سینہ بہ سینہ 72
دوستو، بول کی بات ابھی جاری ہے۔۔وہ بول والاز جو اپنے حق کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں، انہیں ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔۔انہیں کہا گیا کہ صرف تمہیں پیسے نہیں دینگے باقی تمام لوگوں کو دے دیں گے۔۔ پھر دوسری طرف انہیں لیگل نوٹسر بھیجے جارہے ہیں جس میں حیرت انگیز طور پر بول کی نیک نامی متاثر، بول کے خلاف سازش کے الزامات لگاتے ہوئے بیس کروڑ روپے کا ہرجانہ مانگاگیا ہے، یعنی بیس کروڑ روپے بول کی نیک نامی متاثر کرنے کی قیمت لگائی گئی ہے۔۔ ساڈا حق تحریک جیسے جیسے تیز ہورہی ہے ویسے ویسے بول انتظامیہ کی ہوائیاں اڑ رہی ہیں، وہ نادان مشیر جو بول بحران میں بول اور ایگزیکٹ کو چھوڑ کر اپنے ” دھندوں” میں مصروف ہوگئے تھے، کسی نے این جی او جوائن کرلی تھی تو کسی نے میگزین، کسی نے کھیتی باڑی شروع کردی تھی، پھر جب بول ورکرز ایکشن کمیٹی نے اسلام آباد اور کراچی میں شروعات کی اور ورکرز سڑکوں پر آئے تو انہیں بھی بول اور ایگزیکٹ کی بحالی کا خیال آگیا، پھر یہ لوگ بھی احتجاج میں شرکت کرنے لگے۔۔قابل افسوس تو ہے کہ سینکڑوں بول والاز کے گھروں کے چولہے بجھے ہوئے تھے، مالک مکان کرائے مانگ رہے تھے، پرچون والا مزید ادھار دینے سے انکار کررہا تھا، بچے دودھ کیلئے بلک رہے تھے، فیسیں نہ بھرنے کی وجہ سے اسکولوں سے بچوں کو اٹھالیاگیا تھا لیکن بول اور ایگزیکٹ میں چند مخصوص لوگوں کی تنخواہیں جاری تھیں انہیں تمام مراعات مل رہی تھیں۔۔اس سارے معاملےکا کراچی پریس کلب کی کمیٹی، صحافتی تنظیموں کو اچھی طرح علم تھا،بہرحال ایسے بہت سے رازوں سے پردہ آنے والے وقتوں میں اٹھتا رہے گا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جب واجبات کیلئے بول والاز نے آواز اٹھائی تو نادان مشیروں کو موشن لگ گئے، اب انہیں پریشانی تھی کہ شعیب شیخ صاحب کو کیا جواب دینگے کیونکہ وہاں تو انہوں نے یہ “شو” کیا ہوا ہے کہ تمام بول والاز ان کے ایک اشارے پر چلتے ہیں، انہوں نے شیخ صاحب کو یہی “شو” کرارکھا ہے کہ بول اور ایگزیکٹ انہوں نے ہی بحال کرایا ہے، انہوں نے شعیب شیخ صاحب پر یہ تاثر بھی چھوڑ رکھا ہے کہ دنیا میں صرف وہی ان کے سچے،پکے ہمدرد ہیں باقی تمام لوگ انہیں”چونا” لگاتے ہیں، جب ان نادان مشیروں کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہوتا ہے تو اسے جیو پر ڈال دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے جب مشن ساڈا حق کی شروعات ہوئی تو نادان مشیروں نے ہنگامی طور پر ایگزیکٹ کی بلڈنگ میں اہم اجلاس طلب کرلیا ۔۔ جس میں چیدہ چیدہ لوگ شریک تھے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انھی کی پسند سے بول میں بھرتی ہونے والے فریش صحافیوں پر بھی انہیں اعتماد نہیں، یہ بول میں اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں، انہیں ایسا لگتا جیسے کسی نے ان پر “خفیہ ” نظر رکھی ہوئی ہے، حقیقت بھی یہی ہے بول کی عمارت میں پانچ سو کے قریب سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں،جہاں سے ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھی جاتی ہے، لیکن نادان مشیر تو “پپو” سے خوفزدہ ہیں ، پتہ نہیں کون عمران جونیئر کا پپو ہے ، کون ہے جو عمران جونیئر کو پل پل کی رپورٹ دیتا ہے، ایگزیکٹ بلڈنگ میں ہونے والی بلڈنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ اس ساری تحریک کا ملبہ جیو کی سازش قرار دے دی جائے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں عمران جونیئر اور عثمان آرائیں کا بطور خاص نام لے کر گالیاں دی گئیں۔۔ پپو کے مطابق اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ انہیں دیکھ لیں گے،ایسی کی تیسی کردیں گے۔۔
بول کا ذکراب جاری ہے، خبریں بہت ہیں۔۔۔بول کا ایک اور بیروزگار لاہور کے اسپتال میں چل بسا، بول لاہور کا ہنس مکھ اور محنتی کاررکن سعید چودھری بیروزگاری کی وجہ سے شدید مالی پریشانیوں کا شکار تھا، اسی ٹینشن کی وجہ سے اس کا برین ہیمرج ہوگیا اور اسے سروسز اسپتال میں داخل کیاگیا، اس کے اسپتال میں داخلے سے لے کر اس کے انتقال تک میں نے فیس بک پر اپ ڈیٹس دیں لیکن بول انتظامیہ کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی، لاہور پریس کلب کے ممبر سعیدچودھری کو کلب کےصدر شہباز میاں بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں، انہوں نےساتھ کام بھی کیا ہے، ان کی پراسرار خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر رہی۔۔سعیدچودھری بول بحالی تحریک میں بہت متحرک رہاتھا، احتجاج، مظاہروں، لانگ مارچ میں پیش پیش رہا،بول سے واجبات کیلئے جب لاہور اور کراچی میں بول والاز میدان میں اترے تو وہ بھی اپنے ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑا تھاجس کے چند روز بعد ہی وہ برین ہیمرج کا شکار ہوا۔۔فوری آپریشن کے بعد چار دن تک بے ہوشی کی کیفیت میں رہا، پھر زندگی کی جنگ ہار گیا۔۔سعید چودھری کے واجبات کے سلسلے میں جب بول لاہور کے ایچ آر میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کراچی ہیڈآفس والوں کو واجبات کا کہا تھا ، لیکن وہاں سے کہاگیا ہے کہ سعید چودھری نے کیمرہ ایشو کرایاتھا،جو اپس نہیں کرایا گیا، حالانکہ کافی عرصہ پہلے سعید چودھری کو بلا کر کیمرے کا پوچھا گیا تھا ، جس کا اس نے صاف انکارکیاتھا ، پھر اس پرانے معاملے کو اس موقع پر اٹھانا اخلاقی طور پر بھی کسی صورت درست نہیں،جب کہ یہ صرف الزام ہے،جسے سعید چودھری اپنی زندگی میں ہی جھٹلا چکا ہے۔۔بول سے واجبات کیلئے جب لاہور اور کراچی میں بول والاز نے مظاہرے کا اعلان کیا تو اسے کچھ مالکان کی سازش قرار دیا گیا،سعید چودھری کے ساتھ جو سلوک کیاگیا۔۔ کیا اس کے بعد بول انتظامیہ سازش کی ٹوپی کسی اور پہنائے گی؟ کدھر ہیں وہ صحافیوں کے لیڈرز جو تیس اپریل کی رات کو سوشل میڈیا پر پیغامات دے رہے تھے کہ بول انتظامیہ معاوضہ ادا کرنے کو تیار ہے،یہی وہ لیڈرز ہیں جو سیون نیوز کا مسئلہ حل کرنے گئے تھے لیکن وہاں بھی مسئلہ جوں کا توں ہے۔۔محترم لیڈران صاحبان آپ کے دعوے تھے کہ دس روز میں سب کو واجبات مل جائیں گے، لیکن اب تو تین ہفتے ہوگئے۔۔بول انتظامیہ وعدہ پورا نہیں کررہی تھی آپ ہی اپنی وفاداریوں پر نظر ثانی کریں اور سیٹھ کے بجائے کارکنوں کا ساتھ دیں، اور سعید چودھری کی فیملی کو اس کا حق دلائیں۔۔ورنہ سعید چودھری ہی نہیں سینکڑوں بول والاز کے ہاتھ روز قیامت آپ کے گریبانوں پر ہونگے۔۔ایک طرف تو ورکرز کے واجبات دیتے ہوئے پینتالیس پینتالیس دن کا ٹائم مانگ رہے ہیں اس میں بھی کٹوتیاں کررہے ہیں اور ڈنڈی مار رہے ہیں، دوسری طرف رمضان ٹرانسمیشن میں تین، تین ہوائی جہاز دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔۔ ساٹھ گاڑیاں، تیس گھر، ہزاروں تولہ سونا،اگر ان سب کی مالیت لگائی جائے تو بات “اربوں” روپے تک جاپہنچتی ہے، حیرت انگیز طور پر بول ٹی وی کا یہ دعوی بھی سوچنے والا ہے کہ وہ کوئی اشتہار نہیں چلائیں گے، اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ رمضان ٹرانسمیشن کسی “اسپانسرشپ” کے بغیر ہی کی جائے گی، اسپانسر نہ ہونے کے باعث یہ سارے انعامات بول والوں کو اپنے بجٹ سے ہی دینا ہونگے۔۔(رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے کون سے چینل پہ کیا کھچڑی تیار ہوئی ہے، اس کا احوال بہت جلد الگ سے خصوصی تحریر میں کرونگا، اس میں رمضان میں بول پر بھی بہت کچھ بات کی جائے گی۔۔)۔۔ اگر اربوں کے اس بجٹ میں سے صرف دس سے بیس فیصد بھی الگ کرلئے جائیں تو تمام بول والاز کے واجبات ادا کئے جاسکتے ہیں، لیکن اب یہ بات ان مشیروں کی سمجھ میں نہیں آتی، جو ہر ماہ خود کو لاکھوں روپے کیش کی شکل میں گھر لے جاتے ہیں لیکن عام ورکرز کو ان کے واجبات کی ادائیگی کی بات کرتے ہوئے بھی انہیں شرم آتی ہے۔۔
چلیں جی بول پر تو باتیں آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔۔ اب دیگر چینلز کا بھی رخ کرتے ہیں۔۔ کیونکہ اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔کوئٹہ میں وڈے چینل کے غریب نائب قاصد کی خبر بریک کی تو ملک بھر کی صحافی برادری نے اسے شیئر کیا اور افسوس کا اظہار کیا۔۔پی ایف یو جے نے اس المناک واقعہ پر اظہار افسوس کیا اور بلوچستان یونین آف جرنلٹس کو واقعہ کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے، پی ایف یو جے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو نہایت سنجیدگی سے لیاگیا ہے اور بی یو جے کی رپورٹ کے مطابق مزید کارروائی کی جائے گی۔۔امید ہے کہ مرحوم کی بیوہ اور کمسن بچوں کی حق تلفی نہیں ہوگی اور ان کیلئے اتنا کچھ کردیاجائے گا کہ انہیں کسی کی ضرورت نہ پڑے ۔۔کوئٹہ ہی بلوچستان کا واحد اور بڑا شہر ہے۔۔زیادہ تر اخبارات یہی سے شائع ہوتے ہیں، دیگر شہروں کے اخبارات کی پرنٹنگ بھی کوئٹہ میں ہی ہوتی ہے۔۔یہاں کی سب سے بڑی صحافیوں کی تنظیم بلوچستان یونین آف جرنلٹس ہے جس کے 120 کے قریب ارکان ہیں۔۔اسی طرح ایک مخالف دھڑا کوئٹہ یونین آف جرنلٹس کے نام سے بھی کررہا ہے جس کے ارکان اور عہدیداروں کی تعداد ایک درجن سے زائد نہیں۔۔وڈے چینل کے غریب ملازم نے تو زندگی کا چراغ مالی پریشانی کی وجہ سے بجھالیا۔۔ لیکن حال دیگر چینلز کا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔ دنیا کے کوئٹہ بیورو میں جب سے یہ چینل لانچ ہوا کیمرہ مین کی تنخواہ وہی بیس ہزار روپے ہے۔۔نوسال میں ملازمین کی تنخواہ صرف ایک بار بڑھائی گئی ابھی کچھ روز پہلے ایک بار پھر تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن وہ بھی بہت معمولی سا۔۔کیمروں کی حالت انتہائی خراب ہے، کوئٹہ میں اب رپورٹر اور کیمرہ مین “دنیا” جوائن کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔۔ ایسا ہی کچھ حال ایکسپریس کے کوئٹہ بیورو کا بھی ہے جہاں سے گزشتہ چند ماہ میں دو رپورٹرز،دو کیمرہ مین، دو ڈی ایس این جی آپریٹرز اور ایک ڈرائیور نوکری چھوڑ گئے۔۔کوئٹہ بیورو سے جب ہیڈآفس پیغام جاتا ہے کہ تنخواہیں بڑھادیں جناب لوگ چھوڑ چھوڑ کرجارہے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں ان سے سستے بندے ڈھونڈ لو۔۔
دنیا ٹی وی کا جب ذکر آیا ہے تو پپو کی یہ مخبری بھی سن لیں کہ دنیا کراچی سے مارکیٹنگ اور نیوز کی جو ٹیم 24 آئی تھی اب اپنے مستقبل کیلئے فکرمند ہیں۔۔ مارکیٹنگ ٹیم کے ہیڈعمیر خان تو جیوکہانی چلے گئے،کچھ کو وہ ساتھ لے گئے، باقی پیچھے چاربچ گئے تھے انہیں فارغ کردیا گیا۔۔ اب دنیا کراچی کے سارے معاملات ” سی ای او” ازخود مانیٹر کررہے ہیں۔۔انہوں نے خود کو کراچی بیوروکے واٹس ایپ گروپ میں بھی شامل کرالیا ہے اس طرح اب رپورٹرز کی کارکردگی پر بھی نظر رکھ رہے ہیں۔۔24 کراچی کے بیوروچیف سے دبئی میں ہونے والی میٹنگ میں جو بھی وعدے اور دعوے کئے گئے تھے وہ سب زبانی جمع خرچ ہی نکلا۔۔24 میں لائی جانے والی نئی ٹیم کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بہت جلد اسکرین تبدیل کردی جائے گی۔۔نئے اور تجربہ کار اینکرز بھرتی کئے جائیں گے، پروگرامنگ کیلئے بڑے ناموں کو لیا جائے گا۔۔جب یہ وعدے دو ماہ تک پورے نہیں ہوئے تو مارکیٹنگ ہیڈ تو اپنی ٹیم کے چند ارکان کے ساتھ جیوکہانی چلے گئے۔۔اب پیچھے رہ جانے والے بیورو چیف بھی چینل چھوڑنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بیوروچیف کی خواہش ہے کہ وہ اس بار کسی ایسے چینل میں جائیں جس کا ہیڈ آفس کراچی میں ہو۔۔وہ اس سے پہلے دنیا اور ایکسپریس میں کام کرچکے ہیں لیکن پپو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں صرف وقت گزاری کررہے ہیں۔۔یہی وجہ ہے اب تک انہوں نے24 میں کوئی “دھماکا” بھی نہیں کیا،کوئی ایسی بڑی خبر نہیں دی جو ان کے کریڈٹ پرجاتی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ چونکہ 24 کی پالیسی کے مطابق اینٹی پیپلزپارٹی کوئی خبر نہیں چل سکتی اس لئے کراچی اور سندھ سے متعلق خبریں آٹے میں نمک کے برابر چلتی ہیں۔۔آئی جی سندھ کے خلاف خبر چلنے پر پیمرا نے پچھلے دنوں چینل پر جرمانہ بھی لگایا تھا جب کہ اس خبر کی مخالفت کراچی کے بیوروچیف نے کی تھی۔۔بہرحال لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ بہت جلد ان کے راستے 24 سے الگ ہونے والے ہیں۔۔بیوروچیف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ رمضان المبارک سے پہلے ہی کوئی بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔کچھ روز قبل ہی 24 کے ایک پرانے رپورٹر اور بیوروچیف کے درمیان گالم گلوچ کی حد تک تلخ کلامی ہوئی۔۔معاملہ تھا ٹائم پر آنے کا۔۔رپورٹر کا کہنا تھا کہ دو ماہ ہونے کو ہے تنخواہ ملی نہیں، جب کہ آپ اپنے ساتھ لائے ہوئے رپورٹرز کو پیٹرول نہ ملنے کا بہانہ دے کر چھٹی دے دیتے ہو اور مجھے کہتے ہو کہ وقت پر آیا کرو یہ مکمل جانبداری ہے۔۔جس پر مذکورہ رپورٹر سے بیوروچیف کے لہجے میں بات کی گئی اور معاملہ گالیوں تک چلا گیا۔۔جس پر دفتر میں موجود لوگوں نے بیچ بچاؤ کرایا اور بیوروچیف کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کرایا کہ رپورٹر پہلے ہی تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہے، معاملے کہ رفع دفع کرے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بیوروچیف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ وہ خود اس صورتحال سے پریشان ہے اور جلد بڑا فیصلہ کرنے والے ہیں۔۔
24 کا بعد اب ذکر 92 چینل کا۔۔جہاں ایک غریب نائب قاصد غلام دستگیر کو ادارے کی اہم شخصیت نے ازخود تشدد کا نشانہ بنایا، نائب قاصد جس کی عمر ابھی ٹھیک سے 18 سال بھی نہیں ہوئی اس پر باقاعدہ باکسنگ کی پریکٹس کی گئی۔۔گھی فروش چینل کی بھی پپو نے کچھ مخبریاں کی ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اس چینل کے ایک بیوروآفس کا قصہ ہے جہاں ایک کرائم رپورٹر نے تھانہ کچہریوں کے چکروں سے تنگ کر جان چھڑائی اور دوسرے چینل کا بیورو چیف بن گیا، اس کی جگہ جو کرائم رپورٹر ڈھونڈا گیا اس سے بھی خبروں کا نہیں بلکہ دیگر کام لئے جارہے ہیں۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ اس کرائم رپورٹر کو آتے ہی پہلا ٹاسک یہ ملا کہ ایک ٹریفک وارڈن کی چھٹی کرانی ہے مگر اس شہر کا سی ٹی او نیک نام اور فرض شناس تھا اس نے ایسا کوئی بھی غلط کام کرنے سے صاف انکارکردیا جس پر “اوپر” والوں کو بہت غصہ آیا۔۔بیوروچیف کی کھنچائی ہوئی تو شاہ سے بڑھ کے شاہ کے وفادار نےسارا غصہ رپورٹر پر نکالا،مذکورہ رپورٹر نے اس پورے واقعہ کی ریکارڈنگ کرلی اور اپنے سابق مالک کو جاکر سنائی کہ صحافی ہوں میری ایسے لوگوں سے جان چھڑاؤ۔۔جس کے بعدوہ رپورٹر واپس اپنے پرانے چینل میں چلا گیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ 92 کا مذکورہ بیوروچیف مالک کے مفادات کا بہت خیال رکھتا ہے لیکن بعض جگہ ڈنڈی بھی ماردیتا ہے۔۔پپو نے اس کی تازہ مثال دیتے ہوئے بتایا کہ 92 چھوڑ کر دوسرے چینل کو جوائن کرنے والی ایک خاتون اسائنٹمنٹ ایڈیٹر کی فیملی کو کینال روڈ منگنی کی تقریب میں جانا تھا ، فیملی کو لانے لے جانے کیلئے یعنی پک اینڈ ڈراپ کیلئے 92 کی ای این جی لگائی گئی۔۔جب باقی رپورٹرز نے اعتراض کیا کہ ہمیں تو پیکیج بنانے کیلئے جانے پر بھی پیٹرول کے طعنے دیئے جاتے ہیں لیکن ای این جی اب کس کام پر لگائی گئی ہے۔۔تو بیوروچیف صاحب ایسے انجان بن گئے جیسے انہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔۔ساتھ ہی اس واقعہ کی انکوائری کمیٹی بھی بنادی اب پورے دفتر کو اس کمیٹی کے فیصلے کا انتظار ہے۔۔
اب کچھ بات کرلیتے ہیں “جاگ” کی۔۔جہاں سے اینکر علی آفاق کو بیماری کی وجہ سے نہ آنے پر فائر کیاگیا،پپو کی مخبری پر خبر بریک کی تو سارا شک اینکر پر ہی کیاگیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ انتظامیہ سمجھ رہی ہے کہ علی آفاق نے ہی یہ سارا معاملہ بتایا ہے، حالانکہ معصوم انتظامیہ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ جب ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پورے ادارے میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔۔پھر کوئی نہ کوئی پپو کا جاننے والا نکل ہی آتا ہے۔۔جاگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیوز ندیم رضا صاحب سے درخواست کی تھی کہ علی آفاق کو واپس لیا جائے، الحمدللہ انہوں نے میری اس پوسٹ کا نوٹس لیا اور علی آفاق کو واپس بحال کردیا۔۔ تھینک یو ندیم بھائی۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ چینل میں فائرنگ کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے، جسے بھی نکالنا مقصود ہواس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ استعفا دے دو، پچھلے ایک ماہ کے دوران ایک درجن سے زائد لوگ نکالے جاچکے ہیں، پپو کے مطابق پالیسی یہ رکھی گئی ہے کہ بڑی تعداد میں کارکنوں کو نہیں نکالنا، ایک ایک دو دو کی تعداد میں نکالا جائے تاکہ مارکیٹ میں شور نہ مچ سکے۔۔
سیون نیوزکی بھی کچھ سن لیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈی این کو اس کے خراب رویہ کی وجہ سے کارکنان برداشت نہیں کررہے ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ سیون نیوز انتظامیہ نے اپنے ڈائریکٹر نیوز سے گاڑی بھی واپس لے لی ہے۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نیوز کے اختیارات بھی محدود کردیئے گئے ہیں۔۔اور واقفان حال تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ موجودہ ڈی این کا اب چل چلاؤ ہے۔۔
اب ایک کہانی پپو کی زبانی ایسی بھی سن لیں جو اس وقت کراچی کی میڈیا انڈسٹری میں سینہ بہ سینہ گھوم رہی ہے اور لاہور تک اس کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔۔کراچی کی ایک خاتون ڈاکٹر منہال علی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک وڈیو میں دعوی کیا ہے کہ وہ اے آر وائی کے اینکر وسیم بادامی کی سابق گرل فرینڈ ہیں۔۔منہال نے الزام عائد کیا کہ بادامی عورتوں کا رسیا ہے اور اس کے کئی خواتین سے تعلقات ہیں، منہال کے مطابق وہ اور بادامی چار سال تک دوست رہے وہ امریکا میں بھی ایک ساتھ رہے، وہ ایک بار انہیں پی سی ہوٹل لے گیا جس کا بل بھی خاتون نے خود اداکیا۔۔منہال نے دعوی کیا ہے کہ اس کے پاس بادامی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔۔پپو کے مطابق بادامی کی طرف سے اب تک اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، حالانکہ ان کے ساتھی اینکر اقرار کی جیسے ہی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اگلے ہی روز انہوں نے اپنے پیچ پر آکر اس کی وضاحت دی۔یہ سارا معاملہ شکوک و شبہات کی جانب جاتا ہے،سوشل میڈیا پر منہال نے جب اپنی وڈیو ڈالی تو لوگوں نے اسے ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا کہ وہ یہ سب اپنی پبلسٹی کیلئے کررہی ہے،ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کسی بھی خاتون پر الزام لگانا بہت آسان ہے،اگر کوئی مرد شادی کے بعد بھی لڑکیوں سے تعلقات رکھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟ ، یہ ہے ہم لوگوں کا مائنڈسیٹ۔۔پپو کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خاتون کو جو ڈاکٹر بھی ہے، ایک پوش طبقے سے تعلق رکھتی ہے، ایک معروف فیشن ڈیزائنر ہے تو پھر اسے پبلسٹی کی کیا ضرورت ہے؟۔۔دوسری جانب بادامی کی خواتین سے متعلق سوچ کا اندازہ ان کے ایک ٹوئیٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔۔ جب بول والوں نے اعلان کیا کہ وہ رمضان ٹرانسمیشن میں بڑا انعام ہوائی جہاز دینگے تو بادامی نے ٹوئیٹ میں کہا کہ اگر عامر لیاقت جہاز دینگے تو ہم اپنی رمضان ٹرانسمیشن میں ائرہوسٹس دینگے۔۔بات کرتے ہیں منہال کی وڈیو کی۔۔اگر آپ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ڈالی گئی نصف گھنٹے دورانیئے کی وہ وڈیو نہیں دیکھی تو اس کی موٹی موٹی باتیں سن لیں۔۔ منہال کا کہنا تھا کہ وسیم بادامی نے آج تک اس کے کسی الزام کا جواب نہیں دیا، وہ ایک ٹوئیٹ کرکے بھی یہ تمام باتیں جھٹلا سکتا ہے۔۔اگر اتنی بدنامی کے بعد بھی وہ خاموش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔۔ اپنے دعووں کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے خاتون کا کہنا تھا کہ اب ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن نا تو آج تک مجھے بلاک کیا گیا ہے نہ پابند کالرز کی لسٹ میں ایڈ کیا گیا ہے۔ میرے واٹس ایپ براڈکاسٹس کو اب بھی دیکھا جاتا ہے۔ اسے علم ہے کہ میرے پاس ہر طرح کے ثبوت ہیں،ای میل،لوگ،ہمارے دوست،عینی شاہدین ہیں جو یہ بولنے کے لئے تیار ہیں کہ وہ میرے پاس کب سے آرہا ہے۔ ہم کبھی بھی پبلک میں نہیں ملتے تھے البتہ ایک بار میری برتھ ڈے کے موقع پر پی سی چلے گئے تھے جس کی ادائیگی میں نے ہی کی تھی۔۔۔ ‘ہماری دوستی ہے،میری امی سے اس کی دوستی ہے،فیملی سے ملنا ہے،ہم ابھی امریکا میں ایک ساتھ تھے،جب میں نے بتایا کہ میں یہاں ہوں تو وہ بھی آیا،وہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کرنے والے خضر اور ان کے ایک حامی مسلم کا انٹریو کرنے کے لئے گئے تھے۔ جنید جمشید کے انتقال کے بعد کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ یہ وہاں سے سیدھا میرے پاس آئے اور اس وقت بجائے غم کے اظہار کے جو کچھ کیا اس کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے لیکن اس وقت بھی بادامی کی ٹھرک فل عروج پرتھی۔منہال نامی لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ ایک ڈاکٹرہیں،بزنس وومن ہیں،اسپیشلائزڈ سرجن ہیں۔۔منہال نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس وسیم بادامی سے تعلقات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں -اس نے کہا ہے کہ وسیم بادامی کے دوست بھی اس کی حرکتوں سے آگاہ ہیں بلکہ اینکر اقرار الحسن تو اس کا استاد ہے اور اس راستے پر لانے والا ہے۔ وسیم بادامی کی مبینہ گرل فرینڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ وسیم بادامی کے کراچی کی اینکر صائمہ کنول سے بھی تعلقات ہیں، اور ان دونوں نے خفیہ شادی بھی کررکھی ہے۔۔جس پر بادامی کی پہلی بیوی نے خودکشی کی بھی کوشش کی۔۔یہ تو تھیں وڈیو میں ہونے والے انکشافات۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ منہال سے جب پوچھا گیا کہ جب آپ لوگ پہلی بار ملے تھے تو کیا آپ کے علم میں تھا کہ وہ شادی شدہ ہے؟ جس پر منہا ل کا کہنا تھا کہ بادامی سے ان کی پہلی ملاقات بہت عام سے حالات میں ہوئی تھی، اس وقت بادامی بہت مختلف لگا، نماز کی پابندی کرتا تھا، کم گو تھا اور اس نے فلرٹ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔۔جب اسے واٹس ایپ پر میسیج کیا تو اس نے دو روز تک کوئی جواب نہیں دیا، دو روز بعد اس کا جواب آیا کون ہو؟ جس کے بعد میں نے فون کیا اور ملاقاتیں شروع ہوئیں۔۔منہال کا کہنا تھا کہ بادامی نے اسے کبھی نہیں بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے۔۔حد تو یہ ہے کہ بادامی کے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی اس کا اسٹیٹس سنگل لکھا ہے۔۔منہال کے مطابق اسے بعد میں پتہ چلا کہ وہ شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ ہے۔۔جب میں نے اس سے پہلی بیوی اور بچے کا پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ ہم الگ ہوچکے ہیں بچے کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی۔۔منہال کے مطابق بادامی نے اس معاملے میں بھی غلط بیانی کی وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ ہی رہتا تھا۔۔اس سلسلے میں جب وسیم بادامی سے رابطہ کیا گیا تو وہ ہاتھ نہیں لگے، لیکن بادامی کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ، منہال نامی یہ لڑکی نفسیاتی کیس ہے، بادامی نے اس کی وڈیو کا سخت نوٹس لیا اور ایف آئی اے سائبرکرائم سے رابطہ بھی کیا جس کے بعد کارروائی کی گئی، بادامی کے قریبی ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے مذکورہ لڑکی کو بھی حراست میں لے لیا تھا لیکن لڑکی کی ماں نے ہاتھ جوڑ کر بادامی سے معافی مانگی جس پر لڑکی کو چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے اکاؤنٹس بند کردیئے گئے، تاہم لڑکی نے سوشل میڈیا پر نئے اکاؤنٹس پھر سے بنالئے۔۔
اور اب پپو کی جانب سے چند مختصر مختصر خبریں۔۔ جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔۔۔
لاہور میں چینل فائیو اور روزنامہ خبریں سے 50 سے زائد کارکنوں کو برطرف کردیاگیا۔۔ جس پر پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیاگیا۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ سگریٹ فروش سیٹھ کےلال چینل میں بھی کارکنوں کی چھانٹی کی فہرستیں تیار ہوگئی ہیں۔۔۔جب کہ ان کے انگریزی اخبار ٹریبیون کے تمام آؤٹ اسٹیشنز رپورٹرز کو فارغ کردیاگیا ہے۔۔
سرکاری چینل پی ٹی وی فنکاروں اور رائٹرز کا لاکھوں روپے کا مقروض نکلا۔۔وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سینیٹ میں انکشاف کیا کہ ملک کے پانچوں پی ٹی وی مراکز پر کام کرنے والے فنکاراور رائٹرزکو 48 ملین روپوں کی ادائیگیاں نہیں کی جاسکیں۔۔جب کہ گلوکاروں کو 8 ملین کے واجبات ادا کرنا باقی ہیں۔۔
کے 21 چینل کراچی میں تنخواہوں کا بحران اپنی جگہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے سابق نیوزاینکر نے دعوی کیا ہے کہ اسے چینل چھوڑنے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی تمام واجبات مل گئے۔۔ جس پر وہ چینل انتظامیہ کا شکرگزار بھی ہے۔۔
کے 21 کی ہی ایک خبر ہے کہ اس کے ایک کیمرہ مین کو کراچی کے علاقے ملیر سے گرفتارکیا گیا۔۔
ٹی وی ون کے مارننگ شو” آپ کا ساحر” میں 14 مارچ کو قابل اعتراض مواد نشر ہونے پر پیمرا نے دس لاکھ روپے جرمانہ لگادیا ہے۔۔ گوجرانوالہ الیکٹرانکس میڈیا ایسوسی ایشن نے پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب میں تمام کیمرہ مینوں کو پروفیشنل میڈیا جیکٹس فراہم کردیں۔۔
احمد خان لودھی نے کیپٹل ٹی ویمیں بطور سینیئر منیجر سیلز لاہور جوائن کرلیا ہے۔۔وہ اس سے پہلے اسٹار ایشیا نیوز میں ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ تھے۔۔
جیوٹی وی نے امان ملک کو ڈائریکٹر سیلز کے عہدے پر ترقی دے دی ہے۔۔
دنیا نیوز سے مستعفی ہونے والے ڈائریکٹر نیوز خرم کلیم صاحب نے بطور ڈائریکٹر نیوز لاہور کا سٹی فورٹی ٹو چینل جوائن کرلیا ہے۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چینل کو لانچ کرنے والے بھی خرم کلیم صاحب تھے۔۔
فیصل عزیز خان ترکی کا چینل چھوڑکر بول جوائن کررہے ہیں، بول کے انگریزی اخبار میں اہم عہدے ان کا منتظر ہے، توقع ہے جون میں وہ بول میں جوائننگ دیں۔۔
اے آر وائی میاں چنوں کے نمائندے میاں عبدالرزاق کو ڈاکوؤں نے مزاحمت پر قتل کردیاگیا جب کہ ایک اور صحافی زخمی ہے جس کا تعلق بھی اے آر وائی سے ہے۔
کراچی اور لاہور کے کئی چینلز پر ابھی تک تنخواہوں میں تاخیر کا مسئلہ درپیش ہے، پپو کی نشاندہی پر چوبیس گھنٹے کے اندر نیوز ون کی انتظامیہ نے کارکنوں کو تنخواہیں دے دیں، رمضان المبارک قریب ہے،سب گھروں میں اخراجات دگنے ہوجاتے ہیں، ایسے میں وقت پر تنخواہیں مل جائیں تو ان کے روزے اور عبادتیں ذہنی سکون کےباعث ادا ہوسکیں۔۔ ایک بار پھر کہہ رہا ہوں صحافتی تنظیموں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی، صرف زبانی جمع خرچ ،بیان بازی اور پریس ریلیز جاری کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔(علی عمران جونیئر)