khusra qanoon | Imran Junior

منی بدنام کہانیاں۔۔۔

منی بدنام کہانیاں۔۔۔

Ali Imran Junior

30-Sep-2018

دوستو، آج اتوار ہے، پھر چھٹی کا ایسا دن جسے بھرپور انجوائے نہ کیا تو پھر کیا ’’جیا‘‘۔۔ ہمیں یاد ہے بچپن میں دیگر بچوں کی طرح ہمیں بھی کہانیوں کا بہت شوق تھا، چونکہ ہماری ماں کو کہانیاں نہیں آتی تھیں اس لئے ہم نے کہانیاں پڑھنا شروع کردیں، ڈراموں، فلموں میں دکھایاجاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچے رات کو سوتے وقت کہانیاں ضرور سنتے ہیں اور خاندان کی کوئی بزرگ خاتون انہیں یہ کہانیاں سناتی ہیں ،جو بچوں کے لئے نیند کی گولی کا کام کرتی ہیں۔۔بچپن میں جب ہمیں کہانیاں پڑھنے کی عادت پڑھی تو اسٹارٹ ہم نے ننھی منی کہانیوں سے کیا، تاکہ اسے ’’ہضم ‘‘ کرنے میں آسانی ہوسکے، اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا، تو آج ہم جدید دور اور ماڈرن زمانے کے حوالے سے آپ کو چند’’ منی بدنام ‘‘ کہانیاں سناتے ہیں۔۔ اسے صرف انجوائے کی نیت سے ہی پڑھیئے گا، سنجیدہ لیں گے تو اپنا بلڈپریشر ہائی کرکے اپنی چھٹی خود ہی خراب کریں گے۔۔
کلاس میں سمندری مخلوق پر گفتگو کرتے ہوئے میڈم نے بتایا کہ وھیل مچھلی 30 دن تک بغیر کچھ کھائے زندہ رہ سکتی ہے۔ جس پر ایک بچہ حیرت میں ڈوب گیا۔ کھڑے ہو کر کہنے لگا۔۔ لیکن میڈم ! میں نے تو بائیولوجی کی کتاب میں پڑھا تھا کہ وھیل مچھلی بغیر کھائے صرف 10 دن زندہ رہ سکتی ۔۔میڈم سٹپٹا گئی۔ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بولی ۔۔ نہیں ، وہ 30 دن تک زندہ رہتی ہے۔۔بچے نے میڈم کے غصے اور بحث سے بچنے کے لیے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ ٹھیک ہے۔ جب میں جنت میں جاؤں گا تو وھیل مچھلی سے خود ہی پوچھ لوں گا۔۔میڈم نے بچے کو مزید چڑانے کے لیے فاتحانہ انداز میں چوٹ کی۔۔ لیکن اگر وھیل مچھلی جنت کی بجائے جہنم میں چلی گئی تو۔۔۔؟؟۔۔بچے نے میڈم کا سوال غور سے سنا، چند لمحے اپنی میڈم کے چہرے کو تکا،پھر کندھے اچکا کر جواب دیا۔۔ تو میڈم۔ پھر آپ پوچھ لیجئے گا ۔۔پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی… دے تھپڑ،دے چماٹ۔۔کہانی کی دُم: جب سامنے والے کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو پھر وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔۔
یونیورسٹی میں لیکچر چل رہا تھا۔۔پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا،اور کہا کہ۔۔ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25۔ 30 لوگوں کے نام لکھو جوآپ کو سب سے زیادہ پیارے ہوں۔۔لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے۔۔اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ۔۔لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ۔۔پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ۔۔لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسیوں کے نام مٹا دیے ۔۔اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا۔۔لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ۔۔اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے مما۔ پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ۔۔اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو۔۔لڑکی کشمکش میں پڑ گئی ،بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے مما، پاپا کا نام مٹا دیا ۔۔تمام لوگ دنگ رہ گئے، لیکن پرسکون تھے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکہ ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا۔۔ اب صرف 2 ہی نام باقی تھے۔۔شوہر اور بیٹے کا ۔۔ پروفیسر نے کہا اور ایک نام مٹا دو ۔۔لڑکی اب سہم سی گئی۔۔بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ۔۔پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا، تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ۔۔ پھر سب کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا۔۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا۔۔سب خاموش رہے ۔۔پھر پروفیسر نے اسی لڑکی سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ہے؟ ۔۔لڑکی نے جواب دیا، میرا شوہر ہی مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتا کے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہے۔۔ وہ میرے ہر دکھ سکھ کا ساتھی ہے، میں اس سے ہروہ بات شیئر کر سکتی ہوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتی،میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ھوں مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نہیں مٹا سکتی۔۔کہانی کی دُم: بیوی گھر کی ملکہ ہوتی ہے، اسے پیر کی جوتی کبھی نہ سمجھیں، ورنہ گھر میں تو جوتیاں پڑیں گی ہی، باہر بھی ٹینشن میں ہی رہیں گے۔۔
بچے کے پیدا ہونے کے پانچ سال بعد ایک دِن اچانک ماں کو احساس ہوا کہ، یہ بچہ ہمارا نہیں لگتا، کیوں ناں اِس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے۔۔۔ شام کو اْس کا شوہر تھکا ہارا ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو اْس نے اپنے خدشے کا اظہار اْس سے بھی کیا کہ، ۔۔دیکھو! اِس بچے کی عادتیں بہت عجیب ہیں، اِس کا دیکھنا، چلنا، کھانا، پینا اور سونا وغیرہ ہمارے سے بہت مختلف ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمارا بچہ ہے، چلو اِس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواتے ہیں۔۔۔شوہر نے موبائل میں مسڈ کالیں چیک کرتے ہوئے بیگم کی بات سنی اور کہنے لگا۔۔بیگم! تمہیں یہ بات آج اچانک 5 سال بعد کیوں یاد آ گئی؟، یہ تو تم مجھ سے 5 سال پہلے بھی پوچھ سکتی تھی۔۔۔بیگم اپنے مزاجی خدا کی بات سن کر حیران رہ گئی، حیرانی بھرے انداز میں پوچھنے لگی۔۔کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔۔شوہر نے مسکراتے ہوئے بیگم سے کہا۔۔بیگم! یاد کرو ہسپتال کی وہ پہلی رات جب ہمارا بچہ پیدا ہوا تھا اور کچھ ہی دیر بعد اْس نے پیمپر خراب کر دیا تھا، تو تم ہی نے مجھے کہا تھا،۔۔اے جی سنیے! پلیز بے بی کو’’ چینج ‘‘تو کر دیں۔۔ تب میں نے بڑی حیرانگی سے تمہاری طرف دیکھا تھا تو تم نے ہی کہا تھا۔۔ہمارے پیار کی خاطر، میں نے 9 مہینے اِسے اپنی کوکھ میں رکھا اور اب جبکہ میں ہل جْل بھی نہیں سکتی تو کیا آپ یہ چھوٹا سا کام بھی نہیں کر سکتے؟۔۔ تو تب میں اپنے بچے کو اْٹھا کر دوسرے وارڈ میں گیا، وہاں اپنے گندے بچے کو’’چینج‘‘ کر کے دوسرے صاف بچے کو اْٹھا کر تمہارے ساتھ لا کر سْلا دیا تھا۔۔۔کہانی کی دُم: کسی کو کام بتاتے ہوئے اپنی مادری زبان استعمال کریں، دوسری لینگوئج کا بے جا استعمال کریں گے تو اسی طرح کا’’چینج‘‘آئے گا۔۔
ایک مولوی صاحب کا پاجامہ درزی نے زرا لمبا کردیا۔ مولوی صاحب شرعی یعنی ٹخنوں سے اونچا پائجامہ پہنتے تھے۔ بیگم سے کہا کہ جمعہ سے پہلے زرا پاجامہ چار انچ کم کردینا۔ بیگم روز مرہ کی مصروفیت میں بھول گئیں۔ دوسرے دن مولوی صاحب نے بیٹی سے کہا کہ زرا پاجامہ چار انچ کم کردینا۔ بیٹی بھی ٹال گئی۔تیسرے دن مولوی صاحب نے بہو سے پاجامہ چار انچ کم کرنے کا کہا۔ بہو بھی بھول گئی۔ جمعہ کا دن آن پہنچا تو اچانک بیگم کو خیال آیا کہ آج جمعہ ہے اور مولوی صاحب نیا پاجامہ پہن کر جمعہ ادا کرنے جائیں گے۔ انہوں نے اپنے کمرے میں لے جا کر جلدی جلدی چار انچ کاٹ کا بخیہ مار دی اور پاجامہ رکھ آئیں۔ کچھ دیر بعد بیٹی کو خیال آیا تو اس نے بھی پاجامہ چار انچ کاٹ کر سلائی مار دی۔اس کے بعد بہو نے بھی یہی عمل دہرایا۔ دوپہر جب مولوی صاحب نے غسل کر کے پاجامہ پہنا تو وہ’’ کچھا ‘‘بن چکا تھا۔کہانی کی دُم:پاکستان کے غریب عوام کی مالی حالت بھی ہر بجٹ میں نئے نئے ٹیکس لگ کر مولوی صاحب کے پاجامے جیسی ہوگئی ہے۔جس کو یاد آتا ہے نیا ٹیکس لگاکر’’ انکم‘‘ کو پاجامے کی طرح چھوٹا کردیتا ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں