cell phone | Imran Junior

راز،راز رکھیں!

علی عمران جونیئر

دوستو،سائفر کیس میں خان صاحب کو سزاسنادی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک سرگرم کارکن اس فیصلے پر فرمانے لگے کہ پہلی بار پتہ لگا کہ امریکا کا دھمکی دینا ایک قومی راز ہے۔ اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں سزا بھی ملتی ہے۔ایک پٹواری کو اس سزا پر کچھ اور کہنے کا موقع نہیں ملا تو کہنے لگا۔سائفر پر دس سال اور توشہ خانہ کی چوری پر چودہ سال قید کی سزا، یعنی اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قومی راز سے زیادہ گھڑی اہمیت رکھتی ہے۔ایک صاحب کی بڑی بیٹی بتا رہی تھیں کہ دو دن پہلے ابو نے معلوم نہیں کس موڈ میں آ کر امی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں ایک معاشقہ بھی کیا تھا تاہم وہ بری طرح ناکام رہا۔ مگر انہوں نے اس کسک کو دور کرنے کے لئے اپنی بڑی بیٹی یعنی کہ میرا نام اپنی محبوبہ کے نام پر رکھا تھا۔ بچی بتا رہی تھی کہ بات مذاق میں تھی اور مذاق مذاق میں ہی آئی گئی ہو گئی تھی، ویسے تو گھر ویسا ہی ہے اور کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی ماسوائے اس کے کہ۔۔اب جب بھی امی مجھے بلاتی ہیں تو آواز دیتے ہوئے یوں کہتی ہیں۔۔ایدھر آ نی کُتیئے۔۔اس واقعہ کے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ۔۔ کچھ راز راز ہی رہنے چاہیئں۔

مشہور کہاوت ہے کہ عورتیں راز نہیں رکھتیں۔ ہم نے جب ایک خاتون پروفیسر سے اس حوالے سے دریافت کیا کہ کیا واقعی ایسا ہے یا پھر یہ خواتین پر الزام ہے؟؟ انہوں نے ایک بار تو ہمیں بغور ملاحظہ کیا، پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد مسکرا کر بولیں۔ہم تو رکھتی ہیں، پر جس کو بھی بتاتی ہیں وہ نہیں رکھتیں۔بھارت کے ایک معروف ادیب نے اپنی زندگی کا ایک راز جو انہیں اکثر پریشان کرتا تھا کسی جگہ بیان کرتے ہوئے یوں لکھا کہ بچپن کے دنوں میں، میں اپنے والد کے سگریٹ چرایا کرتا تھا، میرے والد کو سگریٹ کی ڈبیہ میں جب بھی کمی محسوس ہوتی، وہ میرے بڑے بھائی پر شک کرتے، اسے مارتے مگر مجھے کبھی بھی نہیں پوچھتے تھے۔ اگرچہ میرا بڑا بھائی میرے والد کے سامنے ہر مقدس قسم کھاتا تھا، لیکن میرے والد نے اس کی قسموں پر کبھی بھی اعتبار نہیں کیا تھا۔ایک دفعہ میرے والد نے سگریٹ چور کو پکڑنے کے لیے جھوٹ موٹ سونے کا ڈرامہ کیا، سگریٹ کی ڈبیہ سرہانے رکھ کر آنکھیں موند کر گھات لگا لی تاکہ میرا بڑا بھائی سگریٹ چرانے کے لیے آئے تو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پھندے میں میں پھنس گیا، جیسے ہی میں نے سگریٹ کی ڈبیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور آنکھیں کھولتے ہوئے کہا، چور آج خود نہیں آیا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ تمہارا بڑا بھائی تھا جس نے تمہیں اس کے لیے سگریٹ چرانے کے لیے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر سے جاکر میرے بڑے بھائی کو پیٹ ڈالا۔۔

انتخابی مہموں کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما ہر تقریر میں قوم کو بجلی فری دینے کایقین دلارہے ہیں۔ گلی میں قناتیں لگی ہوئی تھی،اس نے دیکھا کرسیوں پر بیٹھے کچھ لوگ سر پر ٹوپیاں پہنے بیٹھے تھے۔وہ ان کے پاس رکا اور ان سے پوچھا۔کیا ہوا؟کسی نے بتایا کہ۔۔او جی بشیرا فوت ہوگیا۔۔۔پھر پوچھا کہ۔۔کیا ہوا تھا؟جواب ملا۔۔بس جی اس کے ساتھ بجلی”فری” ہو گئی تھی۔اس الیکشن میں ووٹنگ کیلئے برادری سسٹم پر زور ہے۔۔ اس پر کسی سیانے نے کیا خوب کہا تھا کہ۔۔ جنگل ختم ہورہا تھا لیکن درختوں نے ووٹ کلہاڑے کو ہی دیا،کیوں کہ ”دستہ” ان کی برادری کا تھا۔۔آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس دن عام تعطیل کا اعلان بھی کیاگیا ہے۔ باباجی کہتے ہیں کہ ۔۔آپ اس دن کو قومی تہوار کی طرح منائیں۔۔صبح نماز ادا کریں پاکستان اور قوم کی ترقی کے لیے دعا کریں ، گھر آ کر تمام اہل خانہ بشمول بچوں کے پولنگ ا سٹیشن کی راہ لیں ۔۔راستے میں بچوں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے،قومی اور ملی ترانوں کا ورد کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشن پہنچیں ۔۔کوشش کریں گھر میں کوئی رہ نہ جائے۔۔پولنگ اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو کر نون لیگ کے پولنگ کیمپ سے جا کر ووٹ کی پرچی لیں ۔۔بریانی یا قیمے والے نان سے ناشتہ کریں ۔پھر پیپلز پارٹی کے کیمپ میں جائیں ۔۔وہاں سے کوک یا پیپسی کی بوتل پیئیں ۔۔وہاں سے جمعیت العلمائے اسلام کے کیمپ سے حلوے کی پلیٹ کھاتے ہوئے آگے بڑھیں ،پی ٹی آئی کے کیمپ سے شوراما برگر کھائیں آگے بڑھیں ٹی ایل پی کے کیمپ سے چنے والے چاولوں کا تبرک چیک کریں۔آگے بڑھیں۔۔اب اگر آپ پان ، گٹکے ، ماوے یا مین پوری کے عادی ہیں تو ایم کیو ایم کے پولنگ کیمپ کا رخ کریں، آپ کے مسوڑھوں میں ہونے والی خارش کے لئے آپ کی مطلوبہ خوراک یہاں سے ضرور مل جائے گی۔۔پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر” شیرجوان”کھڑے ہونگے ۔۔وہاں ان کے ایس پی کے حق میں معہ فیملی ایک زوردار نعرہ لگائیں ۔۔بچوں کو دروازے پہ کھڑا کر کے اندر جا کر جس امیدوار کو دل مانے اسے ووٹ دیں ۔۔کیونکہ اس دفعہ ووٹ آپ نے اپنے آپ کو، اپنے ضمیر کو دینا ہے ۔۔وہاں سے باہر آکے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے حق میں ایک نعرہ لگائیں کہ آج آپ نے 76 سالوں میں پہلی بار اپنے آپ کو ووٹ دیا ہے ۔۔آپ نے اس دفعہ 8 فروری کو ضرور ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہو ۔۔آپ نے ووٹ ضرور دینا ہے ۔

لیجنڈ مزاح نگارمشتاق احمد یوسفی بھی کسی جگہ اپنی شادی کے حوالے سے ایک ازدواجی راز فاش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔ جب انکی شادی ہوئی اور رخصتی کا وقت آیا تو دلہن کی ماں بہنیں رونے لگیں مگر ان کی بیگم خاموش تھیں۔ انہوں نے اپنی بیگم سے کہا کہ آپ بھی رو لیں کیونکہ دلہن رخصتی کے وقت گھروالوں سے جدا ہوتی ہیں تو روتی ہیں، مگر وہ نہ روئیں، پھر گھر کا دروازہ آیا ہم نے کہا اب تو آپ دروازے پر آگئیں ہیں اب رو لیں مگر وہ پھر بھی نہ روئیں، پھر گاڑی کے قریب آکر ہم نے پھر کہا مگر وہ نہ روئیں اور گاڑی میں بیٹھ گیں اور پھر جب ہم اپنا سہرا اٹھاکر گاڑی میں بیٹھے اور انہوں نے ہمیں دیکھا تو وہ پھر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں