سینہ بہ سینہ 71
دوستو، پوری کوشش تھی کہ آپ تک آپ کا فیوریٹ سلسلہ سینہ بہ سینہ بروقت پہنچ جائے لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر تھوڑا سا گیپ آگیا۔۔روز درجنوں پیغامات فیس بک مسینجر، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پر ملتے رہے، لیکن مجبوریاں کچھ ایسی تھیں کہ سب کو ایک ہی جواب دیا کہ فی الحال مصروفیت ہے تھوڑاٹائم لگے گا۔۔جیسے جیسے معاملات معمولات پر آنے لگے ویسے ویسے ہلکی پھلکی مخبریاں ویب سائیٹ پر دیتا رہا، لیکن دوستو اور چاہنے والوں کو پھر بھی دباؤ رہا کہ سینہ بہ سینہ کا اپنا ہی مزہ ہے، وہ لازمی لکھیں۔۔اب وقت ملا ہے تو پھر سے حاضر ہوں، پپو کی کافی مخبریاں ہیں،اس لئے آج اور کل آپ سینہ بہ سینہ لگاتار پڑھیں گے، اس کے بعد پوری کوشش ہوگی کہ ہر ہفتے جمعرات کے روز یہ سلسلہ آپ تک پہنچ جائے۔۔تو چلیں پھر شروع کرتے ہیں۔۔ پپو کی باتیں۔۔تو شروع کرتے ہیں بول چینل سے، پپو نے اس بار بول پر کچھ زیادہ ہی باتیں کی ہیں۔۔
پپو نے زبردست انکشاف کیا ہے، آپ لوگوں کو یاد ہوگا، ایک بار پپوکی پکی مخبری کے ساتھ پوسٹ ڈالی تھی کہ پاک نیوز 22 یا 23 مارچ کو لانچ ہوجائے گا،پھر لوگوں نے بہت مذاق اڑایا کیونکہ ایسا ہوا نہیں تھا، آپ یقین کریں جھٹکا مجھے بھی لگا تھا کہ پپو نے جب مخبری دی تھی تو ساتھ ہی کہا تھا پکی مخبری ہے، یعنی سوفیصد نہیں بلکہ دوسوفیصد درست، لیکن جب پاک نیوز لانچ ہوا تو ایک ہفتے کی تاخیر سے۔۔ایسا ہوتا نہیں کہ پپو کو اپنی مخبری پر اتنا یقین ہواور پھر وہ غلط نکلے۔۔ جب اس کی کھوج لگائی تو ایک حیران کن بات سامنے آئی۔۔ پپو غلط نہیں تھا، پپو نے بالکل درست مخبری کی تھی، ہوا کیا، اصل کہانی یہ تھی کہ جیسے ہی یہ پوسٹ ڈالی تو بولستان میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا اور لانچنگ کی تاریخ صرف اس وجہ سے ایک ہفتہ آگے بڑھا دی گئی کہ پپو نے یہ خبر”بریک” کردی تھی۔۔اور یہ سب نادان مشیروں کے کہنے پر کیاگیا۔۔جب اس کی تصدیق میں نے بول میں اپنے متعدد ذرائع سے کیا تو سب نے پپو کی خبر کی تصدیق کی کہ پہلے 22مارچ کی رات یا 23 مارچ کی ڈیڈلائن تھی لیکن اچانک اسے ایک ہفتہ آگے بڑھا دیاگیا۔۔ آپ خود سوچیں ایک چینل انتظامیہ جب معمولی سے “پپو” کی وجہ سے اپنے فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور ہوجائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ “کمزوری” کہاں ہے۔۔اور پپو کا مذاق اڑانے والوں سے گزارش ہے کہ “کسی کے کہنے” پر پپو کو برابھلا کہنے سے گریز کیا کریں، پپو پہلے سے بہت زیادہ محتاط ہوچکا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر” سالڈ” خبریں ہی دیتا ہے، ان کو ثابت ہونے میں بوجوہ تاخیر ہوجائے تو اس میں غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ پپو نے جب یہ سوال چھوڑا کہ کیا بول ٹیم میٹ میں کامران خان انٹری دینگے تو اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی، لیکن حسب معمول مذاق اڑانا شروع کیا گیا خبر غلط نکلی، حالانکہ پپو نے خبر نہیں دی تھی صرف سوال کیا تھا، نیوز اور سوال میں فرق ہوتا ہے،اب اس حوالے سے پپو کی مخبری بھی سن لیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بول ٹیم میٹ کیلئے پی اے ایف میوزیم کی جگہ ایک ہفتے کیلئے بک کی گئی، دس ہزار سے زائد مہمانوں کو دعوت دی گئی جن کے کھانے پینے،تزئین و آرائش اور ایک ہفتے کی بکنگ پر تیس کروڑ روپے سے زائد کی لاگت آئی، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سارے معاملات “کیش” پر ہوئے کیونکہ بول اور ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس کیسز کی وجہ سے ٹرانزیکشن کے قابل نہیں اور اس میں اب بھی 22 ارب روپے سے زائد رقم فریز پڑی ہے۔۔ پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ بول کی ایک اور ٹیم میٹ بہت جلد ہونے جارہی ہے،امکان ہے رمضان المبارک سے قبل ظہور پذیر ہوجائے۔۔پپو نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کامران خان بہت جلد بول گروپ کا حصہ بن رہے ہیں، لفظ “گروپ” پر دھیان رکھیئے گا، پپو کا کہنا ہے کہ کامران خان کے “پروموز” بھی تیار کرلئے گئے ہیں، اب باہر والے تو پھر شور کرینگے، لیکن بول میں کام کرنے والے اگر اتنی “پہنچ” رکھتے ہیں تو کامران خان کے پروموز خود” دیکھ ” سکتے ہیں، لیکن پپو جانتا ہے کہ ہر کسی کو ” پروموز” کے شعبے تک رسائی نہیں ملتی۔۔پپو نے ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاک نیوز میں ڈاکٹر دانش کی چونکہ “ریٹنگ” نہیں آرہی تھی اس لئے وہ بھی اب بول پر ہی پروگرام کرینگے۔۔
بول کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔بول کی ٹیم میٹ 22 اپریل کی رات کو بہت “دھوم دھام” سے کی گئی،دس ہزار سے زائد مہمانوں کو مدعو کیاگیا، پپو کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپے سے جب تقریب کی جاسکتی تھی تو کیا اس رقم سے دو،تین ماہ کے واجبات بول والاز کو ادا نہیں کئے جاسکتے تھے، پپو کا کہنا ہے کہ ایسی ہی ٹیم میٹ بول پر برا وقت آنے سے قبل بھی ہوئی تھی، جس میں میڈیا کی پوری “کریم” تشریف لائی تھی، پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب بول پر برا وقت آیا تو وہی ” کریم” سب سےپہلے آئس کریم کی طرح پگھلی اور دیگر چینلز کی طرف “ٹپکی” ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ شعیب شیخ صاحب نے اپنے خطاب میں تو بول ،ایگزیکٹ پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد رکھا، لیکن ان بول والاز کو بھول گئے جو اس ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے، کیا ان کے واجبات کے لئے کوئی اعلان نہیں کیا جاسکتا تھا؟ ۔۔یکم مئی کو بول کی وہ ٹیم اپنے حق کیلئے باہر نکلی ، جو 2015 میں بول کی نمبر ون ٹیم تھی۔۔ یہی وہ بول والاز تھے جو بول بحران کے دنوں میں فرعونوں، سیٹھوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے ۔۔ پھر بول بحال بھی ہوگیا اور فرعونوں،سیٹھوں کو شکست ہوگئی۔۔ لیکن اب بول انتظامیہ ان بول والاز کو ” اون” کرنے سے انکاری ہے۔۔ نو لفٹ کے بورڈ لگادیئے۔۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس اس وقت نمبر ون ٹیم ہے تو پھر کیا 2 سال پہلے جھوٹ بولاگیا تھا؟ اگر اس وقت بھی سچے تھے تو پھر وہ ٹیم اب کدھر ہے؟۔۔ اگر جب بھی سچے تھے اب بھی سچے ہیں ، تو پھر کیا یہ بات بھی سچ نہیں ہے کہ جب 30 ستمبر2015 کو بول ” ہولڈ” پر رکھا گیا تو اس وقت تمام بول والاز کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ جیسے ہی بول بحال ہوا تو سب نہ صرف بحال ہوجائیں گے بلکہ انہیں ان کی تنخواہیں بھی دی جائیں گی۔۔ اگر یہ بھی سچ ہے تو پھر یہ بھی بتادیں کہ وہ تمام بول والاز کہاں ہیں؟ جواب نہیں ہوگا آپ کے پاس، چلیں اب آپ کہتے ہیں کہ کسی کو رکھنا نہ رکھنا ادارے کی صوابدید ہے، تو پہلی بات یہ کہ رکھنے سے مراد ” نیو ہائرنگ ” ہوتی ہے، آپ نے دھڑادھڑ نیوہائرنگ تو کی لیکن جو بول کے دوہزار پندرہ سے اب تک ملازم ہیں انہیں ” بحال ” نہیں کیا۔۔ دوسری بات آپ کا دعوی ہے اب پہلے سے بھی زیادہ۔۔ ٹیم میٹ میں شیخ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا۔۔بول اب ایک نہیں بلکہ کئی زبانوں میں ہے اور چینی، فارسی، انگریزی میں بھی آرہا ہے۔۔ پہلے سے بھی زیادہ۔۔پاک نیوز آگیا۔۔ پہلے سے بھی زیادہ۔۔سب کو تنخواہیں مل رہی ہیں پہلے سے بھی زیادہ۔۔(تنخواہیں پہلے سے زیادہ ہے یا نہیں، اس پر بھی آگے چل کر بات کرینگے، یہ بڑا دلچسپ اعدادوشمار کا ہیرپھیر ہے، دکھایا کچھ اور دیا کچھ جاتا ہے، کافی کچھ باتیں ہونگی مگر کچھ روز بعد )۔۔ پھر یہ پہلے سے بھی زیادہ 2015 کی نمبر ون ٹیم کیلئے کیوں نہیں؟ چلیں بحالی تو چھوڑیں، کیونکہ آپ تو پرانے بول والاز کو مانتے ہی نہیں۔۔کم سے کم ان کے واجبات تو پہلے سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہوئے ادا کر دیں ۔ ۔اب بول والے کراچی، لاہور، اسلام آباد میں اپنے حقوق کیلئے میدان میں نکلے ہیں، جنہیں پہلے تو ڈرایا دھمکایا گیا، پھر نئی حکمت عملی یہ بنائی کہ انفرادی طور پر سب سے ٹیلی فون پر رابطے کئے گئے۔۔انہیں فون پر کہا گیا کہ آفس آکر سیٹلمنٹ کرلیں۔۔ جب وہ گئے تو ان کے سامنے صرف پانچ ماہ کا حساب کتاب رکھا۔۔ وہ بھی کٹوتیوں کے ساتھ۔۔ پہلے ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، سارا ریکارڈ ایف آئی اے والے لے گئے، اب یہ ایک ایک چھٹی کا بتارہے ہیں، کینٹین میں کیا کچھ کھایا اس کا بھی ریکارڈ نکال لائے۔۔ سیلون کتنی بار استعمال کیا وہ بھی انہیں علم ہوگیا۔۔ بہرحال پپو کے مطابق پانچ ماہ کے حساب میں بھی بول والوں نے کٹوتیاں کی ہیں، جن لوگوں کے پاس گاڑیاں تھیں ان سے اب تک کا کرایہ کاٹا جارہا ہے ، جو گاڑی کے حساب سے چالیس سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تک ہے۔۔اور تئیس ماہ کا رینٹ اے کار لیا جارہا ہے۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جن کی گاڑیاں ڈیو تھی لیکن انہیں دی نہیں گئی، انہیں اسی حساب سے کرایہ نہیں دیا جارہا اور وہ پیسے حساب میں شامل نہیں۔۔سود ہمارے مذہب میں حرام ہے، لیکن فخریہ طور پر کچھ رقم حساب میں یہ کہہ کر شامل کی گئی ہے کہ یہ شعیب شیخ صاحب کی جانب سے ہے۔۔کیونکہ اگر اتنی رقم آپ بینک میں رکھتے تو اتنے ہی پیسے آپ کو وہاں سے بھی ملنے تھے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جب بول والاز کو نکالا گیا نہ انہوں نے استعفے دیئے پھر انہیں صرف پانچ ماہ کا ملازم کیوں اور کس حساب میں سمجھا جارہا ہے؟۔۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے صرف پانچ ماہ ہی کام کیا اور تیس ستمبر سے بول ہولڈ پہ چلاگیا تو پھر وہ کیا وجوہات تھیں کہ ایگزیکٹ والوں نے تو پانچ ماہ بھی کام نہیں کیا، ایف آئی اے کی مئی میں کارروائی ہوئی تو ایگزیکٹ بند کردیا گیا لیکن سب ایگزیکٹ والوں کو سترہ ماہ سے زائد کے واجبات دیئے جارہے ہیں؟۔۔ ایک ہی ادارے میں یہ سوتیلاپن کیوں؟۔۔اب آگے کی سنیں۔۔پانچ ماہ کے سیٹلمنٹ پر یہ کہہ کر سائن کرائے جارہے ہیں کہ لے لو کورٹ جاؤگے تو یہ بھی نہیں ملیں گے۔۔ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوئے تو جس طرح انہیں پیسے نہیں ملنے تمہیں بھی نہیں ملیں گے۔۔معاشی مجبوریوں کا شکار بول والا جب سائن کردیتا ہے تو پھر کیمرے کے سامنے کھڑا کرکے رٹارٹایا اسکرپٹ بتایا جاتا ہے کہ بول نے سارا حساب کلیئر کردیا، بول بہت شاندار ہے، امید نہیں تھی کہ بول ہمیں بلا کر اس طرح ہمارا حساب کردے گا۔۔بول والا یہ اسکرپٹ بھی ریکارڈ کرادیتا ہے۔۔ پھر ایچ آر والے صاحب انہیں یہ ” خوشخبری” سناتے ہیں کہ اب آپ 45 دن بعد آئیے ، پیسے مل جائیں گے۔۔ اس طرح برسوں سے خالی پیٹ اور خالی ہاتھ بول والا اسی طرح خالی پیٹ اور خالی ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے۔۔پھر بول کی جانب سے پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پیسے دینے شروع کردیئے ہیں، لیکن آج تک ایک روپیہ کسی کو نہیں دیا۔۔یکم مئی کو جب کراچی اور لاہور میں کچھ بول والاز نے احتجاج کیا تو بول کے کیمروں سے ان کی وڈیو بنالی گئی۔۔ ان کی شناخت کی گئی۔۔ اور اب ان کے ناموں کے آگے کراس لگا دیاگیا کہ ان لوگوں کو پیسے نہیں دینے۔۔انہیں بلیک لسٹ کردیا گیا کہ انہیں کبھی بول میں واپس نہیں لیا جائے گا۔۔ یعنی “خدائی” فیصلے کرلئے گئے نعوذباللہ۔۔ پیسے اور نوکری کا تعلق چونکہ رزق سے بنتا ہے اس لئے انہوں نے بڑابول بولتے ہوئے اپنا حق مانگنے والوں کا رزق اپنے طور پر بند کردیا ہے، حالانکہ یہ لوگ بول میں آنے سے پہلےبھی کبھی بھوکے نہیں مرے، بول بحران میں تھا تو بول کیلئے لڑتے ہوئے بھی کبھی بھوکے نہیں مرے، اور بول نے انہیں اب تک رکھا اور نہ پیسے دیئے لیکن یہ اب بھی بھوکے نہیں مرے، لیکن جس طرح آپ اپنے حقوق کی بات کرتے ہو، جب لائسنس کینسل ہوتا ہے تو چیختے چلاتے ہوتو پھر جس کے پیسے آپ دبائیں گے، جس کا حق تسلیم نہیں کرینگے کیا اس کا چیخنا چلانا نہیں بنتا؟؟ اگر آپ پیمرا کے ایکشن پر روتے پیٹتے ہو، اسی طرح واجبات نہ ملنے پر بول والاز کو رونے پیٹنے کا حق نہیں ؟؟۔۔ پپو نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بول انتظامیہ نے واجبات کیلئے احتجاج کرنے والے بول والاز کو “لیڈ” کرنے والے کچھ لوگوں کے موجودہ چینلز کے مالکان کو فون کیا اور فون پر ان سے کہا گیاکہ انہیں نوکریوں سے نکالو، یہ لوگ احتجاجی لوگ ہیں، آج ہمارے(بول) خلاف احتجاج کررہے ہیں کل آپ کے خلاف بھی احتجاج کرسکتے ہیں۔۔لیکن ان کے فونز پر کسی ایک مالک نے کان نہیں دھرا کیونکہ وہ مالکان بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ اپنا حق مانگ رہے ہیں،اور دوسری یہ بات بھی ان مالکان کے علم میں ہے کہ یہ سب کام والے لوگ ہیں۔۔
فریش بول والاز اور منافقین کو میری اور پپو کی سچی باتیں “زہر” لگ رہی ہونگی، لیکن اپنے ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ دوست وہی ہوتا ہے جو آئینہ دکھاتا ہے، چاپلوسی کرنے والے خوشامدکرنے والا آپ کو ساتویں آسمان پہ تو چڑھاسکتا ہے برے وقت میں کبھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔۔منافق تو میرا دوست ہے نہ بول کا دوست، اس کا کام تو تیلی دکھانا اور جلتی پر پیٹرول چھڑکنا ہے، فریش بول والاز جو دیگر چینلز سے آئے ہیں، انہیں یہ بات سوچنی چاہیئے جب پرانے بول والاز نے جو سترہ ماہ تک بول بحالی کی تحریک کیلئے سڑکوں پر بھوکے پیاسے خجل خوار ہوتے رہے، انہیں بول انتظامیہ نے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا، تو پھر آپ لوگ تو کسی گنتی میں نہیں،بطور پروفیشنل آپ لوگوں کو اپنے ساتھی ورکرز کا ہی ساتھ دینا چاہیئے، سیٹھ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوتا، اس کا کام ٹشو پیپر کی طرح آپ کو اور ہمیں استعمال کرنا ہوتا ہے۔۔میرے علم میں یہ بات بھی ہے کہ بول میں کام کرنے والوں کے فیس بک پر نظر رکھی جاتی ہے، انہیں منع کیا جاتا ہے کہ عمران جونیئرکی پوسٹ کوئی نہ پڑھے، میری ویب سائٹ ہیک کرکے وہاں سے سارا مواد اڑانے کی کوششیں بار بار کی جاتی ہیں،لیکن اللہ سبحانہ تعالی دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے، میری نیت صاف ہے، آئینہ دکھاتا ہوں، آئینے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ جیسی چیز ہوگی ویسی ہی آئینے میں نظر آئے گی۔۔ یہ خود کو ٹھیک کرنےکے بجائے آئینہ توڑنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔۔انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ انسانی فطرت ہے اسے جس کام سے روکو وہی کام زیادہ ہوتا ہے، کوئی بھی پوسٹ جو بول کے حوالے سے لکھتا ہوں وہ آدھے گھنٹے میں پورے بول میں سینہ بہ سینہ گشت کررہی ہوتی ہے،اس سے ” پپو” کی بول میں مقبولیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے، صرف بول ہی نہیں یہی حال ایگزیکٹ میں بھی ہے، وہاں بھی پپو کے لاتعداد چاہنے والے موجود ہیں۔ ۔ خیر پپو کے چاہنے والے تو ہر چینل میں ہی موجود ہیں، اس کیلئے کسی کی سند کی ضرورت نہیں۔۔۔
ابھی بول کا ذکر ختم نہیں ہوا۔۔پپو کہہ رہا تھا کہ بول ٹیم میٹ میں شیخ صاحب کے خطاب سے مایوسی ہوئی، کوئی اعلان نہیں ٹوٹل سناٹا۔۔ پرانے مظالم تو یاد رہ گئے، پرانے بول والاز کو بھول گئے۔۔اب واجبات کیلئے شاید پھر بول والاز کو ایک اور جدوجہد کرنی ہوگی، ویسی ہی جدوجہد جیسی بول کے خلاف سازشیں کرنے والے فرعونوں کے خلاف کی تھی، اب بول کے اندر بیٹھے منافقین سے نمٹنا ہوگا، ان سازشی عناصر کی نشاندہی کرینگے جو بول کے اندر بیٹھ کر بول کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔۔ جن کی اقربا پروری کا یہ حال ہے کہ مڈل پاس کو بھی صحافی کا درجہ دے دیا گیا۔۔ سبزی فروش، کنڈیکٹر اور مزدا ڈرائیورز بھی بول کا کارڈ لے کر گھوم رہے ہیں۔۔ پپو ہنستے ہوئے بتاتا ہے کہ ٹیم میٹ میں ایسے ایسے چہرے دیکھے جو بول پر بحران سے پہلے اپنے دوستوں کو فون کرکے صرف بول کو اندر سے دیکھنے کی منتیں ترلے کرتے تھے۔۔پپو نے ایک اور فیصل آبادی جگت مارتے ہوئے کہا کہ ٹیم میٹ والے روز کراچی میں کوٹ کی قلت ہوگئی تھی، دکانداروں نے کرایہ پر کوٹ چلائے، چند گھنٹے کے پانچ سو سے ایک ہزار روپیہ کرایہ لیاگیا گیا وہ بھی صرف ایک روز کیلئے۔۔ بہرحال یہ میرا موضوع نہیں، اسے صرف پپو کی “جگت” ہی سمجھی جائے۔۔ اہل خانہ ، دوست احباب کو نوازا جارہا ہے اور نوازا جاچکا۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ مارچ میں بول اور ایگزیکٹ کے کچھ مخصوص لوگوں کو جن کی تعداد اچھی خاصی ہے انہیں واجبات میں سے ایک ماہ کی پرانی تنخواہ بھی ادا کردی گئی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے واجبات دیتے ہوئے انہیں سختی سے یہ تاکید کی گئی کہ یہ بات بول اور ایگزیکٹ میں اپنے کسی دوست سے شیئر نہ کی جائے۔۔اور وہ بیچارے اتنے معصوم ہیں کہ سختی سے اس پر عمل پیرا ہیں لیکن پپو تو پھر پپو ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بول میں کوئی” حرکت” ہو اور پپو کی نظر سے اوجھل رہے۔۔ بہت سے معاملات میں پپو کچھ نہیں بولتا تو اس کا یہ مقصد نہیں کہ پپو جانتا نہیں ، وہ نظرانداز کردیتا تھا کہ چلو خیر ہے، اپنا بول ہے، لیکن جب ٹیم میٹ میں پرانے بول والاز کیلئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔۔تب سے پپو بھی بہت تپا ہوا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ عمران بھائی ، اب بول اور ایگزیکٹ کی خبریں “کھوج ” کر دونگا ۔۔ پپو کی محبت اپنی جگہ، لیکن اب واقعی بہت ہوگیا، صبرکی ساری حدیں ختم ہوگئی ہیں۔۔واجبات کے حوالے سے تمام بول والازمتحد ہیں، سب کا ایک ہی ایشو ہے، واجبات کی ادائیگی۔۔ نادان مشیر یہی چاہتے ہیں کہ بول والاز سڑکوں پر نکلیں، بول کے خلاف احتجاج کریں، کیونکہ ان کی پلاننگ یہی ہے کہ بول کی جڑیں کاٹی جائیں۔۔ شعیب شیخ صاحب کو یہ مشورہ دینے والا کوئی نہیں کہ بول کیلئے سڑکوں پر لڑنے والے جب بول کے خلاف پوری شدت سے ہر محاذ پر لڑیں گے تو جگ ہنسائی کس کی ہوگی؟ اس کیلئے بول انتظامیہ کو جلد سے جلد کوئی واضح اعلان کرنا ہوگا۔۔
آپ کا فیوریٹ سینہ بہ سینہ ابھی جاری ہے۔۔کل مزید اہم مخبریاں شامل ہونگی۔۔ جس میں بتاؤنگا۔۔ایگزیکٹ میں ہونے والے ایک خفیہ اجلاس کی روداد۔۔ سعید چودھری کیلئے بول تو نہیں بولا، لیکن الزام زبردست لگادیا۔۔24 کی کچھ اندر کی باتیں۔۔۔ 92 کی ای این جی کس کو پک اینڈ ڈراپ کررہی ہے۔۔جاگ ٹی وی نے پپو کی بات کیسے سمجھی۔۔ سیون نیوز میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔۔۔بادامی کا سوادی اسکینڈل۔۔ اور بہت کچھ۔۔۔ بس ایک دن کریں انتظار
( علی عمران جونیئر)