سینہ بہ سینہ۔۔۔۔۔ آف دا ریکارڈ۔۔۔۔ پارٹ آٹھ۔۔۔۔
بول کے حوالے سے اب بھی اکثر لوگ کھوج لگاتے رہتے ہیں۔۔۔ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد۔۔۔ آزاد کشمیرسے خیبرپختونخوا۔۔۔۔اور بلوچستان سے تھرپارکر تک تمام لوگ بول کے حوالے سے سوالات ضرور کرتے ہیں۔۔۔ باتیں بے شمار ہیں۔۔ کئی معاملات ایسے ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہوگیا ہے۔۔۔ لیکن بات شروع کرنے سے پہلے میں سب سے پہلے ان اینکرز کی نشاندہی کردوں جو بول کا حصہ تھے اور اب دیگر چینلز میں جاکر وہی کچھ کررہے ہیں جو انہیں بول میں کرنا تھا۔۔۔ اے آر وائی میں منصور علی خان۔۔۔ ماریہ میمن۔۔۔ وڈے چینل (نیلے پیلے) میں جانے والے اسامہ غازی۔۔۔ ٹوئنٹی فور میں مسعود رضا۔۔۔ سمیت کئی بڑے نام وہی منجن بیچ رہے ہیں جو انہیں بول میں بچینا تھا۔۔۔ دوستو۔۔۔بے شک کمائی کرو لیکن اپنی عقل کی بھی کھاو۔۔۔ دوسرے کے آئیڈیاز پر مال بنانے سے کیا فائدہ۔۔۔ اس کے بعد کیا کروگے؟؟۔۔۔
اب بات شروع کرتے ہیں بول۔۔۔ اس پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ میں پرانی صرف موٹی موٹی باتیں ہی کروں گا۔۔۔ میری کوشش ہوگی کہ کچھ نئی باتیں آپ لوگوں کے علم میں آسکیں۔۔۔۔
بول کے خلاف سازش کب شروع ہوئی۔۔۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ایگزیکٹ کے چند ملازمین سافٹ ویئرز کی چوری میں پکڑے گئے اور ان کے پیچھے ایکسپریس کے سلطان لاکھانی کا نام آیا۔۔۔۔یہ نام ایف آئی آر میں درج کرایاگیا جسے بااثر ہاتھوں نے نکلوادیا جس کے بعد اعلی عدالت کے حکم پر یہ نام دوبارہ ایف آئی آر میں ڈالا گیا۔۔۔۔ یہ نقطہ آغاز تھا بول کے خلاف میڈیاہاوسز کے اتحاد کا۔۔۔ اس کے بعد کراچی میں ۔۔۔ چار ٹی وی چینلز مالکان ایک جگہ جمع ہوئے اور ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا کہ بول کی ناکامی میں ہی سب کی بقا اور سلامتی ہے۔۔۔۔۔ کراچی کی ایک معروف تجارتی شخصیت کے مطابق ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق چار ٹی وی چینلز میں سے دو بڑوں نے اپنے قابل اعتبار افراد کو ایگزیکٹ میں ملازمت دلانے میں کامیابی حاصل کی اور ان افراد نے ایگزیکٹ کے راز ان لوگوں کو بتانے شروع کئے۔۔۔پھر چاروں چینلز مالکان کا دوسرا اجلاس دبئی میں وڈے چینل کے مالک کے گھر پر ہوا۔۔۔۔جس میں امریکی سفارتکار بھی شریک تھا۔۔۔ اسی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بول کو روکنے کیلئے ایگزیکٹ کو نشانہ بنایاجائے۔۔۔ جس کے بعد حکومت پر دباو ڈالا جائے کہ اس چینل کو آنے سے روکا جائے۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ سلطان لاکھانی ایگزیکٹ سے ایسی کیا چیز چوری کروارہے تھے یا کون سے سافٹ ویئرز پار کرارہے تھے۔۔ تو اس کا بہت آسان جواب یہ ہے کہ اسے آپ کاروباری مخاصمت بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ سلطان لاکھانی کی بھی آئی ٹی کمپنی سائبر نیٹ کے کام سے ملک میں کام کررہی ہے اور ایگزیکٹ سے کاروباری معاملے میں میلوں فاصلے پر کھڑی تھی۔۔۔۔یہ سمجھ لیں کہ ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنیوں میں وہی مقام رکھتی ہے جو اردو اخبارات میں جنگ کو حاصل ہے۔۔۔۔۔ وڈے چینل کی ایگزیکٹ سے کیا ناراضگی تھی تو اس کا جواب وڈے چینل کے کرتا دھرتا دے سکتے ہیں۔۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ ۔۔۔ بول کے لوگو کے حوالے سے وڈے چینل نے کاپی رائٹس کا کیس کیا تھا جس میں خود وڈے چینل کی جعلسازی عدالت میں ثابت ہوگئی تھی اور یہ لوگ خاموش ہوکر پیچھے ہٹ گئے تھے۔۔۔۔۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ ایگزیکٹ اور بول کے خلاف اسٹوری نیویارک ٹائمز میں چھپوائی گئی۔۔۔ جو ایکسپریس والوں کا انگریزی اخبار ٹریبیون کا پاکستان میں پارٹنر ہے۔۔۔ اسٹوری دینے والا ریاست پاکستان کا ناپسندیدہ شخص۔۔ یعنی ڈیکلن والش۔۔۔ وڈے چینل کی سرپرستی میں ۔۔۔ دنیا چینل کے میاں عامر بھی درمیان میں اس لئے کودے کہ مسلم لیگ نون کا میڈیا سیل بھی اس اتحاد میں شامل تھا اور میڈیا سیل کی باگ ڈور محترمہ مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔ یہ وہی مریم نواز صاحبہ ہیں جنہوں نے بعد میں کچھ لوگوں کو درمیان میں ڈال کر شعیب شیخ کو بول بچینے کی کئی بار پیشکش کی ۔۔۔ ن لیگ کو اندازہ ہے کہ آج جو ٹی وی چینلز ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کل کو الیکشن کے موقع پر اگر پیچھے ہٹ گئے تو پھر کیا ہوگا؟ اسی لئے وہ اپنی انتخابی مہم کیلئے اپنا ذاتی ٹی وی چینل خریدنے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں اور اس وقت بول ان کے لئے بنے بنائے حلوے سے زیادہ نہیں۔۔۔۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ بول کے خلاف چینلز مالکان کے اجلاس میں امریکی سفارتکار کا کیا کام؟؟؟ تو دوستو۔۔۔ یہ سوچنا آپ لوگوں کو کام ہے کہ امریکی بول کو بند کرانے کیلئے اتنے بے چین کیوں ہورہے تھے؟ وہ کیا مفادات تھے جن کو ٹھیس پہنچنے کے خدشے پر امریکا بھی میدان میں اتر آیا؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایگزیکٹ کے خلاف امریکا میں کوئی ثبوت سامنے آیا؟ کیا دنیا کے کسی ملک سے ایف آئی اے کو کوئی گواہ ملا؟ کیا پوری دنیا میں کوئی ایک انسان ایسا نہیں ملا جسے ایگزیکٹ نے جعلی ڈگری بیچی تھی؟ کیا ایف آئی اے والوں نے چالان میں جعلی ڈگریوں کا جرم ڈالا؟ کیا عدالت میں کسی پاکستانی گواہ یا ایگزیکٹ کے کسی ملازم کو پیش کیا کہ وہاں کیا جعلسازی ہورہی تھی؟؟ ٹی وی پر میڈیا کو ہزاروں لاکھوں جعلی ڈگریاں دکھانے والے ایف آئی اے اہلکاروں کے پاس تو اس بات کا بھی جواب نہیں ہے کہ جب ڈگری کو ہاتھ لگایاجارہا تھا تو اس کی سیاہی ہاتھوں پر لگ رہی تھی۔۔۔ کیا ایف آئی اے والے اس بات سے بھی انکار کرینگے کہ ۔۔۔ شعیب شیخ کو جب ایگزیکٹ سے گرفتار کرکے گاڑی میں بٹھایاگیا تو وڈے چینل والوں نے کہا کہ ۔۔۔ فوٹیج نہیں بن سکی۔۔اسے دوبارہ عمارت سے گاڑی کی طرف لاو۔۔ چنانچہ شعیب شیخ کو عمارت سے دوبارہ گاڑی تک لانے کی فوٹیج بنوانے کا آٹھ لاکھ روپے معاوضہ لیا گیا۔۔۔۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے انہی دنوں قومی اسمبلی میں صاف صاف سوال کیا تھا کہ ۔۔۔ یہ ڈگریاں کس نے چھاپی اور کہاں سے لاکر ایگزیکٹ پہنچائی گئی؟؟ اس سوال کا جواب تو کوئی حکومتی وزیر نہیں دے سکا۔۔۔۔ فحش ویب سائٹس کا شور مچانے والے اس وقت منہ میں چوسنی اور فیڈر لے کر کیوں بیٹھ گئے جب ایف آئی اے کے موٹے کرپٹ افسر عطااللہ نے کیمرے کے سامنے آکر کہا تھا کہ ۔۔ ایف آئی اے کو ایگزیکٹ سے فحش ویب سائٹس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔۔۔۔۔
بات طویل ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ مزید اہم باتیں کل سینہ بہ سینہ کی نویں قسط میں ملاحظہ کیجئے۔۔۔۔ زیادہ لمبی تحریر سے آپ لوگ بور بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔ کل چند اہم حقائق بے نقاب کرونگا۔۔۔۔ انشااللہ