mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

’صحافیوں کے مغل اعظم‘‘

تحریر: عمیرعلی انجم۔۔

مشہور زمانہ بھارتی فلم مغل اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو مکمل ہونے میں بیس برس سے بھی زائد کا عرصہ گذرا ۔کے آصف ایک جنونی قسم کے شخص تھے جو اس فلم کو ایک مکمل شاہکار بنانا چاہتے تھے ۔فلم بندی میں اتنا طویل عرصہ لگ جانے کے باعث اس فلم کے کردار اس میں ہی ڈھل گئے تھے اور مغل اعظم کا کردار ادا کرنے والے پرتھوی راج کپور فلم مکمل ہوجانے کے بعد بھی خود کومغل اعظم ہی سمجھتے تھے ۔ان کی چال ڈھال اور حرکات میں ایک شاہانہ رنگ آگیا تھا اور وہ ساری زندگی اس کردار کے اسیر رہے ۔کچھ اس قسم کی ہی صورت حال ہمارے ’’عظیم صحافی رہنماؤں‘‘ کو بھی درپیش ہے ۔وہ صدر ،جنرل سیکرٹری وغیرہ کے لاحقوں میں اتنے گم ہوگئے ہیں کہ اس سے باہر نکلنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں ۔ان کو بس صدر یا جنرل سیکرٹری بننا ہے ۔اب چاہے وہ علاقائی کمیٹی ہو یا اپنی فلیٹ کی یونین کا عہدہ ہی کیوں نہ ہو۔۔بلکہ کچھ ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ کچھ ’’رہنماؤں‘‘ کو اب ان کے گھر والے بھی ’’مسٹر پریذیڈنٹ ‘‘ اور ’’سیکرٹری صاحب‘‘کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔اصل میں ہمارے جو رہنما ہیں وہ کسی فلمی کردار سے کم نہیں ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ بڑے پردے کی بجائے چھوٹے پردے پر اپنے فن کا جوہر دکھار رہے ہیں ۔اچھا جو اصل فنکار ہوتا ہے نا وہ انتہائی حساس قسم کا شخص ہوتا ہے ۔ایک ایسا آدمی جو کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا جبکہ ہم صحافیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جو ’’اداکار‘‘ ملے ہیں وہ اپنے ’’اسٹیج‘‘ کے پروڈیوسر سے لے کر ایکسٹرا اداکار تک سب کو کھاگئے ہیں ۔۔ہمارے ’’ہیرو‘‘کہتے ہیں کہ گانا بھی وہ گائیں گے ،فلم کو ڈائریکٹ بھی وہ کریں گے ،اسٹنٹ مین بھی وہی ہوں گے اور اس کا جو ’’نفع‘‘ ہوگا وہ سب ان ہی کا ہوگا ۔۔۔ہمارے ’’مغل اعظم‘‘ اپنی ذات کے اتنے اسیر ہیں کہ ان کو اپنی ’’رعایا‘‘ کا دکھ ہی نظر نہیں آتا ۔۔ان کی ’’سلطنت‘‘ کے باسی بھوک سے لڑرہے ہیں اور یہ ’’تیتروں‘‘ کا شکار کررہے ہیں ۔۔غریب رعایا میں سے اگر کوئی شخص ان کو ذمہ داریوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کرے تو ظل الہی غضبناک ہوجاتے ہیں ۔۔یہاں بھی کہانی اسی رخ کی طرف مڑ گئی ہے ۔۔رعایا میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے ’’عالی جاہوں‘‘ کو للکارنا شروع کردیا ۔۔پہلے تو یہ آواز ان کے ’’ایوانوں‘‘ تک نہیں پہنچی ۔۔اور جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ کوئی ’’باغی‘‘ بھی پیدا ہوگیا ہے تو احکامات جاری ہوئے کہ’’ زبان دراز‘‘ کی زبان کھینچ لی جائے ۔۔’’باغی‘‘ کوئی فلمی کردار تو تھا نہیں اور نہ اس کے پیش نظر کوئی ذاتی مفادات تھے ۔۔اس نے بس یہ باور کرانا تھا کہ اپنے اوپر سے یہ بہروپ اتارو ۔۔تم اس ہی رعایا میں سے ہو ۔۔آج جو ’’بادشاہت‘‘ کے مزے لے رہے ہویہ سب کچھ ان ہی لوگوں کی بدولت ہے ۔۔تھوڑا وقت لگا لیکن اب ’’رعایا‘‘ بیدار ہوچکی ہے ۔۔قابل اجمیر ی نے کہا تھا تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے ۔۔میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے ۔۔’’عظیم رہنماؤں‘‘ کو بس یہی کہنا ہے کہ میں مسکرایا تو کیا کرو گے ۔۔جبکہ بہادر شاہ ظفر کہہ گئے ہیں کہ ’’کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے ۔۔دو گززمین بھی نہ ملی کوئے یار میں ۔۔اپنی رعایا کو بے یار و مددگا ر چھوڑنے والے اصل بادشاہ کوہی جب کوئے یار میں دو گز زمین نہیں ملی تھی تو ان فلمی ’’مغل اعظموں‘‘ کا انجام ہم سب کو سمجھ لینا چاہیے ۔۔۔(عمیر علی انجم)

بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں