mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

چوکیدار لٹیرے نکلے۔۔۔

تحریر: عمیر علی انجم۔۔

اسلام آباد کے دوستوں کا اصرار بڑھتا جارہا تھا کہ آپ کا شہر اقتدار میں آنا ضروری ہوگیا ہے ۔۔میں کراچی میں رہتے ہوئے بھی ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ رابطوں میں تھا اور ان کو صحافیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کررہا تھا ۔۔میں نے ضروری سمجھا کہ اب ان ارکان سے بالمشافہ ملاقات کی جائے ۔پنجاب کے دوستوں کو اپنے پروگرام سے مطلع کیا تو فیصل آباد اور لاہور کے دوستوں نے کہا کہ براہ راست اسلام آباد جانے کی بجائے پہلے ان کے شہروں میں آیا جائے ۔۔تو پھر یہ طے پایا کہ پہلے فیصل آباد جایا جائے ۔۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے مشہور اس شہر میں صحافیوں نے بھرپور استقبال کیا ۔فیصل آباد پریس کلب میں صحافی دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔۔ان کا دکھ بھی وہی تھا جو کراچی کے صحافیوں کا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ دکھ کی ایک امر بیل ہے جس نے کراچی سے خیبر تک صحافیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔۔فیصل آباد کے ساتھی اپنی داستان غم سناتے رہے ۔۔مجھ اس میں کچھ نیا نہیں لگا ۔۔وہی مالکان کی ریشہ دوانیاں ،وہی حکومتوں کی بے حسی اور وہی عظیم صحافی رہنماؤں کی شعبدہ بازیاں ۔۔مجھے اس بات کا یقین آگیا کہ ”عظیم رہنما” عظیم ہی ہوتا ہے چاہے وہ کراچی کا ہو یا ملک کے کسی دوسرے شہر کا ۔۔ان کی ذہنیت ایک ہی ہے ۔۔ان کا ایجنڈا ایک ہے ۔۔اور ان کا کھانے پینے کا طریقہ کار بھی ایک ہے ۔خیر فیصل آباد کے صحافیوں کے ساتھ نیوز ایکشن کمیٹی کے اغراض و مقاصد اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی ۔۔صحافی دوستوں نے مجھے اپنے بھرپور کا تعاون کا یقین دلایا جس سے میرے حوصلے مزید بلند ہوئے ۔۔فیصل آباد سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوتے ہوئے میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کررہے تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ ”لیڈگردی” آخر ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے ؟؟؟تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ملک بھر کے صحافیوں کے سامنے ان عظیم رہنماؤں کے چہرے بے نقاب ہورہے ہیں اور وہ کھل کر ان کے کردار پر بات کرنے لگے ہیں ۔اسلام آباد میں ابھی صبح کا ناشتہ کرہی رہا تھا کہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کی کال آگئی ۔وہی محبت بھرا لہجہ تھا ۔کہنے لگے کہ گاڑی بھجوارہا ہوں فوری طورپر پارلیمنٹ ہاؤس آجاؤ۔۔مشاہد اللہ خان بذات خود پاکستان کی ایک سیاسی تاریخ ہیں ۔انہوںنے جس شفقت کے ساتھ گفتگو کی اور صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا اس نے میرے دل میں ان کے لیے عزت مزید بڑھادی ۔ڈاکٹر نفیسہ شاہ ،شاہدہ رحمانی ،قادر پٹیل ،سینیٹر حمد اللہ خان ،سینیٹر رحمن ملک اور دیگر جتنے بھی ارکان پارلیمنٹ سے بات ہوئی ان سب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ صحافیوں کے مسائل کو پارلیمنٹ میں ضرور اٹھائیں گے ۔شاہدہ رحمانی نے تو یہ بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے قرارداد پاس کروانے کی بھی کوشش کریں گی ۔میں ایک طرف اپنے سیاسی رہنماؤں کے کردار کو دیکھ رہا تھا جو سیاسی جماعتوں کی تفریق سے بالاتر ہو کر میری جدوجہد میں ہاتھ بٹانے کا وعدہ کررہے تھے اور دوسری جانب وہ عظیم رہنما ہیں جنہوںنے مفادات اور انا کے باعث صحافتی تنظیموں کے اتنے گروپس بنالیے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ان کو گنتی میں شمار کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔۔۔میرے لیے ایک اور بات حیرت انگیز تھی وہ یہ کہ ان ارکان پارلیمنٹ کی گفتگو سے مجھے یہ انداز ہ ہوا کہ وہ اب تک موجودہ میڈیا بحران کی سنگینی سے آگاہ نہیں تھے ۔۔۔۔ان کو علم ہوتا بھی تو کیسے ۔۔عظیم صحافی رہنما تواپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے اور صحافیوں کو ایندھن بنا کر اپنے محلات کو مزید سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں ۔۔تو ان سیاسی رہنماؤں کو ان حالات سے کون آگاہ کرتا ۔سپریم کورٹ کے باہر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے بھی ملاقات ہوئی اور انہیں سندھ کے صحافیوں کو ریلوے کارڈ کے حصول کے حوالے سے مشکلات سے آگاہ کیا ۔۔انہیں یہ بتایا کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے ہمارے عظیم رہنما صحافیوں کو حکومت سندھ کا ایکری ڈیشن کارڈ دلانے سے بھی قاصر ہیں ۔اس لیے آپ ہی تھوڑا سا رحم کریں اور بھو ل جائیں ان لمحوں کو جب کچھ جغادری رہنما آپ کو کہہ رہے تھے کہ اس کے مائیک ہٹاؤ اور اس نے اگر ہمارے کارڈز نہیں بنانے تو نہ بنائے ۔شیخ رشید بڑے دل کے آدمی ہیں ۔انہوںنے پوری سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ سنا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کے حل کے لیے جلد اقدامات کریں گے ۔اس سفر نے میرے عزم کو مزید توانا کردیا ہے ۔کراچی سے اسلام آباد تک کا صحافی بس ایک بات سوچ رہا ہے کہ جن کو ہم نے چوکیداری پر بٹھایا تھا انہوںنے ہی ہمارے ”گھر ” کو لوٹ لیا ہے ۔۔ان کے اور کسی بادشاہ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں ۔کسی صحافی کی مدد کا کہا جائے تو کہتے ہیں کہ اس کو کہے کہ مجھے کال کرے ۔وہ کیوں کال کرے آپ کے علم میں معاملہ آگیا ہے تو خود رابطہ کریں ۔۔یہ آپ کی گردنوں میں اتنا سریہ کہاں سے آ گیا ہے ؟؟میں آپ کو متنبہ کررہا ہوں کہ ملک بھر کے صحافیوں کے ذہنوں میں بس اب ایک ہی بات ہے اور وہ یہ کہ چوکیدار بدلنے کا وقت آگیا ہے ۔۔آج بدلے یہ کل بدلے ۔۔ان چوکیداروں کو نہ صرف گھر جانا ہوگا ۔۔بلکہ حساب بھی دینا ہوگا کہ کچی آبادیوں سے محلات کا سفر انہوں نے کس طرح طے کیا ۔۔(عمیر علی انجم)۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں