Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ  قسط 79

سینہ بہ سینہ  قسط 79

دوستو،مختصر سے بریک کے بعد ایک پھر آپ کی خدمت میں پپو کی تازہ مخبریوں کے ساتھ حاضر ہوں۔۔ ابھی آپ کا سینہ بہ سینہ پوسٹ ہی ہوتا ہے کہ کچھ گھنٹے بعد ہی ان باکس میں دوست احباب سوالات پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ اگلا سینہ بہ سینہ کب آئے گا، بہت سے دوست ان چیزوں کے بارے میں پوچھنے پر اصرار کرتے ہیں جن کے نام اور مقامات میں سینہ بہ سینہ میں دینے سے گریز کرتا ہوں، بہت سے دوستوں بضد ہوتے ہیں کہ انہیں خواتین اینکرز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مصالحے دار آئٹمز دیئے جائیں۔۔کچھ ناسمجھ جذباتی لوگ تو اپناخاندانی پس منظر گالیوں کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔۔آپ سب سے گزارش ہے کہ جتنا لکھا جارہا ہے اسے ہی بہت سمجھا جائے، مزید کہانیاں نہ کریدی جائیں، جے آئی ٹی کی طرح مجھ سے تفتیش نہ کی جائے،سوالات کی بھرمار نہ کی جائے ، کیونکہ میں بھی کافی چیزوں کے بارے میں صرف اتنی ہی معلومات رکھتا ہوں جتنی بیان کرتا ہوں پوری انفارمیشن پپو کے پاس ہوتی ہے اور آپ لوگ پپو کو نہیں مجھے نشانہ بناتے ہیں۔۔

گزشتہ سینہ بہ سینہ میں آپ لوگوں کو ایک نامعلوم دوست کے محبت نامے کے حوالے سے کچھ سوالات بتائے تھے، یہ سوالات جاگ ٹی وی سے متعلق تھے، دو خواتین رپورٹرز کی سردجنگ کا بھی ذکر تھا، اس میں سے ایک  یعنی اسپورٹس رپورٹر کو جاگ انتظامیہ نے برطرف کردیا، جاگ لاہور میں یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ خاتون رپورٹر کی برطرفی انتظامیہ نے اس وجہ سے کی کہ عمران جونیئر کے بلاگ میں اندرونی کہانی لکھی گئی تھی، حالانکہ میں نے پپو سمیت ان سوالات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔۔مزید اس بارے میں کوئی بات نہیں کرونگا، کیونکہ دونوں خواتین نے مجھ سے رابطہ کیاتھا،اگر دونوں کی باتیں لکھ دوں تو پھر شکوہ جواب شکوہ شروع ہوجائے گا اور یہ کہانی  ختم ہونے کا نام نہیں لے گی۔۔جاگ انتظامیہ کے صرف اتنا گوش گزار کرونگا کہ میں دونوں خواتین رپورٹرز کو نہیں جانتا، نہ ان سے کبھی رابطہ رہا۔۔ اس لئے اگر میرے بلاگ کو ایشو بناکر ایک کو برطرف کیاگیا ہے تو یہ انتہائی غلط بات ہے ساتھ ہی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسے فارغ کرنے کے بعد آپ کی اسٹوریز رک جائیں گی اور مجھے پتہ نہیں لگے گا کہ جاگ میں کیا ہورہا ہے تو یہ آپ کی بھول ہے۔۔اور ہاں یاد آیا ہے آپ پر کچھ ورکرز کے واجبات باقی ہیں، ایچ آر لاہور فون بھی نہیں اٹھا رہا، کئی لوگوں نے ان باکس میں اس حوالے سے رابطہ کیا ہے، برائے مہربانی جنہیں نکالتے ہو ان کے واجبات بھی دے دیا کرو،ویسے ایک کام جاگ انتظامیہ نے اچھا کیا، اپنے ورکرز کیلئے کھانے کا بندوبست کردیا، جو مفت دیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ جاگ انتظامیہ کو ورکرز کے مفادات میں ایسے مزید کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔۔

” جناب صدر، آپ پر میری جان قربان آپ مٹھی بھر عناصر اور سیکولر حضرات کی تنقید کی پراوہ مت کریں، ہمیں مغربی جمہوریت نہیں چاہیئے، ہمیں ایسے الیکشن نہیں چاہیئے جو آپ کے اسلامی سفر کی منزل مشکل بنادیں۔۔(آگے مزید خوشامدی الفاظ)۔۔۔۔وہ شخص تقریر کرکے چلا گیا، جنرل ضیا کے چہرے پر روایتی انکسار بھری مسکراہٹ آئی مائیک پر کہنے لگے،” جب میں آپ جیسے محب وطن لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میرا اس ملک پر ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے، آپ لوگ فکر مت کریں، انشااللہ اگلے الیکشن میں نیکس، صالح لوگ حکومت میں لے کر آؤنگا”۔۔پھر اگلے ہی سال غیرجماعتی الیکشن بھی ہوگئے اور سب نے دیکھا کہ نیک، صالح لوگوں میں گیلانی، وٹو،چودھری برادران اور وہ سب آگئے جس میں سے کوئی ایک ایسا نہیں تھا جس پر کرپشن کا الزام نہ لگا ہو، جاننا چاہتے ہیں پریس گیلری میں وہ تقریر کرنے والا کون تھا؟؟۔۔۔ اس کا نام مجیب الرحمان شامی تھا، جی ہاں وہی شامی صاحب جنہوں نے نوازشریف کے دوسرے دورحکومت میں پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اکبرعلی بھٹی کے اخبار روزنامہ پاکستان کی قرقی کرائی اور ایک روپیہ سکہ رائج الوقت کے عوض حکومت پاکستان سے خرید لیا۔۔آج اسی ایک روپے کے اخبار کا ایڈیٹرجمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار ہے، 1984 میں ضیا کی حمایت میں لکھنے والے یہ صاحب 2017 میں نوازشریف کے گن گارہے ہیں۔۔یہ ہوتی ہے صحافت۔۔

صحافت پہ بات چلی ہے تو مشرف دور کا بھی ذکر ہوجائے جب نیوزچینلز کی اٹھان تھی،وکلاتحریک میں گھنٹوں کی لائیو کوریج کون بھول سکتا ہے،عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں نے بھی چینلز کی ریٹنگ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن دوسری طرف ٹاک شوز میں ذاتی لڑائیاں اور بغیر کسی تعمیری ائجنڈے کے پروگرامز نے عوام میں اپنی افادیت کھونا شروع کردی۔۔پہلے سیاسی شو کیلئے پرائم ٹائم پر آٹھ بجے شب بہت اہم ہوتا تھا ،لیکن عوامی نبض کو دیکھتے ہوئے دس سے گیارہ بجے والا ٹائم بھی سیاسی ٹاک شو کیلئے مقرر کیاگیا، کامران خان نے اور پھر شاہ زیب خانزادہ نے اس ٹائم سلوٹ کو ریٹنگز کی بلندیوں پر پہنچادیا،جس کے بعد یہ وبا ایسی پھیلی کے رات گیارہ سے بارہ بجے کا سلوٹ بھی سیاسی ٹاک شوز کیلئے وقف کردیاگیا۔۔اینکرز اتنے ناپید ہوئے کہ نیوزکاسٹرز بھی اس دوڑ میں کودپڑے اور نیوزکاسٹرز کی ایک بری کھیپ اینکرز لسٹ میں شامل ہوگئی، عمران خان، منصور علی خان، اجمل جامی، عاصمہ شیرازی، ثنا بچہ،رحمان اظہر، غلام مرتضیٰ،جاوید اقبال، ثنا مرزا، غریدہ فاروقی،اقرارالحسن،سعود ظفر، وغیرہ اینکر کی نئی کھپت کا حصہ بن گئے، حالانکہ ایک پائے کا اینکر بننے کیلئے وسیع مطالعہ، تحقیقاتی رپورٹنگ، فیلڈرپورٹنگ اور انٹرنیشنل مارکیٹ کا مطالعہ ضروری ہے، ہمارے ہاں چونکہ کسی بھی پوسٹ کیلئے کوئی واضح طریقہ کار نہیں اس لئے رپورٹرز کی بھی ایک بڑی کھیپ اینکرز بن گئی، سمیع ابراہیم، سہیل وڑائچ، صابرشاکر، عارف حمید بھٹی، نصراللہ ملک وغیرہ اینکرز لسٹ میں شامل ہوگئے۔۔اب ایک ہی موضوع پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک سیاسی اکھاڑے لگتے ہیں،کوالٹی متاثر ہونے لگی، دوسری جانب انٹرٹینمنٹ چینل نے شام سات سے رات بارہ بجے کے پرائم ٹائم میں کوالٹی کو مین ٹین رکھا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے یہی وجہ ہے کہ انٹرٹینمنٹ چینلز کے پرائم ٹائم میں ٹی وی کمرشلز کے ریٹ تین لاکھ روپے فی منٹ تک پہنچ گئے جب کہ نیوزچینلز کے پرائم ٹائم کے ریٹ چارہزار روپے فی منٹ سے زیادہ سے زیادہ سوالاکھ روپے فی منٹ تک ہی پہنچ سکے۔۔حامد میر پچھلے ایک عشرے سے زائد عرصے سے کیپٹل ٹاک کررہے ہیں، کامران خان، ندیم ملک، ارشد شریف، رؤف کلاسرا، ڈاکٹر شاہد مسعود،طلعت حسین، کامران شاہد، نصراللہ ملک ، نجم سیٹھی، کاشف عباسی، نسیم زہرا وغیرہ کے ٹاک شوز کو سنجیدہ ناظر دیکھتا ہے لیکن انہیں عوام کی نبض کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کیوں ٹاک شوزسے منہ موڑ رہے ہیں، انہیں اچھے اور مثبت آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔۔نیوزچینلز کی انتظامیہ کو ان باریکیوں کو سمجھنا ہوگا، صرف اینکرز کو بھاری بھرکم پیکیج پر رکھ کر سب کچھ ان پر چھوڑ دینے سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن سب سے بڑی چیزچینل کی “ساکھ” متاثر ہورہی ہے،چینلز مالکان کو سوچنا ہوگا کہ جب وہ کسی اینکر کو اپنے چینل کیلئے ہائر کرتا ہے تو وہ اپنی ٹیم کے ساتھ آنے کا خواہشمند کیوں ہوتا ہے؟ اگر کوئی بھی اینکر خود کو “سیل پراڈکٹ” سمجھتا ہے تو پھر اکیلے جانے میں کیا قباحت ہے؟ یہ لوگ اپنے ریٹ تو منہ مانگے لے لیتے ہیں لیکن ان کی ٹیم وہی پرانی تنخواہ پہ کام کررہی ہوتی ہے حالانکہ کسی بھی اینکر کی کامیابی کی ضمانت اس کی ٹیم ہوتی ہے۔۔ اکیلا اینکر کچھ بھی نہیں۔۔

اینکر پہ یاد آیا، نیونیوزکے اینکر وقاص عزیز نے اپنا ناول”اینکر” چھپنے کو دے دیا ہے، اگست کے پہلے ہفتے تک مارکیٹ میں آجائے گا، اس کے کچھ حصے پڑھنے کا موقع ملا ہے،یہ ناول آپ کو بتائے گا کہ پاکستانی میڈیا ہے کیا، پاکستانی میڈیا میں بااصول اور ایماندار صحافیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ پاکستان کے غدار صحافت کے لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، خواتین اینکرز کا استحصال کیسے ہوتا ہے، مرد اینکرز کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے؟ چینل مالکان چند روپوں کے عوض کیسے کارکنان کی کھال ادھیڑتے ہیں، نیوز روم میں کیسی کیسی سازشیں ہوتی ہیں، لسانی اور علاقائی تعصب سے بھرے میڈیا ہاؤسز کون سے ہیں،سچائی کی خاطر مرنے والوں کی کیا قیمت لگتی ہے۔۔یہ سب جاننے کیلئے آپ کو ہمارے محترم دوست وقاص عزیز کا ناول ” اینکر” خریدنا ہوگا جس کی قیمت پانچ سو روپے ہے۔۔

سوکھی سوکھی باتیں بہت ہوگئیں، چلیں اب پپو کی طرف چلتے ہیں۔۔پپو نے اس بار پھر دن نیوز لاہور کا رخ کیا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے دن نیوز میں گزشتہ سینہ بہ سینہ بہت ڈسکس ہوا،وہ مظلوم کارکنان جن کے حق میں لکھا گیا وہی سرعام پپو کو گالیاں دیتے پائے گئے اور اس تلاش میں لگ گئے کہ دن نیوز کا کونسا ورکر ہے جو پپو بن گیا، آخری اطلاعات آنے تک دن نیوزمیں پپو کی تلاش جاری ہے، ان کی تلاش جاری رہنے دیں مزید مخبریاں سنیں۔۔چیئرمین صاحب نے چینل کو ایچ ڈی کرنے سے پہلے حکم دیا کہ تمام نیوز روم اور این ایل ای کے سسٹمز کو اپ گریڈ کیا جائے اس کیلئے جتنے مرضی پیسے لے لو۔۔ آئی ٹی انچارج اور این ایل ای ہیڈ نے مل کر پرانے سسٹمز کو تھوڑا تھوڑ ا اپ گریڈ کرکے لاکھوں روپے کی رسیدیں چیئرمین صاحب کو تھمادیں، اب چیئرمین صاحب ایچ ڈی کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جب کہ  این ایل ایز اور کاپی لکھنے والوں کے پاس وہی پرانے سسٹمز ہیں، جو کام چیئرمین صاحب چاہتے ہیں وہ ہو نہیں رہا،اب این ایل ای ہیڈ نے این ایل ایز کو کہنا شروع کردیا ہے کہ آپ لوگوں کو کام نہیں آتا، پپو کا کہنا ہے کہ دن نیوز سے کافی لوگوں کو فارغ کرنے کی لسٹ بھی تیارکرلی گئی ہے۔۔این ایل ایز(نان لینیئر ایڈیٹرہوتے ہیں جن کا کام ہوتا ہے جو وڈیوز آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں یہ ان کی کانٹ چھانٹ کرکے تیار کرتے ہیں) نے اپنے ہیڈ کو کہا ہے کہ ہمیں سسٹم اپ گریڈ کردو پھر جتنا مرضی کام لے لو، لیکن سسٹم اپ گریڈ کیسے ہو وہ تو پہلے ہی ” بالا ہی بالا” یعنی کاغذوں میں اپ گریڈ کرکے چیئرمین صاحب کو بتادیاگیا اب این ایل ای ہیڈ کی بچت صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہ چند لوگوں کو فارغ کرے تاکہ چیئرمین صاحب کو مطمئن کیاجاسکے کہ یہ لوگ کام نہیں کرتے تھے اس لئے انہیں فارغ کردیا۔۔دوسری جانب چیئرمین صاحب کے سخت احکامات کے بعد کنٹرولر نیوز نے بھی آستینیں چڑھالیں وہ کہتے ہیں جیسے مرضی کام کرو،مجھے کام چاہیئے ورنہ گھر جاؤ ،ہم نئے کاپی ایڈیٹرز رکھ لیں گے۔۔پپو کا کہنا ہےکہ دن نیوز میں شدید قسم کی گروپنگ چل رہی ہے ہر اعلیٰ افسر کی اپنی لابی ہے،اگر کوئی ورکر آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو برطرفی کی دھمکی دی جاتی ہے یا پھر اس کی شفٹ تبدیل کردی جاتی ہے۔۔پپو کے مطابق چیئرمین صاحب نے چینل میں سگریٹ پینے اور پان کھانے پر بھی پابندی لگائی ہے اگر کسی نے سگریٹ پینا یا پان کھانا ہو ہے تو وہ آؤٹ کرکے چینل سے باہر جاکر اپنا شوق پورے کرے پھر ڈیوٹی پہ واپس آجائے،اب جتنی دیر وہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے باہر رہا ہے وہ ٹائم کاؤنٹ کیا جائے گا اور مہینے کے آخر میں اس کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔۔جب اس پر احتجاج کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ سگریٹ اور پان چھوڑ دو۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ چینل کے اندر پینے کےپانی کا کوئی انتظام نہیں سوائے اینکرز کے، جنہیں میک اپ روم میں پانی کی سہولت موجود ہے کیونکہ وہ تو تمام افسران کی چہیتی ہیں، باقی تمام ورکرز پانی لینے یا پینے باہر پارکنگ کے پاس لگے کولر پہ جاتے ہیں اور دویا تین منٹ آؤٹ لگانے کی وجہ سے ہر ماہ جتنے منٹس بنتے ہیں ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔۔شکایت کرنے پر جواب ملتا ہے کہ آپ اپنے لئے گھر سے پانی لایا کریں۔۔دن نیوز کی باقی باتیں اگلی بار کرینگے۔۔ اب دیگر چینلز کا رخ کرتے ہیں۔۔

سما والے بھی پپوسے پریشان ہیں کیونکہ گزشتہ سینہ بہ سینہ میں سما سے متعلق کچھ اہم مخبریاں کی گئی تھیں۔۔ اس بار پپو نے بڑی بریکنگ نیوز دی ہے، پپو کا کہنا ہے کہ  سما کے ایک “اعلیٰ افسر” اور خاتون اینکر پارس خورشید کے درمیان سرد جنگ چل رہی ہے، پپو نے جب اس کی کھوج لگائی تو دلچسپ کہانی سامنے آئی، پپو کا کہنا ہے کہ سما کی پانامہ ٹرانسمیشن کیلئے خاتون اینکر سے کہا گیا،ٹرانسمیشن سے کچھ دیر پہلے ہی خاتون اینکر نے آنے سے معذرت کرلی اور بتایا کہ ان کی گاڑی کی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے جس کی وجہ انہیں بھی چوٹیں آئی ہیں ،ڈاکٹرز نے بیڈ ریسٹ کا کہا ہے، اسی  شام اعلیٰ افسر نے ایک میل کی جس میں خاتون اینکر کی گھر سے باہر کھڑی گاڑی کی تصویر تھی اور ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ آپ نے(خاتون اینکر) غلط بیانی کی، آپ کی گاڑی بالکل ٹھیک حالت میں گھر کے باہر کھڑی ہے۔۔جواب میں خاتون اینکر نے گجرات میں کھڑی حادثے کا شکار گاڑی کی تصویر بھیجی اور ساتھ ہی طنزیہ یہ بھی کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہی گاڑی ہے؟۔۔یہ سردجنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بعد میں خاتون اینکر خصوصی ٹرانسمیشن میں آگئیں لیکن اس شرط پہ کہ وہ چالیس منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھیں گی۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ ملک بھر کے میڈیا میں پانامہ عمل درآمد کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کا معاملہ چھایا ہوا ہے، تمام چینلز اور اخبارات میں خبروں کے ڈھیر ہوتے ہیں، دلچسپ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ایونٹ میں سما کا نیوز روم اپنے سربراہ کے بغیر چل رہا ہے، جی ہاں ڈائریکٹر نیوز صاحب چھٹیاں منانے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اور ان کی واپسی اکتیس جولائی کو متوقع ہے، اس سے پہلے ایک اعلیٰ افسر چھٹی پر تھے ان کے بعد دوسرے اعلیٰ افسر سعودیہ چلے گئے،ان دونوں کے آنے کے بعد ڈی این صاحب نے بیرون ملک کا رخ کرلیا۔۔

بات سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی ہوئی تو یاد آیا، اے آر وائی کے زیراہتمام چلنے والے چینل ایچ بی او کا ذکر بھی ہوجائے جو حیرت انگیز طور پر پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران ہالی وڈ مووی” گاڈفادر” سترہ بار دکھا چکا ہے۔۔اور یہ تو آپ لوگوں کے علم میں ہی ہوگا کہ ایک معزز جج اپنے ریمارکس میں کسے سسلین مافیا کہہ چکے ہیں۔۔اور ایک معزز جج اپنے فیصلے میں گارڈ فادر کا ایک ڈائیلاگ بھی لکھ چکے ہیں۔۔ اے آر وائی کے ذکر پر پپو کی یہ مخبری بھی سن لیں کہ ادارے کے سربراہ نے ٹائمنگ کے معاملے میں نیوز کے لوگوں کو کچھ ریلیف دیا ہے،کہا گیا ہے کہ نیوز کے علاوہ دیگر لوگوں پر دفتری اوقات کار کی سختی سے پابندی ہوگی۔۔

اب آخر میں پپو کی بڑی بریکنگ نیوز۔۔میڈیا ورکرز کیلئے پپو نے خوشخبری شیئر کی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ہم نیوز نے کراچی میں ہائرنگ شروع کردی ہے اور جیونیوز کے پروگرامنگ کے اہم بندے کو رکھ لیا ہے۔۔اس کے ساتھ ساتھ بہت جلد نئے چینلز ڈی نائن اور پبلک نیوز بھی بہت جلد یعنی اگست تک ہائرنگ شروع کردینگے۔۔ اس سلسلے میں تمام تر تیاریاں مکمل ہیں۔۔

آج کیلئے صرف اتنا ہی۔۔ ملتے ہیں مختصر سے بریک کے بعد۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں