تحریر: سید عارف مصطفیٰ
عمران خان کی حکومت کے لیئے دن رات مشکلات بڑھتی جارہی ہیں اور اس مد میں بیشتر کام خود اسکے اپنے کررہے ہیں کیونکہ کوئی دن نہیں جاتا کہ جب وہ کسی نہ کسی طرح کوئی نیا محاذ نہ کھول لیتے ہوں یا کوئی نیا فساد نہ کھڑا کردیتے ہوں ۔۔۔ اس ضمن میں خصوصی توجہ اس شعبے پہ ہے کہ جسے کسی بھی مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے یعنی میڈیا ۔۔۔ اس حوالے سے جھنجھلاتی پریس کانفرنسوں اور اشتعال انگیز بیانات کا ایک طومار سا بندھ گیا ہے اور نتیجتاً جنم لینے والے ناراضگی کے تلاطم میں وضاحتوں کے چپو چلانے اور رونماء ہونے والے صحافتی ردعمل کے آگے معذرتوں کے پشتے باندھنے کی مشق معمول بنتی جارہی ہے جو کہ بری طرح حکومتی جگ ہنسائی کا سبب بنتی جا رہی ہے ۔۔۔ وزیر اطلاعات فؤاد چوہدری کا حالیہ بیان اسی طرح کی آتشگیری نوعیت لیئے ہوئے ہے کہ جس میں انہوں نے علیمہ خان کی پراپرٹیز کے معاملے پر جیو نیوز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق وزیر موصوف اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں جیو نیوز پر برس پڑے اور انہوں نے یہ کہا کہ علیمہ خان کے معاملے پر جیو نے صحافتی بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اور کہا کہ علیمہ خان نے اپنی جائیدادوں کی وضاحت دے دی ہےکیونکہ انہوں نے اپنی جائیداد کا اعتراف خود کیا ہے اور ایمنسٹی سکیم میں ڈکلیئر کی تھی۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکا خاص شکوہ یہ ہے کہ جیو نیوز کی جانب سے علیمہ خان کی امریکی ریاست نیو جرسی میں موجود فلیٹس کی سٹوری بریک کی گئی تھی اور یہ شکوہ خود انکے اس مؤقف کی سراسر نفی ہے کہ علیمہ خان نے بذات خود اپنی جائیداد کا اعتراف کیا ہے ۔۔۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اگر نیوجرسی کی جائیداد بھی ڈیکلیئر کرچکی ہوتیں تو کسی جانب سے بھی اسکے افشاء کی نوبت ہی کیوں اور کیسے آسکتی تھی اور اگر یہ انکشاف حقائق کے برعکس ہوتا تو علیمہ خان جھٹ پٹ خود ہی اس معاملے کو عدالت میں کیوں نہ لے جاتیں ۔ درحقیقت فؤاد چوہدری نے ایسا اعتراض کرکے میڈیا کو اسکا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی ہے کیونکہ میڈیا کا کام تو حقائق کو سامنے لانے ہی کا ہے اور اس ضمن میں اصلاح احوال کے لیئے حکومت کی جانب سے بھی اپنے پرائے کا کوئی بھی امتیاز ہرگز روا نہیں رکھنا چاہیئے –
یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر وطن عزیز میں نظآم کو شفاف کیسے بنایا جاسکے گا کہ جب کسی جانب سے کسی سقم کی نشاندہی پہ حکومت کی طرف سے ایسا جارحانہ و ملامتی انداز اپنا لیا جائے ۔۔؟ اور اسی سے جڑا ایک سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کی حکومت سے جڑے کئی اور تشویشی معاملات کا تذکرہ کیا صرف ایک ہی جانب سے ہوا ہے ۔۔۔ ؟؟ اس طرح کی کئی رپورٹیں اور انکشافات تو کئی جانب سے سامنے آتے جارہے ہیں ۔۔۔! دیانتداری سے دیکھا جائے توایسا کرکے درحقیقت جیو نے شفافیت کی دعویدار انکی حکومت کی مدد کی ہے کہ وہ ازخود اس صورتحال کا نوٹس لے کر اپنے امیج کو اور بہتر بنالے کہ یہ تو ایک بڑا اچھا موقع ہے کہ حکومت اس حوالے سے ایک اچھی مثال قائم کردے اور از خود تحقیقات کی راہ اپناکے معاملات کو بہتر کرلے ۔۔۔ لیکن ایسا کرنے سے گریز بلکہ جواب میں اطلاعات کے محاذ پہ مورچہ زن حکومتی وزیر کے اس قسم کے سنگین مخالفانہ بیانات کی گولہ باری کا عمل تو یقینی طور پہ شبہات کو جنم دیتا ہے – ہماری دانست میں مناسب اور مطلوب رویہ یہ ہے کہ وزیر اطلاعت محاذ آرائی کا انداز ترک کرکے خود اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر لیں اور حکومت کے لیئے کسی بدنامی سے بچنے کا یہ موقع فراہم کرنے پہ ایسے تمام اداروں کا شکریہ ادا کریں کہ جو نظام مملکت کو درپیش کسی بگاڑ کی یوں بروقت نشاندہی کرکے انکی معاونت کررہے ہوں-(سید عار ف مصطفیٰ)