maslon ka masla

صد شکر کہ ہم آزاد ہیں۔۔۔

تحریر: خرم علی عمران

جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اس بات پرکہ ہم آزادی کی نعمت عظمی سے کس قدر زیادہ نواز دیئے گئے ہیں، کم ہے اور مزید مبارک با شد کہ ہم دنیا کے آزاد ترین ملک کے ٹائٹل سے آخرِ کار خود کوبہرہ مند کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ ارے بھئی! وہ آزادی نہیں جو غلامی سے نجات کی جد و جہد کے ثمر کے طور پر حاصل ہوتی ہے ،وہ تو الحمداللہ ہم اپنے تحریکِ پاکستان کے اکابرین کے عزم و اخلاص اور حضرت قائد اعظم علیہ الرحمہ کی بے مثال قیادت سے 71 برس پہلے حاصل کر ہی چکے تھے، مگر ان حضرات کے چلےجانے کے بعد ہم نےاپنی دن رات کی محنت اور عزمِ مصمم اور عمل پیہم کو اپنا کے ساتھ کی گئی مسلسل ذاتی کاوشوں سے جو آزادیاں حاصل کی ہیں انکی وجہ سے ہم بلا جھجک اپنے لئےدنیا کا آزاد ترین ملک ہونے کے ٹائٹل کا دعوی کر سکتے ہیں، دنیا میں کس ناہنجار کی مجال ہےجو ہمارے اس دعوے کو جھٹلا سکےاسلئے کہ ہمیں اس پاک سرزمین میں ایسی ایسی آزادیاں میسر ہیں جنکا تصور کرنا کسی اور ملک میں ذرامشکل ہی ہوسکتا ہےاور معدودے چند ہی ممالک ہوں گے دنیا میں جو ہم سے اس” خاص معاملے “میں آنکھیں ملانے کی جرات کرنے کا سوچ سکیں سوائے انڈیا کے۔ آئیے اس تھیسس پرذرا ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کون کون سی ایسی آزادیاں ہمیں کچھ زیادہ ہی آزادانہ طور پر حاصل ہوگئ ہیں جن سے مملکتِ خداداد کا ہر شہری اپنی اپنی سطح پر نہ صرف خوب ہی مستفید ہو رہا ہے بلکہ ہوئے چلا جارہا ہے۔

اس آزاد نگری جس میں ہم سب آزاد کہلاتے اور سمجھے جاتے ہیں ، ہمیں متعدد آزادیاں تھوک کے حساب سے حاصل ہیں مثلا، کہیں بھی راہ چلتے پان کی پیک تھوک دینے، سگریٹ کا ٹوٹا پھینکنے یا نسوار کا گولا اور منہ کا اگال دے مارنے کی آزادی، کہیں بھی اور کبھی بھی انگلش محاورے کے مطابق پانی بنانا شروع کردینے کی آزادی خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں پیشاب کرنا منع ہے لکھا ہو! جہاں چاہیں کوڑا ڈال دیں سوائے کوڑے دان کے،کون پوچھ سکتا ہے،جو پوچھنے کے ذمہ داران ہوتے ہیں ریاستی نظم و نسق میں وہ خود اپنا کوڑا ایسے ہی کہیں ٹھکانے لگا رہے ہوتے ہیں۔

اور دیکھیں،کہ کہیں بھی اپنی سواری چاہے وہ سائیکل ہو،موٹر سائیکل ہو، کار ہو یا کوئی اور وہیکل غلط پارک کردینے کی آزادی، اس پارکنگ کے نتیجے میں کتنے لوگ کس کس طرح سے پریشان ہوتے ہیں اور ہفوات وصلواتوں کے ہدیئے پیش کرتے نظر اتے ہیں یہ ہر شخص کم و بیش اوقات میں دیکھتا اور سنتا ہی رہتا ہے، اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کی غلط پارکنگ سے پریشان ہونے والا خود بھی اکثر اس آزادی کو انجوائے اور استعمال کرتا نظر آتا ہے۔اپنی نجی تقریبات کے لئے بلا تکلف گلی محلے میں تنبو لگا کر راستے بند کردینے کی آزادی وغیرہ۔۔

اس آزاد نگری کی مزید آزادیوں میں عطائیت(جعلی حکیم،ڈاکٹر، عامل کامل وغیرہ) کی تشہیرکی آزادی کا توجواب ہی نہیں، کہیں بھی،کبھی بھی کوئی بھی اشتہار، پوسٹر ، بینر لگا دیجئے اور اپنی اعلی صلاحیتوں جنکے تحت آپ دنیا کا ہر مسئلہ حل کرنے پر قادر و ماہر نظر آتے ہوں، کا کھل کر اشتہار دیجئے، کوئی نہیں پوچھے گا۔ ان در و دیوار گیر اشتہارات کو دیکھنے سے ایک سکون سا یہ بھی ملتا ہے کہ ہر قسم کے دنیاوی، روحانی، شیطانی، نفسیاتی اور معاشی و معاشرتی مسائل کے ماہرین میں ہم صد شکر کہ نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ انکی برآمد پر بھی قادر ہیں۔ ایک اور اہم آزادی ملاوٹ کی آزادی ہے، ہم ہاکی کے ساتھ ساتھ ملاوٹ کو بھی شاید قومی کھیل سمجھتے ہیں اوراسی لئے کھل کر کھیلتے نظر آتے ہیں، ہر چیز میں ملاوٹ کردینے میں اور اس شعبہ ء ملاوٹ میں نت نئی تراکیب ایجاد کرنے میں ہم نے تو صاحب!بڑے بڑے موجدوں کی ارواح کو بھی شرمندہ کردیا ہے ، دودھ میں ملاوٹ، گوشت میں ملاوٹ، آٹے میں ملاوٹ اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ تو معمولی سی باتیں ہیں جناب، ہم نے تو اخلاق، کردار اور افکار کی ملاوٹ میں وہ بھی کمال حاصل کرلیا ہے کہ پی ایچ ڈی کی سطح تک کے مقالے بھی نقل شدہ نکلتے ہیں چھوٹی موٹی ڈگریوں کی بات تو بات ہی جانیں دیں،

آزادیوں کے جمعہ بازار میں ہمارے چور ڈاکو لٹیرے حضرات بھی لوٹ مار کرنے کی آزادی کو خوب انجوائے کرتے نظر آتے ہیں، کہیں بھی کسی کو بھی اپنےکمالِ فن سےزبردستی فیضیاب کر دینے کی جیسی آزادی انہیں یہاں نصیب ہے شاید ہی کہیں ہوپائے! کون ہے جو ان عزیزانِ ہنرمند کی شفقتوں سے کبھی نہ کبھی بہرہ مند نہیں ہوا، کیا امیر کیا غریب، کیا چھوٹا کیا بڑا،کیا جوان کیا بوڑھا، سب ہی ان لٹیروں کی شقفتوں کو یاد کرکے آٹھ آٹھ آنسوں بہاتے اکثر و بیشتر نظر آتے ہیں ،واضح رہے کہ ان چوروں ،ڈاکوؤں اور لٹیروں سے میری مراد گلی، محلے اور بازاروں اور بینکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والےچھوٹے موٹےفنکار ہیں، بڑے فنکاروں پر بات کرنے کی تواپنی اوقات کہاں۔

آزادی پر یہ بھی یاد آیا کہ وطنِ عزیز میں جیسی آزادیء تلبیس دیکھی وہ کہیں دیکھی سنی نہ پڑھی، تلبیس کا مطلب ہوتا ہے،جھوٹ و سچ اور حق و باطل کو ملاکر گڈمڈ کرکے پیش کرنا، ہمارے طبقہء سیاست کے احباب تو بطورِ خاص اس فن تلبیس میں درجہء کمال رکھتے ہیں اور انکے فیضِ بلا خیز و دل آویزسے یہ تلبیسی اثرات قریبا ہر طبقہء زندگی میں سرائیت کر چکے ہیں۔ اس آزادیء تلبیس کے ذریعے سے سب ہی خوشی خوشی اپنا اپنا سچ بولتے کی مسرت سے سرشار نظر آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر” تلبیسِ ابلیس” جیسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف محترم علامہ ابنِ جوزی اگر آج موجود ہوتے تو میرے خیال باقی سارے کام چھوڑ کر تہتر کے ائین کے تناظر میں وطن عزیز میں” تلبیسیت” کی تیز رفتار ترقی کو احاطہء تحریر میں لانے کے لئے اس لاجواب ہنر و فن پر اپنی کتاب کی شاید پندرھویں جلد تحریر کررہے ہوتے ہوتے۔ یہاں اتنی خوبی سے جھوٹ کو سچ میں ملا کر پیش کیا جاتا ہے کہ سب سچ ہی لگتا ہے اوربدیہی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جھوٹ سے آزاد اور سچےمعاشرے کی تشکیل میں بلاآخرکامیاب و کامران ہو چکے ہیں۔

آزادی کا فسانہ ابھی ختم نہیں ہوا دوستوں، اور بھی بے شمار پہلو ہیں جن پرسیرحاصل گفتگو کی جاسکتی ہے ، لیکن طوالت کے خوف سے مختصرابس چند چیزوں کی طرف اشارہ کردیتا ہوں کہ ماشااللہ سب ہی سمجھدار ہیں، تو صاحبوں، آزاد وطن کی چند مزید آزادیاں ملاحظہ فرمائیں،بول کہ لب آزاد ہیں پر عمل کرتے ہوئےمادرِ وطن کو مہذب اور غیر مہذب دونوں طرح سے عوامی طور پرکھلے عام برا بھلا کہنے حتی کہ گالی تک دے دینے کی آزادی،” ہر طرح کی بدعنوانی ہر جگہ،ہر شعبے،ہر محکمے میں ہر طریقے سےکرلینے کی آزادی، ” سرکاری و غیر سرکاری قرضے لے بغیر ڈکار لئے کر ہڑپ کرجانے کی آزادی،نیم سرکاری اور نجی ریکارڈز کو مزے سے جب موڈ ہو یا پکڑائی کا خطرہ ہو، جلادینے کی آزادی،۔۔معززعدالتوں میں جھوٹی اور پیشہ ورگواہیاں دھڑلےسے دینے کی آزادی، جعلی دواؤں کی فروخت اور آزادانہ پھیلاؤ کی آزادی، کہیں بھی بنا معتبر سند کے دواخانہ یا کلینک کھولنے کی آزادی،کسی بھی طرح کےنعرے کہیں بھی لگانے کی آزادی،سڑکوں رکشہ ٹیکسی ویگنوں میں اور حد ہے کہ فٹ پاتھ کے کنارے بھی بسہولت بچے پیدا کردینے کی آزادی، اپنے مشہورِ زمانہ سرکاری دفتروں میں کام نہ کرنے یا برائے نام کرنے کی آزادی، ہر طرح کے فتوے دے دینے اور لگادینے کی آزادی، یہ ازادی وہ آزادی اور بس آزادی ہی آزادی۔ مذکورہ بالا موضوعات میں سے ہر ایک پر مستقل کالم یا بلاگ لکھا جاسکتا ہے، بھائی ! قدر کرو اس پیاری آزادی کی کہیں خاکم بدہن چھین ہی لی نہ جائےاورصد ہزارشکر کہ یوں ہم آزاد ٹھرے۔۔(خرم علی عمران )۔۔

(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں،علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں