سینہ بہ سینہ۔۔۔۔۔ آف دا ریکارڈ۔۔۔۔ پارٹ نو۔۔۔۔
کل سینہ بہ سینہ ۔۔۔آف دا ریکارڈ میں آپ نے بول کے حوالے سے اس کے خلاف ہونے والی سازش کا کچھ احوال پڑھا۔۔۔ آج آپ کو بول اور ایگزیکٹ کے خلاف دائر مقدمات کے حوالے سے کچھ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ میری کوشش ہوگی کہ مختصر مختصر سارے معاملے کو آپ کے سامنے پیش کرسکوں تاکہ آپ پراپیگنڈے اور سچائی میں فرق محسوس کرسکیں۔۔۔۔۔ آج کی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
سینٹ کی اسیٹنڈنگ کمیٹی برائے داخلہ اور نارکوٹس کنٹرول سنیٹر رحمن ملک کی صدارت میں 10 نومبر کو بول ٹیلی ویژن سکینڈل کے حقائق جاننے کے لیے سماعت کرے گی۔اس سلسلے میں کمیٹی نے ایک نوٹیفیکیشن کے زریعے ایف آئی کے ڈائریکٹر جنرل سندھ شاہد حیات کو صبح دس بجے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔جہاں ایف آئی کے ڈائریکٹر جنرل سندھ شاہد حیات ایگزیکٹ او بول ٹیلی ویژن پر لگانے جانے والے الزامات کی روشنی میں قائم مقدمات اور ان کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے ہر گز خالی نہیں ہے کہ ،عدلیہ نے ایگزیکٹ کمپنی پر سرکاری تالہ بندی کو غیر قانونی قرار دے کر اسے مقدمے سے الگ کر کے کھولنے کا حکم جاری کیا تھا۔ تاہم ایف آئی نے عدالت کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے اثاثوں اور عمارتوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔اور ایگزیکٹ کمپنی نے عدالت کا حکم نہ ماننے کے الزام میں ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کر کے عدالت سے سماعت کی استدعا کر رکھی ہے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ کوئی نا دیدہ قوت مقدمے کی سماعت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ایف آئی اے نے کمپنی کے دفاتر پر چھاپہ مار کر اس کی عمارتوں سے ہزاروں کمپیوٹرز یہاں تک کہ فرنیچرز اور ملازمین کے لیے بنائے باورچی خانوں میں موجود فریج اور تمام چھوٹی بڑی اشیا اپنے قبضے میں لینے کے بعد کھلی مارکیٹ میں فروخت کر دی ہیں۔۔زرائع کہتے ہیں ایف آئی اے کے عملے نے ایگزیکٹ کمپنی کے قبضے میں لیے گئے قیمتی کمپیوٹر جو سرور کہلاتے ہیں ساڑھے تین تین کروڑ میں فروخت کیے ہیں۔جبکہ ایگزیکٹ کمپنی سے اٹھائے گئے ہزاروں کمپیوٹر اب بھی مارکیٹ میں فروخت کے لیے موجود ہیں۔زرائع کا یہ بھی دعوی ہے ایف آئی اے نے کمپنی کے ملازمین کے گھروں میں گھس کر نا صرف انہیں ہراساں کیا بلکہ ان کی خواتین سے بھی زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی۔زرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں ایف آئی اے نے ایگزیکٹ ملازمین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرنے کی دھمکی دے کر لاکھوں کروڑوں روپے رشوت بھی وصول کی۔یہاں واضح رہے کہ سندھ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل شاہد حیات ایک انتہائی ایماندار اور با کردار افسر کی شہرت رکھتے ہیں جن کی نگرانی میں ان تمام واقعات کے ظہور میں آنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ادھر وفاقی حکومت کے اہم ذمہ دار ذرائع نےدعویٰ کیا ہے بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمے کے پس منظر میں وفاقی حکومت نہیں کوئی اور ہے جو سب پر” بالا دست“ ہے اور ایگزیکٹ کے خلاف کاروائی اور اس کے مالک کی گرفتای و اسیری اس بالا دست سے تنازعے کا نتیجہ ہے۔ تاہم زریعے نے ایف آئی اے کی جانب سے ایگزیکٹ کمپنی کے کروڑوں اربوں کے اثاثوں کی کھلی مارکیٹ میں کوڑیوں کے داموں فروخت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے ”اس میں ایسی کیا حیرانی کی بات ہے،”یہاں یہ سب کچھ پہلی بار ہوا ہے کیا! جبکہ زریعے کا یہ بھی دعویٰ ہے سینٹ کی ا سیٹنڈنگ کمیٹی برائے داخلہ بھی ایگزیکٹ کے معاملے کی تفشیش کر کے دیکھ لے،مگر ہو گا وہی جو وہ چاہے گا جو ”بالا دست“ ہے۔۔۔۔