mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

’’صحافت کا جنازہ ہے ۔۔ ‘‘

تحریر: عمیرعلی انجم

یہ ایک میدان کا منظر ہے ۔۔۔تماشائیوں کا ہجوم ہے اور اسی دوران سفید لباس میں ملبوس گیارہ کھلاڑی اس میدان میں اترتے ہیں ۔۔۔تالیاں بجتی ہیں اور کھیل شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔۔کرکٹ یہ کسی زمانے میں صرف ایک کھیل ہی تھا ۔۔۔یہ ’’جنٹلمینز‘‘ کا کھیل کہلا تا تھا ۔۔۔وقت بدلا تو اس کھیل کے طور طریقے بھی بدل گئے ۔۔۔۔لباس سفید سے رنگین ہوگیا اور بال سرخ سے سفید ۔۔۔۔اقدار پیچھے چلی گئیں اور پیسہ آگے آگیا ۔۔۔’’دھندا ہے پر گندا ہے یہ‘‘ کے مصداق کھلاڑیوں نے دھن کو اپنا ایمان بنالیا اور کھیل پیچھے رہ گیا ۔۔۔۔کرکٹ کی بات یہاں اس لیے کررہا ہوں کہ یہ میرا جنون رہا ہے ۔۔۔میرا دوسرا جنون صحافت ہے ۔۔۔ایک پیغمبری پیشہ جس کے ذریعہ میں لوگوں کے دکھ ان افراد تک پہنچا سکتا ہوں جو ان کے دکھ کا درماں بن سکتے ہیں ۔۔۔جس طرح کرکٹ میں پہلے اقدار کو اہمیت دی جاتی تھی اسی طرح شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ معاشرے کے ان افراد میں شامل ہوتے تھے کہ جن کی دیانت ،اصولوں کی پاسداری اور اپنے کام سے خلوص کی قسم کھائی جاسکتی تھی ۔۔۔۔آپ ذرا سوچیں فیض احمد فیض ایسا بڑا نام ایک اخبار کا مدیر ہوتا تھا ۔۔۔شورش کاشمیری ،مولانا ظفر علی خان ،حمید نظامی اورمیر خلیل الرحمن ایسے لوگوں نے اس شعبے کو ایسا اعتبار بخشا تھا کہ ان کا ہرلفظ صداقت پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔۔۔یہ اس وقت کی بات ہے جب صحافت صرف صحافت تھی اس کوکاروبار نہیں بنایا گیا تھا ۔شعبہ صحافت کی بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب اس کو باقاعدہ کاروبار بنالیا گیا ۔پروفیشنل صحافی پیچھے چلے گئے اور ایسے ’’پنچھیوں‘‘ نے اس شعبہ کو اپنانا شروع کردیا جن کو اخبارات ’’سونے کی کان‘‘ نظر آرہے تھے ۔انہوں نے کسی جوہری کی نگاہ سے اندازہ کرلیا تھا کہ ان پرانے لوگوں نے اس ’’سونے کی کان‘‘ کو اپنے اصولوں کی ’’بھینٹ‘‘ چڑھا رکھا ہے ۔۔۔۔اخبارات کے مالکان بھی اب میر خلیل الرحمن ،شورش کاشمیری اور حمیدنظامی نہیں تھے بلکہ تیل والے سے لے کر صابن بنانے والے اور سگریٹ بنانے والوں سے لے کر گٹکا بنانے والے بھی اخبارات کے مالک بن گئے ۔۔۔تو اب جس طرح کے مالک تھے ان کو اسی طرح کے لوگ بھی چاہیے تھے ۔۔۔۔نئے ’’پنچھیوں‘‘نے پر پھیلانے شروع کیے اور مالکان کی خوشنودی کے لیے ’’مکھن‘‘ کا استعمال شاید ان کی گھٹی میں پڑا تھا ۔۔ان لوگوں نے خوشامد کی وہ مثالیں قائم کیں جن کو آنے والی نسلیں کتابوں میں پڑھیں گی اور شاید نصاب میں ’’خوشامد‘‘کو بطور مضمون بھی ان ہی لوگوں کی وجہ سے شامل کرلیا جائے ۔۔ایسے حالات میں جو ’’حقیقی‘‘ صحافی تھا وہ حیران و پریشان تھا ۔۔خوشامدیوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔۔اب ان کو پروا نہیں تھی کہ ’’املا‘‘ کیا ہوتا ہے ۔۔ ایک جھوٹی خبر کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ یہ وہ لوگ تھے جو صحافت کی الف بے سے بھی نابلد تھے ۔۔جو رہی سہی کسر بچی تھی الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد پوری ہوگئی ۔۔اب اہمیت ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرز کی نہیں رہی تھی بلکہ ان صحافی نما لوگوں کی تھی جو مالکان کے کام نکلوانا جانتے تھے ۔۔اگر آپ اس شعبے سے وابستہ ہیں تو آپ ایک نگاہ اخبارات او رٹی وی چینلز پر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان اداروں کے ایڈیٹرز ،ڈائریکٹرنیوز اور بیورو چیف کون حضرات ہیں اور ان میں کتنی اہلیت ہے ۔۔نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ایسے ایڈیٹرز جن پر ہم فخر کرسکیں ان کو انگلیوں میں گنا جاسکتا تھا ۔۔۔بلکہ ہم اس کو غنیمت جان سکتے ہیں کہ ابھی ہمارے پاس محترم اطہر ہاشمی ،مقصود یوسفی اورطاہر نجمی ایسے لوگ موجود ہیں لیکن اس کے بعد مجھے تاریکی نظر آتی ہے ۔۔مقام افسوس ہے کہ صحافی نما لوگ حقیقی صحافیوں کو کھا گئے ۔۔اخبارات اور چینلز کو تسخیر کرنے کے بعد ان خوشامدیوں کا میدان صحافتی تنظیمیں تھیں ۔۔وہ سمجھتے تھے کہ جب تک یہ تنظیمیں ان کے ہاتھوں میں نہیں ہونگی ان کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔۔نثار عثمانی ،منہاج برنا اورعبدالحمد چھاپرا وہ لوگ تھے جو وقت کے حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے تھے جبکہ اب ہمارے عظیم رہنما وزراء کے ترجمان بنتے ہیں ۔۔۔پہلے صحافی رہنما حق بات کہنے کی پاداش میں کوڑے کھاتے تھے اور ان کو زندان میں ڈالا جاتا تھا اور اب ہمارے رہنماحکمرانوں کے بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ان حالات میں رئیس امرہوی یاد آرہے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘‘اور میں کہتا ہوں کہ ’’صحافت کا جنازہ ہے ۔۔ذرا دھوم سے نکلے ‘‘۔۔(عمیر علی انجم)۔۔

(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں