Seena-Ba-Seena-84

سینہ بہ سینہ قسط 84

سینہ بہ سینہ 84

دوستو،سب سے پہلے تو نمکین عید کی بہت بہت مبارک قبول کیجئے، میری طرف سے تو بروقت عید مبارک ہوگئی تھی چونکہ پپو اس بلاگ کے ذریعے آپ سے اپنی بات کرتا ہے اس لئے اب اس کی جانب سے بھی مبارکباد لے لیجئے، باتیں بہت سی کرنے والی ہیں اس لئے فضولیات سے پرہیز کرتے ہوئے جلدی جلدی کام کی باتیں کرلیتے ہیں،

 پپو کی مخبریاں شروع کرنے سے پہلے دو ایسی خبروں پر بات کرلیتے ہیں جس میں سے ایک کا آپ لوگوں نے نوٹس لیا ہوگا دوسری خبر آپ کے سرسے گزرگئی ہوگی لیکن اس کا میں نے نوٹس لیا ہے، تو سب سے پہلے اس دوسری خبر کی بات کرتے ہیں پھر اس پر آئیں گے جس کا آپ نے نوٹس لیا ہے۔۔۔پپو نے خبردی تھی کراچی کے تھری ایڈیٹس رپورٹر سے متعلق۔۔ اس میں ساری باتیں بالکل حرف بہ حرف درست ہیں،جس کی تصدیق میں نے کی ہے بس ایک پوائنٹ پہ مجھے پپو سے اختلاف ہے کہ پھڈا رقم کے بٹوارے پہ نہیں ہوا، پپو کا کہنا تھا کہ یہ رقم سات کے ہندسے میں تھی، میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے درمیان کسی پولیس افسر کی وجہ سے تنازع ہوا، تھری ایڈیٹس میں ایک رپورٹر نے لگائی بجھائی والی بات کی، پولیس افسر نے وہ بات ان میں میں ایک کو کردی اوریہی بات آپس میں وجہ اختلاف بنی، جس رپورٹر کے متعلق کہاگیا کہ بٹوارے کے بعد راضی ہوگیا ، وہ رپورٹر ماشااللہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اس کا صحافتی بیک گراؤنڈ چیک کیاگیاتو معلوم ہوا کہ وہ کرپٹ نہیں، کئی مواقع پہ تو اس نے پارٹیوں کو دی گئی رقم واپس لوٹائی، جس کے کئی کیمرہ مین گواہ بھی ہیں۔۔ خیر میں اپنے اس رپورٹر دوست سے معذرت خواہ ہوں۔۔اس بیچارے نے تو کوئی رابطہ نہیں کیا لیکن بطور صحافی میرا یہ فرض بنتا ہے کہ حقائق آپ تک پہنچیں، لازم نہیں کہ جس کے خلاف لکھا جارہا ہے وہ رابطہ کرے گا تو پھر ہی حقیقت آپ تک پہنچائی جائے، ہم اپنا احتساب خود کرتے ہیں، خبر لگنے سے پہلے کاؤنٹر چیک کی جاتی ہے، لگنے کے بعد فیڈ بیک ملتا ہے اور ایک بار پھر ہماری ٹیم اس خبر کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، اس دوران اگر کچھ نیا پتہ لگے تو آپ کو فالواپ دیتے ہیں اور اگر جہاں ہم غلطی پہ ہوں تو کوشش کرتے ہیں کہ اس کی درستی ہوجائے۔۔۔ اسی طرح آج ایک خبر یہ درست ہوگئی کہ سہیل وڑائچ نے جنگ اینڈ جیو گروپ جوائن کرلیا۔۔۔آج جنگ میں ان کا کالم بھی آیا ہے۔۔اب کرتے ہیں اس خبر کی بات جس پر آپ لوگوں نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں انباکس میں خبر کا بیک گراؤنڈ پوچھنے کی کوشش کی، کچھ لوگوں کو جواب دے پایا لیکن اکثریت کو جواب نہ دے سکا، چلیں اب سب کو بتادوں۔۔ کچھ روز قبل پپو نے خبر دی تھی کہ عامر لیاقت اور شعیب شیخ کی راہیں جدا ہوگئیں۔۔ خبر جب دی گئی اس وقت تک بالکل درست تھی، اس کے باقاعدہ شواہد بھی موجود ہیں، لیکن پھر اچانک کیا ہوا کہ انہوں نے بول میں ہی واپسی کی، بول میں واپس آنے کے پیچھے کی کہانی بھی پپو نے سنائی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ پھر کوئی تنازع کھڑا ہو، یہ ضرور جان لیں کہ عامر لیاقت کے آن ائر استعفے کی وڈیو سے لے کر، شعیب شیخ کی عامر لیاقت پر طنزکی وڈیو، عامر لیاقت کی دبئی موجودگی اور وہاں اپنے کپڑوں کے آؤٹ لیٹ کھولنے سے لے کر بول میں ان کی واپسی تک ساری اپ ڈیٹس سے آگہی رکھتا ہوں، دبئی میں ان کے کن چینلز سے رابطے ہوئے یہ بات بھی علم میں ہے، اب آگے کی سن لیں،یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرونگا کہ عامر لیاقت صاحب نے میرے ساتھ پرسنل جو بھی بات کی، وہ ان میں سے کسی ایک پہ پورا نہیں اترے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے استعمال کرگئے، اب یہ انہوں نے جان بوجھ کے مجھے گندا کرنے اور میری ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی ، یا پھر ان کی کوئی مجبوری تھی، بول میں واپسی کے بعد میں نے ان سے رابطہ کیا نہ انہوں نے اس کی زحمت کی کہ مجھے حقائق سے آگاہ کرتے، البتہ  میں اب سارے حقائق اپنے دوستو کے سامنے رکھ رہا ہوں۔۔دوستو، جب یہ خبر دی گئی کہ شعیب شیخ سے راہیں جدا ہوگئیں اور اس سے پہلے جب ان کی آن ائر استعفے والی وڈیو ویب سائیٹ پر لگائی تو ایک “معتبر” دوست کا مجھے فون آیا تھا، اس کا دعوی تھا کہ عامر لیاقت پھر بول میں آئے گا، تم اس کی منفی خبریں نہ چلاؤ، خود گندے ہوجاؤگے۔۔ اس پر میرا قہقہہ بھی نکلا تھا، وہ میرا بہت پرانا دوست ہے اس لئے اس کے ساتھ مذاق بھی ہے، اسے میں نے حقائق بتائے تو اس بار وہ ہنسا اور کہنے لگا، تمہیں استعمال کیا جارہا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، اس اپنی بات پر زوردیا کہ اس کی واپسی بول میں ہی ہوگی۔۔پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ خاموشی سے آئے، اپنا ٹاک شو اسٹارٹ کردیا، گیم شو ان سے لے لیا گیا، بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ اس بار وہ اپنی نہیں بلکہ بول انتظامیہ کی شرائط پہ واپس آئے ہیں، ورنہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گیم شو ان کی جگہ نبیل کیوں کررہا ہے؟ خیر یہ میرا موضوع ہی نہیں۔۔عامر لیاقت صاحب سے میرا تعارف اور رابطہ کچھ ماہ پہلے ایک بلاگ لکھنے کے بعد ہوا، جب میں نے محسن درانی نامی ایک صاحب کے حوالے سے چند لائنیں لکھی تھیں کہ ۔۔عامر لیاقت کو برانڈ بنانے اور اسٹار بنانے والا محسن درانی ہے، میں اسوقت تک محسن درانی کو نہیں جانتا تھا، لیکن اس کا شدید ری ایکشن جب سامنے آیا اور عامر لیاقت صاحب کی جانب سے میرے چینل (جہاں میں جاب کرتا ہوں) کے ذمہ داران سے ٹیلی فونک رابطے سامنے آئے تو یقین ہوا “ابھیجت، کچھ تو گڑبڑ ہے”۔۔ پھرمجھے نوکری سے نکلوانے کی دھمکی تک سامنے آئی، شاید یہ بات آپ سب کو پتہ نہیں کہ جب سے  سچ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو نوکری تو ہتھیلی پہ رکھ کے گھومتا ہوں، ذہنی طور پر ہمیشہ تیار رہتا ہوں کہ کس وقت ایسا ” پریشر” آجائے کہ میرے چینل والے برداشت نہ کرسکے اس لئے استعفا جیب میں رکھ کے گھومتا ہوں،ایسی دھمکیاں اب تک درجنوں کی تعداد میں مل چکیں اور شاید آئندہ بھی ملتی رہیں۔۔صرف دھمکیاں ہی نہیں، بہترین اور منہ بولے پیکیج والی آفرز بھی درجنوں کی تعداد میں مل چکی ہیں، لیکن جن کے ساتھ میں ان دنوں منسلک ہوں، عثمان صاحب وہ میرے محسن ہی نہیں، میرے بڑے بھائیوں کی طرح اور میرے استاد بھی ہیں، آج الیکٹرانک میڈیا میں جو بھی میری پوزیشن ہے انہی کی مرہون منت ہے، ان کی بھرپورشفقتوں اور محبتوں کا کوئی مول نہیں، ہر معاملے میں آؤٹ آف دا وے جاکر مجھے ان کی رہنمائی ملتی ہے، جب کہیں پھنستا ہوں، یا کوئی فیصلہ کرنا مشکل نظر آتا ہے تو عثمان بھائی سے لازمی مشورہ کرتا ہوں۔۔بلاشبہ ان کی محبت اور شفقت میرا بہت بڑا اثاثہ ہے۔۔ اللہ پاک انہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔

بات ہورہی تھی عامر لیاقت نے تو بول نہیں چھوڑا ،واپس آگئے،پھر غلط خبر کیوں دی، پپو اب بھی اپنی خبر پہ قائم ہے، اس بات کو عامر لیاقت صاحب بھی نہیں جھٹلاسکتے کہ وہ خبر غلط تھی، اب بول میں واپسی کیسے ہوئی اور کن شرائط پہ اس پر فی الحال پردہ پڑا ہے تو پڑا ہی رہنے دیں۔۔ عامر لیاقت صاحب نے اگر مجھے جان بوجھ کے استعمال کیا ہے تو پھر یہ پہلی اور آخری بار ہوا ہے، بطور صحافی جب کوئی خبر میرے پاس آتی ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ متعلقہ بندہ اگر رابطے میں ہے تو اس کی تصدیق کرلی جائے، لیکن تصدیق کے بعد بھی معاملہ الٹ ہوجائے تو پھر آپ خود بتائیں کیا آئندہ میں دوبارہ کسی خبر کی تصدیق کیلئے رابطہ کرنے کے قابل رہوں گا؟ میں کیسے اس کی زبان پہ اعتبار کرونگا؟ میں کیسے یقین کروں گا کہ وہ بندہ مجھ سے غلط بیانی نہیں کررہا؟ آپ کسی کے اعتبار کو دھوکا دے کراسے نہیں بلکہ خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔۔فرض کریں میرے پاس میرشکیل، سلطان لاکھانی، محسن نقوی، میاں عامر محمود،ظفرصدیقی  یا مسٹر زید  کے حوالے سے کوئی خبر آتی ہے، میرے پاس ان کا نمبر ہے یا میرا ان سے رابطہ ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان سے تصدیق کروں، پھر اگروہ رابطے پہ میری خبر کو سوفیصد درست قرار دیں،کچھ دن کے بعد اسی خبر کے الٹ معاملہ سامنے آجائے تو کیا آئندہ مجھے میرشکیل صاحب کی باتوں پہ یقین کرلینا چاہیئے؟ ۔۔عامر لیاقت صاحب کی شعیب شیخ سے راہیں جدا کے حوالے سے خبر کی بھی انہوں نے تصدیق کی، جس کے شواہد میرے پاس موجود ہیں، لیکن پھر معاملہ الٹ گیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ خیر آئندہ کیلئے اب مزید محتاط ہوگیا ہوں، اب میرے نزدیک میرے ذرائع اور میرا پپو ہی اہم ہے، کیونکہ وہ کم سے کم میرے ساتھ جو بات کرتے ہیں اس پہ قائم بھی رہتے ہیں، بات کررہا تھا محسن درانی کی۔۔میں چند ماہ پہلے اپنے بلاگ میں لکھے گئے اپنے جملوں پہ آج بھی قائم ہوں کہ محسن درانی ، ڈاکٹر عامر لیاقت کیلئے خوش قسمتی کی چابی تھے، جی ہاں تھے، اب نہیں ہیں کیونکہ بول میں جانے کے بعد وہ یہ چابی کھوچکے ہیں۔۔ تیس سال پرانا ساتھ صرف بول کی وجہ سے ختم ہوگیا۔۔ میڈیا میں آنے سے پہلے جب کوئی جانتا تک نہیں تھا اس وقت محسن درانی ساتھ ہوتا تھا، میڈیا میں آنے کے بعدجب تک ساتھ رہے، پیسہ ، شہرت کی کوئی کمی نہیں رہی، دوہزار سترہ کی رمضان ٹرانسمیشن نے شاید احساس دلایا ہو کہ عامر لیاقت صاحب آپ اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟۔۔میں آپ سے مخلص ہوں، اس لئے آپ سے سچ بولوں گا، آپ کو آپ کی خامیاں وقفے وقفے سے بتاتا رہوں گا، آپ اکیلے میں ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کیجئے گا، میرا آپ سے کوئی مفاد نہیں، میرا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں، آپ کو عزت،شہرت،دولت سب مبارک۔۔ میں اپنے حال میں خوش ہوں۔۔بس آج کیلئے اتنا ہی مشورہ ہے کہ جب آپ کسی کے ساتھ کھیلتے ہیں تو پھر یہ جان لیجئے کہ آپ کے ساتھ بھی لوگ کھیلیں گے، کیونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی اسی دنیا میں سامنے آتی ہے۔۔محسن درانی اور عامر لیاقت کے حوالے سے  تفصیلی بات اگلے سینہ بہ سینہ میں کریں گے ،محسن درانی صاحب سے ابتک کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن اب ان سے ملاقات کرکے کچھ ماضی کے بارے میں بات کرونگا، اس کے بعد مزید بات کرینگے۔۔جاتے جاتے پھر بریکنگ بھی سن لیں۔۔انتہائی مصدقہ ذرائع سے علم میں آیا ہے کہ عامر لیاقت صاحب ایک بار پھر بول کو خیرباد کہیں گے،پپو نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ ان کے معاملات ہم نیوز سے فائنل ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم نیوز والے کب اس بات کا اعلان کرتے ہیں۔۔اور کب عامر لیاقت صاحب بول کو چھوڑنے کاایکشن ری پلے دیتے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ ٹائم زیادہ نہیں بہت جلد یہ بم پھر پھوٹے گا۔۔اس پر ہمارا پپو سے کہنا تھا کہ پچھلی خبریں بھی تمہاری غلط نکلیں تو اس کا کہنا تھا کہ خبر غلط نہیں تھی، ہم نیوز والی خبر بھی اسے بڑے اہم ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔۔جو کم سے کم عامر لیاقت کی طرح اپنی بات سے پلٹ نہیں سکتا۔۔۔ پپو نے ہمارے عامر لیاقت سے رابطے پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ، یار کم سے کم میری بات کا یقین کرلیا کرو کیونکہ میں تم سے جو بات کرتا ہوں اس پہ قائم رہتا ہوں، اور میری زیادہ تر خبریں فوری یا کچھ دیر بعد سچ ہی نکلتی ہے۔۔ ہم نے قہقہہ لگایا اور اس کی لائن کاٹ دی۔۔کیونکہ پپو کی باتوں سے ” بزتی” سے محسوس ہورہی تھی۔۔چلیں اب کچھ اور باتیں بھی کرلیتے ہیں۔۔

بول کا ذکر آیا ہے تو پھر یہاں کی ایک ان کہی نئی کہانی بھی سن لیں، کچھ عرصہ پہلے پپو نے ساتویں فلور کی ایک انوکھی کہانی سنائی تھی، اس بار وہ لایا ہے چوتھے فلور کی پکچر لیکس، جی ہاں، یہ بھی اپنی نوعیت کی الگ ہی داستان ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بول کے ریجنل ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والی ایک محترمہ کی شرمناک تصویر کس نے لیک کی، بول میں کام کرنے والے سچائی کے نام نہاد علم بردار کبھی اس پر آواز نہیں اٹھائیں گے۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ بول کے ہیڈ آفس میں قدم قدم پہ خفیہ کیمروں کا جال بچھا ہے، اگر کہیں سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں تو وہ ” وائس اوور بوتھ” میں نہیں۔۔جہاں رات کے وقت لڑکااور لڑکی پائے گئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول میں ویسے تو نان پروفیشنلز کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے لیکن ریجنل ڈپارٹس میں تو “اندھی” مچی ہوئی ہے، جہاں اب خواتین کا تقدس بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ۔ پپو جس محترمہ سے متعلق بتارہا ہے، وہ پہلے ہی پورے ریجنل ڈپارٹ کی نظروں میں تھی، لیکن اب سب کی ” گندی” نظروں میں ہے۔۔۔بول کے ہر ڈپارٹ میں نان پروفیشنل “ہیڈ” ہیں،اس میں تو بلاشبہ کوئی دوسری رائے نہیں ہے، پپو کے مطابق ان نان پروفیشنل ہیڈز نے ہی شرمناک حرکات شروع کردی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے،بول پہ قابض ایگزیکٹینز آپے سے باہر چل رہے ہیں، خواتین کو ترقیوں اور تنخواہوں میں اضافے کا لالچ دیا جانے لگا ہے، یہ ہیڈز جس کو مرضی نواز دیں ، جس کو مرضی چاہیں ذلیل کردیں، ہیڈز پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، حدتو یہ ہے کہ بول میں اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو ایک “گریوانس” فارم بھردیں تو فوری شکایت دور کرنے کیلئے انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے، لیکن اب گریوانس فارم بھی بھرنے کے باوجود انتظامیہ ستو پی کے سورہی ہے کیونکہ جب گریوانس فارم ہی “چہیتوں” کے خلاف ہو توپھر “اپنوں” کے خلاف کون ایکشن لے سکتا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ گریوانس فارم پر کارروائی کا اختیار اسی ہیڈ کو ہے جس کے خلاف درخواست دی گئی ہے۔۔ پپو کی بتائی گئی اسٹوری کے مطابق ریجنل ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی اپنے ڈپارٹ کی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی پہ نظریں تھی، اس کو مسلسل “واچ” کیا جارہا تھا۔۔موقع کی تاک میں تھے لیکن موقع نہیں مل رہا تھا ، لیکن انگریزی ڈپارٹ کے ہیرو نے لڑکی کی ایک ایسی تصویر لیک کردی جس پر اس “ہیرو” سے بازپرس ہونی چاہیئے تھی ،باز پرس تو کیا ہوتی سب نے تصویر کو انجوائے کیا،انگریزی ڈپارٹ کے ہیرو نے اپنے باس ریجنل ڈپارٹ کے ہیڈ سے بھی پکچر لیکس شیئر کی، حیران کن بات تو یہ رہی کہ اس بے ہودہ حرکت کو مزید پھیلنے سے روکا جاتا وہ سب تو ایسے خوش ہوئے جیسےاسی موقع کی تلاش تھی،ہیڈ موصوف نے لڑکی کو اپنے روم میں بلایا اور غلیظ قسم کی “آفر” کی، جس پر لڑکی نے غصے کا اظہارکیا اور کمرے سے باہر آگئی،لڑکی نے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا،لیکن بول کا سسٹم کا کیا کرے، جہاں ہیڈز کو تمام تر اختیارات دیئے گئے ہیں اور ہیڈز کے خلاف ہی شکایت ہو تو پھر کیسا ایکشن اور کیسی کارروائی؟؟ بہرحال قصہ مختصر اس لڑکی کا نصیب اچھا تھا کہ اسے شعیب شیخ صاحب تک رسائی مل گئی، 2015 میں شیخ صاحب کو تمام بول والاز “اپنا” ہی سمجھتے تھے کیونکہ وہ سب میں گھل مل جاتے تھے، ان سے بات کرتے تھے، گیم کھیلتے تھے، کیفے آتے تھے، لیکن اب شاہ سے بڑھ کے شاہ وفاداروں نے شعیب شیخ کو وہ روپ دے دیا ہے جس کے خود شیخ صاحب شدید مخالف ہیں ، جی ہاں، اب وہ ایسے سیٹھ بن چکے ہیں جن سے رابطے کا کوئی سوچے گا بھی وہ نوکری سے جائے گا۔۔ کسی کو شعیب شیخ تک رسائی نہیں، سرراہ شعیب شیخ کا جب لڑکی سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے ساری بات بیان کردی، شیخ صاحب نے اسے یقین دلایا کہ انصاف ضرور ملے گا لیکن اس یقین دہانی کو بھی خاصا وقت گزر گیا، ہیرو بھی خوش ہے، ریجنل ہیڈ بھی لیکن لڑکی انصاف کی منتظر ہے، جسے ادارے کے سربراہ نے بھرپور یقین دہانی کرائی تھی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول کے 2 وائس اوور رومز ہیں جہاں چوبیس گھنٹے ریکارڈنگ کی جاتی ہے تو پھر وہاں کیمرے موجود کیوں نہیں؟ بول چونکہ کئی علاقائی زبانوں میں بھی نشریات دکھاتا ہے اس لئے ڈبنگ روم اکثر بزی رہتا ہے،وہاں کیمروں کی موجودگی بہت ضروری ہے تاکہ پھر کسی لڑکی کا مستقبل خراب نہ ہوسکے۔۔۔کچھ عرصے پہلے بھی سی سی ٹی وی کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کے وائس اوور روم میں کافی دیر سے موجود لڑکے ، لڑکی کو ڈپارٹ کے کچھ افراد نے دیکھا،اور رنگے ہاتھوں پکڑنے کی شکایت انتظامیہ کو کی گئی لیکن پھر بھی معاملہ جوں کا توں ہے۔۔پپو نے امید ظاہر کی ہے کہ شعیب شیخ صاحب اس معاملے کا خود نوٹس لیں گے، ریجنل ہیڈ اور انگریزی ڈپارٹ کے ہیرو کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا، کیونکہ سانپ اور بچھو کی فطرت ہی ڈسنا ہوتا ہے، آج انہوں نے اس لڑکی کے ساتھ ایسا کیا کل کسی اور کو نشانہ بنائیں گے، اس میں بدنامی ادارے کی ہوگی، ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں توپھر کوئی لڑکی بول میں کام کرنے کا سوچے گی بھی نہیں۔۔ نائنٹی نیوزکراچی بیورو میں پپو کی تلاش شروع کردی گئی ہے اور ڈی ایس این جی ویس سے مشہور ہونے والی خاتون رپورٹر کو یہ زمہ داری نئے بیوروچیف نے دی ہے کہ وہ پپو کو تلاش کرے۔۔وڈے چینل سے آنے والے بیوروچیف صاحب جب سے یہاں آئے ہیں پورے اسٹاف کو آپس میں لڑانا شروع کردیا ہے، اسٹاف اب دفتر میں ایک دوسرے سے گالم گلوچ تک کرنے لگے ہیں اور بیورو چیف صاحب اپنے کیبن میں مزے لیتے رہتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بیوروچیف نے اسٹاف کو لڑانے کیلئے پرانے اسائنمنٹ ایڈیٹر کا کاندھا استعمال کیا، حیرت انگیز طور پر مارگلہ گاڑی والے اسائنمنٹ ایڈیٹر اپنے تنخواہ بڑھانے اور اسائنمنٹ ہیڈ کو اپنے انڈر میں کرنے کیلئے کیلئے بیوروچیف کو  پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی دی جارہی ہے ۔۔پپو کا کہنا ہے کہ پرائم ٹائم بلیٹن یعنی رات نو بجے کیلئے کراچی بیورو کوئی پلاننگ نہیں کرتا۔۔بیورو چیف یہاں سرکاری نوکری سمجھ کر جاب کررہے ہیں، صبح آٹھ سے دوپہر چار بجے کی نوکری پھر پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ کراچی بیورو کے ایک رپورٹر کی عید سے قبل تنخواہ بھی روک دی گئی  جبکہ تمام اسٹاف کو تنخواہیں دی گئیں، جس رپورٹر کی تنخواہ روکی گئی بیوروچیف اسے ایچ آر والوں کے ساتھ مل کر نکالنے کی تیاریوں میں مصروف ہے،پپو نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ اس بیچارے رپورٹر نے بیوروچیف کی ایک پکی پارٹی کے خلاف خبر چلادی تھی۔۔اپنے بیوروچیف کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کرنے والے چہیتے اسائنمنٹ ایڈیٹر نے پہلے اپنے قریبی کرائم رپورٹر سے جھگڑا کیا اور عید کا روسٹر بھی نہیں بنایا جو ان کی زمہ داری تھا، پھر ڈی ایس این جی اسٹاف سے خوب جھگڑا کیا اور ان پر جھوٹے الزامات لگائے جب ڈی ایس این جی اسٹاف نے ان کی غلطی ثابت کردی تو اسائنمنٹ ایڈیٹر نے این ایل ایز پر غصہ اتارا اور اچانک ایک این ایل ای انہیں اتنا برا لگا کہ حکم دیا کہ یہ این ایل ای انہیں نہیں چاہیئے بیورو چیف اس سارے معاملے پر خاموش رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سارا قصور ان کے “چہیتے” کا ہے۔۔92 کے پریس کارڈ پہ کینیڈا جانے والے رپورٹر کی کارڈ کی فرمائش بڑھ گئی ہے بیوروچیف نے اپنے دورہ لاہور میں اس حوالے سے ہیڈآفس میں کافی کہا بھی کہ کارڈ دے دو رپورٹر کو۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بیوروچیف کو اپنے دورہ لاہور میں مالکان کی روایتی بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔۔پرانے چینل کے زمہ داران سے بھی رابطے جاری ہیں،،آکٹوپس سے سب کچھ کاپی پیسٹ ہورہا ہے۔۔پپو نے کراچی بیورو کی مزید کہانیاں بھی سنائی ہیں، مزید آئندہ کیلئے رکھتے ہیں۔۔

بیوروچیف کی بات چل رہی ہے تو ایکسپریس کراچی کے بیوروچیف کا بھی کچھ ذکر”خیر” ہوجائے۔۔ موصوف ایک غیرمسلم کیمرہ مین اور ایک خاتون رپورٹر کے عشق میں بیک وقت مبتلا ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ایکسپریس کے تمام کیمرہ مینز اور دیگر اسٹاف کا کہنا ہے کہ غیرمسلم کیمرہ مین جو کہتا ہے بیوروچیف کیلئے وہی پتھرپہ لکیر ہے۔۔ پپو کے مطابق ایکسپریس کے کیمرہ مینوں پہ شاید زوال آیا ہوا ہے، ایک کے بعد ایک کو فارغ کیا جارہا ہے، حال ہی میں ایک کیمرہ مین کو صرف اس لئے گھر بٹھادیاگیا کہ شدید بارشوں کے دوران وہ بار بار اپنے آفس والوں سے “رین کور” مانگتا رہا جب کہ آفس والے ” رین کوٹ” سمجھتے رہے، پھر صبح چھ اور آٹھ بجے کے بلیٹن کے بعد کیمرہ بھیگ کر بند ہوگیا اور نوبجے لائیو نہ ہوسکا۔۔ جس کا بیوروچیف نے شدید برامنایا اور اسے گھر بٹھادیا۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ بیوروچیف بنیادی طور پر ایک انتہائی شریف انسان ہے لیکن وہ کسی خاتون رپورٹر کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بات وہ خاتون رپورٹر بھی جانتی ہیں کہ بیوروچیف شادی شدہ ہے لیکن خود اس کا کہنا ہے کہ کیاکروں میں تو عشق میں گرفتار ہوچکی۔۔پپو کو ایکسپریس کراچی بیورو کی مزید کہانیاں ڈھونڈنے کا کہہ دیا ہے اور اس نے مزید انکشافات کا وعدہ بھی کیا ہے۔۔

سما سے متعلق کچھ روز پہلے اسی بلاگ میں کہاگیاتھا کہ جھاڑو پھرنے والی ہے، آج وہی ہوا، پروگرامنگ کے تین لوگ، ڈیجیٹل سے ایک اور ایک نیوزڈیسک سے فارغ کردیاگیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ برطرفیوں کا یہ سلسلہ مزید دراز ہوگا۔۔

عامرلیاقت سے متعلق غلط خبر پہ تو آپ سب نے برامنالیاحالانکہ اپنی جگہ وہ خبر درست تھی اس کی تردید سامنے نہیں آئی، لیکن اس غلط خبر کا کسی نے نوٹس نہیں لیا، جو کئی چینلز پہ چلنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور وائٹس ایپ گروپوں میں دھڑلے سے کئی دن چلتی رہی۔۔ جی ہاں، کراچی میں شدید بارشوں کے موقع پر ایک ایسی وڈیو بھی سامنے آئی جس میں کہاگیا کہ سندھ کے وزیربلدیات جام خان شورو ایک حسینہ کے سر پہ “جام” رکھ کے رقص کررہے ہیں۔۔ اب مجھے کوئی یہ بتادے کہ یہ وڈیو کب کی ہے؟ یہ حسینہ کون ہے؟ حسینہ کے ساتھ رقص کرنے والا واقعی سندھ کا وزیربلدیات ہے؟ مسئلہ یہی ہے ہم لوگ تصدیق کرتے نہیں اور ہر چیز فاروڈ کرنے میں لگ جاتے ہیں،  میرے دوستو، یہ انڈیا کی وڈیو ہے۔۔وہ حسینائیں بھارتی ناریاں ہیں، اور وہ صاحب بھی سندھ کے وزیربلدیات نہیں، اب اگر کوئی سیاسی رپورٹر میرے اس دعوے کی تصدیق کردے تو مہربانی ہوگی۔۔

 حیرت انگیز طور پر سب سے پہلے یہ وڈیو  اے آر وائی میں اپنے شو پر کاشف عباسی نے چلائی۔۔امید ہے کاشف کی ٹیم اس معاملے کو دیکھے گی۔۔اے آر وائی پہ پپو کی سن لیں۔۔ اے آر وائی سے پرندوں کی ہجرت بول کی طرف جاری ہے، سلمان مرزا اینکر نے بھی بول جوائن کرلیا۔۔ مزید کئی ڈپارٹمنٹس ہیڈز سے بھی بول کے رابطے ہیں، پی سی آر ہیڈ، این ایل ای ہیڈ وغیرہ کو کہاجارہا ہے کہ بول آجائیں، اچھی آفر ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ انکریمنٹ لیٹر جو عید کے فوری بعد ملنے والے تھے اب شاید اس ماہ کے آخر تک مل جائیں، ادارے نے جان بوجھ کے تاخیر کی ہے تاکہ لوگ اس کا فائدہ اٹھا کے ہجرت کے وقت تنخواہوں میں اضافہ نہ کراسکیں،کیونکہ جتنی تنخواہ نئے لیٹر کے تحت بڑھے گی اگلے ادارے میں اس سے زیادہ پر ہی سودے بازی ہوسکے گی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ انکریمنٹ لیٹر پہ عمل درآمد فوری نہیں ہوگا ، لیٹر مل بھی گئے تو شاید دسمبر سے اس کا نفاذ ممکن ہوسکے۔۔۔

اب مختصر مختصر پپو کی مخبریاں۔۔۔

جاگ ٹی وی نے اسلام آباد بیورو سے 2 اسائنمنٹ ایڈیٹر فارغ کردیئے،جن کے نام سمیع اللہ اور بابر معلوم ہوئے ہیں، ان سے جبری استعفے لئے گئے ہیں۔۔

پاکستان مخالف ریمارکس پر بول کے اینکر حمزہ علی عباسی کو پیمرا نے نوٹس جاری کردیا ہے اور انہیں تیرہ ستمبر کو طلب کرلیا ہے۔۔

 کراچی کے ایک ہوٹل میں گزشتہ دنوں جی ٹی وی میں ہائرنگ کیلئے انٹرویوز کئے گئے۔۔

 92 سے استعفا دینے والے اینکر علی ممتاز نے ہم نیوز جوائن کرلیا ہے۔۔ اور اپنا سائیڈ بزنس بھی شروع کردیا ہے ، جی ہاں۔۔ انہوں نے لاہور کے علاقے ڈیفنس میں گلوریا جینز کافی شاپ کی آؤٹ لیٹ کھول لی ہے۔۔

اور گزشتہ سینہ بہ سینہ میں 24 چینل کے ایک اعلیٰ عہدیدار حافظ انوار کے حوالے سے ایک غلط خبر منسوب ہوگئی، یہ حافظ صاحب 24 والے نہیں تھے بلکہ لاہور کے ہی کسی اور چینل سے تعلق رکھتے ہیں، چونکہ خبر صرف نام کے ساتھ آئی تھی اور میری نالج میں یہی والے حافظ انوار تھے اس لئے ان سے منسوب کردینا میری غلطی ہے۔۔ انہیں جو ذہنی کوفت اٹھانی پڑی اس کیلئے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں اور لالہ جی کے مشکور ہیں جنہوں نے میرے آفس آکر اس خبر کی غلط منسوبی کے حوالے میری کلاس بھی لی۔۔۔

آج کیلئے فی الحال اتنا ہی۔۔ ملتے ہیں ایک شارٹ بریک کے بعد ۔۔کہانیاں ابھی بہت باقی ہیں۔۔ (علی عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں