aik tabah saath | Imran Junior

انڈہ فرائی اور۔۔فرائیڈ۔۔۔

انڈہ فرائی اور۔۔فرائیڈ۔۔۔

علی عمران جونئیر

روزنامہ نئی بات، کراچی

23-Dec-2018

دوستو،آج صبح صبح ہمارے ہاتھوں پاکستانی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا،ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ہاتھ سے ایک انڈا گرکرٹوٹ گیا۔۔جب سے ہمارے محترم وزیراعظم صاحب نے انڈے ،مرغیوں اور کٹوں کے حوالے سے معاشی سبق دیا ہے، ہمارے ایک دوست تو اپنی گرل فرینڈ کو اب یہ طعنہ دیتے نظر آتے ہیں کہ۔۔ خرید لونگا تمہیں تمہارے نخروں سمیت۔۔ذرا میرا انڈے مرغیوں کا کاروبار تو چلنے دو۔۔وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان بھی کردیاگیا ہے، جہاں دو نئی ڈگریاں، بی ایس ’’ککڑیالوجی‘‘ اور بی ایس ’’کٹیالوجی‘‘ بھی شروع کی جارہی ہیں۔۔ یوسفی صاحب فرماتے ہیں۔۔ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے۔۔

معروف مزاحیہ شاعر پروفیسر عنایت علی خان کے کچھ شعر بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں۔۔وہ کہتے ہیں۔۔ہم ان کو لائے راہ پر مذاق ہی مذاق میں،بنے پھر ان کے ہم سفر مذاق ہی مذاق میں۔۔پڑے رہے پھر ان کے گھر مذاق ہی مذاق میں،مزے سے ہو گئی بسر مذاق ہی مذاق میں۔۔موجودہ حکومت کے حالات بالکل ان شعروں پر پورا اترتے ہیں۔۔کل پیارے دوست نے ایک فنی قسم کا واٹس ایپ میسیج بھیجا۔۔۔پیپلز پارٹی والے دیکھ کر چلیں آگے نون لیگ پر کام ہورہا ہے ،منجانب برائے نام نیب ۔۔میسیج پڑھ کر ہمارے لبوں پہ بھی مسکراہٹ بکھرگئی۔۔ ویسے یہ بات بھی سوفیصد حقائق پر مبنی ہے کہ پاکستان کاعدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ فیصلہ ہونے تک فریقین یہی بھول جاتے ہیں کہ جھگڑا کس بات پر ہوا تھا۔۔

لاہور سے کراچی آگئے ہیں، وہاں کی سردی اور کراچی کی ٹھنڈ میں بس اتنا سا فرق ہے کہ لاہور کی سردی سے انسان بیمار نہیں ہوتا، کراچی کی سردی میں ہمارا بس یہی کام ہوتا ہے، کبھی نزلہ،کبھی کھانسی،کبھی زکام ہوتا ہے۔۔آج کل یہاں ایسا موسم چل رہا ہے کہ کسی کو کمرے میں جاکر سلام کرو تو جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کے بجائے کہاجاتا ہے،دروازہ بندکردو۔۔ہمارے پیارے دوست نے سردیوں میں صبح جاگنے کے کچھ ایسے اصول دریافت کئے ہیں، جو صدیوں کی تحقیق کے بعد بھی کسی کا باپ دریافت نہ کرسکا۔۔پیارے دوست کہتے ہیں، سردیوں میں نیند سے اٹھ کر پانچ دس منٹ لیٹے رہیں،دس منٹ رضائی میں بیٹھے رہیں اور دس منٹ صرف یہ سوچیں کہ ابھی نکلوں یا دس منٹ بعد۔۔ اور پھر موڈ نہ بنے تو دس منٹ کے لئے دوبارہ لیٹ کر پراسس دہرائیں۔۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ سردترین علاقوں میں رہنے والے یورپی لوگ رضائیوں سے کیسے نکلے اور ترقی بھی کر لی۔۔جب کہ ہمیں تو بیڈ سے واش روم جاتے ہوئے موت پے جاتی ہے۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں۔۔سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔۔ ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں،کراچی کی سردی ایسی ہے کہ ایک بندہ جو دن میں گولا گنڈا بیچ رہا ہوتا ہے ،وہی رات میں چکن کارن سوپ بیچ رہا ہوتا ہے۔۔ ملک صاحب بھی استفسار کررہے ہیں کہ کیا اس ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جو ’’خشک سردی‘‘ پر بیماریوں کے الزام میں 90روزہ جسمانی ریمانڈ لے سکے؟؟ وزیراعظم سے اپیل ہے کہ ۔زرا مونگ پھلی کی تعریف تو کردیں تاکہ اپوزیشن والے اسے کھانا بند کردیں تو یہ خود ہی سستی ہوجائے۔۔ویسے آج کل 60 روپے کی پاؤ مونگ پھلی لیں توبادام ،کاجو، پستہ اور چلغوزے مفت میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔۔جو لڑکے شادی سے پہلے بہنوں کو مونگ پھلی کی فرمائش پہ کہتے ہیں آج کل ہاتھ تنگ ہے شادی کے بعد وہی چھپ چھپ کہ بیگم کے لئے چلغوزے لے جاتے ہیں۔۔
کہتے ہیں کہ ہر چیز پیسے سے خریدی نہیں جاسکتی، ہر بجٹ اور منی بجٹ کے بعد ایسی اشیا کی فہرست میں اضافہ ہوجاتا ہے۔۔تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے، لیکن ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ تبدیلی سال،ہفتہ،دن ،مہینہ بدلنے سے نہیں، شادی سے آتی ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ میرے سارے دوستوں نے گھونگٹ اٹھالئے جب کہ میں آج تک لوگوں کو کہتا پھر رہا ہوں، دوپٹہ اٹھالیں، ٹائر میں آجائے گا۔۔علی ترین نے پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم خرید لی اورکہنے لگے، پپا،غیرملکی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار نہیں، جہانگیر ترین نے فوری طور پر جہاز نکالنے کا حکم دے دیا۔۔

ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی ’’جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا، کھیل کھیل نہیں رہتا، کام بن جاتا ہے۔۔ اور پتنگ بازی میں بوجھ دماغ کے بجائے کوٹھے پر پڑتا ہے۔جس طرح پتنگ بازی میں ’’ڈور‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سیاست میں ’’بیک ڈور‘‘ کی لازمی ضرورت پڑتی ہے، ڈاکٹر یونس بٹ پتنگ بازی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔امریکا اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ خدا تک پہنچنے کے لئے خلائی شٹل کا سہارا لینے کا منصوبہ بنارہے ہیں جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر سال بذریعہ ’’پتنگ‘‘ کئی لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دنیا کا نامور نفسیات دان سگمنڈ فرائڈ یہودی تھا‘ اس کا والدجیکب فرائڈ اْون کا کاروبار کرتا تھا‘ یہ لوگ آسٹریا میں رہتے تھے‘ سگمنڈ فرائڈ کا والدسرپر یہودیوں کی مخصوص ٹوپی رکھتا تھا‘ فرائڈ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ کہیں جا رہا تھا‘ یہ لوگ فٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ وہاں سے اچانک جرمن نوجوانوں کا ایک گروپ گزرا‘ انھوں نے فرائڈ کے والد کو دیکھا تواس کے سر سے ٹوپی نوچی‘ سڑک پر پھینکی‘ گالیاں دیں‘ تھپڑ اور ٹھڈے مارے اور فرائڈ کے والد کو فٹ پاتھ پر گرا کر چلے گئے‘ فرائڈ کا والد اٹھا‘ اس نے سڑک سے ٹوپی اٹھائی‘ جھاڑی‘ سر پر رکھی اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا‘ فرائڈ نے گھر واپس پہنچ کر والد سے پوچھا ’’ ہمارے ساتھ بہت برا سلوک ہوا مگر آپ خاموش رہے، کیوں؟‘ والد نے اثبات میں سرہلایا اور بولا ’’ بیٹا‘ میں اگر چاہتا تو میں بھی ان سے بھڑ جاتا‘ میں گالی کا جواب گالی سے دیتا‘ پانچ تھپڑوں کے جواب میں ایک تھپڑ مار دیتا اور ان میں سے کسی ایک کو جکڑ کر نیچے دبا لیتا لیکن میں اگر ایسا کرتا تو تم پوری زندگی لوگوں سے بھڑتے رہتے اور میں یہ نہیں چاہتا ہوں‘‘۔۔مورال: بچوں کی تربیت کیلئے قربانیاں دینی لازمی ہے،جو انہیں سکھائیں گے وہی کام آئے گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں