کیا بول کاڈبہ گول؟
دوستو، سانحہ ایگزیکٹ کو ابھی دوسال گزرے دو دن بھی نہیں ہوئے کہ چینلز مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن پھر سامنے آگئی، اس بار یہ کھل کر میدان میں اتری ہے۔۔ستر سے زائد چینلزکے مالکان کی تنظیم پی بی اے نے چیف جسٹس، وزیراعظم پاکستان اور وزیر داخلہ سے اپیل کی ہے، پورے صفحے کی یہ اپیل مختلف ٹاپ اخبارات میں شائع بھی کی گئی۔۔جن کی مالیت بلاشبہ کروڑوں میں تو ہوگی۔۔ اپنے اشتہار میں پی بی اے نے پھر پرانے راگ الاپے ہیں،کافی رونا رویا ہے،کئی سوالات اٹھائے ہیں، کئی معاملات پر شکوک کا اظہار بھی کیا۔۔ اشتہار میں کہا گیا کہ امریکا میں پکڑا جانے والا ایگزیکٹ کا سینیئر ملازم عمیر حامد کراچی میں بھی گرفتار ہوا تھا لیکن پھر یہاں سے ریلیز کیسے ہوا؟ بول کے فنڈز کہاں سے آرہے ہیں۔۔چلیں سب سے پہلے اشتہار کی بات کرتے ہیں۔۔ پی بی اے کے اشتہار کا آغاز ہی سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر تشویش سے ہوا جس میں بول کو اپنا آپریشن جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔۔ اشتہار کی دیگر خاص باتوں میں یہ کہاگیا کہ میڈیا میں جرائم پیشہ افراد کی جانب سے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔۔ پی بی اے کو اس پر تشویش ہے کہ کیونکہ اس میڈیا کو غیرقانونی آفشور اکاؤنٹس اور جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے چلایاجارہا ہے۔۔امریکی ایف بی آئی نے ایک اسٹنگ آپریشن کے دوران ایگزیکٹ کے سینیئر عہدیدار عمیر حامد کو گرفتارکیاجس کے قبضے سے 14 کروڑ ڈالر بھی برآمد ہوئے اور اس نے اعتراف جرم بھی کیا، یہی عمیر حامد پاکستان میں بھی گرفتار ہوا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اسے رہا کردیاگیا اور یہ امریکا چلا گیا۔۔ایک طرف عمیر حامد سے 14 کروڑڈالر ملتے ہیں جب کہ دوسری جانب شعیب شیخ صرف 26 روپے ٹیکس قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔۔عمیرحامد کو امریکا میں بیس جولائی کو سزا سنائی جائے گی۔۔عمیر نے دوران تفتیش جن دو لوگوں کے نام لئے اور جنہوں نے اکاؤنٹس کھلوانے میں مدد کی وہ شعیب شیخ کے رشتہ دار نکلے۔۔شعیب شیخ اور وقاص عتیق کی امریکا میں تین شیل کمپنیوں کا بھی انکشاف ہوا۔۔ ایک ایسے ادارے کو جسے امریکا میں سزا سنائی گئی ہو پاکستان میں بطور میڈیاآپریشن کی اجازت دینے پر پی بی اے نے اپنی تشویش کا اظہار کیاپی بی اے کے مطابق ایسا کرنے سے قوم اور قومی سلامتی پر اس کے برے اثرات مرتب ہونگے۔۔شعیب شیخ نے امریکی عدالتوں میں اعتراف کیا ہے کہ یہ غیرقانونی آفشور کمپنیاں ان کی اور ایگزیکٹ کی ملکیت ہیں، جس کے بعد ایگزیکٹ پر کچھ الزامات بھی لگائے گئے اور ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کے حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقات پر پی بی اے نے تحفظات کااظہاربھی کیا۔ پی بی اے نے سوال کیا کہ بول کے ذرائع آمدن کیا ہیں، اس کی فنڈنگ کیسے اور کہاں سے ہورہی ہے؟ بول ملازمین کو تین سو ملین ماہانہ تنخواہیں اور دیگر مد میں اخراجات کئے جارہے ہیں، اکتوبر 2016 سے اب تک یہ رقم ڈیڑھ ارب روپے بنتی ہے، یہ سب کیش دیا گیا اتنی رقم کہاں سے آئی؟ تین ارب روپے بول اور ایگزیکٹ کی عمارتوں پر خرچ کئے گئے۔۔ایک ارب روپے کی مشینری اور آلات درآمد کئے گئے۔۔ دس ارب روپے کے انعامات رمضان ٹرانسمیشن کیلئے اناؤنس کئے گئے جس میں تین ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔۔ اگست 2015 سے اب تک ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ایگزیکٹ اور بول کے اکاؤنٹس اور جائیداد فریز کا آرڈر دے چکی ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہورہا ؟ شعیب شیخ کی ضمانت پر ایف آئی اے کے وکیل اور تفتیشی افسر نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ 69 گواہان کو پراسرار انداز میں کیس سے کیوں ہٹادیاگیا اور ان کی گواہی کیوں نہیں لی گئی؟ تفتیشی افسر نے سپریم کورٹ کے احکامات کو غلط کیوں لیتے ہوئے ایگزیکٹ کی عمارت واپس کیوں کی جب کہ ایسا کوئی حکم نہیں دیاگیا تھا۔۔ بول کے ایک ارب روپے کی مشینری کو جسے کسٹم اینٹلی جنس نے “سیز” کیا تھاغیرقانونی طور پر استعمال ہورہی ہے اور ایف بی آر نے اس کی اب تک کوئی انکوائری شروع کیوں نہیں کی؟ بولنے چیئرمین پیمرا کی ہتک آمیز فوٹیج چلائی ، اس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ پمیرا نے بول کو ایک زبان میں آن ائر ہونے کا لائسنس دیا ہے، پھر اسے پانچ زبانوں میں کیوں چلایاجارہا ہے؟ پی بی اے نے اپنے اشتہار میں وزیراعظم،چیف جسٹس اور وزیرداخلہ سے فوری طور پر بول کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔۔اور ساتھ ہی جوڈیشل کمیشن بنانے کی اپیل بھی کی جو ایگزیکٹ اور بول کے معاملات، ان کے ذرائع آمدن وغیرہ کی تحقیقات کرے۔۔یہ تووہ ساری باتیں تھیں جو چینل مالکان کی تنظیم پی بی اے نے اپنے اشتہار میں کہی۔۔ آ پ لوگوں کو یاد ہوگا دو سال پہلے بھی چینل مالکان نے اچانک ایگزیکٹ کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی، اس وقت بہانہ ایگزیکٹ تھا لیکن نشانہ بول ہی تھا، اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہے، ایگزیکٹ کی آڑ میں بول کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔۔نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اسٹوری کے بعد سے مسلسل ایگزیکٹ اور بول ہی پاکستانی میڈیا کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔۔پیمرا کے ذریعے پہلے بھی پابندی لگائی لیکن عدالتوں نے انصاف فراہم کیا، تین مئی کو بھی پیمرا کے ذریعے سیکورٹی کلیئرنس کی منسوخی کی آڑ میں بول پر پھر پابندی لگائی گئی لیکن سندھ ہائیکورٹ نے یہ پابندی بھی ختم کردی۔۔پی بی اے نے بول کو ملک، قوم، جمہوریت اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے دیا۔۔ ایگزیکٹ کیس کی یادیں تازہ کیں۔۔یہ بتانے کی کوشش کی ایگزیکٹ دس سال سے جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا کاروبار کررہی ہے جس سے یہ پچاس ارب روپے کما چکے ہیں۔۔بول انتظامیہ نے اس اشتہار کا جواب بول پر اپنی نشریات کے دوران دینا شروع کردیا ہے۔۔شکوہ جواب شکوہ چل رہا ہے، پی بی اے کے الزامات کے جواب میں الزامات لگائے جارہے ہیں اور آخر میں ایک ہی بات کہی جاتے ہے کہ ہمارے لئے ایک اللہ ہی کافی ہے۔۔ بول کی جوابی مہم انتہائی ٹھس اور کسی ایسے شخص نے بنائی ہے جسے شاید اندازہ نہیں کہ پی بی اے چاہتی کیا ہے؟ بول کو کچھ عرصہ پہلے کی چودھری نثار کی پریس کانفرنس چلانی چاہیئے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ چینل مالکان کی تنظیم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور ایگزیکٹ اور بول کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی کی گئی۔۔بول کو پی بی اے کا وہ اشتہار بھی نکال کر قوم کو دکھانا چاہیئے جس میں بول بحران کے دنوں میں بول والاز کو کہا گیا تھا کہ وہ ہمیں اپنی سی وی بھیجیں ہم نوکریاں دیں گے۔۔ بول کو پی بی اے کے عہدیداروں کے خلاف حکومتی ایکشن اور ایف آئی آرز عوام کو دکھانی چاہیئے، وزیردفاع خواجہ آصف کا وہ کلپ دکھانا چاہیئے جس میں جیو کو صاف صاف ملک دشمن کہاگیا، سگریٹ فروش سیٹھ کی نیب سے پلی بارگین کی دستاویزات سامنے لانی چاہیئے۔۔ پی بی اے کے کئی سیٹھوں کی بہت سی کمزوریاں سب کو معلوم ہیں،صحافت کو صحافت کے طریقے سے کریں، پہلے بھی سمجھایا تھا کہ چینل کو چلانا آئی ٹی والوں کا کام نہیں، پروفیشنلز ہی پی بی اے کے پروفیشنلز کو شکست دے سکتے ہیں۔۔ بول والوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ اکیلا کیوں پڑرہا ہے؟ اب تو ساتھ میں وہ بول والاز بھی نہیں جو سیٹھوں ، فرعونوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے، منافقین کا ٹولہ شعیب شیخ صاحب کو تصویر کا ایک ہی رخ دکھارہا ہے، یہ منافقین شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتارہے کہ اب بھی سیکڑوں بول والاز اپنی واپسی کے منتظر ہیں، یہ منافقین شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتارہے کہ چینل چلانا آئی ٹی والوں کے بس کی بات نہیں پروفیشنلز کی خدمات لینی ہونگی۔۔ یہ منافقین اپنا الو سیدھا کررہے ہیں،اپنے قریبی جن لوگوں کو بول میں دوبارہ سے لگوادیا انہیں سمجھاتے ہیں کہ سرکاری نوکری سمجھ کر کام کرو۔۔یہ منافقین کبھی نہیں بتائیں گے کون سے بیورو نے کتنا کام کیا؟ یہ منافقین کبھی نہیں بتائیں گے کہ آپ کا چینل ریٹنگ میں کہیں نہیں کھڑا۔۔ یہ منافقین کبھی نہیں بتائیں گے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کے علاوہ آپ کےپاس کوئی ایسی ” فیگر” نہیں جسے لوگ دیکھنے پر مجبور ہوں۔۔ یہ منافقین کبھی شعیب شیخ کو نہیں بتائیں گے کہ بول والاز جو اب تک واپس بول میں نہیں آسکے انہیں جلد سے جلد واجبات دے کر جان چھڑائیں کیونکہ یہی بول والے بحران کے دنوںمیں بول کا چہرہ تھے اور اب یہ بول کے خلاف میدان میں اترے تو بول کی ساکھ متاثر ہوگی۔۔ یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ انہوں نے اقرا یونیورسٹی سے کن شرائط پر ہول سیل میں انٹرنی طلبا کو بطور صحافی بھرتی کرایا۔۔یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ بول کی طرح پاک نیوز بھی عوام کی توجہ اب تک حاصل نہیں کرسکا۔۔ یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ آپ کا ایک اعلیٰ ترین افسر کسی اور چینل کی بھی رمضان ٹرانسمیشن میں ان کی ہیلپ کررہا ہے۔۔۔یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ بول کا کوئی پروگرام عوام میں ہٹ نہیں ماسوائے عامر لیاقت جو پروگرام کرے۔۔یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ او ایس آرز میں کتنے بدنام زمانہ، اشتہاری، بھتہ خور رپورٹرز رکھے گئے ہیں۔۔یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ بول میں کتنے افسران کے کتنے رشتہ دار کام کررہے ہیں، کتنے افسران نے کتنے سفارشی بھرتی کرائے، کتنے افسران کے کتنے گھر والے وہاں ملازمت پر لگ گئے ہیں۔۔ یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو یہ نہیں بتائیں گے کہ مثبت پاکستان کا چہرہ دکھانے،سنسنی خیزی سے گریز کی پالیسی کے خلاف بول کے کاپی لکھنے والوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ٹکرز سے لے کر نیوز سب میں مصالحہ ڈالو، سنسنی ڈالو۔۔ یہ منافقین کبھی شعیب شیخ صاحب کو نہیں بتائیں گے کہ بول میں خبریں بنانے والوں کی اکثریت کو اردو لکھنی تک نہیں آتی، وہ بیچارے اسکرپٹ رومن اردو میں لکھتے ہیں۔۔باتیں تو بہت ساری ہیں فی الحال جو کہا اسی پر غور کرلیا جائے، اسی کی تحقیق کرلی جائے اور ان غلطیوں کو درست کرلیا جائے تو بول میں کافی بہتری آسکتی ہے۔۔ پی بی اے کی بات کرتے ہیں، پی بی اے کو کس نے حق دیا کہ وہ کسی چینل کو اس طرح علی الاعلان بندکرانے کی مہم چلائے، بول میں ہمارے ہزاروں ورکرز دوست،بھائی، بہنیں کام کرتی ہیں، کیا ہماری صحافتی تنظیمیں ستو پی کے سورہی ہیں جو اس اشتہار کے خلاف کسی نے ایک لفظ نہیں بولا۔۔ کیا صحافتی تنظیمیں سیٹھوں اور چینل مالکان کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی ہیں؟ کیا صحافتی لیڈرز پی بی اے کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں؟ چینل چاہے کوئی بھی ہو، جیو ہو یا اے آر وائی، دنیا ہو یا سما، ڈان ہو یا آج، نیوزون ہووقت، 92 ہو یا 24، دن ہو یا نیو، کاوش ہو یا سچ، روز ہو یا کیپٹل، ہر جگہ کارکن کام کرتے ہیں، کسی بھی چینل کا بند ہونا وہاں کے سینکڑوں ورکرز کے بیروزگار ہونے کے مترادف ہے، پی ایف یو جے کا تمام دھڑوں کو اس کا سختی سےنوٹس لینا ہوگا، بول کی بندش کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی،پی بی اے جو یہ مطالبہ کررہی ہے کہ بول کو بند کیا جائے خود ان کے ارکان چینلز میں کارکنوں کا حال کیا ہے یہ سب جانتے ہیں۔۔پی بی اے چینل مالکان کی ایک تنظیم ہے وہ صرف اپنے رکن چینل کے اخراجات کے بارے میں پوچھ سکتی ہے، جو چینل ان کی تنظیم کا رکن ہی نہیں وہ اس سے اخراجات اور آمدنی کے بارے میں کوئی سوال کیسے کرسکتی ہے؟ پی بی اے نے تو بول بحران کے دنوں میں اسی طرح کے پورے پورے صفحےکے اشتہارات ٹاپ کے اخبارات میں شائع کرائے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ تنخواہوں سے محروم بول والاز انہیں سی وی بھیجیں وہ ان کے ارکان چینلز انہیں نوکریاں دینگے، یہ بھی بتائیں کہ کتنے لوگوں کو نوکریاں دی گئیں؟ پی بی اے کو ان ورکرز کا خیال کیوں نہیں آتا جنہیں ان کے ارکان کئی کئی ماہ تاخیر سے تنخواہ دیتے ہیں، ان ارکان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتے جہاں ماسوائے چند ایک کے کوئی بھی وقت پر تنخواہ نہیں دیتا، اپنے ان ارکان سےکیوں نہیں پوچھتا ان کے ورکرز کی لائف انشورنس نہیں ہوتی۔۔ پی بی اے کوئی بھی مطالبہ کرے یہ اس کا آئینی و قانونی حق ہے لیکن بول کو بند کرنے کا مطالبہ کسی صور ت تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔۔ اس کیلئے صحافتی تنظیموں اور پی ایف یو جے کے تمام دھڑوں اور ان کے قائدین کو ایک نکتہ پر اکٹھا ہونا پڑے گا، ورنہ پھر پوری میڈیاانڈسٹری ایک بار پھر بحران کی زد میں ہوگی اور پی بی اے کے ارکان پھر من مانیوں کےلئے آزاد ہونگے اور برق گرے گی تو غریب ورکر پر۔۔امید ہے میری بات کا نوٹس لیا جائے گا
(علی عمران جونیئر)