dawakhane k adakaar by k m khalid

دواخانے کے اداکار

تحریر:  کے ایم خالد

کوئی دور تھا کہ جب اداکار صرف تھیٹر ،ٹی وی ڈرامہ یا فلموں میں ہی پائے جاتے تھے مگر فی زمانہ اداکاروں کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں  بہتات ہے حتی کہ میڈیا کا سب سے خشک شعبہ نیوز اور حالات حاضرہ بھی اس سے محفوظ نہیں تین دہائیوں قبل تک پی ٹی وی کے ان شعبوں میں ان شخصیات کا قبضہ تھا جنہیں شاید کبھی نہیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا اب میڈیا کے ان شعبوں میں جو جتنی ”جولی اور ہولی “( جولی انگلش اور ہولی پنجابی زبان کا لفظ ہے )طبیعت کا مالک نیوز کاسٹر یا اینکر ہو وہ اتنا ہی کام یاب ہوگا۔

ماضی میں چونکہ پبلسٹی کا مناسب انتظام نہیں تھا اور طب کے شعبے میں تو خاص طور پر اس حکیم کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا جو کسی مریض کو بھی اپنی تعریف دوسروں تک پہنچانے کے لئے راضی کرتے تھے کسی حکیم کی شہرت سینہ بہ سینہ ہی پھیلتی تھی اور یہ شہرت بھی مریض کے مرض سے شفا یابی سے مشروط ہوتی تھی اور حکیم صاحب کی شہرت کے اس پھیلاؤ میں برسوں درکار ہوتے تھے ۔زمانہ بدلا اور نیم حکیم اخباروں اور ویگنوں ،گاڑیوں میں بانٹے جانے والے اشتہارات کے ذریعے مریضوں تک پہنچنے لگے لیکن اس میں بھی اصل حکیم سے ذیادہ نیم حکیم شامل تھے ۔ جن کا مقصد ہی مریضوں کی جیب خالی کرنا تھا ۔

مختلف چینلز پر چلنے والے حکیموں کے اشتہارات بے دھڑک اور بلا روک ٹوک لمبے لمبے دورانیہ کے اشتہارات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے ان چینلز کی ملکیت انہی حکیموں کی ہے اور ان کی چوبیس گھنٹے کی ”حکیمانہ نشریات “ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دو چار عطائیوں کے پاس ہی دنیا کی ہر بیماری کا علاج ہے اور ان نشریات کی بدولت پی آئی اے سمیت پوری دنیا کی ائر لائنز کی چاندی ہوگئی ہے اور دنیا بھر سے مریض جوق در جوق پاکستان کا رخ کر رہے ہیں ۔

نہ جانے ان حکما ءکے پاس اپنی پبلسٹی کے اتنا پیسہ کہاں سے آگیا کہ وہ چینلز پر اپنے ایک گھنٹے کے اشتہار کے بعد دوسرے گھنٹے ایک نئی بیماری کی علامات ،علاج ،پرہیز کاپھر ”رٹا “ لگا کرآ دھمکتے ہیں حکیم صاحب خود بھی اداکاری کے شوقین محسوس ہوتے ہیں جو کہ شائد فلموں یا ڈراموں میں اداکاری کے جوہر نہ دکھا سکنے کے باعث اپنا اداکاری کا شوق بھی حکیمی کے ساتھ ہی پورا کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائے دیتے ہیں ۔اپنی اداکاری کے ساتھ ان عطائی حضرات نے پورے ملک کے خاص شہروں سے علاقائی بیمار محسوس ہونے والے اداکار بھی دریافت کرتے ہیں ان میں مرد وزن کی کوئی قید نہیں بلکہ جتنا مریض اداکار بوڑھا ہوگا اتنا ہی وہ کامیاب ہوگا جو کہ اپنی علاقائی زبان میں پہلے تو حکیم صاحب تک پہنچے تک کا حال بیان فرمائیں گے اس کے بعد اپنی بیماری میں مبتلا ہونے ا ور پھر حکیم صاحب سے علاج اور پھر چند ہی ہفتوں میں اس سے شفا یابی کی نوید سنائیں گے یہ علاقائی اداکارانہ اشتہار آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے کا بھی ہو سکتا ہے اس میں اس علاقائی مریض کی اداکاری کی داد تو بنتی ہے جوخوشی ،غمی کے سارے تاثرات اپنی اداکاری میں سمو دیتا ہے۔

ان اداکاروں کے علاوہ اس حکیمانہ اشتہاری دوڑ میں ماضی کے وہ اداکار بھی شامل ہیں جن کا فلموں میں توتی بولتا تھا اب وہ ان حکیمانہ اشتہاری فلموں میں طوطے کی طرح بول رہے ہیں ان کی اشتہاری فلموں میں کام کی سمجھ تو یہ ہی آتی ہے چونکہ اب فلمیں نہیں بن رہی تو وہ اپنا صرف فلمی ٹھرک ہی پورا کرنے کے لئے ان اشتہاری فلموں میں کام کر رہے ہیں جب کہ آٹو گراف دیتے وہ جوانی سے لے کر اب تک اپنی فٹنس کا سبب حکیم صاحب کی دوائیوں کو ہی گردانتے ہیں جیسے وہ حکیم صاحب کی دوائی جوانی سے ہی استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ایک اداکارگلو بادشاہ ہیں جن کے خیال میں حکیم صاحب کی دوائی سے ان کا نہ صرف معدہ ٹھیک رہتا ہے بلکہ ان کے جوڑوں میں رہنے والا درد بھی رفو چکر ہو چکا ہے۔”ماچس تو ہوگی آپ کے پاس “ کو پہچان کا روپ دینے والے اداکار فالج کی اداکاری کرتے ہوئے حکیم صاحب کی دوائی سے تندرستی کا اظہار کرتی اداکاری سے حکیم صاحب کا دل موہ لیتے ہیں ۔ان اداکاروں کے علاوہ بھی بہت سے صف اول کے اداکار ان حکماءکا ”چورن “ بیچنے میں پیش پیش ہیں ۔

 مریض تو بے چارے مرض کے ہاتھوں دیوانے ہوتے ہیں ماضی کی فلموں کے شوخ وشنگ اداکاروں کے علاوہ اپنی علاقائی زبان میں علاقائی اداکارمریض کو اپنی اداکاری سے گرفت میں لے لیتے ہیں اور اس پر حکیم صاحب کی چرب زبانی ,مریض بس اسی حکیم کو مسیحا سمجھتے ہوئے اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔خدارا!ذرا دروغ گوئی اور اداکاری کے جوہر کم دکھایئے کچھ تو حقیقت پسندی سے کام لیجئے کیونکہ یہ برانڈڈ جوتوں یا کپڑوں کی تشہیر کا معاملہ نہیں بلکہ امید کی آس لگائے مریضوں کی زندگی کا سوال ہے۔(کے ایم خالد)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں