sakh-faisle-ka-season

کامیابی کا راز

دوستو،آج جمعہ مبارک ہے جس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ دنوں کا سردار ہے، اس دن کے حوالے سے ہماری لاشعوری طور پر کوشش ہوتی ہے کہ اس دن ہم آپ کو اپنی اوٹ پٹانگ باتوں اور خرافات سے دور رکھ کر کچھ کام کی باتیں کرجائیں، ایسی باتیں جن سے آپ کا بھلا ہو اور میرا بھی، کیوں کہ اگر میری باتیں آپ کی سمجھ آجائیں اور آپ نے اس پر عمل کرلیا تو پھر آپ کے اعمال میں میرا بھی حصہ ہوسکتا ہے جو شاید میری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔۔ چلیں پھر کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جو ویسے تو ہمارے اطراف کی عام باتیں ہوتی ہیں لیکن اگر آپ اس کو اپنے انداز سے سوچیں گے تو آپ کے سامنے بہت سے پہلو سامنے آئیں گے۔۔۔

اشفاق احمد کہتے ہیں،میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔ میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔۔۔ تو بابا جی نے کہا۔۔ اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے، مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بِنا محنت کیے، اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے۔ اماں نے جیسے ہی مْٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا، اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا، کبھی بائیں۔ کبھی شمال، کبھی جنوب۔سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اْسکا پیٹ بھی نہیں بھرا۔۔۔بابا دین مْحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا، بتاؤ ،مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟۔۔میں نے فٹ سے جواب دیا، نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا، نہ ذلیل ہوتا۔۔بابا نے کہا۔۔ بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے، تواللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تْو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔۔۔بابا عجیب سی ترنگ میں بولا۔۔ پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو مْعاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شْکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کرلو، تو امر ہو جاؤ گے۔یہ کہہ کر بابا دین مْحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سرجْھکائے زارو قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شْکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مْجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔ اللہ ہمیں آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔

قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت کے ایک ہندو رکن نے شراب پر پابندی کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تو اپوزیشن تو اپوزیشن خود حکومتی ارکان نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ ہندو رکن قومی اسمبلی کا مذاق بھی اڑایا۔۔جمہوریت کا بھیانک حسن یہ نظر آیا کہ جس نے شراب پینی ہے وہ پیتا رہے گا، جس نے نہیں پینی وہ نہیں پیئے گا۔۔ اس سے پہلے پچھلی حکومتوں میں کہاجاتا رہا کہ سود جس نے لینا ہے وہ لے اور جس نہیں لینا وہ نہ لے ۔۔اگر انہی فارمولوں کو مدنظر رکھا جائے، ارکان اسمبلی کے ان دلائل کو مان لیا جائے تو پھر ،جس نے چوری کرنی ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنی وہ نہیں کرے گا۔جس نے ریپ کرنا ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ نہیں کرے گا۔ جس نے کرپشن کرنی ہے وہ کرتا رہے گا جس دن نہیں کرنی ہو نہیں کرے گا۔ جس نے عورت پر تیزاب پھینکنا ہے وہ پھینکتا رہے گا جس نے نہیں پھینکنا وہ نہیں پھینکے گا۔جس نے جہاد کرنا ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ نہیں کرے گا۔ پھر ان چیزوں کے بارے میں قانون کیوں بنایا؟پولیس ، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، نیب کے محکمے کیوں بنائے گئے؟کمائی اور دھندوں کے سارے مراکز بند کئے جائیں اور سب کچھ عوام کی پسند ناپسند پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔جس طرح شراب کے معاملے میں موجودہ قومی اسمبلی نے اپنا موقف دیا۔۔

خبر پڑھیں:3 میگا پراجیکٹ، تینوں تاخیر کا شکار، عوام سراپا انتظار

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔فرض کیجئے آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں اور کوئی آپ کو دھکا دے دیتا ہے، تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کے کپ سے چائے چھلک جاتی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کپ سے چائے کیوں چھلکی؟ تو آپ کا جواب ہوگا : کیونکہ فلاں نے مجھے دھکا دیا۔۔اگر آپ نے کسی پر دھکے کا الزام لگایا تو یہ غلط جواب ہو گا۔۔ درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لئے چھلکی۔ آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے۔۔اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے، تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔ آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے۔تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا؟ صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار۔۔یاغصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت۔چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے۔فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے۔۔ کامیابی کاراز آپ کے سامنے ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں