irani gas or satra arab ka jurmana

ایرانی گیس اور سترہ ارب کا جرمانہ، رؤف کلاسرا کے انکشافات۔۔

سینئر صحافی ، کالم نویس اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کی بدولت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی پچھلے برسوں میں چاندی ہوگئی تھی۔ ایسے معاہدے کیے گئے جن کا فائدہ ان غیرملکی سرمایہ کاروں کو ہوا۔ یقینا کوئی بھی بزنس مین اپنا فائدہ دیکھ کر ہی پاکستان آئے گا اور اپنا سرمایہ لگائے گا۔ایسا کنٹریکٹ کیوں بنایا جاتا ہے کہ ہر دفعہ وہ سرمایہ کار پاکستان کو عالمی عدالت یا لندن میں لے جا کر اربوں ڈالرز کی سزا دلوا دیتے ہیں۔ تین بڑے معاہدے ذہن میں آتے ہیں جن میں پاکستان کو بڑے جرمانے ہوئے۔ نیب کے پہلے چیئرمین جنرل امجد کا براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ‘ ترکی کا کرائے کا بجلی گھر جہاز اور ریکوڈیک کا معاہدہ‘ جن پر اربوں ڈالرز کے جرمانے ہوئے۔ براڈشیٹ سکینڈل تو اپنی نوعیت کا واحد سکینڈل تھا جس میں دو دفعہ جرمانے بھرے گئے۔ پہلے جس بندے کو ادائیگی کی گئی وہ فراڈیا نکلا۔ دوسرے نے لندن کی عدالت میں کیس کیا جس پر ایرانی نژاد موسوی کو وزیراعظم عمران خان کے دور میں ستر ملین ڈالر ادا کیے گئے۔ یہ تھا ہماری حکمرانوں اور بیوروکریسی کا کارنامہ۔ کچھ معاہدے پاکستانی عدالتوں نے ختم کیے‘ جن پر عالمی عدالت سے جرمانے ہوئے لیکن عدالتوں سے زیادہ ہماری بیوروکریسی نے ان معاہدوں میں ایسی کلاز ڈالیں جن سے صاف پتا لگتا تھا کہ وہ اس ڈیل میں حصہ دار ہیں۔دنیانیوزمیں تحریراپنے تازہ کالم میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ ۔۔ترکی کے بجلی گھر کے اسکینڈل میں اپنے پاکستانیوں نے ترکوں کیساتھ مل کر ہمیں لوٹا۔ واٹر اینڈ پاور کے فیڈرل سیکرٹری شاہد رفیع نے اس کیس میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کی۔ اس ڈیل میں اُس نے لمبا مال کمایا تھا۔ صرف چار کروڑ دے کر باقی ہضم کر گیا۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر کا بیٹا اس ترک فرم کا پاکستان میں کنٹری منیجر تھا‘اُس وقت کے وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے رشتہ داری تھی۔اس فرم کو پانچ‘ چھ سو ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ دیا گیا۔ ایڈوانس ادائیگی کی گئی۔ اس بجلی گھر نے چند میگا واٹ بجلی تک پیدا نہ کی اور ایڈوانس لے گیا جو بعد میں پتا چلا کہ سب نے بانٹ کر کھایا تھا۔ جب عدالت نے وہ معاہدہ کینسل کیا تو اس کمپنی کو نیب سے بھی کلیئرنس چٹ انہی افسران نے لے کر دی‘اس کی بنیاد پر اس کمپنی نے لندن کی عدالت سے پاکستان کو سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرا کے بیرونِ ملک پاکستانی جائیدادوں کو بکوانے کیلئے وہاں مقامی عدالتوں میں مقدمے بھی کر دیے۔ اس فرم کی اپنی چوری کیسے پکڑی گئی وہ الگ کہانی ہے‘ جس سے وہ سوا ارب ڈالرز بچے جو ہمارے سیاسی حکمرانوں اور بابوز نے آپس میں باٹنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں کہ بیوروکریسی کی نالائقی کی قیمت اس قوم نے ڈالروں کی شکل میں ادا کی۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ آپ پاک ایران گیس پائپ لائن ڈیل کو ہی دیکھ لیں۔ آج سے 14برس قبل صدر زرداری ایران گئے اور یہ معاہدہ کیا۔ ان دنوں سب کو علم تھا کہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اور اس معاہدے پر انہیں اعتراضات ہوں گے۔ خیر ہم نے اپنا مفاد دیکھا اور ہمارا مفاد اس میں تھا کہ ہم ایران سے گیس خریدیں۔اس وقت زرداری صاحب نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے تحت اگر پاکستان نے کچھ سالوں بعد گیس لینا شروع نہ کی تو پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہ وہ شق ہے جس کے تحت اب ایران تقریباً سترہ ارب ڈالرز کا بل پاکستان کے خلاف بنا چکا ہے۔ یقینا ایران کا اس میں کوئی قصور نہیں۔  ایران نے پاکستان کو گیس بھی مہنگی دی حالانکہ انہی دنوں سینٹرل ایشیاکے ایک ملک کو پاکستان سے سستا ریٹ دیا گیا یا پھر اس ملک کے صدر نے پاکستان کے صدر زرداری سے زیادہ بہتر ڈیل کی ہو گی۔ اب حالت یہ ہے کہ 14 برس میں پاکستان وہ پائپ لائن نہیں بچھا سکا۔ یقینا سب کہیں گے ہمارا قصور ہے۔ بالکل‘ ایسا ہی ہے۔ جب ہمیں علم تھا کہ ہم امریکی دبائو کا سامنا نہیں کر سکتے تو اس ڈیل کو سائن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟داد دیں ہمیں کہ ہم نے ایرانی گیس سے ایک چولہا تک نہیں جلایا اور سترہ ارب ڈالرز کا جرمانہ تیار ہے‘ اور جو عوام پر ٹیکس لگا کر 700 ارب روپے اس گیس پائپ لائن کیلئے اکھٹے کیے تھے ان کی کوئی خبر نہیں کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں