maslon ka masla

پولیس کی قدر کرو۔۔

تحریر: خرم علی عمران۔۔

سوشل میڈیا بھی ایک بہت بڑا ہائیڈ پارک ہے جہاں کبھی کبھار بہت سی کام کی باتیں مل جاتی ہیں گو مستند ہوں کہ نہ ہوں دلچسپ ضرور ہوا کرتی ہیں۔  آج کل سوشل میڈیا پر پولیس کے تشدد اور نازیبا و ناروا رویئے کے بارے میں ویڈیوز کا ایک جیسے سیلاب سا آیا ہوا ہے اور سارے ملک سے عوام کے ساتھ پولیس گردی کے واقعات پوسٹ کئے جانے میں غیر معمولی تیزی سی آگئی ہے اور پھر اس پر ہمارے پیارے راج دلارے چیف منسٹر پنجاب جناب بزدار کے چہیتے آئی جی پنجاب نے ایک آرڈر جاری کیا ہے کہ تھانوں میں کیمرے والا موبائل لانے پر پابندی لگادی ہے تو اس پر سوشل میڈیا برادری کے کسی فطین ممبر نے پوسٹ لگائی کہ کیمروں پر پابندی کی بجائے ہر پولیس والے کی وردی میں کیمرہ لگادیا جائے توکافی سدھار آ سکتا ہے ۔ بات تو مزے کی ہے لیکن یہ صارف شاید اس بات سے پوری طرح آگاہ نہیں کہ پولیس اپنی وارداتیں  زیادہ تروردی میں نہیں ڈالا کرتی وہ جو کسی ادیب شاید منشا یاد نے ایک مختصرکہانی لکھی ہے نا کہ گھر میں ڈاکو آگئے تو میں نے بچوں کی اصل دکھنے والی کلاشنکوف سے انہیں دکھائی اور ڈرا کر بھگا دیا تو تھوڑی دیر میں پولیس آگئ کہ گھر میں غیر قانونی اسلحہ رکھتے ہوتو میں نے بتایا کہ جناب یہ تو بچوں کا کھلونا ہے ۔پولیس چلی گئی اور کچھ دیر بعد ڈاکو پھر آگئے۔

دراصل ہماری پولیس ہمدردی کی مستحق ہے دیکھیں نا کتنی ذمہ داریاں ہیں اور سہولتیں کچھ بھی نہیں اب ہونا تو یہ چاہیئے کہ منہ چڑانے والے صلاح الدین کو تشدد کرکے مارنے والے پولیس والوں کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی ہاتھ تھک گئے ہونگے پسینے چھوٹ گئے ہونگے لیکن اتنے بڑے کریمنل کو اتنی جاں فشانی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرکے مارنے والوں کو بجائے داد و تحسین عطا کرنے ترقی دینے یا تمغہ اور ایوارڈ دینے کی بجائے معطل کردیا گیا انکوائری بٹھادی گئی میں اس پر شدید احتجاج کرتا ہوں اور ان کی بحالی کا پرزور مطالبہ کرتا ہوں اور ترقی کی سفارش کرتا ہوں کہ ایسے نایاب نگینے کسی اور ملک کی پولیس کے پاس کہاں۔ پھر آپ یہ دیکھئے کہ سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہماری پولیس کتنی ساری غیر سرکاری ذمہ داریاں بھی تو رضاکارانہ طور پر قومی خمت کے جذبے سے سرشار ہوکر انجام دیتی ہے جس کی کوئی قدر ہی نہیں مثلا اپنے علاقے میں قحبہ خانوں،جوئے سٹے اور منشیات کے اڈوں پر کڑی نظر رکھنا کہ کسی فریق کے لئے بھی کوئی ڈسٹربنس پیدا نہ ہو، امن و مان برقرار رکھنے کے لئے عوام الناس کو وقتا فوقتا انکی اوقات یاد دلاتے رہنا اور ایک استاد ، ایک بڑے اورایک سرپرست کی سی شفقت سے انکی وجہ بے وجہ مولا بخش یا گھونسوں مکوں لاتوں سے خاطر تواضع کرتے رہنا، اسٹریٹ کریمنلز کی اصلاح کے لئے ان سے مکمل رابطے میں رہنا اور انکے لئے سہولتیں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ منتھلی کی وصولی کے وقت سبق آموز نصیحتیں کرتے ہوئے رو پڑنا۔ بڑے افسران کے سارے گھریلو امور سر انجام دیتے ہوئے بڑی فرض شناسی اور انتہائی پرعزم انداز میں ان کے لئے انکے علاقے سے بیٹ جمع کرکے ان تک پہنچانا۔

یہ تو وہ کارنامے ہیں جو زبان زد عام ہیں اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سوائے انڈین پولیس کے ساری دنیا میں ہمارے ملک کے مقابلے کی پولیس ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی ہے۔ہاں انڈین پولیس ہم سے آگے ہے نمبر ون ہےلیکن ہماری پولیس پر امید اور پر عزم ہے کہ قوم کی بد دعاؤں کی مدد سے وہ یہ نمبر ون کا ٹائیٹل دشمن ملک سے ضرور چھین لیں گے۔ اب بہت سے ایسے فرائض بھی ہیں جو کم زبان زد عام ہیں اور صرف حلقہء باخبراں میں زیر بحث آتے ہیں تو ان پر گفتگو کرنا مناسب نہیں لگتا کہ شاید ابھی ہمارا ذہن دل اور معدہ انہیں ہضم نہ کر پائے بس حوالے کے طور پر اب تک چھپن نامی نانا پوٹی کر کی انڈین فلم دیکھنے سے شاید وہ اشارہ مل پائے جو علقمند کو کافی ہوا کرتا ہے۔

اب سوچیں کہ اگر وردیوں پر،تھانوں میں انکے مشہورِ زمانہ ڈرائنگ رومزمیں چھوٹے بڑے افسران کے گاڑیوں میں اگر خفیہ کیمرے لگا دیئے جائیں توپولیس کی کتنی ساری رضاکارانہ قومی خدمات کا سلسلہ ڈسٹرب ہونے کا اندیشہ ہے جو کہ بلا شبہ ایک قومی نقصان ہوگا اور میں اس کی پرزور مخالفت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا کوئی بھی کام کرنے کا سوچا گیا یا ارادہ ظاہر کیا گیا تو سارے چور ڈاکو اسمگلر بلیک مارکیٹیئے دلال اور انکی نوچیاں،پاکٹ مار منشیات فروش اور انڈر اور اپر ورلڈ کے بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات کو قطعی برداشت نہیں کریں گے اور شدید احتجاج اور مظاہروں  کے شروع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ پولیس کا ہے فرض مدد اپنے آپ کی کا حبِ ذات سے معمور سلوگن اس بات کا غماز ہے کہ ہماری پولیس اپنی اور اپنے پیٹی بھائیوں کی کتنی فکر کرتی ہے۔ یہ ایک وسیع برادری کیمونیٹی یا فرقہ ہے جو رنگ نسل زبان مذہب وغیرہ سے بے نیاز اپنی اور اپنے افسرانِ بلا کی جتنی تندہی سے مدد کرتا ہے وہ ہر اعتبار سے قابل رشک ہے پھراچھوں کو تو سب ہی گلے لگاتے ہیں ہمارا فرقہء پولیسیہ تو بروں کو بد عنوانوں کو پیار محبت سے گلے لگاتا ہے اور معمولی سی رقم لینے کے عوض انہیں کیسی کیسی سہولیات فراہم کرنے میں جان لڑا دیتا ہے یہ کیا کوئی کم قابلِ تحسین بات ہے۔ پھر ہمارے سر سے پاؤں تک، پیون سے پی ایم تک اور وکیل سے عدالت تک کرپشن کے وسیع اور ہمہ گیر نظام کے تقویت دہندہ یہی برادری والے تو ہیں تو پھر ہم کیسے اتنی ساری صفات کے حامل ادارے اور اس کے پرجوش،بہادر اور مخلص کارکنوں پر کیمرے لگا کر چیک رکھیں مجھے تو شرم آ رہی ہے کہ یہ سوچا بھی کیسے گیا! پولیس کی قدر کریں اور حسب توفیق دامے درمے سخنے خدمت کرنا شروع کردیں تو بس پھر دیکھیں اس دنیاوی زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں ملنا شروع ہوجائیں گی اور مزے ہی مزے ہونگے ہاں آخرت کا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا۔(خرم علی عمران )۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں