سینہ بہ سینہ پارٹ 69
دوستو، ایک بار پھر حاضر ہوں۔۔کچھ مزید باتوں کے ساتھ۔۔ پپو کی تازہ مخبریوں کے ساتھ۔۔آپ کا فیوریٹ سلسلہ سینہ بہ سینہ لے کر جب بھی حاضری لگاتا ہوں تو صحافت کا لبادہ اوڑھنے والی کالی بھیڑیں ٹینشن میں آتی ہیں۔۔جوشدت سے انتظار کرتے ہیں کہ اس بار پپو نے کس کالی بھیڑ کا چہرے سے نقاب اٹھائی ہے۔۔مزید باتیں پھر کرینگے جلدی جلدی پپو کی مخبریوں پہ بات ہوجائے۔۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں، کراچی کے ایک چینل پر کام کرنے والے ہسٹری شیٹر رپورٹر کی۔۔ موصوف سے متعلق پپو کی کچھ مخبریاں گزشتہ سینہ بہ سینہ میں لکھی تھیں۔۔جس پر وہ آگ بگولہ ہوگیا۔۔ گالیوں،دھمکیوں اور پولیس و رینجرز سے اٹھانے کی باتوں پر اتر آیا، لیکن پپو کی کسی ایک مخبری کا جواب نہیں دے سکا۔۔
کیا اس کے خلاف پانچ ایف آئی آر کراچی کے مختلف تھانوں میں درج نہیں ؟
کیا اس کے موجودہ چینل مالکان نے اپنے ایک پروگرام کااس سے غائب ہونے والا ڈیٹا ریکور نہیں کرایا؟
کیا وہ مختلف صحافیوں کو پولیس و رینجرز سے اٹھوا کر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنوانے میں ملوث نہیں رہا
کیا اس کی سرپرست ایک صحافتی تنظیم نہیں؟
کیا اس کی تعلیمی قابلیت اتنی ہے کہ اسے کسی چینل پر رپورٹر رکھا جاسکے؟
کیا اس کے کراچی پریس کلب کے عہدیداروں اور دیگر صحافیوں سے آئے روز جھگڑے نہیں ہوتے؟
پپو کہتا ہے کہ ہر صحافتی تنظیم کے کچھ خفیہ ہتھیار ہوتے ہیں، یہ ہتھیار مارکیٹ میں دھڑلے سے بدمعاشی کرتے نظر آتے ہیں،کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان پر پوری تنظیم کا ہاتھ ہے، اگر آپ اپنے آس پاس نظریں دوڑائیں تو پتہ چلا گا کہ کون کس تنظیم کی شہ پر “شیر” بنا گھوم رہا ہے جب کہ حقیقت میں ان کی اوقات کسی “چوہے” سے زیادہ نہیں ہوتی۔۔ایسے ہی کچھ چوہے مونچھوں کو تاؤ دے کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ بہت بڑے بدمعاش ہیں، مونچھوں سے کوئی بدمعاش ہوتا تو لال بیگ سے بڑا دنیا میں کوئی بدمعاش نہیں ہوتا۔۔یہ چوہے اپنے اداروں میں کام کے معاملےمیں بالکل نااہل ہوتے ہیں، لیکن ادارےانہیں صرف اس لئے “پال” رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل پڑی تو یہی لوگ کام آئیں گے۔۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی لوگ سب سے زیادہ فائدے میں ہوتے ہیں، ادارے میں کام کئے بغیر تنخواہیں لینا، باہر سے بھتے لینا۔۔اور صحافتی تنظیم کا ٹھپہ لگا کر ہمیشہ خود کو قانون سے بچانا۔۔پپو نے جب ایک ایسے ہی کردار کو گزشتہ سینہ بہ سینہ میں بے نقاب کیا تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔۔ باادب بانصیب بچپن سے سنتے آئے ہیں، اس نادان کی باتوں سے ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کے دماغ میں “خناس” بھرا ہوا ہے،ایک صحافتی تنظیم کی سرپرستی، چینل مالکان کی شہ نے اسے ساتویں آسمان پہ پہنچایا ہوا ہے۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی سوچ بس گالم گلوچ تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔۔ بیچارہ کرکچھ نہیں سکتا، کھمبے نوچے گا یا پھر کھمبے کو گیلا ہی کرے گا۔۔اس نادان کو یہ تک نہیں معلوم کہ کسی کی فیس بک وال پہ جاکر دھمکیاں دینے کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ گالیاں دینے سے کسی کا کیا بگڑے گا خود اس کے بارے میں میرے ہزاروں فالووورز جان گئے کہ اس کا خمیر کس غلیظ مٹی کا بنا ہوا ہے۔۔اس کے متعلق لاسٹ سینہ بہ سینہ میں بتایا تھا کہ مالکان کے اشاروں پر ساتھی ورکرز کو پولیس کے ذریعے گھروں سے اٹھوا لیتا ہے۔۔اس نے میری وال پر پولیس اور رینجرز سے اٹھوانے کاکمنٹس کرکےیہ ثابت بھی کیا ۔۔ ساری باتیں سچی تھیں جو اسکڈ میزائل کی طرح اسے لگی۔۔ بیچارہ کسی ایک کی تردید نہیں کرسکتا۔۔میں چاہتا تو اس کو پہلے ہی کمنٹس میں بلاک کردیتا مگر پھر یہ مظلوم بن کر پورے کراچی میں پراپیگنڈا کرتا کہ دیکھو میرے خلاف لکھ کر مجھے بلاک بھی کردیا، میرا موقف نہیں لیا۔۔ اب سب لوگوں نے اس کا موقف جان لیا ہوگا کہ موصوف نے میری ساری باتیں درست مان لی ہیں۔۔اور ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہے۔۔کسی چینل میں رپورٹر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوگیا یا کسی تھانے کا ایس ایچ او لگ گیا کہ جس کو مرضی اٹھوا لے گا، جس کو مرضی دھمکی دے لے گا۔۔اس سے زیادہ طاقتور تو چینلز مالکان ہیں، بڑے بڑے چینلز ہیں، جن کے خلاف میں پچھلے ڈیڑھ سال سے لکھتا آرہا ہوں، وہ آج تک کچھ نہ کرسکے ،تو پھر اس کی کیااوقات ہے،میں اگر صحافی دشمن ہوتا، کیریکٹر لیس ہوتا تو یہ سب مجھے پیس کر رکھ دیتے، میں اگر جھوٹ لکھ رہا ہوتا، تو یہ تمام چینلز والے میرے خلاف اب تک درجنوں کیسز دائر کرچکے ہوتے، جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، حکومت جن کی مٹھی میں ہوتی ہے، لیکن چونکہ وہ کانے ہوتے ہیں اس لئے خاموشی میں عافیت سمجھتے ہیں، جب کہ یہ تو کانا ہوکر بھی غرا رہا ہے۔۔الحمدللہ، بے داغ ماضی ہے، کوئی میرے ماضی اور حال پہ انگلی نہیں اٹھاسکتا، تیرا ماضی ،حال تو سب جانتے ہیں۔۔اور مستقبل تو اب خراب ہوگیا ہے۔۔ کیونکہ تو نے غلط جگہ پنگا لے لیا ہے۔۔ انسان کا بچہ ہونے کا ثبوت دیتا ۔۔پپو کی مخبریوں کا طریقے سے جواب دیتا، اپنا موقف بیان کرتا تو تو شاید میں تجھے بھول کر آگے بڑھ جاتا ، لیکن تجھے تیری اوقات بتانی ضروری ہوگی ہے۔۔ جس طرح ایک چینل میں یہ مالکان کے اشاروں پر کٹھ پتلی بناہوا ہے اور ان کی جوتیاں چاٹنے میں مصروف ہے کہ شاید اسے بیورو چیف بنادیا جائے۔۔اگر یہ سب انہی کی شہ پہ کررہا ہے تو پھر اسے بھی دیکھ لیں گے۔۔اور اگر یہ سرپرست صحافتی تنظیم کی شہ پہ کررہا ہے تو پھر اس تنظیم کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس مصیبت کوگلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔ صحافتی تنظیموں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کن لوگوں کی سپورٹ کررہی ہے؟ اگر وہ ایسے دونمبرلوگوں کی سرپرستی کرے گی تو پھر ایسی تنظیم دیگر کارکنوں پر اپنا کیا اثر ڈالے گی یہ اس کے ذمہ داران کو سوچنا ہوگا۔۔پپو نے صحافتی تنطیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے گلے میں “پٹہ ” ڈال کے رکھیں ورنہ ایسے لوگ کسی وقت بھی خود ان کیلئے تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔۔پپو نے موصوف کی مزید کئی کہانیاں بتائی ہیں۔۔ فی الحال جگہ کی کمی کے باعث اسے اگلی قسط کیلئے ملتوی رکھتے ہیں۔۔ کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے ہسٹری شیٹر۔۔ابھی کئی آفٹرشاکس لگنے ہے تجھے۔۔
گزشتہ سینہ بہ سینہ میں تین اینکرنیاں تین کہانیاں پپو نے دی تھیں۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ پپو جیسا بتاتا ہے ویسے ہی لکھ دیتا ہوں۔۔ اس حوالے سے دو خواتین اینکرز نے رابطہ کیا۔۔شرمندگی ہوتی ہے جب کوئی خاتون رابطہ کرکے شکایت کرے۔۔دونوں سے معذرت کی ہے۔۔ایک محترمہ نے بتایا کہ ماں بننے والی کوئی بات نہیں تھی اور نہ انجکشن لگا۔۔لیکن ساتھ ہی انہوں نے میرے بلاگ کو بھی سراہا ان کا کہنا تھا کہ اس بلاگ کے ذریعے کافی مسائل حل ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ اچھا ہے۔۔ انجکشن نہیں لگا، بالکل ایسا ہی ہوا ہوگا۔۔ پپو نے مجھے جو بتایا وہ لکھ دیا تھا، اب چونکہ ان محترمہ نے دوباتوں کی تردید کی تو میرا فرض ہے کہ آپ لوگوں تک یہ تردید بھی پہنچاؤں۔۔ ایک اور کہانی کے حوالے سے اور ایک خاتون اینکر کو لگا کہ یہ کہانی ان پر ہے اسی لئے انہوں نے اپنے شکوے شکایات کی پٹاری کھولی۔۔مارننگ شو کرنے والی یہ خاتون اینکر نے اپنی ذات ، کیرئر اور مارننگ شو کے حوالے سے کافی تفصیلات بتائیں، جس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ ۔۔ان کے حوالے سے تحریر کردہ تمام باتیں مکمل غلط ہیں۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔دو چینل بند ہونے پر انہوں نے بطور نیوزاینکر انہیں خیرباد کہا۔۔ایک چینل سے استعفا دیا۔۔ اور آج کل ایک چینل پہ مارننگ شو کررہی ہیں، جس میں اکثر وی آئی پیز گیسٹ ہوتے ہیں۔یہ تھی دونوں اینکرز کی باتیں۔۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کہانیوں میں ان دونوں اینکرز کا نام نہیں تھا، لیکن انہیں لگا کہ یہ کہانی انہی کے متعلق تحریر کی گئی ہے۔۔اب میں کیا کروں،مجھ تک پپو کے ذریعے تصویر یا کہانی کا ایک رخ پہنچتا ہے، جن لوگوں کا مجھ سے رابطہ نہیں ہوتا یا جنہیں میں نہیں جانتا پھر مجھے وہی ایک رخ لکھنا پڑتا ہے،لیکن جن سے رابطہ ممکن ہوجاتا ہے تو تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کردیتا ہوں۔۔ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک بار تصویر کا ایک رخ پیش کرتا ہوں تو اگلی بار تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے کیونکہ متعلقہ شخصیت ازخود ڈھونڈ کر رابطہ کرلیتی ہے اور اپنا موقف پیش کردیتی ہے۔۔سینہ بہ سینہ میں کافی مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔۔خواتین اور خواتین اینکرز کے حوالے سے کچھ تحریر کرتے ہوئے پہلے سے کافی محتاط ہوگیا ہوں، پپو کے ذریعے سے خواتین سے متعلق کسی بھی اطلاع پرکوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی محترمہ کا نام نہ جائے، میرے بہت سے دوست گواہ ہونگے کہ وہ انباکس میں نام پوچھتے ہیں انہیں بھی منع کردیتا ہوں کہ نام بتانا ہوتا تو لکھ نہ دیتا۔۔ کافی فلٹر لگانے کے باوجود پھر بھی کسی کو شکایت ہوتو پھر اس کا موقف لکھ دیتا ہوں۔۔ اس سے زیادہ میں کچھ کر نہیں سکتا۔۔ خواتین اینکرز کا اکثر یہ الزام تو بہت عام ہے کہ میں لوگوں کی کردار کشی کررہا ہوں۔۔ اب اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔پہلے بھی کئی بار بتاچکا ہوں کہ یہ سب نیک نیتی کی بنیاد پر تحریر کرتا ہوں، ہر بلاگ میں اوسطا” ایک درجن سے زائد خبریں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے ایک آدھ پر شکایت آجائے تو میرا فرض بنتا ہے کہ اس شکایت کا ازالہ بھی کیا جائے، اور ازالہ صرف شکایت کنندہ کا موقف لکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔۔امید ہے میری باتوں کی سمجھ آنے لگی ہوگی آپ لوگوں کو۔۔۔
پچھلی بار بھی میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کے مسائل پر بات کی تھی، اے آر وائی نے اچھا رسپانس دیا ، دس دن میں دو ماہ کی رکی ہوئی تنخواہیں دے دیں۔۔باقی ادارے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔۔۔بزنس پلس کراچی کے ذمہ دار ایک بڑے صاحب پچیس ہزار روپے ایکسرسائز والے “جم” کو دے سکتے ہیں لیکن تنخواہوں پر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔۔ سی ٹی وی کہنے کو تو غیرملکی چینل ہے اور لینڈنگ رائٹس پر پاکستان میں چل رہا ہے لیکن یہاں بھی کارکنوں کو دو ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔۔ یہی حال کے 21 چینل کا ہے۔۔گزشتہ سینہ بہ سینہ میں ابتک نیوز کی ایک خاتون رن ڈاؤن پرڈیوسر سے متعلق پپو نے مخبری دی تھی، جس کے کمنٹس میں اسی چینل کی ایک محترمہ نے اس کی تردید کی اور کہا کہ وہ چھٹیوں پر ہیں ، یعنی پپو نے غلط مخبری دی کہ انہوں نے ڈی این کو کھری کھری سنا کر نوکری چھوڑ دی۔۔ اب حیرت کی بات ہے کہ ایک ہی چینل میں رہتے ہوئے ایک محترمہ دوسری محترمہ کے بارے میں اتنی لاعلم کیسے ؟ شاید ان کے علم میں نہیں کہ ان محترمہ نے شادی کرلی ہے، پپو کا کہنا ہے کہ محترمہ کے شوہر کبھی انہیں نوکری کی اجازت نہیں دینگے۔۔باقی رہا محترمہ کا یہ مشورہ کہ پپو بدل لو۔۔ تویہ ناممکن ہے، پپو سے سینہ بہ سینہ کے علاوہ بھی کچھ ایسا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔۔اب تک کا ذکر ہے تو ان کے جلوہ چینل پر فحش گانا چلانے کے الزام میں پیمرا نے بارہ اپریل تک جواب طلب کرلیا ورنہ ایک ملین کا جرمانہ۔۔ جب تنخواہیں لیٹ دو گے اور تنخواہیں جرمانوں کی نذر کروگے تو پھر ایسے ہی واقعات ہونگے اور پیسہ اس راستے سے نکلے گا۔۔اسی چینل کی پپو نے ایک اور مخبری دیتے ہوئے بتایا ہے کہ قائم مقام بیوروچیف نےاب صرف بطور رپورٹر کام کی حامی بھری ہے اور اضافی ذمہ داریوں سے معذرت کرلی ہے۔۔
اے آر وائی کے ذکر پر پپو کی مخبری بھی سن لیں کہ اے آروائی کے سائیٹ ایریا آفس میں طویل دورانیئے کا اہم اجلاس ہوا۔۔ جس میں رمضان ٹرانسمیشن کی پلاننگ اور جنید جمشید کی شہادت کے باعث ٹرانسمیشن میں پیدا ہونے والے زبردست خلا کو کیسے پرکئے جانے پر غور کیاگیا۔۔پپو نے اجلاس کے حوالے سے بڑی اہم مخبری میں بتایا ہے کہ عامر لیاقت کا رمضان ٹرانسمیشن اے آروائی سے کئے جانے پر بھی غور کیا گیا۔۔اجلاس میں اس عزم کا اعادہ بھی کیاگیا کہ مئی سے تنخواہیں مقررہ وقت پر ادا کی جائیں گی۔۔ جب کہ پانامہ کے فیصلے کے بعد آنے والی سیاسی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے چینل کی نئی پالیسی کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔۔
پپو کا مزید کہنا ہے کہ عامر لیاقت سے متعلق کہ وہ رمضان ٹرانسمیشن کہاں کریں گے،ملین ڈالر کا سوال ہے۔۔ اے آر وائی کے اہم اجلاس میں جس طرح پراعتماد سے عامر لیاقت کے حوالے سے باتیں کی گئیں، اس سے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس بار اے آر وائی پرامید ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان کے ساتھ ہونگے۔۔ لیکن دوسری جانب بول والے الگ تیاریوں میں مصروف ہیں۔۔ بول کے ایک فلور پر رمضان ٹرانسمیشن کا سیٹ تیار کیا جارہا ہے۔۔خود ڈاکٹر صاحب بھی کچھ عرصے پہلے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ رمضان ٹرانسمیشن بول سے ہی کرینگے۔۔
رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ہی پیمرا نے کچھ نئے فیصلے کئے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ بہت جلد تمام چینلز کو رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ضابطہ اخلاق بھیجا جائے گا، جس نے اس ضابطے پر عمل درآمد نہیں کیا وہ ٹرانسمیشن بند کردی جائے گی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ تمام چینلز کو اس ضابطے پر عمل کرنا ہی ہوگا ورنہ وہ کمرشلز اور اسپانسرز کی شکل میں ایک خطیر رقم سے محروم ہوجائیں گے کیونکہ پھر ان کی ٹرانسمیشن پیمرا نے چلنے دینی نہیں۔۔
کیا کبھی ایسا ممکن ہے کہ کسی عوامی عہدے پر تعینات شخص خود کو ایک اور عوامی عہدے کیلئے نامزد کرے اور پھر اس کے اختیارات بھی استعمال کرنا شروع کردے۔۔ جی ہاں۔۔ ایسا ہی کچھ ہوا ہے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی میں ، جہاں چیئرمین عطا الحق قاسمی صاحب نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بلاکر خود ایم ڈی پی ٹی وی بھی بنوالیا۔۔سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جب یہ انکشاف کیا تو کمیٹی کے دیگر ارکان نے حیرت کا اظہار کیا۔۔پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی محمد مالک گزشتہ سال 28 فروری کو اس عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے جس کے بعد سے یہ عہدہ مسلسل خالی رہا،تاہم وزارت اطلاعات کے کچھ افسران وقفے وقفے سے عارضی طور پر اس عہدے کا چارج لیتے رہے۔۔عطاالحق قاسمی صاحب کو مسلم لیگ ن سے قربت کی بنا پر دسمبر 2015 میں چیئرمین پی ٹی وی بنایاگیا تھا۔۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چیئرمین اور ایم ڈی پی ٹی وی کے فرائض بالکل مختلف ہوتے ہیں، چیئرمین کا کام پالیسی کے معاملات دیکھنا ہوتا ہے جب کہ ایم ڈی پی ٹی وی ایگزیکٹیو ہیڈ ہوتا ہے۔۔اجلاس کے دوران وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب، نئے سیکرٹری اطلاعات سردار احمد نواز سکھیرا اور ن لیگی سینیٹر نہال ہاشمی اس معاملے کو دبانے کی کوشش یہ کہہ کر کرتے رہے کہ یہ معاملہ تو ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔۔ ۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اجلاس میں ایک رکن نےمریم اورنگزیب سے یہ پوچھا کہ کیا یہ معاملہ وزارت اطلاعات کے نوٹس میں ہے تو۔۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سیکرٹری اطلاعات کی غیرموجودگی میں ہوا۔۔کوشش کرینگے کہ اگلے ایک ہفتے میں نیا ایم ڈی پی ٹی وی تعینات کردیاجائے۔۔
امام کعبہ کی پاکستان آمد سے متعلق پاکستانی میڈیا نے روایتی نااہلی اور بے خبری کا ثبوت دیا ۔۔جنگ، نوائے وقت، دنیا سمیت تمام اخبارات نے گورنر خیبر پختواہ اقبال جھگڑا کے ساتھ جس شخصیت کو امام کعبہ لکھا ہے وہ دراصل سعودی وزیر برائے مذہبی امور الشیخ صالح آل شیخ تھے۔۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا امام کعبہ کے نام پر بھی ”متفق “ نہیں ہوسکا۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل نے اپنی مرضی کا نام چلایا ۔ فرنٹ پیج کی تصاویر میں امام کعبہ کا نام ” الشیخ صالح بن ابراہیم“ لکھا گیا ہے حالانکہ ان کا نام ” الشیخ صالح بن محمد “ ہے۔ ۔۔ کثیر الاشاعت روزنامہ جنگ نے تو ایک اور بڑا کمال یہ بھی کیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن میں ایک مضمون امام کعبہ کی شخصیت کے بارے لگایا، حیران کن طور پر اس ایڈیشن میں پورا مضمون ایک دوسرے امام کعبہ ” الشیخ سعود الشریم“ کے بارے میں شائع کیا جبکہ تصویر پاکستان کے دورے پر آئے امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی لگائی ہے۔
اخبارات کی بات ہورہی ہے تو پپو کا کہنا ہے کہ بول کااخبار بس اب چند روز کی بات ہے۔۔جس کی پبلسٹی بھی شروع کردی گئی ہے۔۔یہ اردو اخبار، سندھی، پشتو، بلوچی،پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی شائع کیا جائے گا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ یہ اخبار روزانہ دس لاکھ کی تعداد میں چھاپا جائے گا۔۔۔ اسی طرح 92 نیوز کا اخبار بھی چند روز میں مارکیٹ ہونے والا ہے۔۔ جس میں دنیائے صحافت کے بڑے نام۔۔عارف نظامی، اوریا مقبول جان، اظہارالحق، خالدمسعود خان، عامر ہاشم خاکوانی،نورالہدی شاہ، ڈاکٹر حسین پراچہ، اثر چوہان، انجم نیاز، رضا رومی وغیرہ شامل ہیں۔۔ابتدائی طور پر یہ اخبار کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور فیصل آباد سے شائع کیا جائے گا۔۔
اخبارات پر بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔گزشتہ سینہ بہ سینہ میں پپو نے روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد سے متعلق کچھ مخبریاں دی تھیں۔۔ اس بار اسی گروپ کے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون سے متعلق پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ۔۔ٹریبیون کے ایڈیٹر نے اپنے ایک کرائم رپورٹر کو سختی سے حکم دیا ہے کہ پولیس کے خلاف اس کی آئندہ کوئی خبر شائع نہیں کی جائے گی۔۔۔پپو کے مطابق ایڈیٹر نے چیف رپورٹر کو فون کرکے پوچھا ہے کہ کیا پو لیس کے خلاف کوئی خاص معاملات چل رہے ہیں، ہمارے اخبار میں پولیس کے خلاف روز ایک ایکسکلیوسیو اسٹوری کیوں لگ رہی ہے۔۔جس پر چیف رپورٹر نے جواب دیا کہ رپورٹر بہت محنتی ہے اور روز پولیس کے ظلم و ستم کی اسٹوری فائل کرتا ہے، ہر اسٹوری کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جس پر ایڈیٹر نے سختی سے ہدایت دی کہ آئندہ اس رپورٹر کی پولیس کے خلاف کوئی اسٹوری نہیں لگائی جائے گی۔۔ایڈیٹر کے حکم نامے کے بعد چیف رپورٹر نے بھی کرائم رپورٹر کو کہہ دیا ہے کہ آپ صرف پولیس ڈائری دیا کریں ۔۔ ادارہ آپ کی ایکسکلیوسیو رپورٹس سے تنگ آچکا ہے۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ پہلی بار ایسا دیکھا ہے کہ کوئی ایڈیٹر خود اپنے رپورٹر کو کام کرنے سے منع کررہا ہے۔۔
اب ذکر ہوجائے پپو کی کچھ مختصر مخبریوں کا۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ سما کو بڑا دھچکا لگا ہے، اس کے رات نو اور رات بارہ بجےکے بلیٹن کرنے والے دو رن ڈاؤن پرڈیوسر خیرباد کہہ گئے، اور دنیا نیوز جوائن کرلیا ہے۔۔تیسرے رن ڈاؤن پرڈیوسر کے معاملات بھی پائپ لائن میں ہے وہ بھی جلد اڑان بھرلے گا۔۔
سما کے حوالے سے ہی پپو کی ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ایک صاحب جو یہاں سے وڈے چینل چلے گئے انہیں فرحان ملک صاحب نے خصوصی طور پر چائے پہ بلایا۔۔ وہ صاحب دوڑے دوڑے پہنچے۔۔لیکن فرحان صاحب اہم میٹنگ میں پھنسے رہے، تو وہ بھی دو گھنٹے تک انتظار کرتے رہے اور یہ کہہ کر سما کے پرانے دوستوں کے سامنے جھینپ مٹاتے رہے کہ ۔۔ یار میں توصرف چائے پینے آیا تھا۔۔۔
لاہور کے 24 چینل کا جنریٹر خراب ہوگیا تو گزشتہ دنوں رات نوبجے کا پرائم ٹائم بلیٹن نہ ہوسکا۔۔ اس کی پوری ٹیم نوسے دس بجے کے دوران قریب ہی موجود ہوٹل پر ڈنر کرتی رہی۔۔۔جب کہ شام کے بلیٹن تو دو،تین روز نہ ہوسکے۔۔
پپو نے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں دو خواتین اینکرز نے دختر اول سے ملاقات میں شکوہ کیا کہ جب بھی آپ کی حکومت کی حمایت میں یا آل شریف کیلئے پروگرام تو ریٹنگ نہیں آتی، جس کے بعد انہوں نے اپنے میڈیا سیل کو حکم دیا ہے کہ ان دونوں خواتین اینکرز کے پروگراموں کی سوشل میڈیا پر بھرپور تشہیر کی جائے۔۔
فی الحال آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ ملتے ہیں جمعرات کے روز۔۔۔پپو کی نئی مخبریوں اور تازہ انکشافات کے ساتھ۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔