سینہ بہ سینہ قسط نمبر 87
دوستو، دوست یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ کہ آپ پپو کو بولیں کہ وہ پرنٹ میڈیا سے متعلق بھی مخبریاں دیا کرے، پپو کی زیادہ تر مخبریاں ٹی وی چینلز کے حوالےسے ہی ہوتی ہیں، پپو اخبارات کو مکمل نظرانداز کررہا ہے۔۔ پپو تک آپ کی شکایت پہنچائی تو اس بار سینہ بہ سینہ میں زیادہ تر مخبریاں اخبارات کے حوالے سے ہی ہے۔۔چلیں پھر جلدی جلدی پپو کی مخبریاں شروع کرتے ہیں کیونکہ یہ سلسلہ آپ کو صرف اور صرف پپو کی وجہ سے ہی پسند ہے۔۔
جی ٹی روڈ ریلی کے دوران تو میڈیا ورکرز کو نشانہ بناگیا تھا اب نواشریف کی وطن واپسی پر صحافیوں کو ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بنایاگیا، مسلم لیگ نون کی جانب سے میڈیا کے ساتھ اس طرح کا سلوک سنگین خطرے کی علامت ہے، نون لیگ کے مزاج میں تشدد نہیں لیکن اس کے باوجود میڈیا ورکرز پر تشدد کیوں کیاجارہا ہے، اس پر ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو غور کرنا ہوگا۔۔ منگل کے روز بھی دنیا نیوز کے عامر سعید عباسی۔۔92نیوز کے شاہ خالد ہمدانی اور نیونیوز کے سعد بن الطاف کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔۔جی ٹی روڈ ریلی کے مقابلے میں اس بار نئی بات یہ تھی کہ پہلے کارکنوں نے تشدد کیا تھا اس بار سیکورٹی گارڈز نے صحافیوں کو نہیں بخشا۔۔عامر سعید عباسی کو تو پستول کے بٹ مارے گئے اور ان کا موبائل فون بھی چھین لیاگیا۔۔سابق وزیراعظم نے صحافیوں کو آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی تو کرائی ہے لیکن جی ٹی روڈ ریلی میں تو انہوں نے اپنے خطاب میں ایسا کرنے سے منع کیا تھا لیکن اگلے ہی روز پھر صحافیوں پر تشدد کیا، خیر امید ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سختی سے تدارک کیا جائے گا۔۔
اب پپو کی بریکنگ نیوز سن لیں۔۔ عائشہ گلالئی کے جواب میں سامنے آنے والے ایک اور کردار عائشہ احد کے حوالے سے پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ۔۔وزیراعلیٰ پنجاب کی بہو اور حمزہ شہباز کی منکوحہ ہونے کی دعویدار عائشہ احد سے بول گروپ نے رابطہ کیا ہے۔۔ پپو نے دعوی کیا ہے کہ بول گروپ چاہتا ہے کہ عائشہ احد ان کے چینل پر کسی پروگرام کی میزبانی کریں۔۔پپو کے مطابق بول گروپ شریف فیملی کے بغض میں عائشہ کواینکر کا درجہ دینے کیلئے تیار ہے، پپو نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ عائشہ احد بھی دو بار تیار ہوچکیں اور دونوں بار کراچی کا ائرٹکٹ کنفرم ہونے کے باوجود نامعلوم وجوہ کی بنا پر وہ جا نہیں سکیں۔۔لیکن اب بھی وہ بول گروپ سے رابطے میں ہیں اور کسی بھی وقت اینکر بننے کا شرف حاصل کرسکتی ہیں۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ سرکار کے پاس ایک ایسا ٹی وی چینل بھی ہے جو قومی خزانے کو سالانہ دس کروڑ روپے سے زائد میں پڑرہا ہے۔۔29 جنوری 2013 کو سابق صدر آصف زرداری نے انگریزی زبان میں نشریات کیلئے پی ٹی وی ورلڈ کا افتتاح کیا، اس دن سے لے کر 30 جون 2015 تک اس چینل پر قومی خزانے سے 35 کروڑ 61 لاکھ روپے خرچ ہوچکے لیکن اس دوران اس چینل نے ایک روپے کی بھی کمائی نہیں کی۔۔آڈیٹرجنرل پاکستان کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ سرکاری خزانے سے پی ٹی وی ورلڈ کو سالانہ 105 ملین روپے یعنی دس کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز جاری کئے جاتے ہیں اور حکام کہتے ہیں کہ اس کے بغیر چینل کی نشریات جاری رکھنا ممکن نہیں۔۔آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں اس چینل کو غیرقانونی قرار دیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ چینل کوفنڈز کو اجرا کسی اتھارٹی کی منظوری کے بغیر کیاجارہا ہے۔۔
پپو نے روزنامہ جہان پاکستان کراچی سے متعلق بھی کچھ مخبریاں کی ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ کراچی میں نیوزڈیسک پر پچھلے پانچ سال سے کسی کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی۔۔یہاں مستقل ایڈیٹر ہے نہ کوئی نیوزایڈیٹر۔۔ایک سینیئر سب ایڈیٹر کو قائم مقام نیوزایڈیٹر بنایاہوا ہے جس نے پوری ڈیسک کے لوگوں کے ناک میں دم کررکھا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ اس بیچارے کو کام کرانے کا ڈھنگ تک نہیں آتا۔۔ نائٹ ڈیسک پر پہلے دس سب ایڈیٹر تھے جو اب مذکورہ صاحب کے ناروا سلوک کی وجہ سے صرف پانچ رہ گئے۔۔ورکرز میں خدشات اور تشویش پائی جاتی ہے لیکن انتظامیہ ہر بار کوئی نہ کوئی لالی پاپ دے دیتی ہے مگر تنخواہ نہیں بڑھاتی۔۔دو سال سے ورکرز کا میڈیکل بھی ختم کردیاگیا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جب جب جو ورکر چھوڑ کر جاتا ہے اسے واپس پہلے سے زیادہ تنخواہ پر بلالیا جاتا ہے لیکن جو لوگ مستقل مزاجی اور جانفشانی سے ٹک کرکام کررہے ہیں ان کی کوئی قدر نہیں، یہاں عہدوں کی تقسیم کی کوئی پالیسی نہیں۔۔جو جتنا زیادہ خوشامدی اور چاپلوسی کرے گا وہی انتظامیہ کا فیوریٹ شمار کیاجاتا ہے۔۔پپو نے قائم مقام نیوزایڈیٹر کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ وہ مالی طور پر کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ،اس کا بھائی امریکا سے اسے ماہانہ خرچہ بھیجتا ہے اس لئے وہ کسی ورکر کیلئے تنخواہ بڑھانے کی بات انتظامیہ سے نہیں کرتا، کیونکہ جب خود کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو پھر ایسے کو کسی بھوکے کی کوئی فکر نہیں ہوتی، بھوکا ہی بھوکے کی قدر جانتا ہے۔۔موصوف کی نیوزسینس کا یہ عالم ہے کہ سب ایڈیٹرز سے ایک ایک خبر پانچ بار بنواتا ہے پھر بھی اطمینان نہیں ہوتا۔۔باتیں تو مزید بھی ہیں لیکن پپو کی دیگر مخبریاں بھی سن لیں ورنہ آپ لوگ کہیں گے کیا ایک ہی ادارے کی خبریں دے کر سینہ بہ سینہ ختم کردیا۔۔
چلیں اب ابتک نیوز کی بھی ذکر خیر کرلیتے ہیں۔۔جہاں پیون سے لے کر کینٹین اسٹاف اور ایچ آر طبقہ سب ڈائریکٹ ایم ڈی کا نام لے کر اپنی مرضی چلاتا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ابتک نیوز انہی وفاداروں کے دم سے چل رہا ہے جو سب کچھ برداشت کرکے بھی خاموشی سے کام میں مگن ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ نیوز پر کسی ڈائریکٹر نیوز یا کنٹرولر کا کوئی کنٹرول نہیں، ایم سی آر اپنی مرضی چلاتا ہے، بڑی سے بڑی بریکنگ نیوز چلانے کیلئے بھی ایم سی آر کی ہدایت کا انتظار ہوتا ہے،بریکنگ لیٹ کرو، خبر کوئی چلے نہ چلے اشتہارات چلانا بہت ضروری ہے اور یہی پالیسی بھی ہے۔۔جس سافٹ ویئر پہ خبریں بنائی جاتی ہیں “نیورون” وہ عدم ادائیگی کی وجہ سے اکثر بند رہتا ہے۔۔رپورٹر کی تنخواہ یا دیگر مراعات کا فیصلہ ایچ آر اس کی قابلیت پہ نہیں بلکہ اس کے بیپر، لائیو ہٹس ،بریکنگ گن کر کرتا ہے۔۔پپو کے مطابق اینکرز جہاں دیکھ کے خبریں پڑھتے ہیں اسے “پرامٹر” کہتے ہیں لیکن اکثر یہ بھی بلیٹن کے دوران دغا دے جاتا ہے، پرنٹر میں بھی کبھی کاغذ نہیں ہوتے تو کبھی اس کی سیاہی ختم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اینکرز جو منہ میں آئے بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔۔اگر پھر بھی کوئی غلطی ہوجائے تو پھر ساری ذمہ داری اینکر پر ہی ڈالی جاتی ہے۔۔اینکرز کے سامنے جو لیپ ٹاپ لگے ہوتے ہیں اس کے وائرسسٹم کے پانچ روپے کی معمولی قیمت کے “کنیکٹر” دو سال سے نہیں لگے، اینکر ہاتھ سے پکڑ پکڑ کے اسے فکس کرتے رہتے ہیں۔۔اس چینل میں پہلے اینکرز کیلئے کوئی “وارڈوب” نہیں تھا، نومبر دوہزارسولہ سے وارڈوب شروع ہوا مگر چند جوڑوں کے سوا وہاں کچھ نہیں رکھا۔۔خواتین اینکرز کیلئے ڈریس کوڈفقط یہ ہے کہ کپڑے مختصر، کپڑے ٹائٹ اور ویسٹرن لکس ہوں۔۔جو اس طرح چلے گا وہی رہے گا ورنہ گھر جائے گا۔۔اینکرز کی قابلیت گئی بھاڑ میں ،تعلیم و تجربہ سب رکھیں سائیڈ پہ۔۔ ایٹی ٹیوٹ، کم کپڑے اور ادائیں ہوں تو بس وہی اینکر ہے یہاں۔۔۔ابتک نیوز کے جو حالات چل رہے ہیں پپو کا کہنا ہے کہ مالکان کو اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، یس سر یس سر کرنے والوں سے جان چھڑانی ہوگی، پروفیشنل ازم کو اپنانا ہوگا، ادارے میں سسٹم لانا ہوگا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ابتک نیوز کے مالکان میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے، جن باتوں پر دیگر چینلز پر لوگ فارغ کئے جاتے ہیں یہاں بار بار مواقع دیئے جاتے ہیں البتہ سزا کے طور پر تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔۔مالکان کی جانب سے سختی سے احکامات ہیں کہ کسی کو برطرف نہ کیا جائے۔۔اور سب سے بڑھ کر یہ یہاں ہرماہ کی پندرہ تاریخ تک سب کو تنخواہیں ادا کردی جاتی ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں زیادتیاں برداشت کرکے خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔۔
بات تنخواہ کی ہورہی ہے تو یہ بھی سن لیں کہ دن نیوز میں عام ورکرز کو تو مہینے کے آخر تک ہی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں لیکن یونیورسٹی سے آنے والے انٹرنیز اور فریش طلبا کو یہ ادارہ ہر ماہ دس تاریخ سے پہلے پہلے تنخواہیں ادا کردیتا ہے۔۔جب عام ورکر احتجاج کرتے ہیں تو انہیں کہاجاتا ہے کہ وہ ادارے بھی دیکھو جہاں مہینوں تنخواہیں نہیں ملتی، اس لئے خاموشی سے کام کرو، مہینے کے آخر تک تنخواہ مل تو جاتی ہے۔۔شکر کرو تم لوگ۔۔
اب ذرا اس اہم ایشو پر بھی کچھ بات کرلیتے ہیں جو کراچی سمیت سندھ بھر میں چل رہا ہے۔۔ سرکاری ملازمت کرنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد چینلز اور اخبارات میں کام کررہی ہے۔۔ سندھ ہائی کورٹ نے پابندی لگائی اور سندھ حکومت نے ڈنڈا اٹھایاتو سرکاری ملازمتوں سے وابستہ صحافیوں کی اکثریت نے سرینڈر کردیا۔۔ سرکاری محکموں سے 80 ہزار روپے تک تنخواہیں لینے والے مفت کی صحافتی نوکری کو ترجیح دینے لگے۔۔عدالت عالیہ میں دہائی دیتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ چاہتے ہیں لیکن حکومت ہماری درخواستیں قبول نہیں کررہی۔۔عدالت نے اس پر حکومت سے جواب مانگا تو حکومتی نمائندوں نے مزید وقت مانگ لیا اور یہ کیس 19 اکتوبرتک موخرکردیاگیا۔۔حیرت انگیز طور پر عدالتی حکم کے باوجود محکمہ اطلاعات نے سرکاری ملازمت والے صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ منسوخ نہیں کئے۔۔
جنگ لاہور آفس کے سامنے ڈیوس روڈ سے ایک ہفتے میں دو صحافیوں کی موٹرسائیکلیں چوری ہوگئیں۔۔14 ستمبر کو دی نیوز کے کرائم رپورٹر عاشر بٹ کی موٹرسائیکل نمبر ایل ای پی سولہ دفتر کے باہر سے چوری ہوگئی جب کہ اکیس ستمبر کو جنگ کے سب ایڈیٹر تیمور حسن کی سی ڈی سیونٹی بائیک بھی چوری ہوگئی۔۔عاشر بٹ کی ایف آئی آر جس روز کاٹی گئی اسی روز تیمور کو اپنی بائیک سے ہاتھ دھونا پڑے۔۔اخبار انتظامیہ نے اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔۔دفتر کے باہر گارڈز کے باوجود گاڑیوں کا چوری ہونا تشویشناک امر ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔جنگ لاہور کی ہی ایک کہانی اور سن لیں۔۔ نیوزروم کے انچارج اسحاق شاکر صاحب ہیں، پھر ان کے بعد اقبال ندیم اور امیر تیمور کا نمبر ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں کا عہدہ سینیئر سب ایڈیٹر کا ہے،بس کارکردگی اور سینارٹی کی بنیاد پر زبانی کلامی درجہ بندی کردی گئی ، اب یہ تینوں حضرات ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں کہ کوئی دوسرا آکر ان کی سیٹ پر براجمان نہ ہوجائے، تینوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ یہ درجہ بندی ہوئی ہے تب سے تینوں نے کوئی چھٹی نہیں کی، اقبال ندیم سے پہلے ان کی سیٹ ر ضیاالدین صاحب ہوتے تھے بس انہوں نے غلطی سے ایک چھٹی کرلی تھی اس دن سے اقبال ندیم صاحب اوپر آگئے،اور ابھی تک وہی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ تینوں حضرات کب تک چھٹی نہیں کرتے،تینوں چاہتے ہیں انتظامیہ انہیں اس عہدے پر مستقل کردے لیکن سات ، آٹھ ماہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہورہی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔۔
سما کی بھی ایک ان کہی کہانی سن لیں، جسے پپو نے کھوج کر نکالی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔ یہ دوہزار بارہ کی بات ہے جب سما کے ذیلی چینل سی این بی سی میں ری انیکٹمنٹ کے سلسلے کی شروعات ہوئی تھی،انہی دنوں ایک صاحب ایک نیوزاینکر کی سفارش پر سی این بی سی کے اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک سے ملے اور ان سے ایک پروگرام کا آئیڈیا ڈسکس کیا، پروگرام کا فارمیٹ،کانسیپٹ اور اس کا نام دیکھتے ہی فرحان ملک نے تعریف کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی، نوید صدیقی سے انٹرکام پر بات کی پھر ان صاحب کو نوید صدیقی کے پاس بھیج دیا، نوید صدیقی کو بھی آئیڈیا بہت پسند آیااور اگلے ایک گھنٹے کے دوران ان صاحب کو چینل میں پروڈیوسر کی جاب آفرکردی۔۔پھر ان صاحب کو نہ رائٹر دیاگیا نہ کوئی میزبان،خیر ان صاحب نے خدا کا نام لے کر اپنا کام شروع کردیا،پھر جس طرح اچھی بھلی فلم کے دوران ایک ویلن آجاتا ہے اسی طرح کہانی میں ایک ویلن نے انٹری ماری، عرفان الحق نامی ایک سینئر پرڈیوسر باقی ری انیکٹمنٹ کررہا تھا تو اسے اس پروگرام سے تحفظات لاحق ہوگئے۔۔جس کے بعد اس نے نئے صاحب کا پراجیکٹ التوا میں ڈالنا شروع کردیا۔۔پروگرام کا پائلٹ بھی رائٹر اور میزبان کے بغیر شوٹ کرلیاگیا۔۔لیکن کسی نے اس کا پری ویو نہیں کیا بلکہ عرفان الحق نے فرحان ملک کو غلط رپورٹ کی کہ پراجیکٹ اچھا نہیں بنا۔۔جس کے بعد ان صاحب کو دیگر پراجیکٹس میں ڈال دیاگیا۔۔جب ان صاحب نے یہ حال دیکھا تو دلبرداشتہ ہوکر ایک ماہ بھی پورا کئے بغیر چینل چھوڑ کر ابتک نیوز جوائن کرلیا۔۔فرحان ملک سما چلے گئےلیکن انہیں وہ پروگرام یاد تھا، انہوں نے وہ پورا پراجیکٹ اٹھا کے سما پہ ” کہاں تم چلے گئے” کے نام سے شروع کردیا،اتفاق سے اس کا پرڈیوسر خلیل جبران ہے جو انہی صاحب کا دوست ہے جو اس پروگرام کا بانی تھا۔۔پپو کی کہانی کا لب لباب یہ تھا کہ صرف ڈراموں کی ون لائن یا کہانیاں چوری نہیں ہوتیں۔۔ نیوزچینلز میں بھی آئیڈیاز چوری ہوجاتے ہیں۔۔
وقت نیوزکے اینکرپرسن اور سینیئر صحافی مطیع اللہ جان پر حملے کی تحقیقات کیلئے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلٹس نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنادی ہے۔۔ جو ساری معاملے کی تحقیقات کرے گی۔۔ کمیٹی میں جیونیوز کے اینکر حامد میر، جیونیوزکے رپورٹر اعزاز سید، 24نیوز کے صغیر چودھری اور وقت نیوزکے سردار حمید شامل ہیں۔۔کمیٹی کی سربراہی حامد میر کرینگے۔۔کمیٹی کے ذمہ جو ٹاسک سونپا گیا ہے اس کے مطابق۔۔ مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا جائے اور ان سے ممکنہ حملہ آوروں سے متعلق پتہ لگایا جائے، حملے والی جگہ کا دورہ کیا جائے۔۔پولیس سے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ لی جائے اور پانچ روز میں اپنی مکمل رپورٹ تیار کی جائے۔۔
اور اب پپو کی مختصر مخبریاں بھی سنتے جائیں۔۔۔
24نیوز کی خاتون اینکر ہدیٰ شاہ اور ایکسپریس کے رپورٹر رائے شاہ نواز کی منگنی ہو گئی ۔۔
ہم نیوز کے کراچی، اسلام آباد کے بعد لاہور میں انٹرویوز کا سلسلہ اگلے ہفتے سے شروع ہونے جارہا ہے۔۔
24نیوزکے اینکر اکبر باجوہ نے 92 نیوز جوائن کرلیا ہے۔۔
اے آر وائی نیوزکے الیکشن سیل کیلئے بھرتیاں شروع ہوگئی ہیں، انٹرویوزاور ٹیسٹ میں پاس ہونے والوں کو چھ سے آٹھ ماہ کیلئے جاب دی جائے گی۔۔
آج کیلئے اتنا ہی۔۔ اب اجازت دیجئے۔۔ زندگی رہی تو پھر ایک مختصر بریک کے بعد حاضری دونگا۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔۔۔