پاکستان میں انقلاب کیوں نہیں آتے؟

تحریر:میاں زاہد اسلام انجم
پاکستان میں انقلاب کے خواب دہائیوں سے دیکھے جا رہے ہیں، لیکن یہ خواب کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے۔ مختلف دینی اور سیاسی جماعتوں نے عوام کو بڑے وعدے اور نعرے دیے، مگر نتائج ہمیشہ عوام کی مایوسی پر ہی منتج ہوئے۔ اس تحریر میں ان ناکامیوں، اسباب، اور پاکستان کے موجودہ حالات کا جامع تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ انقلاب کیوں نہیں آیا اور آئندہ کے لیے کیا سبق لیا جا سکتا ہے۔
مذہبی جماعتوں کی قیادت اور کردار:پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور گدی نشینوں نے مذہب کے نام پر عوام کو جذباتی طور پر متحرک کیا، لیکن ان کا کردار زیادہ تر وقتی اور ذاتی مفادات پر مبنی رہا۔
1. مذہب کے نام پر گمراہی اور جذباتی استحصال:کئی گدی نشینوں اور پیرانِ عظام نے عوام کو مذہب کے نام پر گمراہ کیا۔عوام کو جذباتی کرنے کے باوجود کوئی عملی حل یا پائیدار حکمت عملی پیش نہ کی گئی۔ان کی قیادت زیادہ تر ذاتی دولت، شہرت، اور مراعات کے حصول پر مرکوز رہی۔
2. عوام کی مایوسی:عوام کو مذہبی قیادت سے جو امیدیں تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔مذہبی جماعتوں نے انقلاب کے بجائے اپنے ذاتی، خاندانی، اور گروہی مفادات کو ترجیح دی۔
سیاسی قیادت اور انقلاب کا فقدان:پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی انقلاب کے دعوے تو بہت کیے، مگر عملی طور پر عوام کے لیے کچھ نہ کیا۔
1. خاندانی معاشی انقلاب:سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے خاندانوں کے لیے معاشی انقلاب برپا کر لیا۔یہ قیادتیں دنیا کے مختلف ممالک میں جائیدادیں، کاروبار، اور بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے خاندانوں کو مضبوط کرتی رہیں۔عوام کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، جب کہ ان کے مسائل وہیں کے وہیں رہے۔
2. غریب عوام کا استحصال:غریب عوام کو انقلاب کے نام پر جذباتی کر کے اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔غریب عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ وہ دن بہ دن مزید غربت، مہنگائی، اور بے روزگاری کا شکار ہوتے گئے۔عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاست دانوں نے اپنی طاقت کو مضبوط کرنے پر توجہ دی۔
سماجی، تعلیمی، اور معاشی حقائق
1. تعلیمی مسائل:پاکستان میں 22.8 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔58 فیصد کی شرح خواندگی، جو عالمی معیار سے بہت کم ہے۔تعلیمی اداروں کا کمزور نظام، جو نہ صرف معیار میں پست ہے بلکہ عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہے۔
2. معاشی دباؤ:47 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح نے نوجوانوں کو مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔مہنگائی نے عام عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
3. صحت کے مسائل:صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔بچوں کی شرح اموات 88 فی 1000 ہے، جو خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ذہنی صحت کے مسائل، جن میں ڈپریشن اور اضطراب شامل ہیں، عوام میں مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں
1. قوم کا غیر انقلابی مزاج:پاکستانی عوام جذباتی ہیں، لیکن طویل مدتی جدوجہد اور قربانی دینے کا حوصلہ کمزور ہے۔وقتی مسائل پر ردعمل تو دیا جاتا ہے، لیکن پائیدار تبدیلی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔
2. اشرافیہ کا غلبہ:اشرافیہ نے ہمیشہ عوام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔طاقتور طبقہ کسی بھی انقلابی کوشش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہا۔
3. مذہبی و سیاسی قیادت کی ناکامی:قیادت نے انقلاب کے بجائے ذاتی اور خاندانی مفادات کو ترجیح دی۔عوام کو صرف وعدوں اور نعروں پر بہلایا گیا، عملی اقدامات نہ کیے گئے۔
نتیجہ:پاکستان میں انقلاب کی ناکامی کی بنیادی وجوہات عوامی شعور کی کمی، قیادت کی ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیز، اور نظام کی مضبوطی ہیں۔ مذہبی و سیاسی قیادت نے اپنی ذات اور خاندان کو مضبوط کیا، جب کہ عوام کی حالت بدستور خراب رہی۔ اگر ہمیں واقعی انقلاب لانا ہے تو تعلیم، شعور، اور اتحاد کے ذریعے عوام کو تیار کرنا ہوگا۔ انقلاب صرف نعروں اور دھرنوں سے نہیں آتا؛ اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔(میاں زاہد اسلام انجم)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں