aik tabah saath | Imran Junior

رمضان ’’مبارک‘‘ کیوں؟؟

تحریر: علی عمران جونیئر

دوستو، کورونا وائرس تو لگتا ہے رمضان المبارک میں مزید پھرتیاں دکھائے گا۔۔شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔۔ پڑوسی ملک کی تو حالت ہی خراب کرکے رکھ دی ہے کورونا نے۔۔ایک طرف پڑوسی ملک پہ برا وقت چل رہا ہے دوسری طرف ہمارے یہاں افطار اور سحر کے علاوہ سارا دن روزے دار بار بار گھڑیوں کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔ہم بچپن میں اکثر اپنے ٹیچرز سے یہی سوال کیا کرتے تھے کہ ۔۔رمضان کو ’’مبارک‘‘ کیوں کہتے ہیں۔۔ جس پر ایک ہی جواب ملتا تھا کہ اس مہینے میں بے پناہ برکتیں، رحمتیں، نعمتیں ملتی ہیں، اسی لیے یہ مہینہ سب کے لیے ’’مبارک ‘‘ہوتا ہے۔۔لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے ہوگئے، ہم پہ رمضان کو مبارک کہنے کی بہت سی تشریحات سامنے آنے لگیں۔۔آج کل کے دور میں رمضان غریبوں کے لیے ’’مبارک‘‘ نہیں رہا۔۔یہ ہم نہیں ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ رمضان کا جوش و خروش تو صرف بچپن میں ہوا کرتا تھا اب اس کی جگہ بناوٹ نے لے لی ہے شاید۔۔لیکن اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔۔ہم اپنے لفظوں کو سنوارتے ہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور پھر، رمضان آگئے۔۔پھر سب مل جل کر رمضان’’گزارنے‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔۔کوئی یہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں سوچتا کہ جو رمضان گزرگئے، کیا ہم ان کا حق اس طرح ادا کرپائے جیسا کہ اس کا حق تھا۔۔ رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس میں ہمارے ہر عمل کی ذمے داری ہم پر خود ہی عائد ہوتی ہے،کیونکہ شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔۔ورنہ گیارہ ماہ تو ہم شیطان پر لعن طعن کرکے کام چلالیتے ہیں۔۔اور ایسے ایسے کام کرجاتے ہیں کہ ایک بارتو شیطان بھی کہنے پر مجبورہوگیا کہ، یار جو کام تم نے کیا ہے وہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔رمضان کا مہینہ تھا، ایک سْنی مولوی مرزاغالب سے ملنے آئے، عصر کا وقت تھا۔ مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے کہا۔ ’’کیا جناب کا روزہ نہیں ہے؟‘‘۔۔مرزا نے کہا۔۔۔سْنی مسلمان ہوں، چار گھڑی دن رہے تو روزہ کھول دیتا ہوں۔۔مرزا غالب نے ایک بار رمضان المبارک میں اپنے ایک دوست کو روزوں کے حوالے سے خط میں لکھا تھا۔۔دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا، یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں، میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تْو روزہ نہیں رکھتا، یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور چیز ہے۔۔ہمیں اپنے ایک دوست پر شک ہوا کہ اس کا روزہ نہیں، ہم نے اسے کہا، قسم کھاؤ، تمہارا روزہ ہے۔ ۔۔دوست ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔ واہ، قسم کھا کر میں اپنا روزہ توڑ لوں۔۔ایک مولوی صاحب کسی گاؤں کی مسجد میں درس دے رہے تھے۔۔کہنے لگا، روزوں کے بدلے جنت میں آپ کو اپنی ہی بیوی ملے گی۔ یہ سن کر پاس بیٹھے دیہاتی نے اپنے ساتھ والے کو کہنی ماری اور سرگوشی کی۔۔ پتر ہور رکھ روزے۔۔ ایک دن ہم بیٹھے سوچ رہے تھے کہ افطار کا وقت ہوتا ہے، قریبی مسجد سے سائرن کی یا اذان کی آواز آجاتی ہے۔جہاں مسجد کافی دور ہے وہاں لوگ ٹی وی یا ریڈیو سے اپنے مقامی وقت کے مطابق روزہ افطار کرلیتے ہیں۔۔لیکن جو فضائی مسافر ہوتے ہیں ،زمین سے ہزاروں فٹ اوپر ہوتے ہیں، وہ افطار کے وقت کا تعین کیسے کریں؟؟ نیوز سائٹ ایمریٹس 247 نے یہی سوال دبئی کے گرینڈ مفتی ڈاکٹر علی احمد مشائل کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ افطار کے لیے اس جگہ کے وقت پر انحصار کیا جائے گا جہاں آپ جسمانی طور پر موجود ہیں، یعنی دوران پرواز افطار کے لیے آپ اس جگہ کے وقت کے مطابق افطار نہیں کریں گے جہاں آپ نے روزہ رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہیں تو فضائی عملے سے معلوم کریں کہ سورج غروب ہو چکا یا نہیں، اور غروب آفتاب کا اطمینان کر لینے کے بعد ہی افطار کریں۔ اگر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ سورج غروب ہوچکا ہے تو آپ روزہ افطار کرسکتے ہیں۔اگر آپ کا ہوائی سفر اس نوعیت کا ہے کہ آپ مختلف ٹائم زونز میں 24 گھنٹوں کے دوران بھی سورج کو غروب ہوتا نہیں دیکھ سکتے تو اس صورت میں روزے کے اوسط دورانیے کا حساب لگائیں اور اس کے مطابق افطار کریں، یا مکہ کے وقت افطار ، اور یا اپنی قریب ترین جگہ پر غروب آفتاب کے وقت کے مطابق افطارکریں۔ عموماً افراد سحری کی وجہ سے زیادہ فکرمند ہوتے ہیں کہ ہم کچھ ایسا کھا لیں کہ نہ دن بھر بھوک لگے اور نہ پیاس لگے۔وہ افراد جو سحری اور افطاری میں کھانوں کی وجہ سے فکرمند رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی سحری میں چند چھوٹی چیزیں شامل کرلیں تو ان افراد کو کئی طبی فوائد حاصل ہونگے، جیسے مثال کے طور پر، 1 کپ دودھ میں 1 کپ پانی ملاکر پینے سے پورے دن توانائی حاصل ہوگی اور پیاس نہیں لگے گی۔ دہی کی لسی پینے سے بھی کمزوری اور بدہضمی سے بچا جاسکتا ہے۔ سحری میں پانچ کھجوریں کھانے سے پورا دن جسم میں گلوکوز کی کمی واقع نہیں ہوتی۔تازہ پھلوں اور جوس کا استعمال ضرور کریں۔ اپنی سحری میں جو کا دلیہ ، دودھ اور شہد کے ساتھ ضرور تناول فرمائیں تاکہ فائبر حاصل ہو، اور اس سے آنتوں میں خشکی بھی نہیں ہوگی۔روٹی کے ساتھ دال یاکم روغن والا سالن کھانے کو ترجیح دیں۔ صحت مند روزے کے لیے بھرپور سحری ضروری ہے۔جتنا ممکن ہو پراٹھے ، روغنی اور تیز مرچ مصالحے والے کھانوں سے پرہیز کریں۔۔لیکن ہمارے یہاں معاملہ الٹ ہی نظر آتا ہے۔۔ سحری میں کچھ لوگ اونٹ کی طرح پانی اور خوراک اپنے پیٹ میں ذخیرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانوں کو ’’کوہان‘‘ نہیں لگا ہوتا۔۔ سحری میں ’’سیری‘‘ سے پرہیز کرنا چاہیئے۔۔ سیر ہوکر جتنا کھائیں گے ،اگلے دن طبیعت بے چین پائیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ۔۔کم خوردن، کم گفتن، کم خفتن میں ہی بھلائی ہے۔۔یعنی کم کھانے، کم بولنے اور کم سونے میں بے شمار فوائد موجود ہیں بس ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں