سینہ بہ سینہ 70
دوستو، حسب وعدہ ایک بار پھر اپنے ٹائم پہ حاضر ہوں، پچھلے دنوں نیوسپرلیگ کے تحت بارہ ٹیموں کا شاندار ٹاکرا ہوا۔۔ یہ مقابلے تین روز جاری رہے۔۔ جس میں نیونیوز،نئی بات اور سپریئر کالج کی ٹیمیں شامل تھیں۔۔۔خیر باتیں تو بہت سی ہیں، بہتر ہے کہ پپو کی باتیں کرلی جائیں کیونکہ سینہ بہ سینہ پپو کی مخبریوں کے بغیر مزہ نہیں دیتا۔۔
سب سے پہلے تو ایک بریکنگ نیوز لے لیں۔۔ پپو نے بتایا ہے کہ جس طرح وفاق میں حکومت کے پاس “چڑیا” ہے اسی طرح پنجاب میں بھی سلسلہ جاری ہے۔۔پپو کے مطابق ایک صاحب 18 ویں گریڈ کے افسر ہیں لیکن ان کے پاس پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ پنجاب کا بھی اضافی چارج ہے۔۔پپو کا دعوی ہے کہ بابو صاحب پر ایک ایسے صاحب کا ہاتھ ہے، جن کی زندگی صحافت کے شعبے میں گزری ہے، ایک چینل کے درپردہ مالک ہیں، ایک مشہور اخبار کے ساتھ ساتھ اسی اخبار کے نام سے ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں، اور ہر سرکاری اشتہاری مہم کا دس فیصد ان صاحب کے میڈیا گروپ کو جاتا ہے۔۔پپو بتاتا ہے کہ محترم صحافت کی دنیا میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں اور لاہور میں ہی ایک پیٹرول پمپ بھی رکھتے ہیں، حیرت انگیز طور پر یہ پٹرول پمپ ہر بار لیز کی تجدید بھی کرالیتا ہے جب کہ پورے لاہور میں کوئی پیٹرول پمپ سرکاری لیز پر نہیں۔ ۔ موصوف کے صاحبزادے اخباری مالکان کی تنظیم میں عہدہ بھی رکھتے ہیں۔۔ اور جمعہ کو انہی صاحب کی اربوں روپے مالیت کی بہت بڑی ہاؤسنگ اسکیم بھی لانچ ہونے جارہی ہے۔۔بابو صاحب جن اہم پوسٹوں پر تعینات ہیں وہاں سے وہ صحافت کے بڑے صاحب کے تمام مفادات کا مکمل خیال رکھتے ہیں، یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔۔
گزشتہ سینہ بہ سینہ میں کراچی کے ایک ہسٹری شیٹر رپورٹر کی تھوڑی بہت کلاس لی تو پپو نے میری کلاس لے لی۔۔ فون پر کہتا ہے کہ کیا ضرورت تھی ہسٹری شیٹر کو اتنی اہمیت دینے کی؟ میں نے کہا پپو بھائی وہ آپ کو اور مجھے گالیاں دیتا پھر رہا ہے دماغ تو درست کرنا تھا، پپو نے میری بات سن کر قہقہہ لگایا اور کہا۔۔ عمران بھائی کتوں کے بھونکنے سے قافلے رکتے نہیں، ذرا سوچو آپ ورکرز کے مسائل اجاگر کرکے ایک طرح سے “کارخیر” کررہے ہو، کوئی بھی چینل آپ سے خوش نہیں، لیکن ہر چینل کے کارکنان اندرون خانہ آپ کو دعائیں دیتے ہیں، یہ بیچارے اتنے مجبور ہیں کہ اپنے حق کیلئے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے، آپ کی شکل میں انہیں ایک ایک مسیحا نظر آتا ہے جو ان کے مسائل کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان کی خبرگیری کرتے ہوئے ان تمام مسائل کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔۔۔۔ ایک منٹ ایک منٹ۔۔۔ ہم نے پپو کی بات کاٹتے ہوئے اسے روکا۔۔ یار تمہاری باتوں سے تو لگ رہا ہے تم مجھے لیڈر ٹائپ کوئی شئے بنانے کے چکر میں لگے ہو۔۔ اب پپو کی باری تھی۔۔ کہنے لگے۔۔ لیڈر ویڈر بنارہا ہوں نہ آپ نے بننا ہے، میں آپ کو صرف سمجھا رہا ہوں کہ آپ اپنا کام کریں، ہسٹری شیٹر ٹائپ کے لوگ آپ پر بھونکیں گے، کچھ کاٹنےکو دوڑیں گے، لیکن ان سے گھبرانے، ڈرنے اور انہیں جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں، ان لوگوں کی نوکریاں سیٹھوں کے تلوے چاٹتے گزرتی ہے، اس لئے جیسا انہیں اشارہ ملتا ہے یہ دم ہلا کے اپنے آقا کی تعمیل کرتے ہیں، اس لئے آپ کو ایک بار پھر سمجھا رہا ہوں کہ ایسے لوگوں کو نظر انداز کردیا کرو۔۔ یہ گالیاں دیتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، شور کرتے ہیں یا پراپیگنڈا، آپ کو اپنے کام پر فوکس رکھنا ہے، چلو ٹھیک ہے پپو بھائی ، لیکن ایک دو کیسز ہیں ہسٹری شیٹر کے وہ تو اس بار بتانے دو۔۔۔ ہم نے پپو سے اجازت چاہی، لیکن انہوں نے سختی سے منع کردیا ، کہا کہ یہ آپ کا لیول نہیں کہ ” ٹچوں” کو جواب دیں۔۔ پپو بھائی اس طرح تو کوئی بھی کل کو اٹھ کر گالیاں دے گا، پراپیگنڈا کرے گا دھمکیاں لگائے گا، کیا ایسے لوگوں کا منہ بند کرانا ضروری نہیں۔۔۔ پپو نے ہماری بات کو تحمل سے سن کر کہا۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں، جس کا جو کام ہے کرنے دو، آپ سنت نبویﷺ پر عمل کریں، ہمارے نبی ﷺ کو بھی لوگوں نے گالیاں دیں انہوں نے کسی کو جواب نہیں دیا، آپ کم سے کم یہ سنت پوری کریں شاید یہی آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے۔۔
پپو بھائی نے بات تو درست کی جو دل کو بھی لگی، لیکن اس نگوڑ مارے غصے کا کیاکروں، غلط بات پہ لازمی آجاتا ہے،بہرحال اب پوری کوشش ہوگی کہ فضول چکروں میں نہ پڑوں، کام سے کام رکھوں، ہاں البتہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی شکایت ہے، میری کسی بات سے دکھ پہنچے، اسے لگتا ہو کہ میں نے غلط کہا ہے تو انباکس میں مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے،ضرور ان کا موقف بھی لکھوں گا،کیونکہ کئی بار بتاچکا ہوں کہ یہ بلاگ نیک نیتی کی بنیاد پر لکھتا ہوں، مجھے کسی سے کوئی میڈل نہیں لینا، کسی کو بلیک میل نہیں کرتا، کسی کی آفر قبول نہیں کرتا، اس کی آڑ میں اپنے کام نہیں نکلواتا، غلط کو غلط کہتا ہوں، اچھے کام کی تعریف کرتا ہوں، بنیادی مقصد صرف ایک ہی ہے کہ میڈیا اور صحافت کی فیلڈ سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ ہوجائے اگر خاتمہ نہیں ہوسکتا تو کم سے کم ان کی نشاندہی ضرور ہوجائے کہ کون لوگ ہیں جو ہماری فیلڈ کیلئے نقصان دہ ہیں۔۔
چلں اب واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔۔ گزشتہ ہفتے پی ٹی وی کے قاسمی صاحب کے متعلق بتایا تھا کہ انہوں نے ایم ڈی کے اختیارات بھی ازخود لے لئے،پپو کی اس خبر کا حکام نے نوٹس لے لیا۔۔اور ان سے ایم ڈی کے اختیارات لے کر سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا کو دے دیئے۔۔کیوں کہ قاسمی صاحب کے حوالے سے پی ٹی وی میں روز نیا لطیفہ سامنے آرہا تھا، ایک تو پپو نے بھی سنایا تھا کہ کسی نے پی ٹی وی کے سیکورٹی گارڈ سے پوچھا کہ تم چھٹی کیوں نہیں کرتے اس نے برجستہ کہا۔۔غیرحاضری کی صورت میں کہیں قاسمی صاحب ہی گارڈ نہ لگ جائیں۔۔۔
پپو نے چینلز پر تنخواہوں کے بحران کے حوالے سے ایک حل بھی پیش کیا تھا، گزشتہ سینہ بہ سینہ میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے، پپو کی اس بات کا بھی نوٹس لیاگیا ہے، آج اسلام آباد میں سینیئر صحافیوں کے ایک وفد نے چیئرمین پیمرا سے ملاقات کی اور ورکرز کا استحصال کرنے اور تنخواہیں تاخیر سے دینے والے چینلز کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔۔ چیئرمین پیمرا نے وفد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اگلے ہفتے چینل مالکان کے ساتھ اجلاس میں اس معاملے کو اٹھائیں گےاور کارکنوں کا استحصال نہیں ہونے دینگے۔۔
صحافیوں کے لئے ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ اب صحافیوں کی بیویوں کو ریلوے کرائے کی مد میں حاصل پچاس فیصد رعایت کو بحال کردیاگیا ہے۔۔پہلے یہ رعایت مشروط تھی کہ بیوی کو شوہر کے ساتھ سفر کرنے پر پچاس فیصد رعایت ملتی تھی۔۔لیکن اب ریلوے کارڈ کے حامل کسی بھی صحافی کی اہلیہ اپنے شوہر کے بغیر اکیلے بھی ریلوے کرائے میں پچاس فیصد رعایت کی مستحق ہوگی۔۔
پاکستان میں ایک اور نیاقانون بننے جارہا ہے،اس مرتبہ حکومت یہ مہربانی صحافیوں پرکررہی ہے۔۔جرنلسٹ ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل پر مشاورت کیلئے گزشتہ پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک مشاورتی اجلاس ہوا۔۔حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب اجلاس میں آغاز سے ہی موجود رہیں۔۔انہوں نے اپنی مختصر اختتامی تقریر میں ایسا انکشاف کیا جس سے اجلاس سوالیہ نشان بن گیا۔۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بل کا جو مسودہ پیش کیاگیا ہے وہ تازہ ترین نہیں بلکہ ابتدائی کاپی ہے۔۔ جس پر شرکا اپنا سا منہ لے کر منتشرہوگئے۔۔نئے بل میں جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ کے نام سے صحافیوں کو موت، زخمی یا بیماری کی صورت میں اہل خانہ کی مالی مدد کی جائے گی۔۔جس کیلئے ابتدائی طور پر حکومت بیس کروڑ کی رقم دے گی جب کہ میڈیا مالکان بھی سالانہ اس مد میں رقوم دینگے۔۔حکومت اس قسم کا ایک اور مشاورتی اجلاس مئی میں کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔۔قانون کے مطابق میڈیا مالک سال میں کم سے کم ایک تربیتی ورکشاپ کا پابند ہوگا۔۔وزیرمملکت نے صحافیوں کو یہ یقین بھی دلایا کہ ایک نئے ویج بورڈ ایوارڈ کے قیام کا فیصلہ جلد کیا جائے گا۔۔ وزیرمملکت نے اتفاق کیا کہ صحافیوں کی تنخواہوں کاازسرنو تعین کرنے کی قانونی ضرورت پوری کی جانی چاہیئے۔۔حیرت انگیز طور پر ماضی میں مارے جانے والے صحافیوں کے مقدمات میں پیش رفت یا اس میں ملوث لوگوں کو سزائیں دینے سے متعلق نئے قانون میں کوئی ذکر ہی نہیں۔۔۔
چینلز کے حوالے سے بات کرینگے تو سب سے پہلے ذکر بول کا ہوگا۔۔بول کے متعلق خبریں تو لاتعداد ہوتی ہیں، بول سے محبت رکھنے والے دوستوں کا شکوہ ہے کہ اب پپو بول کے حوالے سے مخبریاں نہیں دیتا، وہ مخبریاں تو دیتا ہے لیکن دل نہیں کرتا ،دل بھی دکھتا ہے کہ ایسے ادارے کے خلاف خبر کیسے دوں جس کیلئے 17 ماہ بیروزگاری کاٹ کر سڑکوں پر جدوجہد کی۔۔پرانی باتیں دہرانے سے بہتر ہے کہ بول پر مزید کچھ باتیں کرلی جائیں۔۔ پچھلے دنوں اچانک بول انتظامیہ کو احساس ہوا کہ مخالفین(حریف میڈیاگروپس) نے ایگزیکٹ کے خلاف پھر چھریاں تیز کرلی ہیں۔۔خطرے کو بھانپتے ہوئے کراچی پریس کلب کے وفد کو بول کے دورے کی دعوت دیدی۔۔ بول بحالی تحریک میں بہت بڑا حصہ ڈالنے والے استادمحترم خانزادہ صاحب۔۔ بڑے بھائیوں کی طرح فاضل جمیلی صاحب (سابق سیکرٹری و صدر پریس کلب) اور موجودہ صدر کراچی پریس کلب سراج احمد بھائی اور سیکرٹری مقصود یوسفی صاحب دعوت پر بول پہنچے تو مدعی سست گواہ چست کی مثال دیکھنے میں آئی، شعیب شیخ صاحب وفد سے نہ ملے ان کی جگہ وفدسے ملاقات کیلئے انتظامیہ کی جانب سے فیصل عزیز خان سامنے آئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی، کراچی پریس کلب کے وفد نے بول انتظامیہ کو ایک بار پھر بتادیا کہ وہ ہمیشہ کارکنان کے ساتھ کھڑے تھے ، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔۔ادارے مالکان کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن پریس کلب کارکنان کے مفادات کو پہلے دیکھتا ہے، وفد نے بول انتظامیہ کو پرانے بول والاز کی واپسی اور ان کے بقایاجات کے حوالے سے پوچھا کہ یہ معاملات کب تک حل ہورہے ہیں، جس پر بول انتظامیہ کی جانب سے کوئی ڈیڈلائن تو نہیں دی گئی لیکن حسب روایت ایک بار پھر ایک سے دوماہ میں سب کو واجبات کی ادائیگیوں کی یقین دہانیاں کرادی گئیں، اس سلسلے میں انہوں نے کافی رکاوٹیں ، ریکارڈ کا ضائع ہوجانا، ڈپارٹمنٹل ہیڈز کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ بھی بتایا۔۔ پپو کا تجزیہ ہے کہ بول انتظامیہ اور کراچی پریس کلب کے درمیان وفد کی جو ملاقات ہوئی اپنے نتائج نہ دے سکی، کلب کے وفد نے یہ تاثر لیا کہ چونکہ شعیب شیخ صاحب خود ملنے نہیں آئے اس لئے شاید انہیں اہمیت نہیں دی گئی، جب کہ بول انتظامیہ کو ان معنوں میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ وفد نے انہیں صاف جواب دے دیا کہ کل کو کوئی بات ہوتی ہے تو وہ کارکنان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔۔
بول کی مزید بات کرتے ہیں، بول کے شاندار آڈٹیوریم میں گزشتہ دنوں ماہانہ ایکس ون تھاؤزینڈ نامی تقریب ہوئی، جس کے متعلق پپو نے اسی روز بتادیا تھا،اس تقریب میں بول اور ایگزیکٹ والاز(جو بول میں زمہ داریاں نبھارہے ہیں)پر انعامات و اکرام کی بارش کی گئی۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں سب سے زیادہ ایگزیکٹ والوں کو نوازا گیا، جن کے انکریمنٹ سوچ سے بڑھ کے تھے، مثال کے طور پر ایک صاحب کی تنخواہ 65 ہزار تھی انہیں انکریمنٹ کے بعد ایک لاکھ 80 ہزار ملیں گے، گاڑی مہران تھی، اب ہنڈا سٹی دی گئی ہے، اس قسم کی نوازشات صرف ایگزیٹ والوں پر ہوئی، یہ وہ ایگزیکٹ والے ہیں جن سے اگر اردو حروف تہجی لکھوائیں تو شاید وہ بھی ٹھیک سے نہ لکھ سکیں۔۔اور اردو کا چینل چلارہے ہیں۔۔ ویسے تو کثیر تعداد میں ایسے کاپی رائٹرز اور کاپی ایڈیٹرز بھی رکھے گئے ہیں جو بیچارے اردو ٹائپ نہیں کرسکتے، رومن میں اسکرپٹ تحریر کرتے ہیں۔۔اس تقریب میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول بند ہونے سے پہلے والے شعیب شیخ صاحب اور تھے،اور اب ان کا دوسرا چہرہ ہے، پہلے وہ میڈیا کے سیٹھوں کو برابھلا کہتے تھے، اب خود ان کا رویہ کسی سیٹھ سے کم نہیں۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ پہلے بول والاز شیخ صاحب کو ورکردوست سمجھتے تھے انہیں اپنا سمجھتے تھے اسی لئے ہر طرح کا سخت سے سخت سوال پوچھ لیتے تھے، اب کوئی سوال کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں کہ اگر صاحب ناراض ہوگئے تو پھر نوکری گئی۔۔حالانکہ ایسا ہوا تو نہیں کہ کسی کے سخت سوال پوچھنے پر اسے فارغ کیاگیا ہو لیکن شاہ سے بڑھ کے شاہ کے وفادار سوال کرنے والے سے متعلق شیخ صاحب پر ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جیسے وہ سوال جیووالوں نے پوچھوایا ہو۔۔یاجیسے وہ بندہ جیو سے تعلق رکھتا ہو۔۔(میرے متعلق بھی شیخ صاحب کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عمران جونیئر اصل میں جیو کا بندہ ہے، جیو کے کہنے پر بول کے معاملات کھول کھول کر سامنے لارہا ہے، اس پراپیگنڈے کے پیچھے وہی منافق ٹولہ ہے، جس نے بول بحالی تحریک میں خوب مال سمیٹا، تنخواہیں لیں، تمام مراعات لیں اور دیگر اداروں میں نوکریاں بھی کیں، یہ نادان اتنا نہیں جانتے ہیں کہ ایسی باتیں ہماری فیلڈ میں چھپی نہیں رہتی، اگر میں بلیک میلر ہوتا یا فائدے اٹھانے والا ہوتا تو کبھی ہر چینل سے پنگے نہ لیتا، سوچنے کی بات ہے مجھے کتنی رکعت کا ثواب ملتا ہے یہ سب لکھ کر؟) تقریب کے دوران کسی نے سوال کیا کہ واجبات کب تک ملیں گے تو آگے سے جواب ملا کہ ۔۔۔ مشکل وقت میں آپ نے کام کرکے بول پر کوئی احسان نہیں کیا، آپ کے واجبات آپ کو مل جائیں گے۔۔۔کسی بیچارے کی شامت آئی تو اس نے غلطی سے یہ پوچھ لیا کہ بول میں پرائم ٹائم میں ہمارے پاس اداکار ہوتے ہیں جب کہ دیگر چینلز میں اس دوران حامد میر، نسیم زہرا، عارف نظامی وغیرہ وغیرہ جیسے نامور صحافی ہوتے ہیں، پھر ہمارا چینل کون دیکھے گا؟۔۔ جس پر جواب دینے کے بجائے اسے یہ کہا گیا کہ ۔۔ کل تم اان صحافیوں کی کوالی فیکیشن لے آنا، میں اپنے اینکرز کی کوالی فیکشن لے آؤنگا۔۔پھر دیکھیں گے کہ کہاں معیار ہے اور کون کیا کررہا ہے؟ ۔۔ جب سوال گندم اور جواب چنا ہو تو پھر سوال نہیں ہوتے نہ کچھ پوچھنے کا حوصلہ رہتا ہے۔۔پپو نے انکشاف کیا کہ تقریب میں بول والاز کو صرف پلاسٹک کی شیلڈز دی گئیں، ان کے جو انکریمنٹ لگے ہیں ان کا اطلاق فوری طور پر نہیں بلکہ ستمبر میں جاکر کہیں ہوگا۔۔گریڈز بڑھائے ہیں لیکن گریڈ بڑھنے سے دوسوروپے کلو فروخت ہونے والی دال سوروپے کلو کی تو نہیں مل سکتی؟
بول کا ذکر ابھی جاری ہے۔۔ بول کے وینڈرز نےبحران کے دنوں میں کوئی کام نہیں روکا، سب کام پورے طریقے سے کئے لیکن اب یہ بھی ادائیگیوں کیلئے رو رہے ہیں، کچھ وینڈرز نے سندھ ہائی کورٹ میں کیس کردیا ہے، معاملہ چونکہ عدالتی ہوگیا ہے اس لئے اس معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کرونگا البتہ جیسے ہی اس حوالے سے کوئی اپ ڈیٹس ملیں تو ضرور شیئر کرونگا۔۔۔ ایگزیکٹ کیس کی سماعت بھی بیس اپریل کو ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ۔ سپریم کورٹ میں ہی اسحاق ڈار کے حوالے سے غلط خبر چلانے کی خبر پر پیمرا کی جانب سے عائد دس لاکھ روپے کا جرمانہ کے خلاف اپیل میں بول کے وکیل نے عدالت عظمی کے سامنے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو بول سے نکال دیا گیا ہے۔۔سپریم کورٹ میں معزز ججوں نے کافی ریمارکس بھی دیئے لیکن موضوع کی طوالت کے باعث یہاں زکر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔۔بول کے حوالے سے ہی ایک خبر یہ بھی ہے اسلام آباد کے ہمارے سینیئر دوست سبوخ سید نے بھی بول سے استعفا دے دیا ہے۔۔ سبوخ سید نے بول بحران کے دنوںمیں اسلام آباد کا مورچہ سنبھالا ہوا تھا، بول ورکرز ایکشن کمیٹی کے مرکزی صدر تھے، کافی تکلیف کے دن گزارے، لیکن اب ان کابھی کہنا ہے کہ بول میں صحافت کے علاوہ سب کچھ ہورہا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہےکہ بول انتظامیہ نے ان سے استعفا واپس لینےکیلئے رابطے شروع کردیئے ہیں۔۔
دوستو، بول پر کہنے کو تو بہت کچھ ہے، درجنوں واقعات اور مزید خبریں ہیں لیکن میرا خیال ہے آج کیلئے بول پر کافی سے بھی زیادہ بات ہوگئی، جب خبر ہوتی ہے تو لازمی شیئر کرتا ہوں، ۔۔ بول کے واجبات کیلئے کراچی میں کچھ دوست اکٹھے ہوگئے ہیں، عنقریب کراچی پریس کلب میں میٹنگ کرکے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے، بہت ممکن ہے کہ مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کے موقع پر یہ لوگ بول کے ہیڈآفس اپنےمزدوری مانگنے جائیں ۔۔۔
چلیں اب بولستان سے نکل کر کردیگر معاملات کی طرف آتے ہیں۔۔ پپو نےشدید اعتراض کیا ہے کہ جب وہ کوئی خبر دیتا ہے اور وہ سینہ بہ سینہ میں لگ جاتی ہے پھر اس کےبعد کوئی اپنی صفائی پیش کرتا ہے ،وضاحت یا موقف دیتا ہے تواس کے ساتھ پپو کا موقف بھی کیوں نہیں دیا جاتا، لاسٹ سینہ بہ سینہ میں واقعی غلطی ہوگئی، دو خواتین اینکرز کا موقف تو دے دیا لیکن پپو کا موقف نہیں دیا، خبر چونکہ پپو نے دی تھی اس لئے ان کا موقف بھی دیا جانا ضروری تھا، خیر تیرکمان سے نکل گیا، اب اگلی بار احتیاط کرونگا۔۔ پپو نے اس بار ایک خاتون اینکرکے حوالے سے دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔۔یہ واضح کردوں کہ میں ان محترمہ کو نہیں جانتا، اگر کسی محترمہ کو لگےکہ پپو نے یہ انکشافات اس سے متعلق کئے ہیں تو وہ اپنا موقف دے سکتی ہیں۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ کراچی کی ایک خاتون اینکر ایسی ہیں جو تین بار گریجویشن کے امتحان میں بیٹھیں لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، محترمہ صرف انٹر پاس ہے، آج تک جتنے چینلزپر نوکریاں کیں وہاں اپنے تعلیمی سرٹیفیکٹس جمع نہ کراسکیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ رواں سال اس کی گریجویشن کی رجسٹریشن کا آخری سال ہے اور اس وقت بھی اس کے تین پیپر رکے ہوئے ہیں۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ یہ خاتون اینکر بڑے فخرسے لوگوں کو بتاتی ہے کہ اس نے آغا خان اسکول سے پڑھا ہے جب کہ حقیقت میں ایثار فاؤنڈیشن سے تعلیم حاصل کی ہے۔۔پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ محترمہ اپنے والد کو ایک اہم سیاسی شخصیت کا ایڈوائزر بتاتی ہے لیکن حقیقت میں ان کی کٹی پہاڑی کے قریب قصبہ کالونی میں ماربل کی دکان ہے۔۔پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ محترمہ متوسط طبقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے شدید احساس کمتری کا شکار ہیں۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خود کو “حیدری” کا رہائشی بتاتی ہے جب حقیقت میں شپ اونر کالج کے طرف ایک چھوٹی سی بستی میں کرائے کے گھر میں رہتی ہے۔۔پپو نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ان کی والدہ بھی خود کو ان کی بڑی بہن بتاتی ہیں۔۔محترمہ کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ اے آر وائی میں مایا خان کی “اے پی” تھیں جب کہ حقیقت میں یہ ان کی ٹیم میں بطور رضاکار شامل تھی۔۔پپو کو حیرت اس بات پر ہے کہ اسے مختلف چینلز پر کیوں اور کیسے نوکریاں ملتی رہیں جب کہ یہ صرف انٹر پاس ہے کیا کسی ادارے کے ایچ آر کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کی تعلیمی اسناد ہی چیک کرلے۔۔جس چینل میں کام کررہی ہیں وہاں نیچے سے اوپر تک سارا عملہ اس کے “نخروں” سے تنگ ہے۔۔ پپو کا یہ بھی بتانا ہے کہ اس نے اپنےموجودہ چینل میں ایک لڑکے کو جاب دلوانے کیلئے بلوایا اسے سمجھایا کہ خود کو ساحرلودھی کے شو کا ” کونٹینٹ رائٹر” بتائے لیکن اس بیچارے کو بھی چینل”اے پی” کی نوکری ملی۔۔ محترمہ کو شاعرہ بننےکا شوق چرایا تو کسی سے تین غزلیں لکھواکر “اوصاف” اخبار میں شائع کرائیں، قابلیت کا یہ حال ہے کہ محترمہ اسے بحر اور وزن میں ایک شعر نہیں لکھ سکتیں۔۔پپو کا یہ دعوی بھی ہے کہ محترمہ انتہائی غلیظ گالیوں کی گردان کرتی رہتی ہیں اور اس کا گواہ پورا چینل ہے۔ ۔ ایک عرصے تک ایک چینل کے پرڈیوسر کو اپنا بوائے فرینڈ بتاتی رہی لیکن اب اس سے دوری اختیار کرلی۔۔محترمہ کے متعلق پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاپنگ، ڈنر، اورکریڈٹ اس کا پرانا طریقہ واردات ہے۔۔پپو نے اور بہت کچھ بھی بتایا ہے لیکن اسے آئندہ کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں۔۔۔پپو نے ایک ایسی خاتون اینکر کے متعلق بھی تفصیلات دی ہیں جو پپو کے مطابق غیرملکی ہے، جس کا باپ بھی غیرملکی تھا۔۔اور جو کچھ عرصے پہلے تک ماڈلنگ کرتی رہی تھی لیکن اب اینکرینگ کے شعبے میں آگئی ہے۔۔یہ تفصیل بھی اگلی قسط میں دونگا۔۔۔
اب کراچی کے ہی ایک اور رپورٹر کا کارنامہ بھی سن لیں۔۔ پپو کاکہنا ہے کہ گھی فروش سیٹھ نے کراچی سے ایک اخبار بھی نکالا ہےجس کے رپورٹرز کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اسی ادارے کے چینل پر بھی “بیپر” دے سکتے ہیں۔۔اس پالیسی نے ادارے میں خبر بریک کی ایسی دوڑ شروع کردی ہے جس سے خبر کی افادیت اور اخلاقیات کی دھجیاں ہی بکھر کر رہ گئی ہیں۔۔اسی ادارےکے چینل کے ایک رپورٹر نے کینیڈا میں مقیم ایم کیوایم کے ایک رہنما سے واٹس ایپ پر پوچھا کہ پاکستان کب آرہے ہیں، ان کا جواب آیا کہ فی الحال کوئی ارادہ نہیں، رپورٹر نے یہ خبر کچھ اس طرح سے بریک کی کہ ۔۔ ایم کیوایم پاکستان کی امیدوں پر پانی پھر گیا، پھر واٹس ایپ کے اسکرین شاٹ کے ڈبےبھی گھمائے گئے۔۔جواب میں ایم کیوایم کے ترجمان نے اس رپورٹر کو آفیشیل واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا اور کراچی کےبیوروچیف سے بھی شدید احتجاج کیا۔۔یہ سب ہوا کیوں؟ کچھ دن پہلے اسی گروپ کے اخبار کے رپورٹر نے خبردی تھی کہ کینیڈا میں مقیم رہنما بہت جلد ایم کیوایم پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں جس کیلئے کوششیں تیز کردی گئی ہیں، اس خبر کی پارٹی کی جانب سے کوئی تردید نہیں کی گئی۔۔چینل پر جب اسی گروپ کے اخبار کے رپورٹر کی تردید چلی تو ہیڈآفس سے اس کارنامے کو سراہا گیا ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ یہ سراہا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اخلاقیات اور صحافت گئی کوکنگ تیل لینے۔۔ اب ادارے کی پالیسی چلے گی۔۔
اخبار کا ذکر آیا ہے تو پھر وڈے اخبار کی بھی سن لیں۔۔ پپو نے مخبری دی ہے کہ وڈے اخبار کے فیصل آباد ایڈیشن میں اب تک چار ایڈیٹر تبدیل ہوچکے ہیں، موجودہ ریزیڈنٹ ایڈٹر صاحب کی وجہ سے روزنامہ جنگ فیصل آباد کی واحد اور اکلوتی سب ایڈیٹر شدید مشکلات کا شکار ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ محترمہ کو رات دو اور تین بجے تک آفس میں روکا جاتا ہے، اس سلسلے میں جب اعلیٰ حکام سے رابطہ کیاگیا تو انکوائری شروع ہوگئی۔۔ جس کے بعد محترمہ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی شکایت واپس لیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اگر وہ شکایت واپس لیتی ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی پرانی روٹین برقرار رہنی ہے، نہیں لیتی تو نوکری جانے کا خدشہ ہے، پپو نے وڈے اخبار کی اعلیٰ انتظامیہ سے سوال کیا ہے کہ جس طرح کراچی ہیڈآفس میں وڈے اخبار اور وڈے چینل میں کام کرنے والی خواتین کو تحفظ اور مراعات حاصل ہیں، دیگر اسٹیشنز پر خواتین کو وہی تحفظ حاصل کیوں نہیں؟؟
اب پپو کی کچھ مختصر مختصر خبریں پیش خدمت ہیں۔۔۔
ابتک نیوز کے نوجوان اینکر مرید عباس نے استعفا دے دیا۔۔
نیونیوزکی خاتون اینکر ہدیٰ شاہ نے 24 نیوز چینل جوائن کرلیا۔۔
ڈان ٹی وی سے اینکر مہوش تبسم نے استعفا دے دیا۔۔ اس سے پہلے ایک اور خاتون اینکر رباب بھی استعفا دے چکی ہیں۔۔
رفعت عالم صاحب نے بطور سی ای او، دن نیوز چینل جوائن کرلیا ہے۔۔
اے آر وائی کراچی کے بیورچیف ایس ایم شکیل کا کامیاب ٹرانسپلانٹ اوجھا کیمپس کراچی میں مکمل ہوگیا۔۔ انہیں صحت یابی میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔۔
وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو پندرہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن یا کسی اور مراعات کے حقدار نہیں ہونگے۔۔
کراچی میں سندھ کے محکمہ اطلاعات کے شعبہ فلم اینڈ پبلی کیشن میں پراسرار طور پر آگ لگنے کا واقعہ ہوا ہے۔۔دوہزار آٹھ کے بعد سے مختلف نوعیت کے ریکارڈ جو آگ میں جل گئے۔۔آگ لگنے کی وجوہات کا علم نہ ہوسکا۔۔
آج ٹی وی پر تیرہ اپریل کو دوپہر بارہ بجے کے بلیٹن کی ہیڈلائنز میں انگریزی فلم کے ٹریلر کے دوران غیراخلاقی منظر دکھائے جانے پر پیمرا نے بیس اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔۔
آئی جی سندھ کے خلاف من گھڑت خبرچلانے پر 24 چینل پر تین لاکھ روپے جرمانہ، ابتک نیوز پر دولاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔۔ پیمرا نے ایک ہفتے میں معذرت نشر کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔۔
بزنس پلس ٹی وی کراچی میں کارکنان جہاں تنخواہوں سے محرومی کا شکار رہتے ہیں وہیں اب اس چینل نے کارکنوں کی برطرفیاں بھی شروع کردی ہیں۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق چینل انتظامیہ اپنے ورکرز سے دو ، دو سال کے معاہدے بھی زبردستی کرارہی ہے جس کے تحت معاہدے پر سائن کرنے والا کوئی بھی کارکن دو سال تک ادارہ نہیں چھوڑ سکے گا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ یہ کیا مذاق ہے؟ ایک تو کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دیتے، وہ بیچارہ تنگ آکر کسی اور ادارے میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔
آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ ملتے ہیں ایک شارٹ بریک کے بعد۔۔۔ جب تک اپنا خیال رکھئے گا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔۔