سینہ بہ سینہ قسط 86
دوستو، پپو کی مخبریوں کے ساتھ ایک بار پھر حاضر ہوں۔۔کئی قریبی دوستوں نے گزشتہ سینہ بہ سینہ کے حوالے سے شکوہ کیا کہ مزہ نہیں آیا، دوستو، مسئلہ یہ ہے کہ پپو یہ مخبریاں مزے یا چسکے فراہم کیلئے نہیں دیتا، اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو یہ تھا کہ میڈیا کی اندرونی کہانیاں جو میڈیا میں سینہ بہ سینہ ایک دوسرے تک پہنچتی ہیں وہ سینوں سے نکل کر زبان زد عام ہوجائے۔۔پہلے سینہ بہ سینہ فیس بک کی ٹائم لائن پہ لکھتا تھا، پھر بلاگ لکھنا شروع کیا۔۔ ویب سائیٹ کیلئے روز خبریں بھی پپو ہی دیتا ہے، اب پپو اپنا کاروبار کرے یا آپ لوگوں کیلئے مخبریاں تلاش کرتا پھرے۔۔ ویب سائیٹ میں روزانہ کی بنیاد پر آپ لوگ میڈیا کی اندرونی خبریں پڑھ لیتے ہیں، چنانچہ اب تجویز یہ بھی ہے کہ سو اقساط مکمل ہونے کے بعد اس سلسلے کو بند کردیا جائے، یا پھر پورے ہفتے جو خبریں ویب سائیٹ پہ لگتی ہیں ان میں سے کچھ اچھی خبروں کی مزید تفصیل جسے صحافتی زبان میں “فالواپ” کہتے ہیں وہ سینہ بہ سینہ میں دی جائے۔۔اکثر دوست یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ بہت طویل نہ لکھا کریں،جس پر میرا جواب ہوتا ہے کہ جب تک بات مکمل نہ ہو بات جاری رہنی چاہیئے۔۔اب آپ لوگوں کے فیڈبیک کا انتظار رہے گا کہ کس تجویز پر عمل درآمد کیا جائے۔۔۔ چلیں اب پپو کی کچھ مخبریاں بھی سن لیں ۔۔
آپ لوگوں نے اکثر یہ سنا ہوگا کہ ” ریٹنگ” کی دوڑ میں۔۔۔ آج کا سینہ بہ سینہ اسی سے شروع کرتے ہیں۔۔ ریٹنگ کی کیا تیکنیک ہے ، یہ کس طرح آتی ہے اور کس طرح لائی جاتی ہے، ریٹنگ کے کیا فائدے ہوتے ہیں؟ اگر صرف اسی پر بات کی جائے تو پورا سینہ بہ سینہ اسی میں ختم ہوجائے۔۔اور پپو کے میڈیا کے باہر کے دوستوں کو اس سے کوئی غرض بھی نہیں ہوگی، پپو نے ریٹنگ کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں وہ میڈیا میں کام کرنے والے دوستو اور میڈیا سے باہر کے لوگوں کیلئے یقینی طور پر دلچسپ اور حیرت انگیز ہونگی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔ ریٹنگ دینے والا “میڈیا لاجک” واحد ایسا مستند ادارہ ہے جو میڈیا انڈسٹری کی ریٹنگ کیلئے چینل مالکان کی تنظیم پی بی اے، ایڈورٹائزرز کی تنظیم پی اے ایس اور پیمرا سے مستند شدہ ہے۔۔میڈیا لاجک کو پی بی اے نے مزید تین سال کیلئے “اپروول” مل گئی ہے کہ وہ چینلز کی ریٹنگ مرتب کرسکے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ میڈیا لاجک کی ریٹنگ نہ صرف چینلز کیلئے ہوتی ہیں بلکہ تمام بڑی اشتہاری ایجنسیاں بھی اپنا کاروبار اسی ریٹنگ کی بنیاد پر کرتی ہیں،اور اسی بنیاد پر اپنا پیسہ چینلز پر لگاتی ہیں۔۔میڈیا لاجک ماہانہ بنیادوں پر ریٹنگ جاری کرتا ہے ۔۔پپو نے میڈیا لاجک کی اگست کی ریٹنگ رپورٹ سے کچھ دلچسپ اعدادوشمار اپنے دوستو کیلئے اکٹھی کی ہیں جو یقینی طور پر چینلز میں کام کرنے والے دوستو کیلئے بھی چونکا دینے والے ہونگے۔۔۔ہم نے پپو سے درخواست کی ہے کہ وہ اگست کی طرح ستمبر (جاری ہے) اور ہر ماہ کی رپورٹ ہم سے شیئر کریں تاکہ ہمارے دوستو کو اصل حقائق سے آگہی مل سکے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔پاکستان کے وہ تمام چینلز جو کیبل اور سیٹلائٹ پر پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں ،اگست کے مہینے میں ان تمام چینلز میں اے آر وائی ڈیجیٹل پہلے نمبر پر، جیوانٹرٹینمنٹ دوسرے نمبر پر، ہم ٹی وی تیسرے اور جیونیوز چوتھے نمبر پر رہا، جب کہ پانچویں نمبر پر کارٹون نیٹ ورک اور چھٹے نمبر پر اے آر وائی نیوز رہا۔۔ایکسپریس 7، سما 8، دنیانیوز9، اور ۔۔اردو ون دسویں پوزیشن پر رہا۔۔اسی طرح اگست کے مہینے میں صرف انٹرٹینمنٹ چینلز میں اے آر وائی ڈیجیٹل پہلے، جیوانٹرٹینمنٹ دوسرے، ہم ٹی وی 3، اے پلس 4،فلم ایزیا 5،اردوان 6،ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کی ساتویں اور ٹی وی ون 8ویں نمبر پر رہا۔۔اگر انٹرٹینمنٹ کے پرائم ٹائم یعنی سات بجے شام سے رات دس بجے تک کی ریٹنگ دیکھی جائے تو اے آر وائی نمبر ون، جیو انٹرٹینمنٹ دوسری، ہم ٹی وی 3، فلم ایزیا4، اے پلس5، اردوون 6 اور ایکسپریس آٹھویں نمبر پر رہا۔۔اسی طرح انٹرٹینمنٹ میں سب سے زیادہ مشہور یا سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگرام میں جیو انٹرٹینمنٹ کاڈرامہ “خالی ہاتھ” پہلے نمبر پر اور “بھولی بانو” دوسرے نمبر پر رہا، اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ “مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے” تیسرے اور ہم ٹی وی کا ڈرامہ ” الف اللہ” اور “انسان” چوتھی پوزیشن پر ہے۔۔اے آر وائی ڈیجیٹل کا مزاحیہ سٹ کام ” بلبلے” پانچویں اور جیتوپاکستان چھٹے نمبر پر رہا ۔۔اسی طرح نیوزچینلز میں جیونیوز نمبرون، اے آر وائی نیوز 2، ایکسپریس 3،سما4،دنیانیوز5، نائنٹی ٹو نیوز6، دن نیوز7، نیونیوز 9 ، ڈان نیوز 9ویں نمبر پر اور نیوزون دسویں نمبر پرہے۔۔نیوزچینلز کے ٹاک شوز میں اے آر وائی نیوز کا “آف دا ریکارڈ” کاشف عباسی کا پروگرام نمبرون، جیونیوز کا آج شاہزیب خانزاہ کے ساتھ کا دوسرانمبر، وسیم بادامی کا تیسرا، سلیم صافی کا جرگہ چوتھے، ارشدشریف کا پاورپلے پانچویں، پارس جہانزیب کا نیوزبیٹ چھٹے، ماریہ میمن کا سوال یہ ہے ساتویں، جاوید چودھری کا کل تک آٹھویں، مبشرلقمان کا کھرا سچ نویں اورحامد میر کا کیپٹل ٹاک دسویں پوزیشن پر رہا۔۔مارننگ شوز کی دوڑ میں اے آر وائی ڈیجٹل کی ندایاسر نمبر ون، ہم ٹی وی کا جاگو پاکستان 2، ٹی وی ون کا ساحر لودھی 3، اے ٹی وی 4، جیونیوز کا جیوپاکستان پانچویں نمبر پر رہا۔۔حیران کن طور پر جیوانٹرٹینمنٹ کا گیم شو جیتو کھیلو پاکستان جو کہ رمضان المبارک میں لانچ کیاگیاتھااگست کے مہینے تک بھی ٹاپ ٹین میں جگہ نہیں بنا سکاجب کہ اے آر وائی ڈیجیٹل کا جیتو پاکستان نمبر ون سے چھٹی پوزیشن پر چلا گیا۔۔پپو کا دعوی ہے کہ کوئی بھی چینل اس انفارمیشن کو جھٹلانہیں سکتااور اسے غلط قرار نہیں دے سکتا۔۔یہ تھے پپو کے وہ حیران کن اعداد وشمار جو اس نے میڈیا لاجک کی اگست کے مہینے کی ریٹنگ رپورٹ سے چنی اور آپ کی خدمت میں پیش کی، ہم امید کرتے ہیں کہ پپو ہمیں مزید اس طرح کی معلومات فراہم کرتے رہیں گے تاکہ ہمارے عام قاری کو حقائق کا اندازہ ہوسکے کہ میڈیا کے اندر چل کیا رہا ہے۔۔
پپونے ویب سائیٹ کیلئے کچھ روز پہلے ایک خبر دی تھی کہ ” بول اب اشتہار بھی چلائے گا” ۔۔اس کی مزید تفصیل بھی پپو نے دی ہے، پپو کا کہنا ہے کہ بول جب تک پی بی اے کا ممبر نہیں بنے گا،اسوقت کوئی بھی اشتہاری ایجنسی اسے اشتہار نہیں دے گی، اور اگر کوئی ادارہ براہ راست بول کو اشتہار دے گا تو پھر اس ادارے کا کوئی بھی اشتہار پاکستان کے کسی اور چینل پر نہیں چلے گا۔۔بول والوں کی ضد ہے کہ وہ پی بی اے کو نہیں مانتے اس لئے ممبر بننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے فی الحال تو بول پر اشتہار کا کوئی آسرا نہیں۔۔بول متاثرین نے پیمرا کو اپنے واجبات کیلئے خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، پپو کو حیرت تو اس بات پر ہورہی ہے کہ جو کل تک سیٹھوں پر سب سے زیادہ تنقید کرتا تھا وہی شعیب شیخ اب “سیٹھ” کے روپ میں سامنے آرہا ہے۔۔ان کے مخالفین تو انہیں اب شعیب شیخ کے بجائے شعیب سیٹھ کے نام سے یاد کرنے لگے ہیں۔۔حیرت انگیز طور پر بول کے متاثرین میں کامران خان ، اظہرعباس، عاصمہ شیرازی، افتخاراحمد، وجاہت ایس خان وغیرہ شامل نہیں کیونکہ بول پر برا وقت آتے ہی یہ دیگر چینلز کی طرف ہجرت کرگئے اور بھاری بھرکم مشاہرے پر نوکریاں کرلیں۔۔لیکن جو بول کے ساتھ کھڑے رہے وہی عامل صحافی اب تک اپنے واجبات سے محروم ہیں۔۔یہ لوگ شعیب شیخ صاحب کے جیل جانے ، ایگزیکٹ کے بند ہوجانے اور بول بحران میں اس لئے ڈٹے رہے کہ شعیب شیخ نے سیٹھ مافیا کے خلاف آواز اٹھائی دی، ورکرز کو مستحکم کرنے کا ایجنڈا دیا تھا، اسی لئے انہوں نے بول کیلئے تحریک چلائی، احتجاج کئے، مظاہرے کئے، دستخطی مہم چلائی،تنخواہوں کے بغیر اس امید پر شعیب شیخ کے ساتھ کھڑے رہے کہ جب وہ باہر آئیں گے تو پھر سیٹھ مافیا کے خلاف ورکرز کیلئے امیدکا استعارہ بنیں گے، پھر جب بول والاز کی مسلسل جدوجہد کے بعد شعیب شیخ صاحب جیل سے باہر آئے، بول بحال ہوا تو انہیں دھچکا لگا کیونکہ تبدیلی کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔۔شعیب شیخ صاحب نے رہائی کے بعد بول ہیڈ آفس میں خطا ب کیا اور “پہلے سے بھی زیادہ” کا نعرہ بلند کیا، لیکن معاملہ بالکل الٹ۔۔بول کے دوران ڈٹے رہنے والے تمام ورکرز کو بول سے دور رکھا گیا۔۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں ۔۔اور تو اور واجبات کا کسی فسانے میں کوئی ذکر تک نہیں۔۔بول کی باگ ڈور نان پروفیشنلز کے ہاتھ میں دے دی گئی،ٹی وی چینل کو بھی آئی ٹی فرم کی طرح چلایا جانے لگا۔۔ساجد حسن، حمزہ علی عباسی، نبیل ، وینا ملک جیسے لوگوں کو “اینکرز” بنادیاگیا۔۔کرنٹ افیئرز پروگرام بری طرح ناکامی کا شکار ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول اس ایجنڈے پر عمل کررہا ہے کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ وہ سچ لگنے لگ جائے، یہ معاملہ سیاسی ہو یا کارکنوں کے واجبات کا ۔۔بول نے اسی یک نکاتی ایجنڈے پر عمل کیا ہے ۔۔بول کے حوالے سے پپو نے باتیں تو بہت کی ہیں لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ ۔۔ وہاں اب بھی کارکنوں سے بارہ بارہ گھنٹے کام کرایا جارہا ہے۔۔چھٹی کا تصور نہیں۔۔اینکرزکی بھرتی کا معیار”پرچی ” ہے۔۔ فیوریٹ ازم پر بھرتیوں کا عمل جاری ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ایسے ایسے اینکرز بھاری معاوضے پر رکھے جارہے ہیں جنہیں ان کے گھر والوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔۔پپو نے شعیب شیخ صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پچھلے ایک سے دو ماہ کے دوران بھرتی ہونے والے اینکرز کا”پورٹ فولیو” ایک نظر خود دیکھ لیں انہیں پتہ لگ جائے گا کہ کچھ لوگ ان کے چینل کو کس طرف لے جارہے ہیں۔۔
بات اینکرز کی ہورہی ہے تو 92نیوزکےاینکرز کا احوال بھی پپو کی زبانی سن لیں۔۔ جہاں اس وقت ہر اینکر بھاگنے کے چکر میں ہے۔۔پپو نے تین اینکرز مہک،زریاب اور ذیشان کے بول جانے کا تو بتاہی دیا تھا، آمنہ بھی اے آر وائی جارہی ہیں۔۔یہ محترمہ پہلے سوشل میڈیا پر تھیں جس کے بعد یہیں اینکر بنیں اور اب یہاں سے پرواز کررہی ہیں۔۔ایک اور اینکر گھر بیٹھ گئی ہیں۔۔یہ وہ اینکر ہے جو پہلے دن سے ادارے کے ساتھ ہے اور جب اس چینل کی لانچنگ ہوئی تھی تو آفتاب اقبال کے ساتھ پہلا شو بھی اسی خاتون اینکر نے کیا تھا، پپو کے مطابق خاتون اینکر “ماحول” سے بہت تنگ ہیں اسی لئے انہوں نے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی ہے۔۔ اسی چینل کی ایک بہت چہیتی اور لاڈلی خاتون اینکر بھی وڈے چینل کیلئے کراچی جارہی ہیں۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ان محترمہ کا نام “بڑے صاحب ” کے ساتھ لیا جاتا تھا، پپو کے مطابق محترمہ نے استعفا دے دیا ہے اور ان دنوں نوٹس پیریڈ پورا کررہی ہیں۔۔پپو نے ان محترمہ کی متنازع تصویروں کا ایک لنک بھی بھیجا تھا، جسے میں نے لاحول پڑھ کر پہلی نظر ڈالتے ہی بند کردیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ 92نیوز میں پچھلے دنوں لپ اسٹک اسکینڈل کا بڑا چرچا ہوا تھا،لاہور ہیڈآفس میں چہیتی اور لاڈلی خاتون اینکر کے لباس پر لپ اسٹک کا نشان پایا گیا تو نادرشاہی فرمان جاری ہوا کہ تمام اینکرز کے فنگر پرنٹس اور “لپ پرنٹس” لئے جائیں تاکہ ان کا فرانزک ہوسکے ،پھر جس کے نشان میچ ہوگئے اسے سزا دی جاسکے۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ چہیتی اور لاڈلی اینکر کو ایک اینکر سے شاید عشق ہوگیا ہے اسی لئے وہ اس کے پیچھے پیچھے کراچی جارہی ہے۔۔ پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ٹی کے چھ افراد جاب چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ ناروا رویہ ہے۔۔یہ تو تھی پپو کی لاہور ہیڈآفس کے حوالے سے مخبریاں، اب کراچی بیورو کی بھی کچھ سن لیں۔۔بیوروچیف صاحب نے واٹرٹینکر، سبزی، گوشت اور روٹی کا ٹھیکہ خود لے لیا ہے۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ محترم بیوروچیف صاحب کے مختلف ہائیڈرینٹس میں “شیئرز” بھی ہیں جو انہوں نے اپنے اثرورسوخ کےبل بوتے پر حاصل کئے ہیں، انہی ہائیڈرینٹ سے بھر کر ٹینکر 92 کے بیوروآفس میں لائے جاتے ہیں،جس پر جب ایک ایڈمن اسسٹنٹ نے اعتراض کیا تو اسے فارغ کرادیاگیا۔۔گوشت ، سبزی اور روٹی کی زمہ داری ایک رپورٹر کے سر ڈالی گئی ہے جو اپنے دوست کی دکان سے یہ فرائض پورے کررہا ہے۔ مارکیٹنگ ٹیم کا حال بھی انتہائی خستہ ہے۔۔ اس پر پھر بات کرینگے۔۔ لیکن ڈی ایس این جی سے شہرت پانے والی رپورٹر اپنے شوہر کے ساتھ مل کر 92 نیوز کا پلیٹ فارم استعمال کرکےٹورازم کے کنٹریکٹ پکڑ رہی ہے لیکن ابھی تک انتظامیہ کی پکڑ میں نہیں آسکی کیونکہ بیوروچیف کو پک اینڈ ڈراپ کی سروس فراہم کرنے والے اسائنمنٹ ایڈیٹر کی محترمہ کو مکمل سپورٹ حاصل ہے۔۔
اے آروائی نیوزکی بھی بات کرلیتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اے آر وائی کے ایک بڑے عہدیدار نے کچھ دن قبل نیوزڈیسک کی ایک میٹنگ بلائی جس میں انہوں نے سب کو مشورہ دیا کہ بول نہ جائیں، وہاں کے حالات کا ابھی کچھ پتہ نہیں اگر جانا ہے تو آپ کی مرضی لیکن پھر طریقے سے جائیں ،یعنی ایک ماہ کا نوٹس دیں اور نوٹس پیریڈ پورا کرکے جائیں، جب کسی نے انکریمنٹ لیٹر سے متعلق سوال کیا تو کہنے لگے، لیٹر اگلے ماہ یا دسمبر میں مل جائیں گے اس سے زیادہ لیٹ نہیں ہونگے۔۔ لیکن پپو نے ساتھ ہی کہا ہے کہ دسمبر تک بات گئی تو پھر اے آر وائی والے انکریمنٹ لیٹر کو بھول جائیں کیونکہ دسمبر میں پی ایس ایل کی ڈرافٹنگ ہوگی اور اے آر وائی کی ٹیم بھی پی ایس ایل میں شامل ہوگی اس لئے یہ اپنا سارا سرمایہ پی ایس ایل میں لگادیں گے، پچھلے سال بھی پی ایس ایل کی وجہ سے یہاں تنخواہوں کے بحران کا سامنا تھا۔۔سما پر پارس کاپروگرام کرنے والا پرڈیوسر اب اے آر وائی میں ماریہ میمن کا پروگرام کرے گا، ماریہ کے ساتھ اس سے پہلے تین پرڈیوسر کام کرنے میں ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔۔پپو نے ایک اور انکشاف کیا ہے کہ اے آر وائی کے الیکشن سیل پر ایک ماہ میں کام شروع ہوجائے گا، گرافگس اور ٹیکنیکل سے طویل میٹنگیں ہوچکیں، پی سی آر کو مزید بڑا کیا جارہا ہے، اس بار الیکشن کی نشریات میں تھری ڈی گرافگس اور اینی میشن کا استعمال بھی کیا جائے گا۔۔جلد رپورٹرز، پرڈیوسرز اور الیکشن سیل کے عمل کیلئے ہائرنگ شروع کی جائے گی۔۔پچھلی بار الیکشن سیل کے انچارج رضوان اعوان اور سمیع حسین تھے، رضوان اب بول اور سمیع دنیا نیوز میں ہیں۔۔ان دونوں نے بہت محنت سے کام کیا اور دن رات ایک کرکے الیکشن سیل کی ایسی نشریات دیں جسے اس کے سب سے بڑے حریف جیونیوز نے بھی تسلیم کیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ اس بار یہ دونوں”چیتے” نہیں بلکہ ان کی جگہ ایک “چہیتا” ہے، یعنی عماد یوسف اس بار الیکشن سیل کی خود نگرانی کریں گے، کہاجارہا ہے کہ اس بار الیکشن کیلئے بہت بڑے بڑے آئیڈیاز ہیں، لاہور کے این اے ایک سو بیس کے ضمنی الیکشن کی بھی انہوں نے ہی نگرانی کی تھی اور ان کی اجازت کےبغیر ایک بھی رزلٹ آن ائر نہیں ہوسکتا تھا، یہی وجہ تھی شاید کہ پی ٹی آئی کے جیتنے والے رزلٹ کو تو بڑھا چڑھا کے پیش کیاگیا، اب آپ سوچ لیں آئندہ الیکشن کے رزلٹ کیا ہونگے، کیا کوریج ہوگی اور الیکشن سیل کیسے چلے گا۔۔ فی الحال اب یہ سوچئے۔۔
اب پپو کی کچھ مختصر مخبریاں۔۔۔
ایکسپریس نیوز کی حالت روزبروز خراب ہورہی ہے۔۔کچھ لوگ چلے گئے کچھ جانے کی تیاریوں میں ہیں۔۔
ایکسپریس کے اینکر منصور علی خان کو اپنے شو کیلئے کانٹینٹ رائٹر کی ضرورت ہے۔۔
سما اور ایکسپریس میں کاپی ایڈیٹرز کی آسامیاں خالی ہیں۔۔
ہم نیوز نے کراچی کیلئے بیوروچیف ظل حیدر کو رکھ لیا ہے۔۔
آج کیلئے فی الحال اتنا ہی۔۔۔ کل پھر پپو کی تازہ ترین مخبریوں کے ساتھ حاضر ہونگے۔۔جب تک چوبیس گھنٹے کا ایک مختصر سا بریک۔۔علی عمران جونیئر)