تین اسائنمنٹ ایڈیٹرز ہیں جن میں سے دو کو ٹکرز بنانا تو کیا اسکرپٹ تک لکھنا نہیں آتا۔۔موصوف بیک وقت بیوروچیف، ایڈیٹر، ایڈمن، ایچ آر ہیڈ، چیف رپورٹر، چیف اسائنمنٹ ایڈیٹر، کاپی ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، فنانس منیجر، ڈرائیورز کا سپروائزر اور دیگر بہت سی ذمہ داریاں “ازخود نوٹس” کے تحت سنبھالے ہوئے ہیں۔۔اسلام آباد بیورو کا حال بھی کچھ کم نہیں۔۔یہاں سے فیاض راجہ، عرفان ملک، فیض پراچہ جیسے دبنگ رپورٹر پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔۔ایک صاحب نے پیمرا میں کیس کردیا جہاں مالکان پیش ہونے سے انکاری ہیں۔۔ اسلام آباد میں رپورٹرز کو ڈیڑھ لاکھ سے اوپر کا پیکیج آفر کیاجارہا ہے لیکن کوئی جوائن نہیں کررہا جس کے بعد اب اس لیول کے رپورٹرز رکھے جارہے ہیں جن کی سورس واٹس ایپ گروپ ہوتے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ لاہور آفس سے بھی کچھ لوگ نئے چینلز میں جانےکے لئے پرتول رہے ہیں۔۔ جنہیں انتظامیہ روکنے کےلئے چھوٹی گاڑیوں کا لالچ بھی دے رہی ہے۔۔

اب احوال بیان کرتے ہیں۔۔ سمانیوز کا۔۔ جہاں پچھلے دنوں اندرونی طور پر ایک بہت بڑی “تبدیلی” آتے آتے رہ گئی۔۔ لیکن اس سے پہلے ایک وضاحت بہت ضروری ہے۔۔ مجھے “ان ڈائریکٹ” ایک پیغام پہنچا ہے ، جس میں شکوہ کیاگیا ہے کہ میں سما کے خلاف کسی قسم کی کمپین چلا رہا ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی پیسے دے کر مجھ سے سما کے خلاف لکھوا رہا ہے،کردار کشی بھی کی جارہی ہے۔۔وضاحت کرنے سے پہلے ایک اعتراف ضروری ہے کہ  جب تک میں نے ویب سائیٹ شروع نہیں کی تھی، سینہ بہ سینہ بھی فیس بک پیج پہ لکھتا تھا تو میں نے کچھ عرصہ فرحان ملک صاحب کو فرعون ملک لکھا، جس پر لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ ایسا کیوں لکھتے ہوتو میں بتاتاتھا کہ ان کے آفس کے لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔۔ خیر بعد میں عثمان غازی نے کراچی پریس کلب میں ذاتی طور پر درخواست کی تو اس کے بعد سے آج تک میں نے انہیں کبھی فرعون ملک کے نام سے کبھی مخاطب نہیں کیا۔۔میری ویب پہ کوئی ایک خبر ایسی بتادیں کہ کسی کی کردار کشی کی ہوتو پھر الزام کو سچامان لوں گا۔۔ رہی بات پیسے دے کر کوئی مجھ سے سما کے خلاف لکھوارہا ہے تو یہ کوئی نیا الزام نہیں۔۔بول والے کہتے ہیں جیونیوز مجھے فنڈنگ کررہا ہے۔۔ ایک اور چینل کا کہنا ہے کہ مبشرلقمان نے مجھ پہ پیسہ لگایا ہے۔۔ ایک  اور چینل کا کہنا ہے کہ میرے پیچھے نیوٹی وی والے ہیں جو  میری سرپرستی کرتے ہیں ۔۔میرا یہ تمام چینلز مالکان کو کھلا چیلنج ہے کہ کوئی ایک ثبوت ، کوئی ایک مثال ایسی مجھے دے دیں کہ میں نے کسی سے پیسے لئے ہوں، کوئی میری سرپرستی کررہا ہے یا کوئی مجھے فنڈنگ کررہا ہے۔۔ وہ میری ویب سائیٹ کا آخری دن ہوگا۔۔میں کسی کے ایجنڈا سیٹنگ کرتا ہوں نہ کسی کے لئے کام کرتا ہوں۔۔ جو میرے دل اور دماغ میں بیٹھ جاتا ہے وہی کرتا ہوں۔۔ اس کی میرے قریبی دوست گواہی دینگے۔۔رہی بات کسی سے پیسے لینے کی تو اگر پیسے لے رہا ہوتا تو پھرآج کرائے کے گھر میں نہ ہوتا، “بے کار” نہ ہوتا۔۔اور سب سے اہم بات اپنی فیملی سے دور لاہور میں جاب نہ کررہا ہوتا۔۔ مزے سے گھر بیٹھے لکھتا، پیسے پکڑتا ، پھر لکھتا۔۔پھر پیسے پکڑتا۔۔خیرامید ہے کہ جن صاحب نے پیغام بھجوایا تھا ان تک میری وضاحت پہنچ گئی ہوگی۔۔ میرے لئے آپ بہت قابل احترام ہیں،اور آپ ہی نہیں میڈیا کے تمام دوست میرے لئے واجب الاحترام ہیں۔۔میری لڑائی اور دشمنی ورکردشمن سے ہے، جب بھی کسی میڈیا ورکر کے خلاف کوئی اقدام ہوگا میں اپنے میڈیا ورکر دوست کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں گا۔۔ بس اتنی سی گزارش ہے۔۔چلیں اب مخبریوں کی جانب چلتے ہیں۔۔

پپو نے کچھ روز پہلے ایک آڈیو بھیجی، اسے سنی تو کافی حیرت ہوئی، تفصیل پوچھی تو وہ ہنس پڑا، کہنے لگا، کراچی میں اتنی شدید گرمی پڑرہی ہے کہ اب تو “دانے” نکل رہے ہیں۔۔ہمیں اس آڈیو پر پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن پھر جب کچھ “حوالے” سامنےآئے تو یقین کرنا ہی پڑا، جس کے بعد ہم نے کچھ احتیاط پھر کی اور جب یہ آڈیو لیک کی تو ادارے اور اینکر کا نام نہیں بتایا۔۔جس کے بعد یہ کچھ اس طرح وائرل ہوئی کہ اس اینکر سے سما نے بھی راستے الگ کرلئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ موصوف کی “ڈیل” لاہور کے ایک میڈیا گروپ سے ہوگئی ہے، ایک دو دن میں وہ جوائننگ دے دیں گے۔۔(جوائن کرنے کی خبر ویب پر دے دی جائے گی)۔۔اس آڈیو لیک کے بعد کئی لوگوں نے رابطے کئے اور موصوف کی کارستانیاں، کرتوت اور کچھ مزید اعمال سے بھی پردہ ہٹایا، وہ ساری باتیں ہم نے نوٹ کرلی ہیں فی الحال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس کی تفصیل جان بوجھ کر بتانے سے گریز کررہے ہیں۔۔ایک دو ہلکے پھلکے واقعات ہی سن لیں فی الحال۔۔سما میں ایک محترمہ کی گزشتہ نومبر کو برتھ ڈے تھی  تو اس کے کھانے کا بل تریسٹھ ہزار روپے بنا جو موصوف نے اداکیا تھا۔۔ڈیفنس کے علاقے میں ایک کلب ٹائپ کی کوئی چیز بنائی ہوئی ہے جہاں ڈسکواور ڈانس پارٹیز ہوتی ہیں اور مشروب مغرب کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔۔جہاں ایک بار پولیس نے نیوائر تقریب پر چھاپہ بھی ماراتھا اور بھاری مقدار میں شراب بھی پکڑی تھی، پپو نے اس کیس کی پوری تفصیل بھی بتائی ہے، لیکن ہم وہ تفصیل بتانے سے گریز کررہے ہیں۔۔

سما کی باتیں ابھی ختم نہیں ہوئیں، رمضان المبارک پر سارے چینل رمضان ٹرانسمیشن چلارہے ہیں لیکن ایک بڑے چینل ہوتے ہوئے حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی نے افطار ٹرانسمیشن اسپانسر ہی نہیں کی، جس کے بعد اب یہاں صرف سحری ٹرانسمیشن چلے گی۔۔اب بات اس تبدیلی کی، جس کا اوپر ذکر کیا تھا اور جو آتے آتے رہ گئی۔۔ گزشتہ دنوں ڈی این صاحب کئی روز دفتر سے غائب رہے، کھوج لگائی تو پتہ چلا دبئی گئے ہیں، دبئی کیوں گئے، جب اس کا پتہ کیا تو پپو نے بتایا کہ سما کے مالک کے پاس گئے تھے، انہیں فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا تھا لیکن چونکہ اب سما کی نئی وائس چیئرپرسن سارا صدیقی کو بنایاگیا ہے اور موصوف ان کے فیوریٹ ہیں،پپو کے مطابق سارا صدیقی کے نزدیک فرحان ملک ایک اچھے منیجر ہیں اور معاملات کو بخوبی چلاسکتے ہیں، چنانچہ انہی کے کہنے پر موصوف دبئی گئے،اور اس یقین دہانی کے ساتھ واپس آئے کہ وہ الیکشن سے پہلے سما کو واپس ٹاپ ٖفائیو کی ریٹنگ میں لے آئیں گے۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اچھے کام کرنے والے تو ایک ایک کرکے چھوڑ گئے۔۔ہم نے  سینہ بہ سینہ  96میں بتایا تھا کہ کراچی کی خاتون بیوروچیف کے خلاف کارروائی کی تیاریاں مکمل ہیں، اور وہی ہوا۔۔اختیارات کے ساتھ واپسی کے بعد ڈی این  نے بیوروچیف کی تبدیلی کیلئے کوششیں تیز کردی۔ ۔ پرانے رپورٹڑز کو بڑی بڑی آفرز ہونے لگیں۔۔ پپو کے مطابق حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آفرز ایچ آر کے بجائے موصوف کا پی اے کررہا تھا۔۔سب سے پہلے دنیا نیوز کے بیوروچیف اور جاگ نیوز کے بیوروچیف کو واپس آنے کے لئے اور اپنی ٹیم بنا نے کی آفر کی گئی لیکن دونوں نے انکار کردیا۔۔پھر بول کے ڈائریکٹر نیوز سے رابطہ ہوا،انہیں بھی پیشکش کی گئی لیکن جب ہم نے عارف محمود سے رابطہ کیا تو انہوں نے سختی سے اپنی واپسی یا کسی بھی انٹرویو کی تردید کی۔۔احمررحمان خان، شہلامحمود، سہیل رب خان، وقاص باقر، مونس احمد کو بھی واپسی کا دانہ ڈالا گیا۔۔ایک طرف تو پرانے رپورٹرز واپس بلائے جارہے ہیں لیکن پہلے سے موجود رپورٹرز پر حالات بھی تنگ کئے جارہے ہیں۔۔ تھر سے براستہ حیدرآباد ،کراچی لائے گئے رپورٹرکو بھی اپنا بندوبست کرنے کا کہہ دیا گیا ۔۔اب صورتحال یہ ہے کہ فیصل شکیل کو نیا بیوروچیف کراچی بنادیاگیا ہے جب کہ پہلی خاتون بیوروچیف کا ڈھول پیٹنے والے اب پریشان ہیں کہ کیا کریں، چنانچہ خاتون بیوروچیف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر واپس ڈسٹرکٹ ڈیسک پر بھیج دیاگیا۔۔اگردیکھا جائے تو اس وقت دنیانیوزکے بیوروچیف کراچی،  بیوروچیف  میکر بن گئے ہیں، کیوں کہ دنیانیوزکے دو رپورٹر ایک ساتھ دو مختلف چینلز پر بیوروچیف بن گئے ہیں، فیصل شکیل سما ،اور کرن خان آپ نیوز کراچی کی بیوروچیف کی ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔۔یعنی ایک طرف سما نے اپنی خاتون بیوروچیف کو فارغ کیا تو دوسری طرف ایک آنے والے چینل نے ایک خاتون کو اپنا بیوروچیف بنادیا۔۔

سینہ بہ سینہ طوالت اختیارکرگیا ہے۔۔ چلیں اب پہلے اسے ہضم کریں۔۔ باقی  رہ جانے والی مخبریاں اگلے سینہ بہ سینہ میں پڑھیئے گا۔۔ جو انشااللہ ہفتے کی شب یعنی دو دن بعد آپ کی خدمت میں پیش ہوگا۔۔ ابھی بہت سے ایسے معاملات ہیں جو آپ کو چونکا ضرور دینگے۔۔جب تک کے لئے اپنا خیال رکھیئے اور مجھے اور پپو کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھئے۔۔۔آپ کا اپنا۔۔۔(علی عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں