تحریر: سید عارف مصطفیٰ
لیجئے بالآخرآرٹس کونسل کراچی کے الیکشن میں ہونے والا ہنگامہ آرام باغ پولیس اٹیشن تک جاپہنچا اور گؤرننگ باڈی کی امیدوار اور معروف شاعرہ و لکھاری قندیل جعفری نے آرٹس کونسل کے سربراہ احمد شاہ اور انکے چند نامعلوم ساتھیوں کے کے خلاف ایف آئی آر کٹوا ڈالی ۔ میری اس ضمن میں خود قندیل جعفری اور نائب صدر کے امیدوار مبشر میر سے جو گفتگو ہوئی اسکا خلاصہ یہ ہے کہ الیکشن والے دن ہونے والے جنرل باڈی اجلاس میں قندیل کو احمد شاہ کی ایماء پہ تقریر سے روکا گیا ، مائیک چھینا گیا ، تھپڑ جڑدیا گیا دھکے دیئے گھونسے مارے گئے اور انکا دوپٹہ چھین کے انکی عزت و عفت پہ حملہ کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے بعد انکے پینل آرٹس فورم کے اہم رہنماؤں ، محمد اسلم ، نسیم احمد شاہ ، قندیل جعفری ، نجم الدین شیخ اور اویس ادیب انصاری نے اپنے کیمپ پہ جاکر الزامات سے پر احتجاجی تقاریر کرتے ہوئے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اورپھر آرٹس کونسل کے باہر اس وقت تک دھرنا دیئے رکھا جبب تک متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے انکی ایف آئی آر درج کرانے کا مطالبہ تسلیم نہیں کرلیا – اس ضمن میں میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر اس سارے واقعے میں سچائی کم یا بہت ہی کم بھی ہو تب بھی یہ نہایت قابل تشویش بات ہے کیونکہ آرٹ کلچر کے نمائندہ کسی ادارے میں اس قسم کی حرکات و بدتہذیبی کے لیئے ذرا سی بھی گنجائش نہیں رکھی جانی چاہیئے۔۔
اس سلسلے میں میں نے خود احمد شاہ اور انکے ساتھیوں میں سے چند سے اس بابت تفصیلات معلوم کرنے کے لیئے رابطہ کیا تو سخت مایوسی ہوئی کیونکہ کسی نے بھی جواب دینا گوارا نہیں کیا کیونکہ وہ شاید کامیابی کے جس گھوڑے پہ سوار ہیں وہاں وہ سوال کرنے کی گستاخی کو برداشت کرنے کا یارا نہیں ، البتہ احمد شاہ کے اسٹاف کے ایک اہم رکن شاہد محمود شاہد نے ڈٹ کے دفاع کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس معاملے میں حقیقت نہیں ،الٹا ان لوگوں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی ہے ۔اب اس سارے قضیئے میں اصل حقائق کیا ہیں انکی تفتیش تو پولیس کے ذمے ہے لیکن اس ہنگامے سے قطع نظر وہ چند نمایاں الزامات جو احمد شاہ اور انکی ٹیم پہ لگائے گے تھے ان میں خاص خاص یہ تھے کہ وہ کونسل کے آڈٹ کی تفصیلات دینے میں ناکام رہے ، اور ادارے کو اپنے منظور نظر افراد سے بھر رہے ہیں اور الیکشن سے پہلے ایسے کئی سو افراد کو یکایک ممبر بنالیتے ہیں جن میں اکثر کا آرٹ اور کلچرل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ احمد شاہ کے ناپسندیدہ لوگوں کی تذلیل کے لیئے استعمال ہوتے ہیں ، یہ بھی کہا گیا کہ اپوزیشن پینل کو الیکشن سے پہلے ارکان کی درست اور مکمل لسٹ فراہم نہیں کی جاتی تاکہ وہ ان سے بھرپور طریقے سے رابطے اور کنونسنگ نہ کرسکیں
جہانتک بات ہے احمد شاہ کی شخصیت کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک زبردست انتظامی صلاحیتوں اور تخلیقی اپچ کے حامل ہیں اور اپنے دس سالہ عہد میں انہوں نے اس ادارے کو بے پناہ تبدیلیوں سے ہمکنار کیا ۔ گوکہ یہ آرٹس کونسل 1956 میں بنی تھی مگر اس میں اصل روح 2008 میں احمد شاہ کے کمان سنبھالنے سے ہی پھونکی جاسکی جنہوں نے اس ادارے کو اس شہر کی علمی ، تہذیبی و ثقافتی پہچان بنادیا – اب جہانتک بات ہے ان پہ لگنے والے الزامات کی ، تو انکے جواب بھی خود انہی کے ذمہ ہیں تاہم میری دانست میں انہیں اپنی پہلی بڑی خامی یعنی اچھے رویئے اور مہذبانہ برتاؤ کی قلت کے حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ سیکھنا ہے گو کہ وہ پہلے سے کسی حد تک بہتر بھی ہوئے ہیں تاہم ابھی بھی ان میں بہتری کی بڑی گنجائش ہے اور گاہ بہ گاہ وہ اپنے مخالفین کی تضحیک اور انکے ساتھ منتقمانہ طرز عمل سے باز نہیں آپاتے – انکی دوسری بڑی کمزوری انکا خود کو عقل کل سمجھنا اور تیسری کمزوری طبعاً خوشامد پسند ہونا ہے اوراسکا فائدہ وہ لوگ باآسانی اٹھالیتے ہیں کہ جو ہنر اور اہلیت میں معذوری کے درجے پہ ہوتے ہیں۔۔
ایک خرابی یہ بھی نمایاں ہورہی ہے کہ آرٹس کونسل اب عمودی ترقی کے بجائے افقی پھیلاؤ کی راہ پہ گامزن ہوچلاہے اور یہاں پہ ہونے والے پروگراموں کا اہم قومی مقاصد کی تکمیل سے کچھ رشتہ ناطہ محسوس نہیں ہوتا – جسکی ایک بڑی مثال دس برس سے یہاں منعقد ہوتی سالانہ اردو کانفرنس ہے جو کہ نہ صرف یکسانیت کا شکار ہوکے اب پی آر کے میلے میں تبدیل ہو رہی ہے بلکہ اس سے اردو کی وہ حقیقی خدمت نظر انداز ہورہی ہے کہ جو نفاز اردو کے سوا چھ اور نہیں اور یوں یہاں سے قومی زبان کے نفاز کے مطالبے کو زیادہ سنجیدہ اور مؤثر انداز میں نہیں اٹھایا جارہا حالانکہ اردو کے اس گہوارے اور ملک کے سب بڑی اس آرٹس کونسل کو اس امر پہ خصوصی توجہ دینی چاہیئے ۔۔ کیونکہ یہ کوئی سیاسی معاملہ ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک اہم قومی و آئینی فریضے کی ادائیگی کا معاملہ ہے اوراگر اس پلیٹ فارم سے نفاز اردو کے عدالتی فیصلے پہ عمل نہ کیئے جانے پہ شعراء ادباء ، اہل فکر و نظر اور اہل صنعت و تجارت کو اکٹھا کرکے ایک مشترکہ و سنجیدہ احتجاجی لائحہء عمل وضع کیا جائے تو یہ مسئلہ پوری شدت سے اجاگر ہوکے حکومت کونفاز اردو کے عدالتی فیصلے پہ عمل کرنے کے لیئے مجبور کرسکتا ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ جسکے سبب 3 برس قبل خود احمد شاہ کی جانب سے مجھے خصوصی طور پہ آرٹس کونسل کا ممبر بنانے کے لیئے از خود فارم دینے کے باوجود میں نے نفاز اردو کی راہ کے ادنیٰ جانثار کی حیثیت سے اسے احتجاجاً تاحال جمع نہیں کرایا۔۔
اب آخر میں احمد شاہ کے مخالفین سے بھی اک بات وہ کرڈالوں جو کہ مقطع میں آپڑنے والی اور سخن گسترانہ نوعیت کی ہے ۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ آخر آپ لوگ سارا سال غائب رہ کے عین الیکشن کے دنوں ہی میں کیوں نمودار ہوتے ہیں اور اگر بقول آپ لوگوں کے ، احمد شاہ ہمیں آرٹس کونسل میں پروگرام کرنے ہی نہیں دیتا تو آپنے اس پہ کھلا احتجاج کبھی کیوں نہیں کیا اور یہ کہ آپ احتجاجاً یہ پروگرام شہر کے دیگر مقامات پہ منعقد کیوں نہیں کرلیتے ، تاکہ یہ تو پتا چل سکے کہ آپ اس حوالے سے کس قدر سنجیدہ و رنجیدہ ہیں ۔۔۔ آخر جب مجھ جیسا معمولی و بے وسیلہ آدمی بھی یہی کام کررہا ہے اور آرٹس کونسل کے دروازے بند ہوجانے کے بعد بھی شہر میں مختلف جگہوں پہ اپنے پروگراموں کا انعقاد کرتا رہتا ہے تو وقتی طور پہ ہی سہی آپ بھی یہ پروگرام کیوں نہیں کرسکتے- ایک طویل عرصے یہی ہوتا آرہا ہے کہ آپ لوگ سوائے الیکشن سال کے آخری ہفتے کے، کبھی کچھ کرتے نظر نہیں آتے ۔۔۔ تو پھر کام کیوں نہ چلائے گا اور احمد شاہ کا جادو سر چڑھ کے کیوں نہ بولے گا اور یہ یقینناً اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے مایوس ہوکے اب یہ مقولہ ہی گھڑ لیا ہے کہ ” احمد شاہ کو صرف احمد شاہ ہی ہرا سکتا ہے ۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔
( اس تحریر کے مندرجات سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، احمد شاہ یا آرٹس کونسل کی موجودہ کامیاب باڈی میں سےکوئی اس تحریر کا جواب دینا چاہے تو ہم اسے بھی ضرور شائع کرینگے، علی عمران جونیئر)