Imran Junior | Marmaati Khatoon

”گھڑا”

علی عمران جونیئر
دوستو، بچپن میں ہمارے زمانے میں کچی پہلی اور پکی پہلی دو جماعتیں ہوتی تھیں، یہ دونوں پاس کرنے پر جماعت دوم، یعنی دوسری جماعت، پھر ہر سال پاس ہونے پر اگلی جماعت، آج کل پریپ، مونٹیسوری، اور پتہ نہیں کون کون سی کلاسیں ہوتی ہیں، دو ڈھائی سال کے بچے کو اسکول میں داخل کرادیا جاتا ہے، جب وہ چھ ،سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر دوسری جماعت میں جاتا ہے۔ ہمیں اپنے بچپن میں پڑھے گئے اکثر اسباق آج بھی یاد ہیں۔ پیاسا کوا کا مضمون شاید آج بھی کتابوں میں موجود ہے۔آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم نے پولیس کو رپورٹ درج کرائی کہ اردو کے استاد انہیں جھوٹ پر مبنی پیاسا کوا کی کہانی پڑھا رہے ہیں۔رپورٹ درج ہوئی، عدالت میں کیس پہنچا، طالب علم کے وکیل نے اردو کے استاد پر جرح شروع کردی۔پیاسا کوا والا واقعہ کب پیش آیا؟ یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ یہ واقعہ جس باغ میں پیش آیا وہ باغ کس کی ملکیت تھا؟ اگر کوے کو کہیں بھی پانی نہ ملا تو گھڑے کے اندر پانی کہاں سے آیا؟ گھڑے پر بیٹھتے وقت کوے کا منہ کس سمت تھا؟ گھڑے کے اندر کوے نے کتنے کنکر ڈالے؟ کنکر گھڑے سے کتنے فاصلے پر پڑے تھے؟ ہر کنکر جو گھڑے میں ڈالا گیا، اس کا وزن کتنا تھا؟ کنکر مٹی آلود ہوتے ہیں تو منہ میں اٹھانے سے کوے کا پیٹ کیوں خراب نہ ہوا؟ کنکروں کی فرانزک رپورٹ کیا کہتی ہے؟ کوے والے واقعے کا عینی شاہد کون ہے؟ کوے والی کہانی کو سب سے پہلے کس نے رپورٹ کیا؟ کوے کی ہوا میں اڑنے کی رفتار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے تو اسے کنکر اٹھانے میں اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھڑے کے اندر کتنا پانی موجود تھا؟گھڑے کو باغ میں کس نے رکھا تھا؟ گھڑے کو باغ میں کب رکھا گیا؟ گھڑے پر کوا پہلی دفعہ کس وقت بیٹھ گیا؟کوے کو ٹوٹل کتنا وقت لگا کنکر لانے میں؟ کل کتنے کنکر ڈالے؟ کوے کے پینے کا پانی نہیں تھا تو باغ کیسے بنا؟ گھڑے کا حدود اربعہ بتائیے؟؟ ہمیں لگتا ہے کہ اردو کے استاد شاید اب اردو پڑھانے سے توبہ کرلیں گے۔
بادشاہ کا گزر اپنی سلطنت کے ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ نہر سے ہی پانی لیکر پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام الناس کی سہولت کیلئے یہاں ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا اور ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے گا۔ شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیاکہ یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر نصب کیا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری مقرر کیا جائے۔ سنتری مقرر ہونے کے ساتھ ہی ماشکی کی ضرورت پیش آئی اور ہفتے کے سات دنوں گھڑا بھرنے کے لئے سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے،ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھا کر لانا نہ تو ماشکی کا کام بنتا ہے اور نہ ہی سنتری کا۔ اس محنت طلب کام کیلئے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیں جو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کر کے رکھیں ۔بار بردار بھرتی کیے گئے، ایک اور دور اندیش مصاحب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کیلئے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کیلئے محاسب رکھنے ضروری ہونگے، اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا، اکاؤنٹنٹ متعین کرنا ہونگے،جو رکھ لیے گیے،ایک اور ذو فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چل رہا ہے تو ان سارے ماشکیوں، سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کیلئے ایک ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا جو قائم کردیا گیا،ایک اور مشیر آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان میں لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور ان کے درمیان میں صلح صفائی کون کرائے گا؟ تاکہ کام بلاتعطل چلتا رہے، اس لیے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے وہ بھی بنادیا گیا،ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہئے۔ ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کر دیا گیا۔ سال کے بعد حسب روایت بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہرکے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت کا وجود عمل میں آ چکا ہے جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے”وزارت انتظامی امور برائے گھڑا” کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ بادشاہ اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک علیحدہ ہی جہان پایا۔ عمارت میں کئی کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے۔ ایک بڑے سے دفتر میں، آرام دہ کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا لکھا ہوا تھا۔بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب پوچھا، اور ساتھ ہی اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ بادشاہ کے وزیر نے جواب دیا۔ حضور والا، یہ سب کچھ آپ ہی کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کیلئے یہاں پر گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادشاہ مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا نہ صرف خالی اور ٹوٹا ہوا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مرا ہوا پرندہ بھی پڑا ہوا ہے۔ گھڑے کے اطراف میں بیشمار لوگ آرام کرتے اور سوئے پڑے ہیں اور سامنے ایک بڑا بورڈ لگا ہوا ہے۔گھڑے کی مرمت اور بحالی کیلئے اپنے عطیات جمع کرائیں۔ منجانب وزارت انتظامی امور برائے گھڑا۔۔واقعہ کی دُم:میرے وطن کی کہانی۔۔ وفاقی وزیر، وزیر مملکت، صوبائی وزیر، مشیر،معاون خصوصی،پرسنل سیکرٹری، عہدے، پروٹوکول اور کام صفر۔
ملک ڈیفالٹ کرے نہ کرے سفید پوش انسان ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ تنخواہ چار سال پرانی والی، سال پہلے مالک مکان نے کرایہ 10 فیصد بڑھایا اب کہہ رہا ہے ڈبل کرو یا خالی کرو ۔کم میں وارا نہیں، اسکول والوں نے فیسیں اسی فیصد بڑھا دیں، ایک ہزار روپے والا نصابی کورس اب چار ہزار کا مل رہا ہے۔ ہزار بارہ سو کا جس کی بجلی کا بل آتا تھا اب چار سے پانچ ہزار روپے آرہا ہے۔ 800 والا آٹا 2800 روپے، 150 والا گھی 600 روپے، 6 والی روٹی 20 روپے، 10 والا نان 30 اور 40 والی چنے کی پلیٹ 100 روپے، 2200 والا موٹر سائیکل ٹائر ٹیوب 4400 روپے،،چنگچی جتنے فاصلے کا پہلے دس روپے لیتے تھے اب تیس روپے لیتے ہیں۔جو ڈاکٹرسو دوسوروپے فیس لیتا تھا اب کم سے کم فیس پانچ سوروپے لے رہا ہے۔ڈیڑھ سوروپے کلو والے چاول 400 روپے، دال چنا 120 والی 280 روپے، 180 والی دال ماش 550 روپے، 70 والی چینی 160 روپے، 20 ہزار والا موبائل فون 50 ہزار روپے، 2500 والا پنکھا 15 ہزار روپے، 40 ہزار روپے والی فریج اب 1 لاکھ روپے سے اوپر، 100 والی ٹوتھ پیسٹ 250 روپے، 5 روپے بجلی یونٹ 52 روپے، 50 والا سیف گارڈ صابن 200 روپے، 170 روپے فی کلو والا سرف ایکسل 650 روپے، 70 ہزار روپے والا ہنڈا موٹر سائیکل ہنڈا70 اب ایک لاکھ 60 ہزار روپے، 95 ہزار روپے والا ون ٹو فائیو ہنڈا موٹر سائیکل 2لاکھ 70 ہزار روپے، 30 روپے والا پنکچر 100 روپے، گھریلو استعمال ہونے والی سائیکل 5 ہزار روپے سے اب 30 ہزار روپے، 5 روپے ریموٹ سیل اب 40 روپے، دس روپے والی ایلفی اب 30 روپے، 5 والا بلیڈ اب دس روپے، 20 روپے پیمپر اب 50 روپے، 20 روپے والا سپر بسکٹ 40 روپے، یہ سب ہوگا تو سفید پوش انسان ماہانہ تیس ہزار روپے میں کیا خرچ کرے گا کیا بچائے گا؟ غریب کے پاس خود کشی یا جرم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گیٹ کے نیچے جو بندہ بل پھینک کر جاتا ہے، اسے ” بل گیٹس” کہتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں