تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
آپ کو کسی تپتے صحرا میں کہیں دور سے کسی درخت کی جھلک نظر آجائے تو آپ کے جذبات کیا ہوں گے ؟؟؟اس نفانفسی کے دور میں جب سب کو اپنی پڑی ہوئی ہے ۔۔ایسے میں کوئی شخص روایات کوتوڑتے ہوئے کھڑا ہو اور ان لوگوں کی آواز بنے جن کو سب نے دھتکار دیا ہو تو آپ ایسے شخص کو کیا کہیں گے ؟؟ موٹی سی عینک لگائے اپنا ناتواں جسم کے ساتھ یہ شخص کو آپ کو بظاہر کمزور نظر آئے گا لیکن میں آپ کو کامل یقین کے ساتھ بتارہا ہوں کہ علی عمران جونیئر نامی یہ شخص کسی چٹان سے بھی زیادہ مضبوط ہے ۔۔اس کا حوصلہ نہ تو میڈیا مالکان پست کرسکتے ہیں اور نہ ہی مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے ہمارے عظیم رہنما۔۔مجھے یاد ہے جب سب ’’سجدے‘‘ میں جاگرے تھے اس وقت جونیئر اپنے پاؤں پر کھڑا تھا اور ان فرعونوں کو للکار رہا تھا جن کے نام لیتے ہوئے بھی بڑوں بڑوں کے پر جل جاتے ہیں ۔۔آج سے دو سال قبل اس نے اپنی ویب سائٹ کے ذریعہ جو قلمی جدوجہدو شروع کی تھی آج وہ باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔۔میڈیا انڈسٹری کا وہ کون شخص ہوگا جو عمران جونیئر ڈاٹ کام کو نہیں جانتا ۔۔یہ ایک ویب سائٹ نہیں ہے ۔۔یہ صحافیوں کا’’ ہائیڈ پارک‘‘ ہے ،جہاں سب کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے اور جونیئر کسی شفیق باپ کی طرح نوجوان صحافیوں کو آگے بڑھنے اور ظالموں کے سامنے نہ جھکنے کا درس دیتا نظر آتا ہے ۔۔علی عمران جونیئر اپنی ذات میں خود ایک تحریک ہے ۔۔اسے کسی تنظیم کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ وہ جسے حق سمجھتا ہے اسے ببانگ دہل شائع کرتا ہے ۔۔اسے کسی عظیم رہنما کی ستائش سے کوئی غرض نہیں ۔۔اسے بس اپنے کام سے مطلب ہے ۔۔ ۔ جب عظیم رہنما اپنے عالیشان محلات میں آرام کررہے تھے اس وقت جونیئر بول کے ملازمین کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھا ۔۔اس کی جدوجہد رنگ لائی اور ’’بول والاز‘‘ کو ان کے واجبات مل گئے ۔۔جو عظیم رہنماؤں کو کرنا وہ ایک جونیئر نے اکیلے کردکھایا ۔۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ کام کرنے کے لیے نیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔جبکہ ہمارے عظیم رہنماؤں کے پاس نہ وژن ہے اور نہ ہی نیت ۔۔شاباش عمران جونیئر۔۔تم نے اپنی منفردجدوجہد سے یہ ثابت کردیاکہ ۔۔قلمکار جھکتاہے نہ بکتاہے ۔۔عمران جونیئرڈاٹ کام کودوسال مکمل ہونے پرڈھیروں مبارکباد۔۔اپنی کمیونٹی کے لئے جس سفرکاتم نے دوبرس قبل آغازکیا تھا اس کی تعریفی اسنادتمہیں سات سوتیس دن بعدجنگ گروپ سے مل گئی ہیں اور تم ایسے فقیر آدمی کو پانچ کروڑ کا نوٹس اس بات کی دلیل ہے کہ تم مالکان کے لئے وہ نشتر بن گئے ہو جس کی نوک انہیں اپنی گردن پرمحسوس ہوتی ہے۔۔ستم ظریفی دیکھیں کہ جو صحافیوں کی توانا آواز ہے اس کے لیے کسی عظیم رہنما کی مذمت آئی اور نہ ہی اس کے لیے کسی نے احتجاج کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔۔اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ غریب جونیئر ان کی طرح ’’کارسوار‘‘ نہیں ہے ۔۔وہ ایک عام صحافی ہے اور اس کا پلیٹ فارم بھی عام صحافیوں کے لیے ہے ۔۔۔ جو شخص میڈیا مالکان کو کھٹکتا ہو بھلا اس کے لیے کیا ہماری صحافتی تنظیمیں آگے آسکتی ہیں ؟؟ اس کا جواب میں بھی جانتا ہوں اور جونیئر بھی جانتا ہے ۔۔ ہم ایک ہی راہ کے مسافر ہیں ۔۔لیکن مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ علی عمران جونیئر صحافیوں کے لیے ابن صفی کے علی عمران کی طرح چومکھی لڑائی لڑرہا ہے ۔اس کے سامنے ظالموں کا لشکر ہے اور وہ حق کا علم لیے ان سے برسرپیکار ہے ۔مجھے پختہ یقین ہے کہ جب کبھی اس ملک کی صحافتی تاریخ لکھی جائے گی اس میں علی عمران جونیئر کا نام اس طرح جگمگارہا ہوگا جس طرح کسی اندھیری رات میں کوئی جگنو چمک رہا ہوتا ہے ۔(عمیر علی انجم)