khush aamad ehtraam ko galay lagaenge

خوشامد نہیں احترام کو گلے لگائیں۔۔

تحریر: امجدعثمانی۔۔

خوشامد “دیمک” سے بھی خطرناک “عارضہ”ہے۔۔خاندان،معاشرے،ادارے اور ملک آداب کے ساتھ اختلاف رائے سے” نکھار “پاتے ہیں۔۔۔کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کے” نظم “کو بہترین انداز سے چلانے کے لیے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر منتظم کو حق ہے کہ اپنی من پسند ٹیم کا انتخاب کرے کہ ٹیم کا مطلب ہی ہم خیال لوگ ہوتے ہیں لیکن ہم خیال کا مطلب ہرگز”انجمن ستائش باہمی”نہیں۔۔۔اس “مکتب فکر”کے لوگوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ”شیخ چلی مزاج ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ “تسکین قلب”کے لیے ایک دوسرے کی تعریف کرکے” من کی مرادیں” پاتے ہیں۔۔۔۔یہ” جی حضوری”قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔احترام کے تقدس کو سمجھنے سے عاری۔۔۔۔کوئی بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے۔۔۔۔میں ایک قومی اخبار کے نیوز ڈیسک پر سنئیر سب ایڈیٹر تھا۔۔۔ہمارے چیف نیوز ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر صاحب مذکورہ” سکول آف تھاٹ” کے آدمی تھے۔۔۔۔وہ روزانہ عجب سی” شہ سرخی “جماتے اور خود ہی واہ واہ کرتے۔۔۔۔۔اگلی شب دفتر آتے تو کہتے کہ آج ہماری شہ سرخی مارکیٹ میں  بہت” ڈسکس” ہوئی ہے۔۔۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف سہ پہر کو اٹھتے اور نہا دھو کر ناک کی سیدھ دفتر آتے تھے۔۔۔۔مشرف دور میں شریف برادران کو سزا ہوئی تو انہوں نے ایک طرف نواز شریف اور دوسری طرف شہباز شریف کی تصویر لگا کر ایک گانے کے “بول” پر مبنی سرخی جما دی۔۔۔۔میں نے دست بستہ عرض کی  کہ عالی جاہ! یہ صبح کے اخبار کی شہ سرخی نہیں۔۔۔۔بہر کیف وہ افسر تھے جو مزاج یار میں آیاکیا۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن میں لاہور پریس کلب کی لائبریری میں بیٹھا تھا کہ وہاں کچھ سنجیدہ فکر صحافی لوگ مختلف اخبارات کی شہ سرخیوں پر بحث کر رہے تھے… کسی نے ہمارا اخبار اٹھایا اور کہا کہ اس اخبار نے کیا” کھچ” ماری ہے۔۔۔۔۔میں نے ندامت سے گردن جھکالی۔۔۔۔دفتر پہنچا تو دونوں افسر “باغ باغ “تھے تھے کہ آج مارکیٹ میں ہماری شہ سرخی نے” بھونچال” برپا کردیا ہے۔۔۔۔۔میں نے” لقمہ” دیا کہ جی لاہور پریس کلب میں بھی آج یہ شہ سرخی “موضوع بحث” تھی اور وہاں” زلزلے کے جھٹکے “محسوس کیے گئے۔۔!!!شومئی قسمت کہ آج یہ دو صفحے کا ڈمی اخبار ہے۔۔۔۔کہنے کا مطلب ہے کہ کسی بھی منصوبے کے لیے من پسند “منصوبہ سازوں” کا انتخاب ضرور کریں مگر” قوالوں” سے جتنا ہوسکے گریز کریں کہ اختلاف رائے سے زاویہ ہائے نگاہ ابھرتے اور فکری کونپلیں پھوٹتی ہیں۔۔۔۔خوشامد پر چار حرف بھیجیں۔۔۔۔احترام کو گلے سے لگائیں کہ “درباری لوگ”صرف دربار کے” یار “ہوتے ہیں۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں