sahafat ke khaar o gul

صحافت کے خار و گل

تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان۔۔

برصغیر ہندوستان میں صحافت کا آغاز 18ویں صدی میں ہوا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازمین نے کیا۔ پھر ہندوستانی شہریوں نے مقامی زبانوں میں اخبارات نکالے۔ایسٹ انڈیا کمپنی اخبارات کی اشاعت کے حق میں نہیں تھی ، کمپنی کی حکومت نے اخبارات کو کنٹرول کرنے کا آغاز کیا۔ 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانوی ہند حکومت نے کمپنی سے زیادہ سخت پالیسی اختیار کی ، المیہ یہ ہوا کہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی۔

ہماری ہر سول و فوجی حکومتوں نے ذرایع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کے ٹکراؤ اور طلبہ مزدور تنظیموں کی مزاحمتی تحریکوں کی دہائیاں تھیں۔ اشرف شاد کی نوجوانی کا آغاز اسی ماحول میں ہوا، وہ کالج کے دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن NSF میں شامل ہوئے۔یوں اشرف شاد ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور ترقی پسند نظریات کے ساتھ صحافت کے شعبے میں داخل ہوئے۔ان کی کتاب ’’صحافت کے خار و گل، اخباری دنیا میں گزرے ابتدائی دس سال کی یادداشتیں‘‘ دراصل ایک ایسے نوجوان کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے جس عملی زندگی میں بے روزگاری، اسیری اور جلاوطنی جیسے تمام مراحل سہے مگر جن نظریات کی نوجوانی میں پرستش کرتے رہے، ان پر آج بھی کاربند ہیں۔اشرف شاد نے کتاب کا انتساب قیدوبند کاٹنے، کوڑے کھانے اور بے روزگار رہنے والے ’’مجاہدین صحافت‘‘ کے نام کرکے آزادئ صحافت کے کاز سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔شاد صاحب نے پاکستان میں اخبارات کی صورتحال، صحافیوں کے ناگفتہ بہ معاشی حالات، صحافیوں میں انجمن سازی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تاریخی جدوجہد اور اہم صحافتی شخصیات کا ذکر کیا ہے۔ کتاب میں صحافت کے ادنیٰ طالب علم کے لیے کئی نئی معلومات ہیں۔ کئی شخصیتوں کے بارے میں ایسے انکشافات ہیں جو قارئین کی ان شخصیتوں کو جانتے ہیں،ان کی رائے تبدیل ہوسکتی ہے اور جو بذریعہ کتاب واقف ہوں گے وہ ان شخصیتوں کے عقیدت مند ہوجائیں گے ۔

کتاب کے ایک باب کا عنوان ’’60کی دہائی کی اردو صحافت‘‘ ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اردو صحافت 60کی دہائی تک باقاعدہ تنظیمی شکل اختیار کرگئی تھی۔ ایک واضح ڈھانچہ تھا۔ عہدے اور عہدیداروں کی حدود اور اصول متعین ہوگئے تھے۔ خبررسانی کے عمل کو مصدقہ بنانے کے لیے مغربی دنیا کی طرز پر گیٹ کیپنگ کا نظام تھا۔ خبروں کی سلیکشن کے لیے چین آف کمانڈ تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ ضروری نہ تھا کہ یہ نظام عملی طور پر اپنے ضوابط پر پورا اترتا ہو۔ پالیسی امور پر تصادم، نظریاتی بنیادوں پر خبروں کا چناؤ، ذاتی پسند اور ناپسند ، مالکان سے لڑائی اور اناؤں کی جنگ میں یہ چین آف کمانڈ ٹوٹتی او رجڑتی رہتی تھی، ضابطے پھر بھی موجود تھے۔

مصنف نے 60 کی دہائی کی اس صورتحال کا آج کی صحافت سے موازنہ صرف 9 الفاظ پر مشتمل جملہ میں کیا ہے اور تمام حقیقت مکمل طور پر بیان کردی ہے۔ ان کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ اگرچہ 60 کی دہائی میں ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب تھے مگر اردو اخبارات ادارہ بننے کی طرف سفر کررہے تھے مگر اب ترقی معکوس ہے ۔انھوں نے اخبار کے مختلف عہدوں کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ ان عہدوں کی حدود بھی بیان کی گئی ہیں جوہ دنیا کے تمام جدید اخبارات یہ عہدے اپنے اختیارات کے ساتھ موجود ہیں۔ صرف اسی مواد کو خبر کہا جاتا ہے جو معروضیت کے اصولوں پر پورا اترتی ہو مگر ہمارے ملک میں ایجنڈا جرنلزم خبر کی حرمت کو پامال کررہا ہے۔البتہ شاد نے اخبار کے ڈھانچے کو جس طرح بیان کیا ہے ذرایع ابلاغ کے طالب علم کے لیے ہی نہیں بلکہ اساتذہ اور نوجوان صحافیوں کے لیے بھی یہ معلوماتی سبق ہے۔اردو اخبارات کے معروف ایڈیٹرز کا تعارف کرایا گیا ہے وہ بھی خاصا معلوماتی ہے۔ اردو کے قدیم اخبارات کے بارے میں وہ معلومات بیان کی گئی ہیں جو عموماً دستیاب نہیں ہیں۔ اشرف شاد صاحب ان چند صحافیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپرینٹس ،سب ایڈیٹر ، پھر شفٹ انچارج، رپورٹر، چیف رپورٹر، نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ سرکولیشن اور اشتہارات کے شعبوں کی نگرانی کی۔یہ وہ دور تھا جب کتابت ہوتی تھی اور بٹر پیپر پر کاپی جوڑی جاتی تھی جس سے پرنٹنگ کے لیے پلیٹس بنتی تھیں۔ یوں اشرف شاد نے ہر شعبے میں مہارت حاصل کی۔ یہی وجہ تھی کہ اشرف شاد بہترین ترجمہ نگار کہلائے اور تحقیقی رپورٹنگ میں کمالات دکھائے۔ اشرف شاد کارل مارکس کے نظریہ سے متاثر ہوئے، یوں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم کا حصہ بنے۔ نوجوان ترقی پسند ادیبوں کو منظم کرنے میں لگ گئے۔

جب صحافت شروع کی تو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک ہوئے۔ پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا کے قریبی لوگوں میں شمار ہونے لگے۔پی ایف یو جے نے اس ملک میں آزادئ صحافت کی پاسداری کی اور صحافیوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ پی ایف یو جے کی جدوجہد کے نتیجے میں صحافیوں کی ملازمتوں کو منظم قانونی شکل دینے کے لیے قانون سازی ہوئی اور ویج بورڈ ایوارڈ قائم ہوا۔ پی ایف یو جے نے 1970 میں غیر صحافتی عملہ کو عبوری امداد کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں 10 روز کی مکمل ہڑتال شامل ہے۔اس ہڑتال کے خاتمے پر 100سے زائد صحافی بے روزگار ہوئے۔ اشرف شاد پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں روزنامہ مساوات لاہور کے کارکنوں کی بحالی کی تحریک میں جیل گئے ۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں اشرف شاد پھر گرفتار ہوئے۔ انھوں نے کئی ملازمتیں کیں۔ صحافیوں کے لیے اسلام آباد حکومت سے تعلقات بہتر بنانے کا ہمیشہ راستہ کھلا رہتا ہے مگر شاد صاحب نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا، پھر جلاوطنی اختیار کی۔ امریکا، کویت اور آسٹریلیا تک پہنچ گئے۔ آسٹریلیا کے ریڈیو اور ٹی وی میں کام کیا ، یوں تخلیق کا راستہ نہیں چھوڑا۔ کئی ناول اور کتابیں تخلیق کی ہیں۔ میرے رائے میں یہ کتاب میڈیا اسٹڈیز کے شعبوں کے نصابی کتب کی فہرست میں شامل ہونی چاہیے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں