aik tabah saath | Imran Junior

چل فر۔۔۔ چلئے۔۔۔؟؟

چل فر۔۔۔ چلئے۔۔۔؟؟

علی عمران جونیئر

روزنامہ نئی بات، کراچی

28-Dec-2018

دوستو،ایک لاہوری کے پاس موت کا فرشتہ آیا،کہنے لگا، میں تمہارے لئے آیا ہوں، تمہیں اپنے ساتھ لے جانا ہے۔۔لاہوری نے کہا، کیوں؟ میں ٹھیک توہوں، خوش ہوں، صحتمند ہوں۔۔فرشتے نے جواب دیا، تم اپنا موبائل بغیر لاک کئے گھر بھول آئے ہو اور وہ تمہاری بیوی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔۔لاہوری لمبا ’’پے‘‘ گیا اور برجستہ بولا۔۔ چل فر چلئے ۔۔آج جمعہ مبارک ہے اس لئے ہماری پوری پوری کوشش ہوگی کہ آپ کے ساتھ مثبت باتیں کریں اور مثبت باتوں سے ہی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کریں۔۔
شوہر تھکاہارا گھر لوٹا ،بیگم سے پوچھا کیا پکا ہے؟جواب ملا۔۔ مٹن بریانی ۔۔شوہر خوشی خو شی ہا تھ دھو کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا، ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا تو سامنے گوبھی تھی۔۔غصے سے بولا، یہ کیا مذاق ہے؟بیگم نے مسکراتے ہوئے کان میں سرگوشی کی۔مثبت رپورٹنگ ڈارلنگ۔۔ایک سہیلی نے دوسری سے کہا۔۔ساری زندگی میری ماں نے گھر سنبھالنے کی تربیت کی۔ اس لیے جب میرے شوہر نے مجھے چھوڑا، میں نے فورا اس کا گھر سنبھال لیا۔۔یعنی سہیلی نے اپنی ماں کی بات کو مثبت لیا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر گھر سنبھال لیا۔۔والدہ نے جب انتہائی پیارسے اپنے بیٹی سے پوچھا کہ۔۔.بیٹی ،تم اپنی پھوپھی کے بیٹے سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔بیٹی نے ماں کی طرف غور سے دیکھا پھر کہا، ماں، وہ عجیب خیالات کا مالک ہے، اس کو جنت تو دور کی بات ہے جہنم پر بھی یقین نہیں ۔۔ماں اپنی صاحبزادی کی بات سن کر مسکرائی اور بڑی بے نیازی سے کہا۔۔ تو تم اس سے شادی کر لو ،چند دن میں اسے کم از کم جہنم پر تویقین آہی جائے گا۔۔اب ایسا بھی نہیں مائیں بھی مثبت سوچ سکتی ہیں۔۔

خاتون خانہ نے ایک دن اپنے شوہر کا موبائیل چیک کیا، جہاں کچھ نمبر اس طرح محفوظ تھے۔۔ آنکھوں کا علاج۔۔ہونٹوں کا علاج، دل کا علاج۔۔بیوی نے نہایت غصے میں اپنا نمبر ڈائل کیا،تاکہ اسے علم ہوسکے کہ شوہر نے اس کا نمبر کس نام سے ’’سیو‘‘ کیا ہے، تو اسکرین پر آیا۔۔لاعلاج۔۔۔میاں بیوی ’’آگرا‘‘ جا رہے تھے،جہاں پیسے کنویں میں ڈالنے سے مرادیں پوری ہوجاتی ہیں !!!میاں جی نے ایک روپیہ ڈالا،اس کے بعدبیوی نے کوشش کی اور توازن کھو بیٹھی اور خود کنویں میں جا گری!!!میاں جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے۔۔’’ اتنی جلدی‘‘۔۔خاتون خانہ وکیل کے پاس گئیں اور کہا، میں اپنے شوہر سے صلح کرنا چاہتی ہوں ۔۔وکیل نے کہا ، مگر آپ نے تواپنی مرضی سے علیحدگی اختیار کی تھی ؟ ۔۔خاتون نے کہا، ہاں وہ تو ٹھیک ہے ،مگر وہ جب سے الگ رہ رہا ہے بہت خوش دکھائی دیتا ہے اوریہ بات میں برداشت نہیں کر سکتی ۔۔اب اس میں منفی بات تلاش نہ کریں، کسی کا گھر بسنے جارہا ہے، اس لئے یہ بھی مثبت بات ہے۔۔ایک آدمی ماہرنفسیات کے پاس گیااور کہا، احساس کمتری کا شکار ہوں ،خود کو گھٹیا لگتا ہوں،ماہر نے 2 گھنٹے اسکے خیالات نظریات سنے ،مسلسل نوٹس لیتا رہا،گفتگو ختم ہوئی تو ماہر نے آدمی کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا، بات یہ ہے برادر، تمہیں احساس کمتری وغیرہ کچھ نہیں ہے بلکہ دراصل تم ہو ہی گھٹیا انسان۔۔

مثبت سوچ کا ایک عملی واقعہ اور سن لیجئے۔۔ بھولا چھٹی کے وقت دفتر سے گھر جانے کے لئے نکلا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر اسے ایک آدمی نے رکنے کا اشارہ کیا اور لفٹ مانگی۔ آدمی حلیے سے پڑھا لکھا اور معزز معلوم ہوتا تھا لہٰذا اس نے اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا لیا۔۔کیوں نہ میں آپ کو ایک سبق آموز قصہ سناؤں؟ وقت اچھا کٹ جائے گا۔ معزز آدمی نے رستے میں پوچھا ۔۔بھولے نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، جی ضرور۔۔پیچھے بیٹھے معزز شخص نے بولنا شروع کیا۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شجر کی ٹہنی پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ وہ سارا دن کھاتا پیتا اور گانا گاتا رہا تھا اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ کب شام ہوئی اور کب اندھیرا چھا گیا۔ بلبل اسی پریشانی میں تھا کہ اب آشیاں تک کیسے پہنچے ، ایک جگنو اس کی مدد کو پہنچا۔ جگنو نے روشنی کر کے بلبل کو راستہ دکھایا اور اسے منزل تک پہنچا دیا۔ معزز آدمی نے کہانی سنائی اور اتنے میں اس کا سٹاپ آگیا اور وہ موٹر سائیکل سے اتر گیا۔۔۔بھولے نے کہا۔۔کہانی سنانے کا شکریہ، مگر یہ میں بچپن میں ہی سن چکا ہوں۔معزز اجنبی نے جواب دیا۔۔دراصل آپ نے بچپن میں جو کہانی سنی وہ ادھوری تھی۔ بقیہ کہانی یہ ہے کہ جیسے ہی جگنو بلبل کو چھوڑ کر واپس جانے کیلیے مڑا، بلبل جسے گھر پہنچ کر دوبارہ بھوک لگ چکی تھی، نے چونچ بڑھائی اور جگنو کو ہڑپ گیا۔۔بھولا حیرت زدہ رہ گیا،کہنے لگا۔۔اوہ، مگر اس کہانی سے اخلاقی سبق کیا ملتا ہے۔۔؟معزز اجنبی نے کہا۔۔یہ تو آپ کو گھر پہنچ کر ہی معلوم ہو گا۔یہ کہہ کر اس نے بھولے کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔۔بھولاسوچ میں ڈوبا گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی جیب میں بٹوا نہیں ہے۔ اب اسے کہانی کا اخلاقی سبق اچھی طرح سمجھ آ گیا اور ساتھ ہی ابا جی کا قول بھی کہ بیٹا اس زمانے میں سبق بھی مفت میں نہیں ملتا۔۔

سبق پہ یاد آیا ، ایک اور سبق بھی لے لیں، ہمارے ایک دوست نے لاہور میں یہ واقعہ سنایاتھا، کہنے لگے، ایک سگنل پہ کھڑا تھا کہ اچانک ایک موٹرسائیکل سوار نے ریڈ سگنل توڑا، پیچھے سے 5 نے اس کی تقلید کی اور سگنل توڑ ڈالا۔۔ٹریفک وارڈنز نے پہلے کے علاوہ تمام کا چالان کاٹ دیا۔۔باقیوں نے پوچھا، پہلے والے کو کیوں چھوڑ دیا۔۔ وارڈن نے کہا، یہ ہمارا ہی آدمی ہے ،یہ واپس جائے گا،ریڈ سگنل توڑے گا اور آپ کی طرح 4۔5 موٹرسائیکل سواروں کو دوبارہ پھنسوائے گا۔۔ہمیں بھی تو ٹارگٹ پورے کرنے ہوتے ہیں۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ کے پاس ایک سیب ہو اور میرے پاس بھی ایک، اور ہم ان سیبوں کا آپس میں تبادلہ کر لیں، توکچھ بھی نہیں ہوگا، آپ کے پاس بھی ایک سیب رہے گا اور میرے پاس بھی ایک سیب رہے گا۔اگر آپ کے پاس ایک اچھا خیال (آئیڈیا) ہو اور میرے پاس بھی ایک اچھا خیال ہو، اور ہم اپنے اپنے خیالات کا آپس میں تبادلہ کریں توآپ کے پاس دو خیالات ہوجائیں گے اور میرے پاس بھی دو خیالات۔گویا علم ، خیالات ، تجربہ بانٹنے سے بڑھتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں