hukumraan be bas lagrhe hen

صرف ایک جماعت زیربار ہے، ایاز امیر۔۔

سینئر صحافی اور کالم نویس ایاز امیر کا کہنا ہے کہ آج کے حالات کہتے ہیں کہ ایک جماعت زیربار ہے، ساری مشکلات اس کے لئے ہیں، لوگ دھرے گئے ہیں یا بھاگے ہوئے ہیں، قانونی مشکلات ایسی ہیں کہ کم ازکم اس دیس میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں ایازمیر لکھتے ہیں کہ ۔۔ کہنے کو تو الیکشن کا میدان سجایا جا رہا ہے لیکن ایسالگتا ہے کہ سرکاری اشیربادحاصل کرنے والی جماعتوں کے لیے ہر آسانی ہوگی اور ایک گروہ کے لیے تمام دشواریاں۔ یعنی دوڑ تو ہوگی لیکن ایک فریق کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں گے۔اس صورتحال کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا نام دیاجا رہا ہے۔ حیرانی کی بات البتہ یہ ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود مطعون جماعت ڈٹی ہوئی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ رجیم چینج کے بعد اب تک یک طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ قانون بھی مصلحت کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ بہت حد تک عدالتیں بے اثر ہوکے رہ گئی ہیں کیونکہ عدالتی نظام کے باوجود وہی کچھ ہو رہا ہے جو سرکار چاہتی ہے۔ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ سلاخوں کے اُس پار ایسا کوئی واویلا نہیں مچایاجا رہا کہ ہم تکلیف میں ہیں‘ ہم سے برا سلوک ہو رہا ہے‘ ہمیں فلاں فلاں سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔کوئی ایسا شور نہیں سنائی دے رہا کہ صحت خطرے میں پڑ گئی ہے ‘ پلیٹ لیٹ کاؤنٹ ہمارا گِررہا ہے اور علاج کیلئے ہمیں باہر نہ بھیجا جائے تو ہماری قیمتی جان کو خطرہ ہے۔ یہ عجیب قسم کے ڈھیٹ ہیں‘ اطلاعات کے مطابق اندر ورزش کئے جا رہے ہیں ‘ کچھ ٹائم عبارت میں گزرتا ہے‘ کچھ کتب بینی میں اور ٹھیک شام آٹھ بجے نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے اور نمازِ فجر تک خوب گہری نیند رہتی ہے۔ اٹک جیل جب خبروں کی زینت تھی تو یہ حیران کن خبر آئی کہ جیل کے حالات سے ہم مانوس ہوچکے ہیں اورہمیں یہاں سے کسی اور جیل منتقل نہ کیا جائے۔ اب اڈیالہ خبروں کی زینت ہے اوروہاں سے بھی ایسا کوئی شور نہیں آ رہا کہ ہائے ہائے ہم مارے گئے‘ ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔یہ ڈھیٹ لوگ تمام مشکلات کے باوجود سکون میں لگتے ہیں۔ وہ زمانہ بھی تھاجب میاں صاحب اندر گئے اور اُن کی چیخ و پکار ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ ہمیں یہ سہولت نہیں ملی ہمیں وہ چیز دستیاب نہیں۔اورپھر جو پلیٹ لیٹ ڈرامہ ہوا‘ میاں صاحب کو معائنے کیلئے سروسز ہسپتال لے جایا گیا اور جیل روڈ پرٹی وی کیمروں کی لمبی لائنیں لگ جاتی تھیں اور خبروں کا ایک ہی موضوع ہوتا تھا کہ میاں صاحب کی صحت کن حالات سے گزررہی ہے۔ ماننا پڑے گا یہ لوگ فنکاری کے ماہر ہیں‘ ایسا ماحول تب بنایا گیا کہ متعلقہ عدالت نے بھی باہر جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ ہفتوں کی مہلت ملی تھی اور جنابِ شہباز شریف نے پچاس روپے کے اشٹام پر عدالت کو یہ ضمانت دی کہ محترم میاں صاحب مقررہ وقت کے اندر ملک واپس آ جائیں گے۔وہ چار یا چھ ہفتے چارسال پر محیط رہے۔اب جب ملکی موسم بدلا ہے اورمحترم میاں صاحب وطن واپس لوٹے ہیں تو صحت بھی بحال اور قانونی دشواریاں ایک ایک کرکے ختم ہو رہی ہیں۔ایاز امیر نے اپنے کالم میں سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی آسانیوں کے ہوتے ہوئے ڈر پھر کاہے کا؟

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں