سینہ بہ سینہ قسط نمبر 83
دوستو، ایک ہفتے بعد ہی پھر حاضر۔۔پپو کی بے تحاشا مخبریاں ہیں۔۔ جب خبروں کا ٹریفک ٹھیک ٹھاک ہو تو پھر ہمارے خیال میں اسے روکنا نہیں چاہیئے ورنہ ٹریفک جام ہوسکتا ہے۔۔چلیں جلدی جلدی کام کی باتیں کرلیتے ہیں۔۔پپو بھی شکایت کرنے لگا ہے کہ اب صرف سینہ بہ سینہ تک ہی محدود کردیا مزید لفٹ ہی کوئی نہیں۔۔اسلئے کوشش ہے کہ سینہ بہ سینہ کو ریگولر کردیا جائے۔۔
معروف کالم نگاراور سینیئر صحافی رعایت اللہ فاروقی کہتے ہیں کہ،المیہ نہیں تو کیا ہے کہ دیگر اداروں کی طرح ہمارا میڈیا کا ادارہ بھی شدید بیمار ہے اور یہ اپنی بیماری کی فکر کے بجائے بزعم خود دیگر اداروں کے امراض کی تشخیص صبح شام کرتا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا رہا ہے۔۔مثالیں بے شمار ہیں لیکن تازہ ترین مثال سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس کی جھوٹی خبر کی ہی لے لیجئے۔ اس معاملے میں جو کچھ ہوا کیا وہ ڈین براؤن کے اس قول کو درست ثابت نہیں کرتا کہ میڈیا انارکی کا دایاں ہاتھ ہے ؟ ہم آزادی اظہار کے علمبردار بھی بننا چاہتے ہیں، ہم ایوب اور بھٹو کے ڈیکلریشن منسوخی آڈرز کی مزاحمت کا کریڈٹ بھی چاہتے ہیں، ہم ضیاء کے کوڑوں کو اپنے لئے تمغہ آزادی بھی باور کرنا چاہتے ہیں اور ہم آزادی اظہار کی راہوں میں مارے گئے شہیدوں پر فخر کرتے بھی نہیں تھکتے جبکہ حالت یہ ہے کہ اس طویل تاریخ سے ہم اتنا بھی نہیں سیکھ سکے کہ خبر قوم کے سامنے لانے سے قبل کم از کم متعلقہ ادارے سے اس کی تصدیق ہی کر لیں۔ ہم سابق وزیر اعظم کی اہلیت و نا اہلیت پر دانشوری بھگارتے تو نہیں تھکتے لیکن خود ہماری اپنی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ وٹس ایپ گروپ میں چھوڑے گئے شوشے کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنا کر مقننہ اور عدلیہ کو آمنے سامنے لے آتے ہیں۔ نااہلی کے یہ شاخسانے اس الیکٹرانک میڈیا سے سامنے آ رہے ہیں جس کی اسکرینیں شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ان اینکرز کی یرغمال ہوتی ہیں جن کی بڑی تعداد میڈیکل ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء یا ایکٹرز پر مشتمل ہے۔ انہیں کیا خبر کہ صحافت کس چڑیا کا نام ہے ؟ یہ تو مریض کی نبض ، مؤکل کا کیس اور ڈرامے کا سین بیچ میں چھوڑ کر اچانک سکرین پر آ بیٹھے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ یہ خود تو نہیں آ بیٹھے بلکہ کسی نے لا بٹھایا ہے۔ جب اینکرز کا انتخاب کرنے والے صحافتی خدمات کی جگہ چرب زبانی کو معیار بنا کر اس طرح کے نااہلوں کو سامنے لائیں گے تو پھر ’’نااہل صحافی‘‘ کا تصور ہی تقویت پائے گا ۔۔
پپو نے بریکنگ نیوز دی ہے کہ جیوٹی وی کا برطانیہ سے بوریا بستر گول ہوگیا ہے،پاکستان میں جس طرح کمپنیاں رجسٹرڈ کرنے کا سرکاری ادارہ ہے اسی طرح برطانیہ میں کمپنیز ہاؤس کے نام سے سرکاری ادارہ ہے جو برطانیہ میں کاروبار کرنے والی ہر کمپنی کو رجسٹرڈ کرتا ہے، اس کمپنی کے بائیس اگست 2017 کو جاری ہونے والے لیٹر نمبر DEF6/03574228 کے مطابق جیو ٹی وی لمیٹڈ دوماہ کے اندر برطانیہ سے اپنا کاروبار سمیٹ لے جس کے بعد اس کی تمام پراپرٹیز بحق سرکار ضبط کرلی جائے گی۔۔جیو گروپ کی بات ہے تو ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ سینیئر صحافی اور اینکرپرسن ناصربیگ چغتائی (این بی سی) کی جنگ اور جیوگروپ میں ایک بار پھر واپسی ہوگئی۔۔پپوکا کہنا ہے کہ انہیں ایڈیٹر اینڈ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا عہدہ دیاگیا ہے۔۔فی الحال وہ اخبار منزل میں بیٹھ رہے ہیں اور لوگوں سے میٹنگیں بھی کررہے ہیں۔۔۔
پپو کا مزید کہنا ہے کہ ہم نیوزانتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ستمبر کے آخر تک ہائرنگ شروع کردی جائے،جن لوگوں نے اپنی سی ویز بھیجی ہیں ان کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا جائے، اس حوالے سے امیدواروں کو جلد اسکروٹنی کے بعد بہت جلد شارٹ لسٹ کیا جائے گا۔۔اطلاعات ہیں کہ یہ چینل پچیس دسمبر یا یکم جنوری کو لانچ کیا جائے۔۔
پپو نے ایک اور مخبری دی ہے کہ اے ٹی وی والوں کا نیوز چینل پبلک نیوزدس محرم الحرام کے بعد ہائرنگ شروع کرے گا، اس سلسلے میں تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔۔ اسی ادارے کے روح رواں، پی ٹی وی کے تین بار ایم ڈی، دنیا نیوزکے بانی ایم ڈی،92 نیوز اور جیوسپر کو لانچ کرنے والے میڈیا انڈسٹری کے معتبر نام یوسف بیگ مرزا نےگزشتہ دنوں ایک انٹرویو دیا جس میں میڈیا انڈسٹری کے حوالے سے کافی تلخ حقائق بے نقاب کئے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اس وقت مخصوص جماعتوں کو ہی اہمیت دے رہا ہے اور اپوزیشن کو نظرانداز کررہا ہے،پاکستان میں میڈیا کے دو اہم جز ہیں۔۔مالکان اور میزبان(اینکرز)۔۔ زیادہ تر مالکان ایڈیٹوریل پالیسی کو “ڈکٹیٹ” کرتے ہیں۔۔سیاسی جماعتیں اپنے “عقابوں” کے ذریعے میڈیا مالکان سے رابطے کرتے ہیں، جو ان سے تعلقات بناتے ہیں، پیسہ لگاتے ہیں جس سے اپنی جماعت کیلئے 80 فیصد تک ائرٹائم لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔۔ان کا کہنا تھا کہ ۔۔ میڈیا میں کام کرنے والے پروفیشنلز برائے نام ہی ہوتے ہیں کام کا فریم ورک تو مالکان ہی دیتے ہیں۔۔جیواور اے آروائی کی لڑائی کے حوالے سے یوسف بیگ مرزا کا کہنا تھا کہ یہ دو مالکان کی لڑائی ہے، میڈیاانڈسٹری کے یہ دوبڑےانا کی جنگ لڑرہے ہیں۔۔پی ٹی وی بطور نیوزچینل فلاپ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر حکمران جماعت کے ساتھ پی ٹی وی کی پالیسی تبدیل ہوجاتی ہے اس لئے پی ٹی وی کی ساکھ نہیں رہی، پرائیویٹ چینلز کا سارا دھیان بزنس کی طرف ہوتا ہے اس لئے اب ان کی خبریں بھی یک طرفہ ہونے لگی ہیں۔۔بول کی فنانشل لنکس کے حوالے سے پی بی اے کی تنقید پر انہوں نے کہا کہ یہ کسی ایک چینل کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے، اگر بول کے فنانشل کنکشن کی چھان پھٹک کرنی ہے تو پھر دیگر چینلز کی بھی کرنی ہوگی۔۔میڈیا میں نان پروفیشنلز لوگوں کی موجودگی کے حوالے سے یوسف بیگ مرزا کا کہنا تھا کہ ، میڈیا سب کیلئے کھلا ہے، یہاں کچھ اینکر ز ایسے ہیں جنہیں اپنے کام کا اتنا نہیں پتہ لیکن پھرایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ وہ پھنس جاتے ہیں۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ گھی فروش چینل کے مالکان کے شہر میں رپورٹرز نے اندھیر نگری مچارکھی ہے،پپو کے مطابق چنیوٹ میں گھی فروش چینل کا نمائندہ شراب فروشوں کی باقاعدہ سرپرستی کرتا ہے اور اگر قانون حرکت میں آئے تو ” لال لوگو” پکڑے پولیس افسران کو اپنی طاقت دکھاتا ہے، اسی رپورٹر کے ایک فنانسر کو بھی پولیس نے شراب پیتے ایک گھر سے پکڑا اور خوب دھلائی کی،تو اسی رپورٹر نے موقع پر پہنچ کر پولیس کے پیر پکڑ کر معافی دلوائی، پولیس نے اس رپورٹر کے سامنے بھی اس کے خرچیلے ٹھیکیدار دوست کو خوب دھویا،جس کا رپورٹر کو کافی رنج پہنچا،ویسے تواکثروبیشتر اس ٹھیکیدار دوست، ایک سب انسپکٹر کے بیٹے اور ایک پان شاپ والے(یہ میرا ذکر نہیں ، پپو) کا ٹھکانہ گھی والے چینل کے آفس میں اسی رپورٹرکا کمرہ ہوتا ہے ، چینیوٹ پولیس منشیات کے خلاف کافی حرکت میں ہے، پپو کے مطابق تھانہ سٹی پولیس نے ایک سرکاری ملازم خاتون کے گھر میں گندم کے بھڑولے سے کئی سو لیٹر شراب پکڑی جس پر مقدمہ کے اندراج کے بعد رپورٹرلال پیلا ہوگیا،واٹس ایپ گروپوں میں چیختا رہا کہ پولیس اس مظلوم خاتون پر 80 لیٹر اضافی شراب ڈالی ہے،اسی رپورٹر نے اپنے فنانسر ٹھیکیدار کی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے ایک پلان بنایا جس میں اسی سرکاری ملازمہ کا استعمال کرنا شروع کیا، پپو کے مطابق اسی رپورٹر کے شرابی ٹھیکیدار دوست نے شراب فروش خاتون کو دولاکھ روپے ادھار دے رکھے تھے تو اس عورت نو کو ڈرا دھمکا کے اپنی گاڑی میں آر پی او(ریجنل پولیس آفیسر) فیصل آباد کے سامنے پیش کیا،وہاں سے ڈی پی او کے پاس انکوائری آئی اور الزام کیا لگوایا کہ وہ ایس ایچ او اس خاتون کو رات اپنے ساتھ سونے کا کہتا تھا،پپو نے بتایا کہ اسی رپورٹر نے چند صحافیوں کو ساتھ ملا اسی سرکاری ملازمہ کو پریس کانفرنس کیلئے راضی کیا اور ٹھیکیدار شرابی دوست سے پیسے لے کر پریس کانفرنس کی فیس ادا کی،اور پھر پریس کانفرنس کیلئے مجبورکرکے بلایاگیا،عین وقت پر سرکاری ملازمہ پریس کانفرنس سے ہچکچائی مگر وہاں موجود تمام لوگوں نے دیکھا کہ یہ رپورٹر اس خاتون کو ہاتھ سے پکڑ کر سڑک سے پریس کلب لایا کیونکہ اپنے دوست اور اپنی ہتک کا بدلہ لینے کیلئے وہ بالکل اندھا اور صحافتی اصول پس پشت ڈال چکا تھا اور دبنگ انداز میں گھی فروش چینل کا استعمال کررہا تھا، اپنے کیمرہ مین کے ساتھ پریس کانفرنس میں موجود رہا مگر نجانے کیوں پریس کانفرنس شروع ہوتے ہی اپنے چینل کا ” لوگو” اٹھالیا، پریس کانفرنس میں پھر عورت نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں یہ اعتراف کیا کہ یہ شراب واقعی اس کے گھر سے پکڑی گئی تھی مگر اس کی نہیں اس کے ملازم کی تھی، اب اگلے روز نجانے کیا ہوا کہ پریس کانفرنس کرنے والی سرکاری ملازمہ سیدھا پولیس کے جاپہنچی اور روتے ہوئے بتایا کہ اسے اس رپورٹر اور اس کے شرابی ٹھیکیدار بجلی والے دوست نے مجبور کیا،مجبوری کا پولیس نے پوچھا تو بتایا کہ اس نے مکان کیلئے دولاکھ روپے ادھارلئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ٹھیکیدار یہاں اکثر بیٹھ شراب وغیرہ پیتا اور یہی رپورٹر اس کی سرپرستی کرتا تھا،اورتواور اب خاتون نے بیان حلقی اپنے ہاتھ تحریر کرکے جمع بھی کرایا کہ اسے پولیس کے خلاف اس رپورٹر اور اس کے شرابی ٹھیکیدار دوست نے مجبور کیا تھااور اس نے اپنے اللہ، ڈی پی اور اور ایس ایچ او سے معافی بھی مانگی۔۔پپو نے مزید بتایا کہ ڈی پی او چنیوٹ مستنصر فیروز علاقے میں منشیات فروشی کو دہشت گردی کے برابر سمجھتا ہے اس لئے وہ کسی منشیات فروش کو نہیں بخشتا اور یہی بات لال لوگو والے چینل کے رپورٹر اور مقامی دو،تین صحافیوں کو ناگوار گزرتی ہے۔۔
گھی فروش سیٹھ کے چینل کا ذکر ابھی جاری ہے۔۔لیکن اب پپو واپس کراچی پہنچ گیا ہے جہاں۔۔۔92 نیوز کے کراچی بیورو کی کچھ مخبریاں بھی لے کے آیا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ڈان نیوزکی ڈی ایس این جی سے مشہور ہونے والی خاتون نے یہاں نئے بیوروچیف کو مخبریوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، کراچی بیورو میں کون کب آتا ہے،کیاکرتاہے سب بتایاجاتا ہے، مخبریوں کے بدلے محترمہ نے اینکر بننے اور ایک شو کی فرمائش کردی، پپو کا کہنا ہے کہ شو کیلئے تو ایچ آر کو باقاعدہ درخواست کی گئی کہ وہ کراچیبیورو کے ماحول میں خود مس فٹ سمجھتی ہیں اس لئے اسے اینکر بنایا جائے ساتھ میں اسے گاڑی بھی دی جائے، گاڑی کے حصول کیلئے انڈین فلم سے شہرت پانے والے رپورٹر نے بھی خوب جتن کئے، پپو کے مطابق اس حوالے سے چینل کے مالک تک اپروچ کیاگیا جس کے بعد تنگ آکر کر مالک نے سب رپورٹرز سے گاڑیاں واپس لے لیں،محترمہ نے ایک ٹرینی رپورٹر کی ترقی پہ اسے بدنام کرنے کی بھی کوشش کی اور اس کے متعلق مختلف باتیں پھیلائیں، پرانے بیوروچیف کے ہوتے ہوئے صبح کی شفٹ کے اسائنمنٹ ایڈیٹر کی برائی کرتے نہ تھکنے والی محترمہ نے نئے بیوروچیف کے سامنے اب اسی اسائنمنٹ ایڈیٹر کی تعریفیں شروع کردی ہیں،شاید وہ یہ جانتی ہے کہ اسائنمنٹ ایڈیٹر اور نیا بیوروچیف پرانے دوست ہیں اسی لئے وہ اپنے ڈیوٹی ٹائم کے بعد بھی آفس میں نظر آتا ہے۔۔باتیں تو اور بہت سی ہیں لیکن پھر دیگر چینلز کی مخبریاں رہ جائیں گی، اس لئے کچھ باتیں اگلی بار کیلئے ۔۔
جاگ ٹی وی پر بھی بات ہوجائے،جہاں دو بڑوں کے درمیان ٹھن چکی ہے، نکےبھائی نے بڑے صاحب کو تقریبا دیوار سے لگارکھا ہے،ہائرنگ کے حوالے سے بڑے صاحب کی ایک نہیں سنی جارہی۔۔گرافگ کے حوالے سے چینل کو ایک بندہ درکار تھا جس کیلئے بڑے صاحب نے 92 سے ایک بندے کو بلایا،بڑے صاحب کے بلانے تک وہ بندہ سیون نیوز جوائن کرچکا تھا،اسی لئے جب جاگ میں بلایاگیاتو وہ سیون نیوزسے انٹرویو دینے آیا، پہلے پہل ایچ آر نے تو اسے کم پیسوں کابول کر ٹرخا دیا کہ ہم آپ کو پچاس ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتے،وہ امیدوار یہ سن کر واپس چلاگیا، تاہم بڑے صاحب نے اسے ڈانٹ کر دوبارہ بلوایا اور پچھتر ہزار روپے میں ڈن کرکے ایچ آر ہیڈ کے پاس بھیجا،اب ایچ آر ہیڈ بہانے سے اسے نکے بھائی کے پاس لے گیا جس نے اچھی خاصی بدتمیزی کے بعد بندے کو نوکری پہ رکھنے سے انکار کردیا ، امیدوار کو نکے بھائی نے گھانس تک نہیں ڈالی، ایچ آر والے کو کہا کہ اس کوکس نے بلایا ہے،پھر کہنے لگے جب پچاس ہزار کا بولا تو پچھتر میں کس نے رکھا؟ پھر پروفائل میں سے سیون نیوزکا پیچ نکال کا کہا یہ کیا بکواس ہے، سیون نیوزبھی کوئی چینل ہے اور وہ صفحہ پھاڑ دیا،پپو کا کہنا ہے کہ نکے بھائی کے رویہ سے جاگ میں تمام ہی ورکرزپریشان ہیں، جاگ لاہور میں جب ایک جونیئر رپورٹر نے نکے بھائی کو سلام کرنے کے بعد حال چال پوچھ لیا تو اسے جواب میں گالی سننے کو ملی اور کہا گیا کہ تم کام کرنے کیلئے آتے ہو یا میری طبیعت پوچھنے۔۔ اسی طرح کراچی بیورو میں ایک اسائنمنٹ ایڈیٹر کو ماں کی گالی دی، جس پر اس نے ریزائن کردیا، استعفے کے بعد ایچ آر نے اسے آفس بلوایا اور گارڈ کے ذریعے گیٹ پہ ہی رکوادیا۔۔ انسانیت کی تذلیل کی زندہ مثالیں دیکھنی ہیں تو پپو کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جاگ چینل کا چکر لگالیں۔۔
اے آر وائی میں منگل کے روزسینیئر نائب صدر عماد یوسف کی سالگرہ منائی گئی، مارننگ شو کی میزبان اور ان کی ٹیم کی جانب سے لایا گیا کیک کاٹا گیا۔۔ پپو کی جانب سے بھی عماد یوسف کو سالگرہ مبارک جناب۔۔پپو کے مطابق یہاں سے ایک پرانے این ایل ای کو نکال دیا گیا جواے آروائی کی فوٹیج کسی ویب سائیٹ کو دے رہا تھا،اسے پہلے بھی دو بار وارننگ دی گئی تھی لیکن فوٹیج کی چوری کا سلسلہ چھوڑا نہیں اس بار وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو نکال دیا گیا۔۔چیف اسائنمنٹ انچارچ فیاض منگی صاحب نے ایک بڑے صاحب کے ناروا سلوک کی وجہ سے نوکری چھوڑ کے گھر بیٹھ گئے تھے لیکن پپو کا کہنا ہے کہ انہیں واپس بلوالیا گیا۔۔ پپو نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ اے آر وائی میں عید کے بعد انکریمنٹ لگ جائے گا، اس سلسلے میں تیزی سے کام جاری ہے۔۔
دنیا نیوزکے مقبول ترین کامیڈی شو مذاق رات کی ٹیم ٹوٹ گئی، پپو کا کہنا ہے کہ پروگرام کے کرتا دھرتا سے لڑائی کی وجہ سے سنگر آئمہ بیگ اور جوگی کا کردار کرنے والے اداکار چاند برال کو ٹیم سے نکال دیا گیا۔۔
24 نیوز کے آؤٹ پٹ شعبے کے ہیڈ حافظ انوار کو جانوروں کا بہت شوق ہے، لاہور میں اپنی رہائش گاہ کی چھت پر جانور پالے ہوئے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ رواں سال حافظ صاحب کے سولہ بکرے فوت ہوگئے جس کی وجہ سے انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا، کچھ بکرے اب بھی ان کے گھر کی چھت پر اور کچھ شہر سے باہر ایک دوست کے ڈیرے پر ہیں۔۔
اب پپو نے رخ کیا ہے دن لاہور کا،پانی کا ڈسپنسر پہلے فرسٹ فلورپر پڑا تھا لیکن سینہ بہ سینہ میں مخبری کے بعد ان لوگوں نے اسے اٹھا کے نیچے ویٹنگ روم کی جگہ پر رکھا دیا اور ورکرز کو کہا کہ بھاڑ میں جائیں اپنا پانی گھر سے لے کر آئیں یا پھر چیک آؤٹ کرکے پارکنگ میں رکھے کولر سے پانی پیو۔ اب دن نیوز کے ورکرز پھر سے گھر سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔۔چیئرمین صاحب نے حکم دیاتھا کہ جس نے بھی سگریٹ پینی ہے یا پان کھانا ہے وہ آفس سے باہر جاکر شوق پورا کرے لیکن یہ صرف عام ورکر کیلئے حکم ہے، مارننگ اور ایوننگ شفٹ کے اعلیٰ افسران جن میں ڈی این ، این ایل ای ہیڈ، ایگزیکٹیو پرڈیوسر، کنٹرولر شامل ہیں،جب سگریٹ پینی چاہتے ہیں تو انہیں آفس کی چھت پہ جانے کی اجازت ہے ان لوگوں نے اپنی سگریٹ کی خاطر چیئرمین صاحب کا حکم بھی دھوئیں کا چھلا بنا کے اڑادیا۔۔باقی عام ورکر تو اپنا شوق پورا کرنے کیلئے چیک آؤٹ کرتے ہیں اور تنخواہ کٹواتے ہیں۔۔
دوستو، آج کیلئے اتنا ہی،دعا کیجئے گا عید سے پہلے پھر ملاقات ہوسکے، ورنہ عید کےبعد ہی ملاقات ہوگی۔۔ جب تک کیلئے اجازت۔۔ علی عمران جونیئر۔۔۔