سینہ بہ سینہ…آف دا ریکارڈ پارٹ 7….
سب سے پہلے تو کل کی غیرحاضری پر معذرت… رات جلدی سوگیا جس کی وجہ سے یہ پوسٹ نہ ڈال سکا.. اکثر دوست اپنے میسیجز میں بول کے حوالے سے سوالات کی بهرمار کرتے ہیں..اس لئے آج صرف بول کے حوالے سے وہ باتیں کرینگے جو سینہ بہ سینہ مارکیٹ میں اڑی ہوئی ہیں…شاید آج کے بعد سوالات کا خاتمہ ہوجائے..
سب سے پہلے تو یہ کلیئر کردوں کہ بول کے حوالے سے یہاں جو کچه بهی تحریر کررہا ہوں یہ میرے خیالات..افکار..اطلاعات یا رائے نہیں..یہ سب مارکیٹ میں ہونے والی باتیں ہیں….
بول کے تقریبا سارے ورکرز اپنے سینیئرز کا چہرہ دیکه کر اپنی لگی لگائی نوکری چهوڑ کر گئے..اب جب کہ بول عارضی طور پر بند ہوا ہے تو فیلڈ میں سب برا بهلا کہہ رہے ہیں کہ …دیکه لیا لالچ کا انجام..یار دیکه کر تو نوکری کرتے… جعلی ڈگری والوں کے پاس نوکری سے پہلے سوچنا تها تحقیق تو کرنا تهی.. (حالانکہ یہ سب وہ لوگ ہیں جو انگور کهٹے ہونے کی وجہ سے اپنی بهڑاس نکال رہے ہیں).. جو لوگ نوکریاں تلاش کررہے ہیں ان سے کہا جارہا یے کہ سی وی میں سے بول کا نام نکال دو.. جن کو ان کے سابقہ اداروں نے نوکریاں دیں تو چهوڑی گئی تنخواہ سے بهی کم پر لیا گیا.. بول کی وجہ سے کئی اداروں میں تنخواہیں بڑهانے کا اعلان کیاگیا مگر اس کے بند ہوتے ہی کسی اعلان پر کوئی عمل نہیں کیا گیا..
اکنامکس کی ایک اصطلاح ہے..طلب و رسد..یہی حال میڈیا کا ہے..بیروزگاروں کی تعداد اچانک بڑهنے سے تنخواہوں کا ریشو کم ہوگیا.. یعنی رسد بڑه جانے سے طلب بهی کم ہوگئی… چینلز مالکان کی تنظیم پی بی اے نے مئی میں میں بڑے طمطراق سے بول والاز کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیاتها اس وقت بول چل رہا تها تو اعلان بهی کردیا لیکن اب جب کہ بول بند ہے تو پی بی اے نے بهی ریت میں سر دبالیا…یہ تو چینلزمالکان کی بات ہے صحافتی تنظیموں کا حال اس سے بهی زیادہ خراب دیکها گیا.. کے یو جے نے بول کے بند ہونے پر صرف ایک احتجاج کیا اب اس کے لیڈر تو پریس کلب میں لگے بول والاز کے احتجاجی کیمپ کی شکل دیکهنے کے روادار بهی نہیں..ایک تنظیم کو گلہ ہوتا ہے کہ دوسری تنظیم کے لیڈروں سے بات کیوں کی. دوسری تنظیم کو تیسری سے رابطے کی شکایت ہے… تصویری سیشن کراکے سوشل میڈیا پر ڈال کے داد وصول کی جاتی ہے… تسلیاں دلاسے صرف زبانی کلامی ہیں…اتنی بڑی تعداد میں لوگ اگر کسی وڈے چینل کے بیروزگار ہوتے تو صحافی برادری ملک بهر میں آگ لگادیتے.. عامل صحافیوں کو یاد ہے نوازشریف کے اس دور میں جب سیف الرحمان ایکشن میں تهے تو ایک وڈے چینل کیلئے کس طرح سڑکوں پر جلوس نکالے گئے تهے سب کی کوشش تهی یہ ادارہ بند نہ ہو..لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ صحافی برادری کےلیڈرز پریس کلب میں لگے بول والوں کے احتجاجی کیمپ پر آتے ہیں اور کارکنوں کو دوسری نوکری تلاش کرنے کا “مخلصانہ” مشورہ دیتے ہیں…بول بند ہوگیا ان کی بلا سے..اچها ہوا جان چهوٹی…ادارے کی بحالی کی کوئی بات کرتا نظر نہیں آتا.. دلچسپ بات یہ ہے ہے کہ تنخواہوں کیلئے کیس کا کہاجاتا ہے مگر تنخواہ دینے والے کو بایر لانے کی تدبیر نہیں کی جارہی.. تاکہ وہ باہر آکر تنخواہیں دے اور بول کو دوبارہ چلانے کی کوشش کرے.. یہ عجیب و غریب رویہ ہمارے لیڈروں کی “جانبداری” ظاہر کرتا ہے..
بول میں شیعب شیخ کے جیل جانے کے بعد بنائی جانے والی تین رکنی کمیٹی کا احوال… کیسز اور بول کے مستقبل کے حوالے سے مزید کڑوے کسیلے حقائق…کل پڑهنا مت بهولئے…