کس چینل کی ہوئی اچانک نشریات بند؟
شعیب شیخ کی عمران خان کو ’’یقین دہانی‘‘
خواتین اینکرز کیلئے شاہی فرمان کیا ہے؟
رنگیلے ہیڈ کی کچھ رنگینیاں
رپورٹر کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے؟
انتیس ملین سبسکرائبر،چینل ہیک
یہ اور بہت کچھ۔۔لنک پر کلک کیجئے۔۔
سینہ بہ سینہ قسط نمبر۔۔۔
106
دوستو،تیرہ ماہ کے گیپ کے بعد پبلک کے بے حد اصرار پر ایک بار پھر آپ کے پسندیدہ ترین سلسلے سینہ بہ سینہ کی نئی قسط کے ساتھ حاضر ہیں۔۔ لاسٹ قسط انتیس مارچ دوہزار اکیس کو پوسٹ ہوئی تھی، جس کے بعد پھر بریک آگیا۔۔ ان تیرہ ماہ میں میں ہزاروں لوگ مزید ہمارے مستقل قاری بنے ہیں لیکن وہ شاید سینہ بہ سینہ سے متعلق نہیں جانتے کیوں کہ اس دوران کوئی نئی قسط آئی نہیں، ایسے تمام احباب جو اس سپرہٹ سلسلے کی یہ قسط پہلی بار پڑھ رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس کی گزشتہ اقساط ہماری ویب عمران جونیئر ڈاٹ کام پر موجود ہیں، وہاں سے مزید قسطیں پڑھیں تو اس سلسلے کی مقبولیت کی وجہ آپ لوگوں کو بھی سمجھ آجائے گا۔۔ ویب پر خبریں تو روزانہ ہی لگتی رہتی ہیں، کبھی کبھار پپو کوئی بڑی بریکنگ بھی دے دیتا ہے ، درجنوں ویب سائیٹس ہماری خبروں کو لفٹ کرتے ہیں ،کاپی پیسٹ مافیا واٹس ایپ کے نیوزگروپوں میں ان خبروں کو خود ہی پھیلادیتا ہے۔۔لیکن ہمارے احباب کا کہنا ہے کہ جو مزہ سینہ بہ سینہ میں پپو کی مخبریوں میں آتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔۔ احباب اکثر ملاقاتوں میں یہ شکوہ ضرور کرتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ کی نئی قسط تو لکھ دیں۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب میڈیا انڈسٹری میں لکھنے کے لئے باقی رہ کیا گیا ہے؟ گھوم پھر کر وہی خبریں، سیلری نہیں مل رہی، اتنے لوگ نکال دیئے، فلاں اینکر فلاں چینل سے فلاں چینل چلا گیا۔۔۔ ہمیں تو پرنٹ میڈیا کے زوال کے بعد اب الیکٹرانک میڈیا بھی زوال کا شکار لگ رہا ہے۔۔۔ ڈیجیٹل میڈیا اپنی کافی جگہ بناچکا ہے، بڑے چینلز بھی اب ڈیجیٹل میڈیا کا رخ کررہے ہیں اور سب نے اپنے ڈیجیٹل شعبے کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے کیوں کہ یہاں سے فوری کمائی وہ بھی ڈالروں میں ہے جب کہ خرچہ بھی کچھ نہیں۔۔ ارے یہ کیا؟ اپنی باتیں ابھی جاری تھیں، درمیان میں خودبخود مخبریاں اسٹارٹ ہوگئیں، چلئے پھر پپو کی مخبریوں کی جانب چلتے ہیں۔۔اپنی باتیں تو پھر بھی ہوتی رہیں گی۔۔۔
سب سے پہلے ذکر ہوجائے بول نیوز کا۔۔بول نیوز میں بدھ کی شام یعنی کل سات بجے اچانک ’’ایم سی آر‘‘ (ماسٹرکنٹرول روم۔۔جہاں سے نشریات آن ائر ہوتی ہیں اور گھر گھر پہنچتی ہے) کے تمام ملازمین نے ملک کر ہڑتال کردی اور بول نیوزکی لائیو ٹرانسمیشن بند کردی۔۔ جس کی وجہ سے اسامہ غازی کا شو اب پتہ چلا اور تمام پیڈ کمرشلز بھی رک گئے۔۔وائس پریزیڈینٹ براڈکاسٹ اینڈ ٹرانسمیشن شبیہ حسن کو جب یہ پتہ چلا کہ ایم سی آر کا پورا ڈیپارٹمنٹ ہڑتال پر چلا گیا تو وہ فوری اُنہیں منانے چلے گئے۔ ملازمین کا شکوہ تھا کہ لاکھوں روپے کمانے والے اینکرز اور بول کے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کو تنخواہیں بر وقت پر مل رہی ہیں جبکہ دیگرملازمین کو دو ماہ سے زائد عرصے سے تنخواہوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ۔ ہمارا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ نہ عید پر تنخواہ ملی اور اب بقر عید سر پہ ہے۔ مہنگائی حد سے بڑھ چکی ہمارا گزارا نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ایم سی آر کی یہ ہڑتال پون گھنٹہ یعنی پینتالیس منٹ تک جاری رہی۔۔آخرکار۔۔ وائس پریزیڈنٹ براڈ کاسٹ اینڈ ٹرانسمیشن ہڑتالی ملازمین کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ رواں ہفتے سب کی تنخواہیں کلیئر کردی جائیں گی۔۔ جس کے بعد شام سات بج کر چھیالیس منٹ پر وائس پریزیڈنٹ صاحب نے خود ایم سی آر میں جاکر ٹرانسمیشن کو بحال کیا اور ہڑتال کو کامیابی سے ختم کرادیا۔۔کیوں کہ 8:05 پر سابق وزیراعظم عمران خان کا خصوصی انٹرویو نشر ہونا تھا۔
اب سابق وزیراعظم عمران خان کے انٹرویوکے حوالے سے بھی سن لیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔ شعیب شیخ، نبیل جھکورا، عامر ضیا، رؤف حسن سمیت چینلز کے دیگر اہم افراد سمیع ابراہیم کے ہمراہ پشاور میں عمران خان کے انٹرویو کے دوران موجود تھے۔ انٹرویو کے بعد انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور ان کو یقین دلایا کہ اُن کے اس “جہاد” میں اے آر وائی کی طرح بول نیوز بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے ہی نیوزروم کوچند روز پہلے یہ حکم زبانی دیا جاچکا ہے کہ بول نیوز اب اے آروائی کی پالیسی پر چلتے ہوئے حکومت کی مخالفت اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرے گا، چنانچہ خبریں اسی پالیسی کو سامنے رکھ کر چلائی جائیں۔۔
ابھی بول نیوز سے متعلق انکشافات ختم نہیں ہوئے۔۔ کافی عرصہ ہوگیا۔۔ پپو کی مخبریاں بہت زیادہ ہیں۔۔ لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو تازہ بہ تازہ سینہ بہ سینہ چیزیں پہنچائیں۔۔ تیرہ ماہ کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا جواس سپرہٹ سلسلے میں شامل ہونا چاہیئے ، لیکن چونکہ رات گئی بات گئی، اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ پرانے قصے چھیڑ کر آپ کا قیمتی وقت برباد کریں۔۔حال ہی میں بول نیوز میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کے پیشِ نظر پرانے اور ڈیڈیکیٹڈ ورکرز کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ حمیرا شعیب (وائس پریزیڈنٹ بول نیوز اینڈ پروگرامنگ) کے جانے کے بعد انکی تنخواہیں جو کئی سالوں سے انکریمنٹ کی منتظر تھیں اب نئے ہیڈ شاہزیب روحیلا کے آنے کے بعد شاید سالوں بعد ان میں معقول اضافہ ہو جائے گا اور تنخواہوں کا دو ماہ بعد ملنے والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا لیکن۔۔۔ صد افسوس کہ اُن تمام ملازمین کے خواب چُور چُورا کر دیئے گئے۔ نئے ہیڈ نے چارج سنبھالنے ہی سب سے پہلے اپنی انٹرٹینمنٹ کی پروڈکشن ٹیم کی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافہ فرمادیا۔۔جس نے نیوز اور پروگرامنگ یہاں تک کہ انٹرٹینمنٹ کے ویڈیو ایڈیٹرز (این ایل ای) تک کو سکتے میں ڈال دیا مثلاً نئے ہیڈ کی ٹیم کا ایک فرد جو کل تک 45 ہزار روپے پر تھا اب نوے ہزار پر آچکا ہے۔ لاکھ والا ایک چالیس پر۔ جب نئے ہیڈ کے ماتحت کام کرنے والوں نے اس ’’ ناانصافی‘‘ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تو انہیں نوکری سے نکال دینے کی دھمکی دے کر خاموش کروا دیا گیا۔ ساتھ ھی ساتھ نئے ہیڈ نے بول انٹرٹینمنٹ میں دو نئے پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ایک شو “بول کرائم” کے نام سے ہے جسکی انتہائی مہنگی ہائرنگ چل رہی ہے۔ یہ تمام تر صورت حال دیکھ متعدد افراد نے فوری طور پر احتجاجاً ادارہ چھوڑ کر دوسرے اداروں کا رخ کر لیا۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ عنقریب ملازمین کی بڑی تعداد یہاں سے کوچ کرنے جارہی ہے۔ اور یہ خبر سُن کر ڈیارٹمنٹل مینجمنٹ کی کانپیں ٹانگنا شروع ہوچکی ہیں اور وہ اپنے ورکرز کو بارباریہ یقین دہانیاں کرارہے ہیں کہ عنقریب سب اچھا ہوجائے گا۔۔ جبکہ ملازمین کا شکوہ ہے کہ دو ماہ سے زائد ہو چکے نہ تنخواہ آئی اور نہ انکریمنٹ کا وعدہ وفا ہوا۔بول نیوز میں ملازمین رمضان کے بعد سے اب تک ماہ اپریل کی تنخواہوں سے محروم،اینکرز اور بڑے تجزیہ نگاروں سمیت باس کے من پسند سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کو تو تنخواہیں ادا کر دی گئیں مگر نیوز اور پروگرامنگ ڈپارٹمنٹ سمیت ٹیکنکل اسٹاف بھی سخت ذہنی اذیت میں مبتلا بول نیوز کے بہت سے ملازمین نے گھر کا گزر بسر کرنے کے لئے اپنی قیمتی اشیاء موبائل فون،موٹر سائیکل وغیرہ بیچنا شروع کردیں ، بہت سے ملازمین عید کے دنوں میں بھی تنگدستی کے باعث عید کی خوشیاں نہیں منا سکے نوبت فاقہ کشی تک آ پہنچی ، آخری بار تنخواہیں ماہ مارچ کی رمضان میں ملیں اس کے بعد سے عید پر بونس تو دور کی بات آدھی تنخواہ بھی ادا نہیں کی گئ۔۔
دوسری جانب موصوف کی جانب سے فی میل نیوز کاسٹرز کے لئے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا گیا ھے کہ اب سے جو دکھے گا وہی بکے گا کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے فی میل نیوز کاسٹر کو کھڑا کر کے خبریں پڑھوائی جائیں اور اب سے میل نیوز کاسٹرز بیٹھ کر خبریں پڑھیں گے۔ فی میل اسکرین پر ہو تو کوئی ایکسٹرا ٹکر نہ چلے۔ پیمرا پالیسی سے پچتے ھوئے جتنا ممکن ھو سکے انکا گلا بڑا ہو اور ساتھ ہی ٹائٹ سے ٹائٹ کپڑے پہن کر خبریں پڑھنےکا حکم بھی صادر فرما دیا۔ایک طرف یہ سب ہورہا ہے، لیکن بول ہیڈآفس میں یہ اطلاعات بھی گرم ہیں کہ شعیب شیخ صاحب کے علم میں سارے معاملات ہیں اس لئے وہ جلدازجلد نئے پروگرامنگ اینڈ نیوز ہیڈ لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں جو عنقریب آجائے گا۔۔اب کچھ احوال بول کے رنگیلے صاحب کا۔۔ کل تک جو کچھ بھی نہیں تھے وہ سازشیں کر کر کے بہت اوپر تک پہنچ گئے۔۔ ایک صاحب جن کی حیثیت اسائنمنٹ ایڈیٹر سے زیادہ کچھ نہیں وہ پہلے سینٹرل ان پٹ ڈیسک کے ہیڈ بنے، خواتین کے جھرمٹ میں رہنا پسند کرنے والے یہ رنگیلے صاحب پہلی سیڑھی چڑھنے کے بعد تمام بیوروز کو اپنے ماتحت لانے میں کامیاب ہو گئے اس دوران کراچی بیورو کے سابق ہیڈ نے تھوڑی مزاحمت دکھائی لیکن انہیں بھی راستے سے ہٹا کر من پسند بیورو چیف لایا گیا، جس کے بعد اپنے ماتحت ایک ویب ڈیسک بھی قائم کر لی گئی جبکہ اصولی طور پر ویب ڈیسک سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا حصہ ہونی چاہیے جوکہ چھٹے فلور پر ہے لیکن دانستہ ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ویب ڈیسک پر خواتین کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی اور اپنے قریب یعنی ساتویں فلور پر ہی رکھا گیا، ان صاحب کا اگلا ٹارگٹ مین نیوز ڈیسک تھا جہاں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے اسسٹنٹ ٹو ڈائریکٹر نیوز کا عہدہ تخلیق کیا گیا، جس پر براجمان ہونے کے بعد دونوں کنٹرولر نیوز صاحبان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا گیا، اس کام کیلئے مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ مختلف حربوں سے نیوز کنٹرولرز جوکہ سینئر صحافی ہیں کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کی۔۔ کبھی نیوز لیٹ بریک کرنے کی اور کبھی نیوز مسنگ کی جھوٹی رپورٹس بنا کر لائی جاتی ہیں، تمام رپورٹس جان بوجھ کر تین سے چار دن پرانی خبروں کی لائی جاتی ہیں کیونکہ بول کے شاہکار سافٹ وئیر میں چوبیس گھنٹے پہلے کی خبر دیکھنے کا کوئی نظام نہیں، اس لیے نیوز کنٹرولرز کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا، مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ کا دوسرا بڑا حربہ جعلی ریٹنگ سسٹم ہے، جس میں وہ جب چاہتے ہیں جس شفٹ کی چاہتے ہیں ریٹنگ بڑھا یا گرا دیتے ہیں اور نیوز کنٹرولرز کو دباؤ میں لے آتے ہیں حالانکہ اس ریٹنگ کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں صرف ٹاپ تھری چینلز کی ریٹنگ ہوتی ہے، جیو، اے آر وائی اور بول، جبکہ ریٹنگ کا معیار یہ ہے کہ اس میں بھی بول اکثر اوقات ہر گھنٹے پہلی پوزیشن پر ہی رہتا ہے۔ مانیٹرنگ کے دونوں افراد کو انہی صاحب کی آشیرباد حاصل ہے جو خودساختہ ڈائریکٹر نیوز بن چکے ہیں، دوسری جانب انہی کی آشیرباد باد سے پاک نیوز سے لایا گیا پینل پروڈیوسر جسے نائٹ شفٹ کا انچارج بنایا گیا تھا اسے بھی غیر اعلانیہ کنٹرولر کا عہدہ دے دیا گیا ہے حالانکہ اسے خبر لکھنا ہی نہیں آتا ۔۔موصوف کے حوالے سے پپو کئی بار مخبریاں دے چکا ہے لیکن اس کا دعویٰ ہے کہ کسی کا باپ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔رنگیلے ہیڈ کی خواتین کے حوالے سے رپورٹ انتہائی بری ہے، حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چینل کا مالک شعیب شیخ صاحب ہیں، جن کے حوالے سے کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا کہ انہوں نے کبھی چینل میں کام کرنے والی کسی اینکر یا خاتون ورکر پر کوئی بری نظر بھی ڈالی ہو یا کسی سے کوئی واہیات بات کی ہو، لیکن انہی شعیب شیخ صاحب کا نامزد کردہ یہ رنگیلا ہیڈ اس حوالے سے بہت بری ریپوٹیشن رکھتا ہے۔۔شعیب شیخ صاحب کو اس کا نوٹس لیناہوگا، ہمارا چیلنج ہے کہ وہ اپنے چینل کے ملازمین سے اس حوالے سے خفیہ معلومات حاصل کریں تمام چیزیں بے نقاب ہوجائیں گی کہ ہم غلط کہہ رہے ہیں یا رنگیلا ہیڈ غلط ہے۔ اسی رنگیلے ہیڈ نے کراچی بیورو میں اپنے چند رپورٹرز پر ہاتھ بھی رکھا ہوا ہے، جو کام والے ہیں وہ رنگیلے کی نظر میں بہت برے ہیں اور جنہیں کچھ نہیں آتا، جو مارکیٹ میں دعوے کرتے ہیں کہ ہم رنگیلے کو اتنا ’’ ماہانہ‘‘ پہنچاتے ہیں، وہ رنگیلے کی ہتھیلی کا چھالا بنے ہوئے ہیں۔۔ انٹرٹینمنٹ کے ایک ورکر کے والد کو ڈکیتی مزاحمت کے دوران گولی لگی۔۔واقعہ منگل کا ہے لیکن بدھ کے روز پورے دن نااہل کرائم رپورٹر اس حوالے سے ایک خبر فائل نہ کرسکے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹر تو کورنگی میں گٹکا مافیا کا سرپرست بناہوا ہے،اس کے علاوہ اس نےرنگیلے ہیڈ کو زمینوں پر انویسٹمنٹ کا لارا بھی دیا ہوا ہے۔۔ رنگیلے کے لاڈلے اس رپورٹر کے حوالے سے درجنوں کہانیاں پپو نے ہمیں بتائی ہیں ،اگر وہ سب لکھنے بیٹھ گئے تو باقی مخبریاں رہ جائیں گی، اس لئے یہ سب اگلی بار کے لئے۔۔ ساتھ ہی رنگیلے کی رنگین کہانیوںمیں سےکچھ سنسنی خیزانکشافات بھی اگلی قسط میں لازمی کریں گے۔۔
اب احوال ٹوئنٹی فور نیوز کا۔۔۔جہاں کراچی بیورو میں یہ بات وہاں کے ورکرز کےذہنوں میں پتہ نہیں کس نے ڈال دی کہ عمران جونیئر اب اس ادارے کے حوالے سےکبھی کچھ نہیں لکھے گا۔۔ عمران جونیئر کی دوستیاں ہر چینل اور اخبار میں ضرور ہیں۔۔کیوں کہ تیس سال صحافت میں ہوگئے۔ لاتعداد اداروں میں کام کرچکاہوں۔۔ سینکڑوں لوگوں کے ساتھ کام کیا۔۔ اس لئے ہر ادارے میں کوئی نہ کوئی شناسا تو ہوتاہی ہے۔۔اسی طرح ٹوئنٹی فور میں بھی کئی دوست ایسے ہیں جن کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے۔ ساتھ میں کام کیا، ساتھ میں کھایاپیاہے۔۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ پپو کا ہے، وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔۔ عمران جونیئر تو چلو پھر بھی رعایتی نمبرز دےدیتا ہے، خیال کرلیتا ہے لیکن جب پپو درمیان میں آجائے تو پپو پرانے زمانے کی بیویوں کی طرح گھسا پٹا طعنہ مارتا ہے، یا تو اسے اپنالو یا مجھے؟ اب آپ خود سوچیں پرانی محبت کو کوئی کیسے چھوڑ سکتا ہے؟؟اس لئے آج جان بوجھ کر ٹوئنٹی فور کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں لکھنے پر مجبور ہوں جس کا نوٹس محسن نقوی صاحب کو لینا ہوگا، کیوں کہ جو باتیں ہم بتانے جارہے ہیں شاید وہ کراچی آفس سے آپ تک نہیں پہنچ پارہی ہوں گی۔۔ اس لئے ہم جو کچھ بھی یہاں لکھیں انہیں دل پر نہ لیں بلکہ اس کی کسی ’’نیوٹرل‘‘ سے تحقیق کرالیں اور پھر اس کا تدارک کریں تاکہ کراچی میں آپ کی ریپوٹیشن خراب ہونے سے بچ سکے۔۔۔
چلیں شروع کرتے ہیں ٹوئنٹی فور کے کراچی بیورو کے حوالے سے پپو کی مخبریاں۔۔۔ کراچی بیورو میں نرالا قسم کا قانون نافذ کیاگیا ہے کہ کسی نے چھٹی لینی ہے تو وہ ادارے کے چیف ایگزیکٹو یعنی محسن نقوی صاحب سے منظوری لے گا، جو منظوری لئے بغیر چھٹی کریگا اس کی تنخواہ ہولڈ پر چلی جائے گی۔ پپو نے بتایا ہے کہ ٹوئنٹی فور لاہور ہیڈآفس میں ایچ آر شعبے میں کوئی نئی خاتون رکھی گئی ہیں، جب لوگوں کی تنخواہ رکی تو اس حوالے سے ورکرز نے ان سے بات کی اور پوچھا کہ ایک ہی تو چھٹی ہے تنخواہ کیوں روکی؟؟ تو وہ آگے سے فرماتی ہیں کہ چھٹی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا۔۔پپو نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایاکہ کیا اب بیمار ہونے سے ایک دن پہلے چھٹی لینی ہوگی کہ سر، کل مجھے بخار ہوجائے گا اس لئے مجھے کل کی چھٹی عنایت کی جائے ۔۔پپو نے یہاں عجیب انکشاف کیا کہ۔۔ کراچی بیورو کا کوئی ورکر کتنا ہی شدید بیمار کیوں نہ ہو، کراچی کے ٹاپ کے ڈاکٹرز یا اسپتال سے اپنا علاج کرائے، لیکن جب تک لاہور ہیڈآفس میں بنایاگیا میڈیکل بورڈ اسے ’’اپروو‘‘ نہیں کرے گا، بیماری کی چھٹی کے پیسے بھی کٹ جائیں گے، حیرت انگیز اور المیہ یہ ہےکہ اس میڈیکل بورڈ نے کراچی بیورو کے کسی بیمار کی چھٹی اپروو نہیں کی۔۔پپو کے مطابق کراچی بیورو میں تجربات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔ پہلے آصف جعفری بیورو چیف تھا، اس کے بعد زین صاحب آئے، پھر بلال احسن،بلال احسن کے بعد اب جسے بیورو چیف بنایاگیا ہے، وہ پروگرامنگ ہیڈ ہے،جس کا زندگی میں کبھی نیوز کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں رہا، یعنی نیوزکا کوئی تجربہ نہیں۔۔المیہ یہ ہے جس شعبے کا پہلے سے وہ ہیڈ تھا یعنی پروگرامنگ وہاں اب صرف ایک ہی پروگرام چلنے کو رہ گیا ہے۔ مارننگ شو بند ہوگیا۔۔ایک اور خاتون اینکر ایک شو کررہی تھیں جو ابتک نیوز سے آئی تھیں وہ شو بھی بند ہوگیا۔۔ پپو نے مزید بتایا کہ کراچی بیورو میں نوگھنٹے کی لازمی ڈیوٹی ہے۔۔ رپورٹرز کا ایک گروپ بنایاگیا ہے جس میں رپورٹرز سے کسی بھی وقت ان کی لائیو لوکیشن مانگی جاتی ہے تاکہ آفس والوں کو علم ہوسکے کہ رپورٹر اس وقت کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟ نگرانی کا سخت عمل جہاں ایک طرف اچھی بات ہے کیوں کہ ادارہ رپورٹر کو تنخواہ دے رہا ہے تو کام بھی لے گا لیکن نگرانی کے اس عمل سے رپورٹر اور ادارے کے درمیان اعتماد کا جو رشتہ ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد رپورٹر بھی گھڑی بھی دیکھ کر کام کرتا ہے۔۔ ڈیوٹی ٹائم ختم ہوا نہیں وہ بالکل اس طرح دفتر سے بھاگتا ہے جیسے اسکول کے بچے بستے لہراتے ہوئے چھٹی،چھٹی کے نعرے لگاتے ہوئے باہر بھاگتے ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ متعدد رپورٹر ادارہ چھوڑ کر چلے گئے، حال یہ ہے کہ ادارے میں اب صرف ایک ہی خاتون رپورٹر بچی ہے۔۔۔ اور المیہ یہ ہے کہ جو چھوڑ کر گئے یا جنہیں نکالا گیا، وہ مارکیٹ میں شکوہ کرتے پھررہے ہیں کہ ان کی تنخواہ بھی روک لی گئی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ عید سے پہلے آدھی تنخواہ دی گئی ، تنخواہوں کا تاخیر سے ملنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔ تنخواہیں بھی کٹ کٹا کر دی جارہی ہیں۔۔پپوکے مطابق پانچ سو،ہزار جرمانے تو عام سی بات ہے، ایک رپورٹر کے تو چوبیس ہزار روپے تنخواہ میں سے کاٹ لئے گئے۔۔جس کی وجہ یہ پتہ چلی ہے کہ ادارے نے چھٹیوں کے پیسے کاٹے ہیں۔۔ایک سینئر رپورٹر بے چارہ تنخواہ مانگتا رہا، ادارہ اسے ٹالتا رہا، وہ تنخواہ مانگتا رہا، ادارہ ٹالتا رہا، پھر اچانک اس کے اکاؤنٹ میں چھ لاکھ روپے ادارے نے ٹرانسفر کردیئے، رپورٹر بھی شدید قسم کا حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا؟ کیا ادارے نے انکریمنٹ لگادیا ؟؟ لیکن جلد یہ راز فاش ہوگیا جب سینئر رپورٹر سے کہا گیا کہ اس کے اکاؤنٹ میں غلطی سے زیادہ پیسے ٹرانسفر ہوگئے ہیں، چنانچہ آٹھ ،دس گھنٹے کی محنت کےبعد وہ پیسے ادارے نے واپس لئے۔۔کراچی بیورو کی اب ریپوٹیشن یہ بن گئی ہے یہاں لوگ آنے کو تیار نہیں ۔ کراچی بیورو میں صرف دو ’’این ایل ای‘‘ رہ گئے، ایک صبح میں ایک شام میں۔۔ چائے بند ہوگئی ہے۔۔ کھانا آتا ہے تو لنگر کی طرح ملتا ہے، جہاں جگہ ملے کھڑے ہوکر کھالو۔۔ ایچ آر کا نیا بندہ کراچی اپوائنٹ ہوا ہے اس کے اپنے قوانین ہیں۔۔ حمزہ، رخسار اور اس سے پہلے ایک اور صاحب تھے ایچ آر میں، جو بھی آیا اس نے اپنے من پسند قوانین کراچی بیورو میں نافذ کردیئے۔۔ محسن نقوی صاحب کو ان سب باتوں کو سنجیدگی سےلینا ہوگا، ادارے بنتے تو بڑی محنت سے ہیں لیکن تباہی میں بالکل بھی دیرنہیں لگتی۔۔ ادارے بند ہونگے تو ورکرز کا نقصان ہوگا، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ ادارہ کراچی میں سکڑنا شروع ہوا، اس کا فوری علاج کیا جائے۔۔
نیوزون نے بھی ماہ مئی کے دوران ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ملازمین بددلی کا شکار ہیں۔۔ اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ چکی ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل یوٹیوب چینل، جسے پاکستان میں کم از کم 29.6 ملین سبسکرائبرز کے ساتھ سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا سمجھا جاتا ہے، مختصر طور پر ہیک کر لیا گیا۔ہیکرز نے چینل کا نام اور ویڈیوز کا ٹائٹل تبدیل کر دیا۔ اے آر وائی نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف نازیبا زبان بتاتے ہیں کہ یہ بھارتی ہیکرز کا ہاتھ ہے۔اس سائبر حملے کے براہ راست نتیجے کے طور پر، اے آر وائی ڈیجیٹل سے تعلق رکھنے والا یوٹیوب چینل کچھ وقت کے لیے متاثر ہوا اور ناقابل رسائی تھا۔ اس دوران بھارتی ہیکرز نے یوٹیوب کمیونٹی کو بھی عذاب میں مبتلا کیا۔تاہم کچھ دیر بعد چینل بحال ہو گیا۔
اور اب آخر میں صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ یہ ایک وارم اپ قسط تھی۔۔ کوشش کی کہ تمام واقعات تازہ اور آپ کے لئے نئے ہوں۔۔ ہماری اب انتہائی سنجیدگی سےکوشش ہوگی کہ ۔۔ مہینے میں کم سے کم ایک بار ضرور تازہ قسط کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش ہوں۔۔ اگلی بار کچھ مزید مخبریوں اور انکشافات کے ساتھ حاضری لگائیں گے، اس وقت تک کے لئے اپنا خیال رکھیں۔۔۔(علی عمران جونیئر)
نوٹ: یہ بلاگ عرصہ چھ سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے،واضح رہے کہ یہ میڈیا انسائٹس کے حوالے سے ایک بلاگ ہے،جسے “خبریانیوز” نہ سمجھا جائے، (علی عمران جونیئر۔۔)