Sahafi or sahafat kahan hain by Muhammad Nawaz Tahir

صحافی اور صحافت کہاں ہیں۔۔۔؟؟

تحریر: محمد نوازطاہر۔۔

صحافی کہتے ہیں کہ اب عزت نہیں رہی ؟ بھئی یہ تو بتائیں کہ صحافی اور صحافت کہاں ہیں ؟ اب صحافی یا بے کار ہے یا ’بدکار ‘ ہے ۔ بے کار وہ ہے جسے کوئی نوکری نہیں دیتا اور ’بدکار‘ وہ ہے جو حقیقی اور ذہنی طور پر تو صحافی ہے لیکن مالکانہ پالیسی کے باعث صحافتی اصولوں کے برعکس محض ’کلرکی ‘ کررہا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کام اس کی مرضی کے خلاف صرف’ نوکری ‘ برقرار رکھنے ی خاطر کرنا پڑ رہا ہے ،وہ حقیقی کام نہیں بلکہ حقیقی کام یعنی صحافت سے بدکاری کے مترادف ہے اور چونکہ کر وہ خود رہا ہے اسلئے وہ اس کار کو ’ بدکار‘ قراردیتا ہے ۔

صحافت بنیادی طور پر کارِ خیر ہے لیکن اب رہنے نہیں دیا گیا ۔۔ ایسا کب سے ہوا ؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ اس کے مختلف جوابات ، عذر اور جواز بیان کیے جاتے ہیں ۔ بیان کرنے والے اپنی دلیل پر اڑ جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب جواز ، عذر اور جواب ناقابلِ قبول ہیں ۔ صحافت صرف صحافت ہے کسی کی لونڈی ، غلام یا پابند نہیں ، نہ نظریے کی ، نہ سوچ کی ، نہ مذہب کی یہ تو آزاد ہوا ہے جو کسی باؤنڈری کو تسلیم نہیں کرتی مگر اسے پابند کردیا گیا ہے ، سرحدوں میں ،مذہب میں ، نظریات میں ، گروہ میں ۔۔۔ یعنی مفاد کا غلاف لپیٹ دیا گیا ہے ۔ اس غلاف کو جو چاہیں نام دے دیں ۔۔ ہاں ! ایک بات اپنی جگہ درست مانی جاتی ہے کہ ایسی خبر ، خبر نہیں ہوتی جو معاشرے میں بگاڑ ، فساد اور انارکی پیدا کرنے کا سبب بنے ، ایسی خبرکو خبرنگار از خود ہی نظر انداز کردیتا ہے اسے احتیاط کہا جاتا ہے  ۔ سنسر شپ ریاست لگاتی ہے اور حکومت فائدہ اٹھاتی ہے ، ایک سنسر شپ میڈیا مالکان خود لگاتے ہیں جو ان کے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتی ہے ۔

عالمی سطح پر صحافت مختلف مفادات کے تحفظ کے باعث اپنی حیثیت آزادانہ سے پالیسی کی غلامانہ زنجیروں میں جکڑی جاچکی ہے ، اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ کسی ملک میں آزادانہ صحافت کی جارہی ہے تو یہ اپنی حیثیت میں بہت بڑا فراڈ اور جھوٹ ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ جو سیلف سنسر شپ ہمارے یہاں عائد ہے شائد ہی کسی ترقی پذیر ملک میں اس انداز سے ہو ، یعنی جو ادارہ یا پارٹی اشتہار دے گی ، وہ بھلے جس مرضی بدعنوانی ، بے قاعدگی اور جرم کی مرتکب ہو، اس کی خبر نہیں دینی ؟ جبکہ خبر قاری ، سامع اور ناظر کا حق ہے اور یہ حق چند ٹکوں کے عوض چھین لیا جاتا ہے ۔اسے بد قسمتی نہیں تو کیا کہا جا ئے کہ جب سے میڈیا اندسٹری کی شکل اختیار کررہا ہے یہاں صحافت کلی طور پر دکانداری بن کر رہ گئی  ۔ کوئی بہت دور کی بات نہیں جب اخبار میں اشتہار پر خبر کو ترجیح ملتی تھی ، اب اشتہار کو خبر پر فوقیت ہے ، پہلے خبر چھاپی جاتی تھی ، اب خبر چھپائی اور دبائی جاتی ہے۔

صحافی پہلے کسی کے ساتھ تصویر نہیں بنواتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی صحافی کسی سے مرعوب ہے یا کوئی خاص تعلق داری ہے ، یعنی وی آئی  پی کے ساتھ تصاویر بنوانا معیوب سمجھا جاتا تھا ، تصاویر بنوانے کے شوقین صحافیوں کو دکاندار ، شوباز اور طرح طر ح ’طعنے ‘ سننا پڑتے تھے بلکہ ایک طرح کا جعلی صحافی کہا جاتا تھا اب۔۔ایسے صحافیوں کی بہتات ہے جوبڑے فخرسے سیلفیاں لگاتے ہیں۔۔ یہ رواج کس نے ڈال دیا ۔۔۔؟ جی ہاں ! یہ رواج ’بے استادی ‘ نے ڈالا ہے اور اس کے دیگر محرکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اب میڈیا مالکان کیلئے ایڈیٹر، کنٹرولر نیوز ، رپورٹر اور اینکر کی یہی اہلیت ہے کہ غیرقانونی کام کتنی جلدی کرواسکتا ہے تاکہ اس کے ادارے کے زیلی اداروں اور مالک کے دوست احباب اور رشتے داروں کے غیر قانونی کام بروقت ہوتے رہیں اور یاستی اداروں میں پورا پروٹو کول بھی ملے ۔۔

اس موقع پر نوائے وقت  گروپ کے مالک مجید نظامی مرحوم یاد آگئے۔۔۔ جب کوئی نیا اخبار شروع ہوتا تو وہ کہا کرتے تھے کہ اب صحافت خطرے میں پڑ گئی  ۔۔ ہم لوگ ان کی بات پر طنزیہ ہنسا کرتے تھے کہ بابا جی کسی دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ، بس خود ہی بادشاہ بنے رہنا چاہتے ہیں ، ان کاموقف ہوتا تھا کہ کاروباری لوگ اپنے کاروبار کے غیرقا نونی معاملات کو تحفظ فراہم کرکے میڈیا کے شعبے میں سرما یہ کاری کررہے ہیں ، وصحافت کیا جانیں؟ حالانکہ خود گندے نالے پر چھت ڈال کر دفاتر بنا رکھے تھے ،،تب ہمیں یہ بات ذرا بھی نہیں بھاتی تھی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بابا جی ٹھیک ہی کہا کرتے تھے ۔

اردو صحافت میں اکبر علی بھٹی (مرحوم) نے روزنامہ ’’پاکستان ‘‘ شروع کیا تو کارکنوں کو اس زمانے میں دوسرے اخبارات سے زیادہ تنخواہیں اور سہولیات دیں ۔ اس اخبار نے بڑے بڑے اخبارات کی ’بینڈ ‘ بجا دی ، اس اخبار میں  محکمہ بارے میں خبر شائع کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس وجہ سے اس پر کڑی تنقید ہوتی تھی کہ یہ کونسا اخبار ہوا جس میں محکمہ صھت کے حوالے سے خبرنہیں چھاپی جاسکتی ، ؟ حالانکہ نوائے وقت میں بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بارے میں خواہش کے برعکس خبر شائع نہیں ہوتی تھی ۔

اب یہ عالم ہے کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد نے میڈیا ہاؤسز بنا لئے اور تعلیمی اداروں کے بارے میں خبر نہیں چھپتی، پراپرٹی ڈیلرز اس میں سرمایہ کاری کررہے ہیں ، الغرض جس نے شیلٹر لینا ہوتا ہے ، وہ میڈیا ہاؤس بنا لیتا ہے اور وہ جن بڑے نام والے صحافیوں سے خائف  ہوتا ہے انہیں منہ مانگے دام پر ’غلام ‘ بنا لیتا ہے ۔ ان سے خود بھی بچا رہتا ہے اور ان کی مدد سے دوسروں سے بھی بچا رہتا ہے یعنی جو خوفزدہ رہتا تھا اب خود خوفزدہ رکھتا ہے اور سب سے زیادہ ’قیمہ ‘ عام کارکن کا کرتا ہے۔ یہ لکھنامناسب تو نہیں لگتا لیکن حقیقت ہے کہ وہ میڈیا مالک میڈیا کی چمک سے مٹاثر ہونے والی بہت سی خواتین کو باقاعدہ ’ شکار ‘ کرتا ہے ، صرف وہیں ، اس جنسی استحصال میں اس میڈیا ہاؤس کے اہم افراد بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہ کہانیاں عام ہیں ۔ یہاں تک کہ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم اس معاملے کی انکوائری بھی کرچکی ہے جو میڈیا مالکان کے ایجنٹوں نے ’مس فیڈنگ ‘ سے ناکام بنوادی تھی ۔

اشاعتی و نشریاتی اداروں سے قانون کے مطابق اور بروقت مناسب اجرت نہ ملنے کیوجہ سے کچھ صحافی مجبوراً ، کچھ طمع ، لالچ ، کچھ سیاسی اور بااثر شخصیات کی قربت حاصل کرنے کیلئے عادتاً ذاتی ملازم (پی آر او) بن چکے ہیں ۔ جب صحافی پی آرو کے طور پر کام کرے گا تو صحافت کیا کرے گا ؟ کیا ایک رپورٹر اُس جماعت کے لیڈر سے آزادانہ بات کرسکے گا جس جماعت یا اس کی کسی اہم شخصیت کا پی آراو ہوگا ؟ کیا صحافی اس جماعت یا اس کی مخالف جماعت ، گروہ کے بارے میں آزادانہ ذہن استعمال کرسکے جس سے ماہانہ لیتا ہو یا اس سے اپنے ا س ’خاص ‘ تعلق کی بنیاد پر فائدے حاصل کرتا ہو۔۔۔؟ جب اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس نے صحافت کیا کرنی ہے ؟ صرف نوکری کرنی ہے اور کلرکی کرنی ہے اور وہ بھی ڈر ڈر کے۔ پھر اس کی عزت کون کرے گا ۔۔۔

کوئی شک نہیں کہ ابھی بھی باضمیر صحافی موجود ہیں لیکن وہ اپنے ضمیر کے مطابق صحافت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ماضی میں ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں کو صحافت سکھائی ، ان کی صحافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ، اب انکی جگہ ایسے مالکان لے چکے ہیں جو کارکنوں کو صحافت کے بجائے بزنس سکھاتے ہیں ، بزنس میں بلیک میلنگ بھی ہے اور زرد صحافت بھی ، کسی پر کیچڑ اچھالنا بھی اور حقائق کا مسخ کرنا بھی ۔۔بظاہر صورتحال ایسی نہیں کہ جلد کسی مثبت تبدیلی بہت زیادہ امید رکھی جاسکے لیکن مایوسی کی بات بھی نہیں ، تبدیلی بہر حال آئے گی اور مثبت صحافت ہی ہوگی بس اپنا کردار پہچاننا اور ضمیر جھنجھوڑنا ہے ۔۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں