تحریر: عبدالرحیم شریف
صرف دور کے ڈھو ل ہی نہیں، قریب کے ڈھول بھی سہانے ہوسکتے ہیں۔ضروری نہیں جو چیز ہمیں اچھی لگ رہی ہو اورہمیں متاثر کررہی ہووہ ٹھیک ہو،درست ہو یا سچی ہو۔ وہ بات جھوٹ ہوسکتی ہے، ہوسکتاہے غلط منسوب کی گئی ہو یا ایڈٹ کرکے سیاق وسباق بگاڑا گیاہو، سوشل میڈیا میں بسااوقات ایسا دیکھنے میں آرہاہے۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پرایک موضوع حدیث پڑھی، لکھا تھا؛
آپﷺ نے فرمایا؛”میں علم کا شہر ہوں،ابوبکرؓاس شہر کی بنیاد ہیں،اورعمرؓ اس کی دیوار ہے،اورعثمانؓ اس کی چھت ہے،اورعلی ؓ اس کا دروازہ ہے۔“
بخاری جلد 2 صفحہ214 کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔
لوگ اس موضوع حدیث کو جھوٹا حوالہ دے کر پھیلا رہے ہیں۔حوالہ بخاری کا بھی غلط دیا جارہاہے۔لیکن تصدیق کرنا اور پوچھنا گوارا نہیں کیا گیاکہ آیا واقعی یہ حدیث ہے۔مجھے بھی تشفی نہیں ہوئی تو ایک مفتی صاحب کو فارورڈ کرے پوچھ لیا کہ آیا بخاری میں یہ حدیث ہے۔
الامان والحفیظ یعنی لوگ حضورﷺپر جب جھوٹی بات باندھ سکتے ہیں تو سوچیں،سیاسی معاملات اورعلاقائی موضوعات سے متعلق کتنا جھوٹا مواد پھیل رہا ہوگا۔یا پھیلاجارہاہے۔اس جھوٹ میں ہم عام لوگ دانستہ طورپرمعاون بن جاتے ہیں۔
اسے ہم”تبدیلی“ کی اصطلاح اورنئی زبان میں معذرت کے ساتھ سوشل میڈیاکا ”یوتھیاپا“ کہہ سکتے ہیں۔
ان دنوں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی ایک تصویروائرل ہورہی ہے،جس میں وہ ایک پادری کے قدمو ں میں جھکے ہوئے ہیں۔یہ ایک اسلامی اسکالراورعالم دین کی شان کے خلاف ہے۔ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے اختلا فات اپنی جگہ لیکن تصویرفوٹوشاپ سے بنائی گئی اور2015 کی ہے،سادہ لوح افراد اسے خو ب شیئر کررہے ہیں۔
اسی طرح چند ہفتے پہلے مفتی رفیع عثمانی کی دارالعلوم کراچی سے منسوب ارتغل ڈرامے سے متعلق ایک فتویٰ زیر گردش تھا،جس پردارالعلوم کراچی اورایک مسلک کو خوب تنقید کا نشانہ بنایاجارہا تھا،طرفہ تماشایہ کہ میڈیا بھی اسے خوب اچھال رہاتھا۔آخر کار دارالعلوم کراچی کو اس کی تردید کرنا پڑی،جب تک جھوٹ خوب پھیلاجاچکاتھا۔
گزشتہ دنوں یہ خبر وائرل کی گئی کہ گلشن حدید کے ایک مدرسے میں ایک دو نہیں پانچ شیر گھس گئے۔مدرسہ انتظامیہ کوتردید کرنا پڑی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔بارش،سیلاب اورحادثات کی پرانی تصاویرنئی واقعات سے جوڑنا کر پھیلانے تو عام بات ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی آنکھ بند کرکے ہرچیزکو لائیک کرکے اسے فارورڈ کردیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا بطور پروپیگنڈا ٹول کے بھی استعمال کیاجارہاہے۔جعلی آئیڈیاں،اوراکاؤنٹ کی بھرمار ہے۔لہذا ضروری ہے کہ ہرپوسٹ،ٹوئٹ کو لائیک یا فارورڈ کرنے کی عادت ختم کریں۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بھیجنے والا معتبر وصاحب علم ہے۔جانچ پڑتال خود بھی کی جائے صاحب علم یا متعلقہ افراد سے معلوم کرلیا جائے کہ کیا حقیقت میں واقعہ ایسا ہواہے؟بات ٹھیک ہے۔ویڈیو رئیل ہے؟؟؟؟وغیرہ
آج کل ہر صبح اسٹیٹس لگانا فیشن بن چکاہے۔اپنی افلاطونی اورعلمی قابلیت ساری کی ساری فوری طور پر اسٹیٹس اورسوشل میڈیا پر دکھانا ضروری قرار پایا ہے۔ صحیح غلط کا بکھیڑا کون پالے!!۔سچ اورجھوٹ کو الگ کرنے کیلئے ایسی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ ہربات،پوسٹ،ویڈیو،ٹوئٹ کا فوری پھیلانا سب کے لیے فرض یا واجب نہیں ہے۔بولنے سے پہلے تولنا ضروری ہے تاکہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال یعنی سوشل میڈیا کے اس یوتھیاپے کے بعد شرمندگی ، بار گناہ اورمسائل(سائبر کرائم) سے بچا جاسکے۔(عبدالرحیم شریف)۔۔