سینہ بہ سینہ قسط 73
دوستو، اس بار آپ کا فیوریٹ سلسلہ تھوڑا سا روایت سے ہٹ کر ہے، رمضان اسپیشل سمجھ کر اسے پڑھیئے گا۔۔رمضان المبارک کے حوالے سے کچھ باتیں شیئر کررہا ہوں،امید ہے پسند کرینگے اور اپنے فیڈ بیک سے آگاہ کرینگے۔۔ دنیا بھر میں رمضان آتا ہے، لیکن ہمارے دیس میں رمضان ٹرانسمیشن آتی ہے۔۔ہر سال کی طرح اس سال بھی علما کرام کی جگہ ناچ گانے والے مراثی اسلام کے نام پر دکانیں سجائیں گے اور قوم کو اسلام سکھائیں گے۔۔ٹی وی چینلز کے زوال کا اُس وقت آغازہو گیا تھا جب ٹی وی چینلز نے پروفیشنل ازم چھوڑ کر بھیڑ چال کو اپنا لیا تھا اور اِسی بھیڑ چال کو مقابلہ بازی کا نام دے کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی جب الیکٹرانک میڈیا میں کامیابی کا راز ریٹنگ قرار پاچکا ہے۔۔ بی بی سی والے معروف صحافی محمد حنیف صاحب کا کہنا ہے کہ ۔۔ آج کا صحافی تجزیہ کار بھی ہے، قصیدہ خواں بھی۔۔ خطبہ بھی دے دیتا ہے، مرثیہ بھی پڑھ لیتا ہے، اپنی سمجھانے کیلئے رونا پرے تو رولیتا ہے، گانا پڑے تو گالیتا ہے، کبھی کبھی تو اپنی خبر اور تجزیئے کو سچا ثابت کرنے کیلئے کیمرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا بھی مانگ لیتا ہے۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شعائر اسلام کی کیا حیثیت ہے، اس کا اندازہ مختلف میڈیا گروپ کی رمضان ٹرانسمیشن کی تشہیر سے لگاسکتے ہیں، ہر چینل نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ” کلاکار” اکٹھے کئے ہوئے ہیں، خوب چرچا کیاجارہا ہے، انعامات کا لالچ دیاجارہا ہے، اسلام کی تبلیغ اب کھلاڑی، گلوکار اور فنکار کرینگے، خوب ہلاگلا ہوگا، عوام کو مقدس مہینے میں عبادات کی جگہ خرافات کا عادی بنایاجاچکا ہے۔۔رمضان ٹرانسمیشن پر کچھ کہنے سے پہلے پیمرا کے ضابطہ اخلاق کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں چینلز کو حدود میں رکھنے کی تیاری کی گئی ہے، لیکن لگتا نہیں کہ چینلز پیمرا کے احکامات کو مانیں۔۔پیمرا نے اس بار چینلز کیلئےرمضان ٹرانسمیشن میں جن باتوں کی احتیاط کرنے اور جن باتوں کی ممانعت کی ان میں سے خاص خاص یہ ہیں۔۔پیمرا نے چینلز کو کہا ہے کہ پروگرام اسکرپٹ کے بغیر نہ ہوں، ادارہ جاتی نگرانی میں کئے جائیں، محض زیادہ ریٹنگ یا مالی فائدے کیلئے پروگرام تشکیل نہ دیئے جائیں۔۔تفریحی یا کوئز پروگرام رات نو بجے کے بعد چلائے جائیں۔۔دوران پروگرام انسانی حقوق اور شخصی وقار کا خیال رکھا جائے۔۔ پروگرام میں ڈانس، گانے اور ورزش جیسے کام پر نہ اکسایاجائے۔۔ انعامات ہوا میں اچھال کر نہ دیئے جائیں، غیراخلاقی بات چیت سے پرہیز کیا جائے۔۔ مستند علم رکھنے والوں کو دین سے متعلق گفتگو کیلئے مدعو کیا جائے۔۔ پروگرام میں لاوارث بچوں کو بے اولاد افراد کے سپرد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔۔ غربت اور مجبوریوں کو پیش کرکے لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے۔۔ پروگرام میں ملبوسات کا خاص خیال رکھا جائے۔۔رمضان ٹرانسمیشن اور معمول کی ٹرانسمیشن میں فرق رکھا جائے۔۔ رمضان شوز میں پرتشدد مناظر پیش نہ کئے جائیں، ایسے موضوعات پر بات چیت سے گریز کیاجائے جس سے فرقہ واریت کو فروغ ملے۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیمرا کی ان ہدایات پر کون سا چینل کتنا عمل پیرا ہوگا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔۔ بلاشک و شبہ رمضان المبارک بڑی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، لیکن غریبوں کیلئےرمضان المبارک کی رحمت ہمیشہ زحمت ہی بنتی ہے، مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوجاتی ہے، کپڑے، جوتوں کی بات تو چھوڑیں، کھانے پینے کی ضروری اشیا کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں، یہ پریکٹس برسوں سے چلی آرہی ہے ،حکومت کے پاس اس کی روک تھام کیلئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔۔تو بات ہورہی تھی رمضان ٹرانسمیشن کی، ناظرین کیلئے یہ بھی ایک مسئلہ رہا ہے کہ اس بار کون سے چینل کی رمضان ٹرانسمیشن سے فیضیاب ہوا جائے۔۔سحر اور افطار دونوں ایک ہی چینل پر دیکھیں یا الگ الگ ٹرانسمیشن کے مزے لوٹیں۔۔ویسے بھی ہر چینل پر کوئی نہ کوئی رمضان اپنے طریقے سے منا رہا ہوتا ہے۔۔پورے سال جن فنکاراؤں کے سرننگے ہوتے ہیں،رمضان ٹرانسمیشن میں بڑے اہتمام سے دوپٹے پہن کر تشریف لاتی ہیں، جس سے واقعی پتہ لگتا ہے کہ رمضان رحمتوں،برکتوں کا مہینہ ہے، کیونکہ وہ دوپٹے پہنیں گی تو دوپٹہ بنانے اور بیچنے والوں کے کاروبار میں بھی برکت آجاتی ہے۔۔ہر چینل کا رمضان اپنے طریقے سے اسکرین پر پیش کیا جاتا ہے۔اتنی پکوڑوں کی اقسام نہیں ہوتیں جتنے رمضان کے پروگرام ہوتے ہیں۔۔سب کے اپنے اپنے فنکارہیں جو سحر اور افطار میں لگاتار بیٹھے ہوتے ہیں۔۔غریبوں اور مجبوروں کی اپنے پروگراموں میں یہ کہہ کر مدد کرتے ہیں کہ آپ جب کسی کی مدد کریں تو ایسے کریں کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔۔رمضان ٹرانسمیشن کی ایک اور خاص بات جو تمام چینلز ہی دکھاتے ہیں کہ افطار سے پہلے مختلف قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں، کہیں نعتیں تو کہیں سوال و جواب کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔۔اسی طرح افطار ہوجاتی ہے۔۔پپو کہتا ہے کہ رمضان ٹرانسمیشن میں عوام کو عزت دار بھکاری بنادیا جاتا ہے۔۔بھکاری تو سرعام بھیک مانگتا ہے لیکن چینلز والے کیمروں کے سامنے معصوم شہریوں سے انعامات کی بھیک منگواتے ہیں۔۔ خیر پھر سے موضوع کی طرف آتے ہیں، رمضان ٹرانسمیشن میں کون ریٹنگ لے گا اور کون عوام کے دل جیتے گا، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ۔ رمضان المبارک بس آیا ہی چاہتا ہے، بچے اور خواتین عید کی اتنی تیاریاں نہیں کرتیں جتنا چینلز والے رمضان ٹرانسمیشن کی کرتے ہیں۔۔ ہر چینل کی خواہش ہے کہ وہ میلہ لوٹ لے،جس کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، لیکن ان چینلز کے ملازمین تنخواہوں کیلئے رو رہے ہیں، رمضان ٹرانسمیشن میں مہنگے ترین اینکرز، مہنگے ترین سیٹس تو ہونگے، لیکن جہاں ایک طرف یہ چینلز رمضان ٹرانسمیشن میں نیکیوں کا درس دے رہے ہوں گے، غریبوں، محتاجوں پر رحم کرنے کی تلقین کررہے ہوں گے، وہیں ان کے ورکرز اس ٹینشن میں ہونگے کہ یار وقت پر تنخواہ ہی مل جائے تو بچوں کی عید اچھی گزر جائے، ان کے کپڑے، جوتے بن جائیں۔۔ چلیں دیکھتے ہیں کون سے چینل پر کون کون رمضان ٹرانسمیشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس سلسلے میں کافی چینلز نے تو پروموز بھی شروع کردیئے، کافی چینلز نے اپنے اپنے ” پتے شو” بھی کردیئے،سب سے پہلے بات کرینگے، اے آر وائی کی جہاں اس سال جنید جمشید کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی، وسیم بادامی ، اقرارالحسن کے ہمراہ معروف کرکٹر شاہد آفریدی رمضان ٹرانسمیشن میں نظر آئیں گے جو یقینی طور پر ناظرین کی توجہ سمیٹنے میں کامیاب رہیں گے، شاہد آفریدی سے عوام پیار کرتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پہلی بار ٹی وی کی میزبانی میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔۔اب بات رمضان ٹرانسمیشن کے ٹرینڈ سیٹر کی، جیونیوز کو میں پیار سے وڈا چینل کہتا ہوں، اس لئے اگر آگے کہیں وڈا چینل یا وڈے چینل کی بات ہوتو آپ لوگ خود ہی سمجھ لیجئے گا کہ یہ جیونیوزکی بات ہورہی ہے۔وڈے چینل کو اس بار یہ چیلنج درپیش ہے کہ اسے ثابت کرنا ہوگا کہ چینلز ہی کسی کو اسٹار یا سپراسٹار بناتا ہے، وڈے چینل کو ثابت کرنا ہوگا کہ کوئی بھی میزبان چینلز کی مقبولیت کے بغیر کچھ نہیں،وڈے چینل کی رمضان ٹرانسمیشن اس بار بشری انصاری، نعمان اعجاز کررہے ہیں، اے پلس اور اے ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن کیلئے ڈاکٹر شائستہ لودھی جو اب شائستہ واحدی کہلاتی ہیں، خالد ملک اور علی سفینہ کرینگے۔۔ٹی وی ون سے ساحر لودھی، شبیر ابوطالب پھر سے رمضان ٹرانسمیشن کیلئے کمرکس رہے ہیں۔۔ ہمارے بچپن میں ایک ہی سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جو افطارسے قبل کچھ اسلامی پروگرام چلاتا تھا جس کے بعد اذان مغرب ہوتی تھی تو افطار ہوجاتا تھا،سحری میں پی ٹی وی کی نشریات نہیں ہوتی تھی، قریبی مسجد کے سائرن سے سحری بند کرنی ہوتی تھی، اس کے بعد چینلز کی برسات ہوئی تو ایک عرصے تک رمضان ٹرانسمیشن اتنی مقبول نہیں ہوئی تھی، دوہزار بارہ میں پہلی بار رمضان ٹرانسمیشن کی وبا میڈیا انڈسٹری میں پھیلی۔۔اس طرح کی رمضان ٹرانسمیشن کا بانی بلاشبہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو کہاجاسکتا ہے، جنہوں نے لائیو رمضان ٹرانسمیشن کو میڈیامیں متعارف کرایا،اس کی پلاننگ،ڈیزائننگ کی،وڈے چینل پر رہتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت نے جیسا سوچا، جیسا سمجھا ویسا کیا، چینل انتظامیہ نے بھی مالی، تکنیکی ہرقسم کا زبردست تعاون کیا۔۔ڈاکٹر عامر لیاقت نے رمضان ٹرانمیشن کے تجربےمیں ہی طاق راتوں، شب قدر پر بھی خصوصی لائیو ٹرانسمیشن میں پہل کی، پھر مقدس راتوں شب معراج، شب برات میں بھی لائیو ٹرانسمیشن کرکے سب پہ بازی لے گئے۔ اس کے ساتھ حج ٹرانسمیشن، ربیع الاول اور محرم کی خصوصی ٹرانسمیشن میں بھی نام کمایا۔۔وہ کہتے ہیں ناں جیسے جیسے شہرت میں اضافہ ہو تو ساتھ ہی تنازعات بھی جنم لینا شروع کرتے ہیں، اس لئے رمضان ٹرانسمیشن کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت کی کئی متنازع چیزیں بھی وقفے وقفے سے سامنے آتی رہیں۔۔بارہ سے پندرہ گھنٹے کی لائیو ٹرانسمیشن اکیلے ڈاکٹر عامر لیاقت کے کاندھوں پر ہوتی تھی، علماکرام سے بات چیت، مختلف سیگمنٹس، حاضرین سے سوال جواب، مختلف گیم شوز وغیرہ سب کچھ عامر لیاقت کے ذمے ہی ہوتا ہے، اسی لئے ان کی رمضان ٹرانسمیشن میں میڈیائی زبان کے مطابق ” کونٹینٹ” نہیں ہوتا، اگر وہ پندرہ گھنٹے کی مستقل ٹرانسمیشن کررہے ہیں تو سمجھ لیں کہ مشکل سے ایک سے دو گھنٹے کا اسکرپٹ ہوتا ہے۔۔وڈے چینل کے ذرائع کے مطابق دوہزار بارہ سے دوہززار سولہ تک رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ان کے اسپانسرز نے تیرہ سوسی سی کی بیس کاریں، آٹھ سو سی سی کی نوے کاریں، تین ہزار بائیکس، چھ ہزار موبائل فونز، پندرہ ملین روپے کیش، دوہزار عمرے کے ٹکٹس، ایک ہزار عمرہ پیکچز، چار ہزار لیپ ٹاپس، تین سو اسکالرشپس، دس ہزار فوڈ فیکٹریز، دس ہزار جوسرز بلینڈرز، سات ہزار مائیکرو ویو اوون،دوہزار فریج، ایک ہزار فریزرز،ڈیڑھ سو رہائشی پلاٹس، نوہزار لیڈیز لان کے سوٹ، اور سینکڑوں چھوٹے موٹے انعامات دیئے۔۔اس عرصے میں ساڑھے سات ہزار حاضرین کو شاندار افطاری اور سارھے تین ہزار افراد کو سحری کرائی گئی، طاق راتوں کے ہزاروں حاضرین اس کے علاوہ ہیں۔۔حیرت انگیز طور پر جس سال رمضان ٹرانسمیشن نے شہرت پائی یعنی دوہزار بارہ میں وڈے چینل نے اس نشریات کیلئے صرف ساٹھ ملین روپے کا بجٹ رکھا جو دوہزار سولہ میں بڑھ ڈیڑھ سو ملین روپے ہوگیا۔۔اس بار وڈے چینل پر ڈاکٹر عامر لیاقت نہیں، اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ اس بار وڈے چینل کی حکمت عملی کیا ہوتی ہے اور یہ کس طرح ناظرین کی توجہ اپنی جانب سمیٹنے میں کامیاب ہوتا ہے، ویسے انہوں نے شعیب اختر اور وسیم اکرم کے ساتھ رمضان میں گیم شو کا بھی اعلان کیا ہے، جس کی پروموشن نت نئے انداز میں جاری ہے،اگر یہ گیم شو روایت سے ہٹ کے ہوا تو یقینی طور پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔۔وڈے چینل کا دعوی ہے کہ وہ دل دل رمضان کے نام سے پاکستان کی سب سے بڑی رمضان ٹرانسمیشن پیش کرے گا۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ بشری انصاری کی پہچان تو مزاحیہ اداکارہ کی ہے کیا وہ رمضان سے مذاق کرینگی؟؟۔۔ شعیب اختر اور وسیم اکرم کی کرکٹ تو شاندار رہی لیکن کیا ان کے کیرئر مختلف اسکینڈلز سے داغدار نہیں رہے۔۔کیا راحت فتح علی گیت گاکر رمضان میں ریٹنگ دینگے؟۔۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ بہت سے علمائے کرام اور علما کا وقتی لبادہ اوڑھ لینے والے موسمی “دینی اسکالرز” بھی ان ساتھ پیش ہوں گے اور اپنے “علم و فضل” کے موتی بکھیریں گے۔ ہلے گلے ، ہلڑ بازی اور ناچ گانے سے کچھ وقت بچا کر ان علمائے کرام سے بھی کچھ باتیں کی جائیں گی۔ سینہ بہ سینہ کا رمضان اسپیشل ابھی ختم نہیں ہوا، کل آپ کیلئے بہت کچھ نیا ہوگا، پپو کے کچھ انکشافات ہونگے، پپو بتائے گا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت سے متعلق بول چھوڑنے کی اس کی مخبری کے پیچھے کیا راز تھا، پپو کی زبانی دلچسپ کہانی بھی ہوگی وہ بھی رمضان اسپیشل۔۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ چینلز کی رمضان میں آمدنی کا ایک جائزہ بھی۔۔ یعنی کل بہت کچھ ہوگا، بس پڑھنا مت بھولئے گا۔۔
(علی عمران جونیئر)۔۔