mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

کس کے ہاتھ میں اپنا لہوتلاش کروں

تحریر: عمیر علی انجم

میڈیا کا بحران ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جارہاہے اداروں میں ورکرزکے لئے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں ،نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پی ٹی وی تک کو بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔میڈیا کا موجودہ بحران کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ۔یہ سلسلہ 2017میں ہی شروع ہوچکا تھا لیکن کچھ لوگوں نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر رکھی تھی ۔مالکان کی بات تو جانے ہی دیں ۔ان کا ہر بزنس مین کی طرح ایک ہی فلسفہ ہے کہ اگر ان کا ادارہ پہلے ایک کروڑ روپے کمار رہا تھا اور اب منافع 50لاکھ ہوگیا ہے تو یہ اس کے لیے خسارہ ہے اور اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے ”سیٹھ” ہر اقدام کرے گا ۔ا س سے تو شکوہ بنتا ہی نہیں ہے ۔ہمارا اصل شکوہ ان سیٹھوں کے ”نورتنوں” سے ہے جو بد قسمتی سے ہمارے ہی صحافی بھائی ہیں ۔سیٹھوں نے اپنے اداروں میں ایسے صحافی نما ”بروکرز” بھرتی کیے ہوئے ہیں جو حکومتوں کے ساتھ ان کے معاملات طے کراتے ،ان کے ٹیکس کے معاملات دیکھتے ،اشتہارات کی ریل پیل میں بھی یہ صحافی بھائی اپنا حصہ ڈالتے اور اگر کسی اخبار میں کوئی اشتہار شائع نہیں ہوتا تو سیٹھ کی طرف حکم جاری کیا جاتا کہ جناب آپ یہ معاملہ دیکھیں اور ہمارے صحافی بھائی معاملہ دیکھنے کے لیے یکسو ہوجاتے۔۔ اور جب تک نا لگنے والا اشتہار ان کے اخبار کی زینت نا بن جاتا وہ چین کی نیند نا سوتے ۔۔۔سیٹھ کی جانب سے ان کی ستائش کی جاتی اور پھر ایک نیا ”اسائنمنٹ ” ان کا منتظر ہوتا ۔۔۔۔اس کو ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ سیٹھوں کے منظور نظر یہ صحافی صحافتی تنظیموں پر بھی قابض ہوچکے تھے ۔۔اداروں سے لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے کیونکہ ”الحمداللہ” وہ اپنے کیریئر میں اتنا کچھ بناچکے تھے کہ وہ ان کے آنے والی نسلوں کے لیے بھی کافی تھا ۔۔۔لیکن اصل مسئلہ اس غریب صحافی کو درپیش تھا جو 15ہزار سے 50ہزار روپے تک کی تنخواہ میں اپنا گھر چلارہا تھا اور اس تنخواہ کے علاوہ اس کا کوئی آسرا بھی نہیں تھا ۔۔۔سیٹھوں نے سب سے پہلے کلہاڑی ان چھوٹی تنخواہ والے صحافیوں پر ہی چلائی اور واقفان حال کہتے ہیں کہ اس میں بھی ہمارے یہ صحافی رہنما پیش پیش تھے جو سیٹھوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ اپنے اخراجات کس طرح کم کرسکتے ہیں ۔مصرعہ ہے تو فلمی لیکن اس صورت حال کی پوری طرح عکاسی کرتا ہے کہ ”ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا ”۔۔۔۔جناب حکومت اور مالکان کو ایک طرف رکھیے صحافیوں کو اس مقام تک پہنچانے والے اصل میں یہ صحافی رہنما ہیں جنہوں نے اپنے اپنے اداروں میں سیٹھوں کو خوش رکھنے اور اپنی نوکریاں بچانے کے لیے عامل صحافیوں کو بالکل اس طرح کھالیا جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاجاتی ہے ۔یہ افراد آج پوری میڈیا انڈسٹری کا ناسور بن چکے ہیں ۔یہ لوگ ہر وہ سطحی کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان سے سیٹھ لینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں ان کو تاریخ کا ایک واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں شاید ان کو کچھ عقل آئے ۔کہتے ہیں کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار اور مسلمانوں سے غداری کرنے والے میر جعفر کے ورثاء جب انگریز حکومت سے اپنا وظیفہ وصول کرنے کے لیے آتے تھے تو وہاں آواز بلند کی جاتی تھی کہ ”غدار میر جعفر کے ورثاء حاضر ہوں ”میری دعا ہے کہ کل جب میڈیا انڈسٹری بحران سے مکمل تباہی کی طرف جائے گی تو میرے ان دوستوں کو اس ہی طرح کی آوازوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ (عمیرعلی انجم)۔۔

(عمران جونیئر ڈاٹ کالم کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں