سینہ بہ سینہ قسط نمبر 90
دوستو، ایک دن کے بعد ہی پھر حاضر ہوں۔۔۔ کل آپ نے صرف ریٹنگ کے حوالے سے سینہ بہ سینہ پڑھا۔۔کئی دوستوں کا شکوہ رہا کہ مزہ نہیں آیا۔۔ دوستو، یہ بلاگ میں کسی کی خوشنودی، کسی کی چاپلوسی کرنے یا کسی کو مزہ فراہم کرنے کیلئے نہیں لکھتا، پپو جو مخبریاں دیتا ہے میں صرف وہی لکھتا ہوں، اور اس سلسلے کا مقصدوہ باتیں آپ لوگوں کے سامنے لانا ہے جس کے بارے میں سینہ بہ سینہ ہی بات ہوتی ہے ، میرا دعوی ہے کہ چینلز میں کام کرنے والوں کی اکثریت کو ریٹنگ کے بارے میں علم نہیں ہوتا، حالانکہ جس چینل میں وہ کام کررہے ہوتے ہیں انہیں یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ریٹنگ والے معاملات چینلز کے صرف چند مخصوص لوگوں تک ہی محدودہوتے ہیں۔ کوشش ہوگی کہ مہینے میں ایک بار پورے ماہ کا مختصر جائزہ ریٹنگ کے حوالے آپ کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ جہاں آپ کام کررہے ہیں آپ کو اندازہ ہو کہ کہاں کھڑے ہیں۔۔ آج پپو کی مختلف چینلز کے حوالے سے تازہ مخبریاں پیش خدمت ہیں۔۔۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں ٹاک شوز کی جسے بند کرنے کیلئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے مطالبہ کردیا۔۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تفویض کردہ اختیارات کے اجلاس کے دوران کمیٹی کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے ٹیلی ویژن چینلوں پر چلنے والے تمام ٹاک شو زکو بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حکومت سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے جو اخباری مالکان کو اپنے اپنے ٹیلی ویژن چینلز کھولنے کی اجازت دی ہے۔۔ جمعرات کے روز کمیٹی کا اجلاس اس کے چیئرمین، سینیٹر تاج حیدر کی صدارت میں منعقد ہوا ، تو چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے پیمرا کی جانب سے بغیر تار ٹیلی ویژن سروس صارفین کے گھروں تک پہنچانے کے نظام ڈائریکٹ ٹو ہوم ( ڈی ٹی ٹی ایچ ) کی نیلامی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کوبتا یا کہ ڈی ٹی ایچ ایک جدید ٹیکنالوجی ہے،یہ نظام یورپی ممالک میں 25سال سے جبکہ انڈیا میں 15سال سے رائج ہے، لاہور ہائی کورٹ نے ہمارے رولز (3)13اور (4)13کو غیر آئینی قرار دیا تھا، ان رولز کے ختم ہونے سے ٹی وی چینلز اور اخبارات کی اجا رہ داری قائم ہوگی، جس سے خرابیاں پید اہوں گی،پیمرا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے،جہاں7نومبر کو کیس کی سماعت ہوگی ، سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پیمرا کو چاہئے کہ ٹی وی پر چلنے والے تمام ٹاک شوز پر پابندی لگادی جائے کیونکہ جب بھی سپریم کورٹ میں کوئی اہم کیس چل رہا ہوتا ہے نجی ٹی وی چینلوں پر براہ راست اسکی خبریں چل رہی ہوتی ہیں جو سراسر غلط ہے۔۔
بول کی بھی کچھ باتیں سن لیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کی طبیعت ناساز ہے اس لئے وہ اسکرین سے غائب ہیں، ان کے پرستاروں سے ڈاکٹر عامر لیاقت کیلئے دعائے صحت کی درخواست ہے۔۔ عامربھائی کے نام کھلا خط لکھنے کے بعد دوستوں کی بڑی تعدادکا اصرار ہے کہ اس کی اگلی قسط بھی لکھی جائے، سب سے معذرت کرلی۔۔کیونکہ فرمائشی پروگرام ایک زمانے میں ریڈیو سیلون پر چلتے تھے، اگر میں نے بھی فرمائشیں پوری کرنا شروع کردیں تو پھر کرلیا کام۔۔ یاد رکھیں، اینکر فرمائشی پروگرام کرنا شروع کردے، صحافی فرمائشی خبریں دینا شروع کردے،یا کوئی نوجوان کسی گرل فرینڈ کی فرمائشیں پوری کرنا شروع کردیں، سمجھ لیں تینوں کا زوال شروع ہوگیا۔۔ بول کے ہی ایک اور بڑے صاحب جوچینل میں ایک بڑا عہدہ بھی رکھتے ہیں اور پروگرام بھی کرتے ہیں جمعہ کے روز وہ بھی اسکرین سے غائب تھے،پپو نے کھوج لگا کے بتایا کہ انہیں بول کے بڑے صاحب نے جبری رخصت پر بھیج دیا ہے۔۔جب جبری رخصت کی وجہ دریافت کی تو پپو کا کہنا تھا کہ موصوف نے شاید عدلیہ کے حوالے سے کوئی متنازع پروگرام کردیا تھا اور ایک سیاسی پارٹی کی خوشنودی کیلئے آئی جی سندھ کو رگڑا بھی لگادیا تھا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فی الحال ابتدائی اطلاعات دے رہا ہے،تفصیل پھر دے گا۔۔بول کے ایک اور عہدیدارکو کچھ عرصہ پہلے معطل کردیا تھا لیکن جبری رخصت پر جانے والے صاحب نے ان کی نوکری بچالی تھی، پپو کا کہنا ہے کہ عہدیدار نے ایک رپورٹر کو امریکا جانے کی ایک ماہ کی تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی، لیکن وہ مزید دو ماہ لگاکے آیالیکن اس رپورٹر کے نام ہر ماہ تنخواہ جاری ہوتی رہی، یہ معاملہ انتظامیہ کے نوٹس میں آگیا جس پر فوری ایکشن لیا گیا۔۔خیر وہ عہدیدار بھی اب بول میں ہی نوکری کررہا ہے کیونکہ نوکری جو بچ گئی تھی۔۔
ہم نیوز سے مخبری یہ ہے کہ کراچی میں 12 رپورٹرز رکھ لئے گئے۔۔ ہم انتظامیہ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان میں ایسے رپورٹرز کو ترجیح دی گئی جو کچھ عرصے سے بیروزگار تھے،بیروزگار رپورٹرز کو رکھنے کا انتظامیہ کو ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ “بارگیننگ” کی ضرورت نہیں پڑی اور منہ مانگا پیکیج دینا پڑا۔۔ پیر کے روز صبح تمام رپورٹرز کے ساتھ ندیم رضا صاحب کراچی میں ملاقات بھی کریں گے۔۔۔ اسی طرح لاہور میں بھی کچھ رپورٹرز کو لیٹرز مل گئے ہیں، اسلام آباد میں بھی جوائننگ کا سلسلہ جاری ہے۔۔
ذکر کچھ سما نیوزکا۔۔ جہاں مزید دو پروگرام سین آن ہے اور حشمت اینڈسنزکو بندکرکے ان کی ٹیموں کو فارغ کردیاگیا ہے، جب کہ چار کیمرہ مین بھی فائر کردیئے گئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ 14 کے قریب لوگوں کونکالاگیا۔۔پپو کے مطابق سما میں چند مخصوص رپورٹرز کو ادارے کی جانب سے آئی فونز دیئے گئے ہیں جن کے بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب رپورٹرز کی تنخواہوں سے ماہانہ پانچ ہزار روپے کاٹے جا رہے ہیں۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ رات کے وقت سما کے پاس کوئی رپورٹر نہیں ہوتا، ایک ٹرینی کو رکھا ہوا ہے۔۔سما کے پاس سندھ سیکرٹریٹ اور سندھ اسمبلی کی کوریج کیلئے بھی کوئی رپورٹر نہیں۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ ایک سینیئر رپورٹر کو کچھ عرصہ پہلے جب کہا گیا کہ کچرے پر لائیوہٹ دو تو اس نے لائیوہٹ کے بجائے اپنا استعفا دے دیاجوایک ماہ تک قبول نہیں کیاگیا،لیکن رپورٹر اڑا رہا اور سما چھوڑ کر پاکستان کے سب سے بڑے چینل کو جوائن کرلیا۔۔
24 نیوز سے پپو نے مخبریاں دی ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کی جانب سے چینل پر عائد پانچ لاکھ روپے جرمانے کو برقرار رکھا ہے، پیمرا نے یہ جرمانہ مریم نواز کے حوالے سے ایک خبر پر عائد کیاتھا،پیمرا کے مطابق دس جون دوہزارسولہ کو مبشرلقمان کے پروگرام کھراسچ میں مریم نوازکے حوالے سے ایک بے بنیادرپورٹ چلائی گئی جس میں کہاگیا کہ وہ وفاقی سیکرٹریزکے ساتھ اجلاس میں انہیں ہدایات دے رہی ہیں اور حکومتی امور دیکھ رہی ہیں،اسی رپورٹ کے دوران اجلاس کی تصویر بھی دکھائی گئی جو کہ اصل میں اس وقت کی تصویر تھی جب مریم نواز وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کی چیئرپرسن تھیں،اس رپورٹ کے خلاف مریم نواز نے پیمرا میں شکایت کی تھی،جس پر کارروائی کے بعد دس اکتوبر دوہزارسولہ کو چینل پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیاگیا،جسے چینل انتظامیہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا لیکن معزز عدالت نے چینل انتظامیہ کا موقف رد کردیا۔۔ایک اورمعاملے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف غلط خبر چلانے پر 24 چینل پر پیمرا کے پانچ لاکھ جرمانہ ختم کردیا،پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے درخواست واپس لئے جانے پر عدالت نے فیصلہ سنادیا۔۔پیمرا کے مطابق بارہ جولائی دوہزار سولہ کو چینل پر عمران خان کے کسی خاتون سے تعلقات کے حوالے سے غلط خبر چلائی گئی تھی،پی ٹی آئی کی شکایت پر پیمرا نے نوٹس لیااور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کردیا۔۔
ذکر جب لاہور کے چینل کا ہورہا ہے تو 92نیوزکے کراچی بیورو کا بھی کچھ احوال پپو کی زبانی سن لیں۔۔پپو بیچارے کی تلاش ابھی تک شدومد سے جاری ہے لیکن پپو کراچی بیورو کے ہاتھ ہی نہیں لگ رہا، یہاں تک کہ میرا(عمران جونیئر) موبائل فون بھی آبزرویشن پر لگوادیا لیکن پھر بھی پپو پکڑائی نہیں دے رہا،ارے نادانوں کوشش میں لگے رہو ،ہمیشہ کہتا ہوں، پپوکو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔۔کراچی بیورو کے حوالے سے پپو کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹر کو وڈے اخبار(جنگ) سے استعفا دلوا کر بڑی دھوم دھام سے یہاں لایا گیا،تنخواہ بھی چھ کی فیگر میں لگوائی گئی،لیکن یہ کیا؟؟۔۔ جس مہنگے ترین رپورٹر سے متعلق انتظامیہ کے سامنے بڑے بڑے دعوے کئے گئے وہ تو “ٹھس” نکلا،یار جب اخبار میں کام کرنے والے رپورٹر کو اچانک ٹی وی میں لائیں گے تو پھر “پرفارمنس ” کی امید بھی نہ رکھیں، اسے ٹی وی کا مزاج سمجھنے میں ٹائم تو لگے گاناں۔۔اب اس بیچارے کی نااہلی چھپانے کیلئے دوسرے چینلز پر چلنے والی بریکنگ نیوز چھاپ کے ٹکرز دیئے جاتے ہیں تاکہ چینل انتظامیہ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھاناپڑے۔۔پپو نے ماضی کے ورق کھولتے ہوئے بتایا کہ وہ رپورٹر جب وڈے اخبار میں تھا تو مختلف نیوزایجنسیز اور ساتھی رپورٹرز سے پکڑدھکڑ کرکے کام چلاتے تھے۔۔یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گئی، تعلقات والے اتنے ہیں کہ جب امت اخبار میں بطور انٹرنی کیرئرکی شروعات کی تو ساتھ ہی کراچی پریس کلب کی ممبرشپ بھی کرالی۔۔پپو نے ان کے حوالے سے مزید بھی بہت کچھ بتایا ہے جس کی تفصیل میں گیا تو پھر مزید مخبریاں رہ جائیں گی۔۔ کراچی بیورو میں برطرفیوں اور استعفی دینے کا سلسلہ جاری ہے پپو کا دعوی ہے وڈے چینل سے آنے والےبیورو چیف اور پک اینڈ ڈراپ والے اسائنمنٹ ایڈیٹر کے روئیے سے تنگ آکر ایک کرائم رپورٹر نے اپنا استعفی دے کر سما جوائن کرلیا ہے۔۔اس سے پہلے دو اور رپورٹرز کو ان کی پکڑ دھکڑ کی حرکتیں منظرعام پر آنے کے بعد نکال دیا گیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ سندھ سیکٹریٹ میں گھومنے والے رپورٹر کے پاس سے تو ادارے کے ایک اصلی کار ڈ کے علاوہ ایک جعلی کارڈ بھی انتظامیہ نے برآمد کیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ معاملے کو دبانے کے لئیے ایچ آر ہیڈ نے نکالے جانے والے رپورٹر کے گھر گاڑی بھیج کر آفس کارڈ اور جعلی کارڈ منگوایا۔۔اس سے قبل سینیئر رپورٹر کا عہدہ حاصل کرنے والے اسپورتس رپورٹر کو بھی نکالا گیا، جس کا پچھلی بار پپو نے بتایا تھا۔ ۔پپو کے مطابق اسے صبح صبح گھر پر فون کرکے گھر پہ ہی رہنے کی اطلاع دی گئی۔۔کراچی بیورو کی مزید بھی اطلاعات ہیں لیکن اسے اگلی بار کیلئے رکھتے ہیں۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اگلی بار وہ کچھ چونکادینے والے انکشافات کرے گا۔۔92 سکھر بیورو سے خبر ہے کہ وہاں ایک ایسے رپورٹر کو بیوروچیف نے رکھوایا ہے جس کا ڈھابہ ہوٹل ہے۔۔ کہا جارہا ہے کہ بیوروچیف اور مذکورہ ہوٹل مالک کی کافی گہری دوستی ہے، جس کی وجہ سے یہ “کارنامہ” ظہور پذیر ہوا، اب وہ رپورٹر اپنے ہوٹل پر مفت خور پولیس والوں کو میڈیا کا بھرم تو دے ہی سکتا ہے۔۔
لاہور ہی کے ایک گورمے چینل کی بھی مخبری سن لیں، پپو کا کہنا ہے کہ بہت جلد ہیڈآفس کراچی سے لاہور شفٹ کیا جارہا ہے۔۔ کارکنوں کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ جاگ ملازمین کی لائف اور ہیلٹھ انشورنس کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔۔ ایچ آر کی جانب سے فہرستیں بن گئی ہیں۔ ۔ کارکنوں کے مفاد میں یہ ایک اچھا عملی اقدام ہے۔۔جس کا فائدہ غریب ورکرز کو ہی پہنچے گا۔۔گوجرانوالہ کے بیوروچیف کو بحال کردیا گیا جب کہ غریب کیمرہ مین اب بھی بیروزگاری کا شکار ہے۔۔یہ اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ ایک ماہ کے اندر جاگ کے ہیڈآفس کو کراچی سے لاہور شفٹ کیا جارہا ہے۔۔۔
اب کچھ بات جنگ اوردی نیوزکے رپورٹراحمد نورانی کی۔۔ جو گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک حملے میں زخمی ہوگئے۔۔اسلام آباد کے ایک اخبار نے تو یہ سارا معاملہ ہی کسی لڑکی کا چکر بتاکر الٹنے کی کوشش کی۔۔۔اخبار کے مطابق وزیراعظم کے حکم پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ احمد نورانی پر حملے میں نجی یونیورسٹی کے طلبہ ملوث ہیں اور وجہ عناد ایک دوشیزہ بنی ہے۔اگر کچھ دیر کیلئے فرض کرلیا جائے کہ مذکورہ اخبار کی رپورٹ سچی ہے تو پھر ماضی میں جائیں تو جیوکے رپورٹر ولی بابرکا جب کراچی میں قتل ہوا تھا تو اس وقت بھی کچھ ایسا ہی “بیانیہ” سامنے آیا تھا کہ یہ قتل کسی لڑکی کے چکر میں ہوا ہے، لیکن جب تحقیقات آگے بڑھیں تو حقائق سامنے آتے چلے گئے۔۔احمد نورانی پر حملہ کرنے والے ملزمان میں سے ایک کی تصویر پولیس نے حاصل کرلی جب کہ ایک حملہ آور کا اسکیچ بھی تیارکرلیاگیا۔۔ پولیس نے جب سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج کی جانچ پڑتال کی تو ایک ملزم کی تصویر مل گئی، تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ تصویر کافی چھوٹی تھی جسے ایف آئی اے کے ماہرین سے بڑاکرایاگیا اوراسے شناخت کیلئے نادرا دفتر بھیج دیاگیا۔۔ احمدنورانی کے ڈرائیورممتازکی جانب سے ایک حملہ آورکے حلئیے کوسامنے رکھ کرایک ملزم کا تصویری خاکہ بھی تیار کیا گیاہے جب کہ 25جون کوایک نامعلوم شخص احمدنورانی کے گھرسحری کے وقت آیاتھا جس نے انہیں دھمکی دی تھی جس کی ایف آئی آرتھانہ آبپارہ میں درج کی گئی تھی پولیس نے مذکورہ ملزم کاسکیچ بھی تیارکرایاہے ان دونوں تصویری خاکوں کی آپس میں مماثلت ہے اورانہیں مشتہرکیاجارہاہے کہ اگران کے بارے میں کسی کومعلوم ہوتوپولیس کومطلع کرے۔ گاڑی سے ملزموں کے فنگرپرنٹس کے نمونے بھی لئے گئے ہیں جنہیں چیک کیاجارہاہے، فوٹیج میں دکھائی دینے والے ایک موٹرسائیکل کی بھی ملکیت معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش میں کچھ ایسے مثبت اشارے ملے ہیں جس سے ملزموں کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے تاہم اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حملہ آور موٹر سائیکل سواروں کی شناخت کےلئے اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے جائیں گے ۔ وزارت داخلہ کو متعلقہ اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ اس کیس میں کسی لڑکی کا معاملہ شامل نہیں ۔ احمد نورانی کے آبائی علاقے سے بھی کچھ ریکارڈ اسلام آباد کو موصول ہوگیا ہے اور حکام اس ریکارڈکا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔۔حیرت انگیز طور پرکچھ صحافی نمائندہ تنظیموںاورپر یس کلبوں کے احتجاج کے علاوہ ہر میڈیا ہاؤ س نے نورانی پر حملے کی خبر سے گریز کیا۔ جیو سمیت جن گیارہ چینلوں کی مانیٹرنگ کی گئی، ان میں سے چھ اہم چینلوں نے اس حملے کا ایک نیوز ٹکر بھی نہ چلایا۔ بعد میں آٹھ چینلوں نے اسے کسی بھی نیوز بلیٹن کے قابل نہ سمجھا۔ اگلے روز، دی نیوز اور جنگ کے علاوہ کسی اور اخبار نے اسے نمایاں جگہ پر شائع نہ کیا۔ زیادہ تر اخبارات نے تواس کا بلیک آؤٹ کیا۔ یہ ہے پاکستان میں آزادی ٔ صحافت ! اوریہی حقیقت ہے۔
ایک طرف تو آزادی صحافت کا رونا ہے دوسری طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف جب پاکستان آنے سے پہلے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں تو انہیں مطیع اللہ جان اور احمد نورانی پر حملے تو یاد رہتے ہیں ، وہ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن جب اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کو دی جانے والی دھمکیوں پرسوال کیاجاتا ہے تو وہ اسے گول کردیتے ہیں۔۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے ”ذائقہ ٹی وی “ اور ”بزنس پلس ٹی وی“کی نشریات کو 30دنوں کے لئے معطل کردیا ہے۔ پیمرا نے ذائقہ ٹی وی اور بزنس پلس کی طرف سے گزشتہ کئی سالوں سے لائسنس کی تجدید کے لئے واجب الادا فیس کی عدم ادائیگی پر دونوں چینلز کی نشریات کو معطل کرنے کی منظوری دی ۔۔دوسری طرف 7نیوز کی نشریات کو بھی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے حوالے سے غلط خبر چلانے پر 7دنوں کو معطل کرنے کی منظوری دی گئی لیکن چینل انتظامیہ نےپیمرا کے حکم کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرلیا۔۔مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے ایک غلط رپورٹ چلانے پر پیمرا نے بول پر بھی دس لاکھ روپے جرمانہ اور معافی نشر کرنے کا حکم دیا ہے۔۔
بلوچستان کے علاقے گوادر،پنجگور،پسنی،لسبیلہ،حب،دالبندین ،نوشکی ،قلات،اوتھل اورخاران کے صحافیوں نے تمام سرگرمیاں معطل کرکے پریس کلبوں کو غیر معینہ مدت تک کےلئے بند کردیاہے، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمٰن کہتے ہیں کہ پالیسی میکرز کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کومدنظر رکھ کر پالیسی تشکیل دیں اور میڈیاکی صنعت کو خوف کے ماحول سے نکالا جائے ۔
اب پپو کی کچھ مختصر مختصر مخبریاں۔۔۔۔
اسٹارایشیا میں صفائی کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔مزید دو رپورٹرز، دو اینکرز ، ایک سینیئر اسائنمنٹ ایڈیٹر اور ایم سی آر سے ایک خاتون کو فارغ کردیا گیا۔۔ فارغ ہونے والی ایک خاتون اینکر نے سیون نیوز جوائن بھی کرلیا۔۔
سیون نیوز نے فیصل آباد کے لیے نئی بھرتیوں کا اعلان کیا ہے ۔۔۔
اے آر وائی کوئٹہ کے بیوروچیف شاہد رند نے استعفا دے دیا ہے۔۔۔
آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ اب ایک ہفتے کیلئے اجازت دیجئے۔۔ پپو کی تازہ مخبریوں کے ساتھ پھر حاضری دونگا۔۔
(علی عمران جونیئر)۔۔