Media Malikan ka Himayati kon

میڈیا مالکان کے حمایتی کون؟؟

 خاص تحریر

اے آر وائی میں ملازم بے باک اور جرآت مند صحافی نوشین نقوی اے آر وائی سے صحافیوں کو بلاوجہ نوکری سے نکالے جانے کے خلاف فیس بک پہ ایک احتجاجی سٹیٹس آپ ڈیٹ کرنے پہ دفتر داخلے سے محروم۔وہ دھرنا دے کر دفتر کے باہر بیٹھی ہیں۔ سمیع الدین قریشی ایک اور صحافی کہتے ہیں کہ وہ 35 سال سے نوائے وقت میں ملازم تھے اور ان کو ایک دن بنا کسی نوٹس کے رمیزہ مجید نظامی ایم ڈی نوائے وقت میڈیا گروپ نے بلاکر نوکری سے نکال دیا۔ان کا ساتھ کسی نے نہیں دیا۔وہ عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ لیکن وہ اپنا حق لیے بغیر آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے تواتر سے میڈیا سنسر شپ اور صحافی کارکنوں کی مشکلات بارے انٹرویوز اور مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔دونوں نشریاتی ادارے ایسے انٹرویوز شایع کررہے ہیں جو میڈیا مالکان کی قصیدہ خوانی پہ مشتمل ہیں۔اور میڈیا مالکان صحافی مزدوروں سے جو سلوک روا رکھ رہے ہیں جس طرح سے پاکستانی قوانین برائے ملازمت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس پہ کوئی بات سننے کو نہیں مل رہی۔

ابتک ضیاء الدین، کامران خان، سید طلعت حسین اور امتیاز عالم سمیت ایسے اشراف صحافیوں کے انٹرویوز پہ مبنی مضامین آئے ہیں جو سب برسرروزگار ہیں۔ اور روزگار بھی پرکشش پیکج اور مراعات کے ساتھ جبکہ ان کے مطابق ان کی حق گوئی نے آئی ایس پی آر، کورکمانڈرز، جی ایچ کیو کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ لیکن نزلہ ان مزدور صحافیوں پہ گررہا ہے جن کے اکٹھے کیے ہوئے حقائق و خبروں اور معلومات پہ یہ اشراف اپنے جانبدار تجزیوں کو ترتیب دیتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی زبان سے کلمہ حق ان مزدور صحافیوں کے لیے بلند نہیں ہورہا۔ ایکسپریس ٹرائبیون سے دس رپورٹرز، ڈان میڈیا گروپ سے 50 سے زائد بشمول تین ریجنل اسٹیشن کے رپورٹرز، اے آر وائی سے درجنوں صحافی اور دیگر اداروں سے بھی درجنوں صحافی بنا کسی نوٹس ، کسی پیشگی دو ماہ کی تنخواہ کے نکالے گئے ہیں بلکہ پرانے واجبات بھی نہیں دیے گئے۔

یہ ظلم پاکستان کے کسی بڑے سے بڑے اینکر پرسن اور کسی بڑے کالم نگار کو نظر نہیں آرہا جو سوشل میڈیا یا غیر ملکی نشریاتی ادارے کو اپنے کالم، پروگرام یا تجزیہ کے سنسر ہونے کی اطلاع تو بہت شوق سے دیتے ہیں مگر صحافیوں کے نکالے جانے پہ ان سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ان کو موت پڑجاتی ہے۔

(یہ تحریر ایک دوست نے بھیجی ہے لکھنے والے کا نام اسے بھی نہیں معلوم تھا لیکن تحریر میڈیا کے حوالے سے چشم کشا ہے اسلئے اسے آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے پیش کی ہے۔ علی عمران جونئیر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں