سینہ بہ سینہ قسط 77
دوستو بہت معذرت کہ دو دن کی تاخیر سے آپ کا موسٹ فیوریٹ سلسلہ سینہ بہ سینہ پوسٹ کررہا ہون، کچھ تکنیکی خرابیوں کی بنیاد پر وقت پر اپنا وعدہ پورا نہ کرسکا، کبھی لائٹ نہیں تو کببھی انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹیزر دینے کے باوجود اسے پوسٹ کرنے میں دو دن کی تاخیر ہوگئی، بہرحال اب کوشش کرونگا کہ پہلے سینہ بہ سینہ لکھ لیا کروں پھر اس کا ٹیزر دیا کروں تاکہ اسے وقت پر پوسٹ کرنے میں کوئی پرابلم نہ ہو۔۔ خیر بہرحال یہ تو کچھ ذاتی مسائل تھے جو ڈسکس کرلئے۔۔ اب ذرا کام کی باتیں کرلیں، دیکھتے ہیں پپو نے اس بار آپ کیلئے کیا مخبریاں تلاش کی ہیں۔۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں مختلف چینلز پر ہونے والی رمضان ٹرانسمیشن کی۔۔۔ رمضان ٹرانسمیشنز کے نام پہ عوام کے ساته کهلے عام دهوکے اور فراڈ کی خبریں اتنی تواتر سے ملیں کہ پپو بهی سرپکڑ کے بیٹه گیا..پپو کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف چینلز پہ عوام کے ساته ہونے والے فراڈ کی کچه خبریں جمع کی ہیں.. پپو نے جمع شدہ خبعوں کی زنبیل میں سے ایک خبر سناتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں کورنگی کے رہائشی ایک صاحب نے مہران کار جیت لی..پپو نے مجهے وہ کلپ بهی بهیجا.. چونکہ وہ مہران کار جیتنے والا وہ رہائشی پپو کے قریبی دوست کا جاننے والا تها اس لئے مزید تفصیل کافی ہولناک تهی… کار جیتنے والے کے بقول پروگرام کے بعد اسے ایک ایسے پیپر پہ سائن کرایا گیا جس کے مطابق چینل والوں نے اسے گاڑی دیدی..سائن کے بعد اسے کہاگیا کہ کار لینی ہے تو ساڑهے 4 لاکه روپے جمع کرادو.. پوچهاگیا کس بات کے پیسے؟؟ کہاگیا کہ ویلته ٹیکس انکم ٹیکس فلاں ٹیکس ایکسائز ڈیوٹی کسٹم ڈیوٹی اور رجسٹریشن فیس انشورنس سمیت اداکرینگے تو کار ملے گی..اس نے کہا اتنے پیسے تو نہیں میں تو غریب آدمی ہوں تو اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا کہ غریب ہوتو کار کیسے افورڈ کروگے چلو کچه 2 لاکه لے لو اور جاو یہاں سے.. جس کے بعد سودے بازی شروع ہوئی اور تین لاکه میں سودا ڈن ہوا.. چینل والوں نے کار کی جگہ اس شہری کو تین لاکه روپے کیش دیئے..آگے مزید دردناک انکشاف سن لیں…پپو کا کہنا ہے کہ چونکہ اسے رمضان ٹرانسمیشن کی انتظامیہ کے ایک صاحب نے پاس دیا تها اور اس شرط پہ کہ جو انعام نکلے گا آدها آدها ہوگا تو وہ صاحب ساته ہی تهے جب 3 لاکه کیش ملا تو اس کے پانچ منٹ کے اندر ہی وہ اپنے حصے کے ڈیڑه لاکه روپے لے کے غائب ہوگئے…وہ شہری جب ڈیڑه لاکه باقی لے کے گیٹ تک پہنچا تو سیکورٹی گارڈز نے مبارکبادیں دینا اور مٹهائی مانگنا شروع کردیں اسے پانچ ہزار گارڈز میں تقسیم کرنے پڑگئے.. جب وہ گهر پہنچا تو دوستو نے خوب مذاق اڑایا اور اب لوگ اسے یہ کہہ کر چهیڑتے ہیں…کار لے گا کار…ہیں… پپو کا کہنا ہے کہ پیمرا اس فراڈ کا نوٹس لے گی؟ پپو کا کہنا ہے کہ اگر تحقیقات کی جائیں تو جتنے بڑے انعامات دیئے گئے اس کے پیچهے جعلسازی اور دونمبری صاف نظر آجائے گی..عوام کو دکهایا کچه جاتا ہے اور ہوتا کچه ہے..یعنی گولڈ لیف کے پیکٹ میں کے ٹو سگریٹ ہی نکلتی ہے۔۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس بڑے چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی کاروں سے نوازا گیا جو ادارے کے ملازم تھے اور جن کی کار ڈیو تھی جو ادارے نے انہیں دینی تھی۔۔ بہرحال یہ تو پپو کی باتیں تھیں اگر اس چینل کا کوئی ترجمان ان خبروں کی تردید کرنا چاہے تو یہ صفحات حاضر ہیں۔۔۔
اب آگے چلتے ہیں۔۔ فیصل آباد سے ایک رپورٹر صاحب ہیں جن کو جمعہ جمعہ آٹھ دن یعنی مشکل سے دو سال بھی نہیں ہوئے میڈیا میں آئے ہوئے، اس وقت وہ جس چینل میں کام کررہا ہے وہ اس کے کیرئر کا دوسرا چینل ہے، موصوف آج کل اپنی نوکری خوب حلال کررہے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ وہ فیصل آباد کے بیورو چیف کا خاص الخاص پٹھہ ہے، پٹھہ سے مراد گوجرانوالہ کے پہلوانوں کی زبان میں شاگرد کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ رپورٹنگ کی آڑ میں موصوف لڑکیاں چلاتے ہیں۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ خواتین بھی مختلف چینلز کی ملازم ہیں، پپو نے ان کے نام بھی بتائے ہیں جن کے نام کم سے کم میرا ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ میں ان کا نام یہاں لکھوں، لیکن ہاں ان کے ریٹ جو پپو نے بتائے دو خواتین رپورٹر دس ہزار روپے فی نائٹ لیتی ہیں اور ایک کے آٹھ ہزار روپے ہیں۔۔ پپو نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ان خواتین رپورٹرز کے فیصل آباد سے اسلام آباد تک چرچے ہیں اور کچھ پر تو کیسز بھی ہیں۔۔ اب اندازہ کرلیں کہ صحافت کی آر میں کتنے گھناؤنے لوگ ہماری فیلڈ میں گھس آئے ہیں۔۔ پپو نے فیصل آباد کے حوالے سے ایک اور دلچسپ کہانی سنائی ہے۔۔۔ ایک رپورٹرجو کہ چینل 41 میں کام کرتا ہے، اس کا کچھ دن پہلے ٹریفک وارڈنز سے گلبرگ کے علاقے میں جھگڑا ہوگیا، یہ جھگڑا اتنا زور دار ہوا کہ بات تھانے تک پہنچ گئی، وارڈنز نے رپورٹر کے بیوروچیف کو فون کرکے قصہ سنایا، پپو کے مطابق دلچسپ بات اسٹوری کی یہ ہے کہ ایک ٹریفک وارڈن بیورو چیف کا رشتہ دار یا قریبی جاننے والا تھا، جب بیورو چیف کے علم میں حقائق لائے گئے تو انہوں نے ٹریفک وارڈنز کو کھلی چھوٹ دیدی جو مرضی رپورٹر کے ساتھ کرو، چینل کا کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہم اس کے پیچھے آئیں گے، جس کے بعد اس رپورٹر کے خلاف پرچہ کاٹ دیا گیا، جس کے بعد اس رپورٹر کے قریبی جاننے والے دیگر صحافی میدان میں کودے اور اسے کی جاں بخشی کرائی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحافت اب صحافت نہیں رہی بلکہ اقربا پروری میں تبدیل ہوچکی ہے۔۔۔ ورنہ ایک زمانہ تھا کہ صحافی برادری ایک دوسرے کیلئے لڑپڑتی تھی اب نفسانفسی شروع ہوگئی ہے۔۔۔ پپو کی اسی حوالے سے ایک اور اسٹوری بھی سن لیں۔۔ گھی فروش چینل مالک کو پریشانی ہے کہ کروڑوں روپے لگادیئے لیکن پھر بھی افسران قانون اور ضابطوں کی بات کررہے ہیں، جب کہ مالکان کی آنکھ کے تارے بیوروچیف صاحب ہیں کہ مالکان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں لگے ہوئے ہیں، پپو نے قصہ کچھ یوں سنایا کہ اسی چینل مالکان کی بہن اور بہنوئی نے اپنی کمسن گھریلو ملازمہ پر اس قدر تشدد کیا کہ اس کی حالت غیر ہوگئی وہ اسی حالت میں قانونی کارروائی کیلئے جاپہنچی اور اسی شہر کے تھانہ جھنگ بازارپولیس نے فرض شناسی کا مظاہرہ کیا، گرفتاریاں ہوئیں تو بیروچیف کا تو جیسے سانس ہی رک گیا ہو اس علاقہ کا کوئی افسر اس کی بات تک سننے کو تیار نہ تھا پھر جناب نے چینل چھوڑ کر دوسرے چینل میں بیروچیف لگنے والے سابق کرائم رپورٹر کی خدمات لیں ان کی منت ترلے کئے گئے اور گھری فروش مالک کی بہن اور بہنوئی کی جاں بخشی کرائی گئی اس طرح آنکھوں کے تارے بیوروچیف صاحب پھر سے سرخرو ہوگئے۔۔۔
چلیں پپو اب فیصل آباد سے نکل کے کراچی کے علاقے کورنگی صنعتی ایریا کی معروف گودام چورنگی کے ایک چینل میں داخل ہوگیا جہاں سے اس نے پکی مخبری دی ہے کہ اس چینل کے ڈپٹی بیورو چیف صاحب کو کچھ روز پہلے جبری رخصت پر بھیجا گیا جس کے بعد معاملات ایک اور رپورٹر کو سونپے گئے، اب وہ کل واپس آئے، نیوزگروپ میں ایچ آر کی ایک محترمہ کو دیکھا اور اس سے متعلق سوال پوچھا کہ یہ اس گروپ میں کیوں ہیں، یہ سوال انہوں نے ڈی این سے پوچھا تھا جس پر محترمہ کی طرف سے جواب اسی گروپ میں کچھ اس طرح دیا گیا کہ ۔۔ آپ سے ڈپٹی بیروو چیف کی ذمہ داریاں ایک بار پھر واپس لے لی گئی ہیں اب یہ سارے معاملات ڈی این صاحب اس وقت تک خود دیکھیں گے جب تک ایم ڈی صاحب امریکا سے واپس نہیں آجاتے۔۔ جس کے بعد سوال پوچھنے والے صاحب گروپ سے لیفٹ ہوئے اور گھر چلے گئے۔۔۔پپو نے اسی چینل سے مزید بتایا کہ یہاں دو خواتین رپورٹرز میں شدید قسم کی توتومیں میں ہوگئی جسے ایک رپورٹر نے ختم کرایا جس کے بعد دونوں خواتین اپنے اپنے گھر روانہ ہوگئیں۔۔۔
آج پانچ جولائی ہے، اگر آپ کو صحافت کے میدان میں پرنٹ میڈیا کا کچھ تجربہ ہے یعنی یہ بات کررہا ہوں دوہزار دو سے پہلے کی کیونکہ اس کے بعد تو چینلز کی بہاریں شروع ہوگئیں۔۔ اس سے پہلے کے فیلڈ میں موجود صحافی شاید میری بات کو آسانی سے سمجھ سکیں۔۔ نوے کے عشرے میں صحافت کا ایک بڑا نام نیئر زیدی کا تھا، جو واشنگٹن سے اخبار جہاں کے نمائندے تھے میں ان کی تحریر ہرہفتے خاص طور سے لازمی پڑھتا تھا، اخبار جہاں میں اس عشرے میں صرف دو ہی ڈائریاں میری فیوریٹ ہوتی تھیں، اسلام آباد سے حبیب الرحمان صاحب بہت کھل کر لکھتے تھے اور امریکا سے نیئر زیدی صاحب کا جواب نہیں تھا، آپ لوگ گوگل پر سرچ کرکے ان کی تحریریں دیکھ سکتے ہیں، نیئر زیدی صاحب کے ساتھ امریکی حکومت نے کچھ ایسا سین کیا کہ انہیں باقاعدہ جیل بھیج دیا گیا، اس کی تفصیل کیلئے یہاں وقت نہیں، لیکن خوشخبری یہ ہے کہ وہ آج رہا ہوجائیں گے۔۔ کیونکہ ان کو امریکی عدالت نے جو سزا دی تھی وہ آج پوری ہوجائے گی۔۔۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ انصارنقوی صاحب نے آج ٹی وی چھوڑ کر ایک بار پھر لاہور کا ستی نیوزنیٹ ورک بطور ڈائریکٹر پروگرامنگ جوائن کرلیا ہے۔۔۔ یعنی 24، 41،44 اور دیگر چینلز کی پروگرامنگ شاید اب کچھ بہتر ہوسکے۔۔۔
پپو کا مزید کہنا ہے کہ کوہ نور ٹی وی ری لانچ ہورہا ہے، جو یکم دسمبر سے اپنی نشریات شروع کرے گا، ہمایوں سلیم صاحب اس کے ڈائریکٹر نیوز لگے ہیں۔۔
پپو کے مطابق مارکیٹ میں پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ایک نئے آنے والے چینل ” جی” نیوز کے پیچھے جیو والے ہیں، یہ بالکل غلط ہے، ایسا ہرگز نہیں، پپو کا کہنا ہے کہ وہ جی نیوز کی تفصیل جمع کررہا ہے اور بہت جلد اس کی تفصیل شیئر کرے گا۔۔۔
پپو نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ بول کے معاملات ابھی تک درست نہیں ہوسکے ہیں۔۔۔ نادان مشیر اللے تللوں پر خرچے کرا رہے ہیں لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہورہی کہ وہ بول والاز کے واجبات ہی کلیئر کرانے کا مشورہ دے دیں۔۔ قومی ٹیم کو بلا کر ایک کروڑ روپیہ دیا گیا اس میں درجنوں بول والاز کا حساب بے باق ہوجاتا۔۔ پپو نے یہ یاد بھی دلایا کہ کیا بول والے بتائیں گے رمضان ٹرانسمیشن میں تین جہاز دینے کا وعدہ کیا گیا تھا کیا تینوں جہاز وہ امریکی جہاز ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن تیار کررہی ہے جو ایف سولہ جیسا جہاز بناچکی ہے؟
پپو نے یہ بھی بتایا ہے کہ کئی چینلز پر ابھی تک تنخواہوں کا بحران چل رہا ہے، لیکن صحافتی تنظیمیں پھر خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔۔۔ ان تنظیموں اور ان کے کرتا دھرتاؤں کو چاہیئے کہ ورکرز کے مفادات کیلئے میدان میں اتریں لیکن دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔۔
خبریں تو بہت باقی ہیں، لیکن جگہ اور وقت کی کمی کے باعث اگلی بار کیلئے رکھتے ہیں۔۔ پھر ملتے ہیں ایک شارٹ بریک کے بعد۔۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔۔