تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
آدمی آدمی کو کیا دے گا ۔۔جو بھی دے گا بس خدا دے گا ۔۔میرا منصف ہی میرا قاتل ہے ۔۔کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا۔۔یہ اشعار اس وقت میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔سہ پہر کو آنے والی ایک ٹیلی فون کال نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر لوگ کیوں خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں ۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خدانخواستہ لوگوں کا روزگار ان کے ہاتھوں میں دے دیا ہے ۔۔یہ صاحب مجھے بھوک سے ڈرا رہے تھے ۔۔انہیں شاید علم نہیں ہے کہ ایک مدت ہوئی میں نے خوف کو شکست دے دی ہے ۔انہیں شاید یہ بھی علم نہیں کہ میرا خدا کی ذات پر کتنا پختہ یقین ہے ۔ رہنمائی کے دعویدار نجانے کس زعم میں مجھے خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں ۔۔میرا تعلق اس قبیلے سے ہے جن کا سر جھکتا نہیں۔۔ہم سر کٹانے والے لوگ ہیں ۔آپ بے شک اپنے ”ٹرک” پر میرا کٹا سر نیزے پر لٹکائے اپنی یاترا جاری رکھیں لیکن میں جسے حق سمجھتا ہوں اسے ببانگ دہل تحریر کرتا رہوں گا ۔۔مجھے کہا جاتا ہے کہ ہمت ہے تونوکری سے استعفیٰ دے کر دکھاؤ۔۔صاحب!کیوں چھوٹی باتیں کرتے ہیں آپ ؟؟ میں اپنا استعفیٰ ادارے کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ تک پہنچا آیا ہوں ۔اب آپ کی باری ہے ۔لیکن میں نہیں سمجھتا آپ کے اندر اتنی جرات ہے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ رز ق اللہ تعالیٰ نہیں آپ کے ادارے کا مالک دیتا ہے ۔۔مجھے تو رہنمائی کا دعویٰ بھی نہیں ۔اس کے دعویدار تو آپ ہیں ۔مجھ میں آپ کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ آپ بھوک سے ڈرتے ہیں کیونکہ آپ اللہ سے نہیں ڈرتے ۔میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں اس لیے بھوک سے نہیں ڈرتا ۔خیر اس کو جانے دیتے ہیں ۔بات عظیم رہنماؤں کی عظیم تحریک کی کرتے ہیں ۔ستم ظریفی دیکھیں کہ تحریک صحافیوں کی ہے اور کنوینر وہ شخص ہے جس کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اگر کسی کے پاس ان صاحب کا موجودہ صحافتی ریکارڈ موجود ہے تو وہ ریکارڈ پر لے آئے ۔سنا ہے کہ اس شخص کو کنوینر بنانے پر عالم ارواح میں نثار عثمانی اور منہاج برناصاحب ماتم کناں ہیں اور یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ” میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں”۔میرا ذاتی خیال ہے کہ ان ہاتھوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ان سے سب واقف ہیں ۔عظیم صحافی رہنماؤں کی جانب سے ایک مطالبہ سامنے آیا ہے کہ میڈیا مالکان کے اثاثوں کی چھان پین کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جائے ۔میں اس مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہوں لیکن اس میں صرف ایک بات کا اضافہ چاہتا ہوں کہ جہاں لفظ مالکان کوشامل کیا گیا ہے اس کے ساتھ عظیم رہنما اپنے نام بھی ساتھ رکھیں کہ جے آئی ٹی ہمارے اثاثوں کے حوالے سے بھی مکمل تحقیقات کرے ۔جے آئی ٹی یہ بھی دیکھے کہ عظیم رہنماؤں کے ذرائع آمدن ان کے طرز زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں ۔احتساب کی جب بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں پھر سب کا ہی احتساب ہوجائے تو بہتر ہے نا۔آپ بے شک استعفیٰ نہ دیں لیکن اپنے آپ کو احتساب کے لیے تو پیش کریں نا ۔۔۔۔کیا آپ ایسا کریں گے ؟؟ (عمیر علی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔