سینہ بہ سینہ(آف دا ریکارڈ) پارٹ 67
دوستو، ایک ہفتے بعد پھر حاضر ہوں۔۔اس دوران کراچی یاترا کی، کئی دوستوں سے اہم ملاقاتیں ہوئیں، پپو سے بالمشافہ گفتگو بہت پرمغز اور لذیذ رہی، کیونکہ آج کل وہ ڈنر میں “مغز” کھارہے ہیں وہ بھی توے پر فرائی کیاگیا، ہم توافرائی والا مغز کھاتے رہے اور وہ ہمارا۔۔ خیر یہ تو سرسری سا ذکر تھا، اب کچھ کام کی باتیں ہوجائیں۔۔پپو کی مخبریاں بے حساب ہیں، بہت سے معاملات پر انہوں نے روشنی ڈالی اور بہت سے حقائق سے بھی آگاہ کیا۔۔ اب پپو کی نئی مخبریوں سے پہلے کچھ پپو کی خبروں پر ایکشن کی بات بھی ہوجائے۔۔
پپو نے فیصل آباد میں سیون نیوز والے معاملے کی مخبری دی تھی، اپ ڈیٹ یہ ہے کہ اب خاتون رپورٹر بھی استعفا دے کر چلی گئی۔۔ 92 سے فارغ کئے گئے اورفالج کا شکار سینیئر صحافی محسن رضا صاحب کے حوالے سے بھی خبر کا نوٹس لیاگیا اور وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے اسپتال جاکر ان کی عیادت کی اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔۔
وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا ذکر آیا ہے تو ان کی نئی دھمکی بھی سن لیں۔۔ گزشتہ پیر کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی فیملی کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کے خلاف سائبرکرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی۔۔اب اگر پانامہ پر لوگ سوالات کررہے ہیں تو یہ حکومت کو برا لگ رہا ہے، اس پربات کی جائے تو معاملہ سیاسی ہوجائے گا۔۔ اس لئے اس بلاگ کو فی الحال میڈیا سے متعلق گوسپز تک ہی رہنے دیں۔۔ لیکن افواہیں یہ بھی گرم ہیں کہ فیس بک پر پابندی لگائی جاسکتی ہے، اس لئے پہلے بھی بتایا تھا اور پھر یاددہانی کرارہا ہوں کہ پابندی کی صورت میں آپ سینہ بہ سینہ کی تازہ اقساط، ٹوئیٹر پردیکھ سکیں گے اور پپو کی مختلف مخبریاں بھی پھر روزانہ کی بنیاد پر ٹوئیٹر پر ہی چلے گی۔۔فی الحال تو فیس بک چل رہا ہے، اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔۔
ذکر جب سرکار کا ہورہا ہے تو سب سے پہلے بات پی ٹی وی کی کرلیتے ہیں۔۔۔پی ٹی وی سے متعلق مصدقہ اطلاعات ہیں کہ یہ ادارہ پچھلے پانچ سال سے خسارے میں جارہا ہے۔۔آمدنی سے زیادہ اخراجات ہیں۔۔2011 اور 2012 میں آمدنی کے مقابلے میں اخراجات ڈیڑھ فیصد زائد رہے۔۔2015 میں آمدنی کے مقابلے میں خرچہ نو فیصد زائد رہا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی صاحب کی تقرری بھی بغیر کسی اشتہار کے کی گئی۔۔حکام کا کہنا ہے کہ قواعد و ضوابط کے تحت اس سلسلے میں کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ عطاء الحق قاسمی صاحب کو بطور چیئرمین پی ٹی وی پندرہ لاکھ روپے سے زائد کا ماہانہ پیکیج دیا گیا ہے۔۔پپو نے قہقہہ لگاکرکہا کہ یہی وجہ ہے کہ قاسمی صاحب کے کالموں میں حکومت کا بھرپور دفاع کیاجاتا ہے۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ پی ٹی وی کا ایم ڈی اس بار کسی بیوروکریٹ کو بنایاجارہا ہے۔۔۔ چیئرمین پی ٹی وی حکومت کا انتہائی بااعتماد ہے لیکن پھر بھی اسے ایم ڈی کے اختیارات نہیں دیئے گئے۔۔اس سے پہلے خاتون ایم ڈی صبامحسن تھیں جنہیں ڈی جی ریڈیو پاکستان بنادیاگیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔گزشتہ دنوں بڑا عجیب واقعہ ہوا۔۔اداکار جمال شاہ کے حوالے سے یہ خبر اڑگئی کہ انہیں ایم ڈی پی ٹی وی بنادیاگیا، جمال شاہ نے دوستوں سے مبارکبادیں بھی وصول کرلیں اور بہت سوں کو مٹھائی بھی کھلادی لیکن پھر اچانک ہی پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔پپو کے مطابق نئے ایم ڈی پی ٹی وی کا فیصلہ مارچ کے آخر تک ہوگا۔۔ ایک طرف تو پی ٹی وی کا یہ حال ہے کہ وہ تباہی کا شکار ہے دوسری جانب پی ٹی وی اسپورٹس کویہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ پی ایس ایل کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل بن گیا۔۔پی ٹی وی اسپورٹس اپنے حریفوں جیوسوپر اور ٹین اسپورٹس سے تین گنا زائد دیکھاگیااور ریٹنگ میں چھایارہا۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی وی کی خاتون اینکرز کو ہراساں کئے جانے والے کیس پر مٹی ڈال دی گئی۔۔ پی ٹی وی کے ایک افسر کو فارغ کردیاگیا، جن کے خلاف خواتین اینکرز نام لے لے کرسوشل میڈیا پر شور کررہی تھیں ان صاحب کی نوکری بچالی گئی۔۔لیکن قربانی دی بھی گئی تو گریڈ 9 کے ایک پی ٹی وی اہلکار کی۔۔اطہرفاروق بٹر کو نوکری سے نکال دیا گیا۔۔
بات سرکاری اداروں کی ہورہی ہے تو یہ بھی سن لیں کہ لاہورہائیکورٹ نے چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو اپنی اہلیت ثابت کرنے کیلئے آخری موقع دیا ہے ۔۔جسٹس جوادحسن نے وفاق کو حکم دیا ہے کہ پانچ اپریل تک جواب دیا جائے کہ چیئرمین پیمرا کے عہدے پر ابصار عالم کو کیوں لگایاگیا ۔۔لاہور ہائی کورٹ میں چیئرمین پیمرا کی اہلیت سے متعلق پٹیشن دائر کی گئی ہے۔۔
سرکاری معاملات سے باہر آکر اب پپو کی کچھ مزید مخبریوں پر بات ہوجائے۔۔۔ سب سے پہلے سما کاذکر۔۔ سما کے ڈی این فرحان ملک صاحب چھٹیوں پر برطانیہ چلے گئے۔۔ ایسے وقت میں جب کہ ایک کے بعد دوسرا استعفا ایچ آر کو مل رہا ہے، ملازمین چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں، باہر سے کوئی آنے کو تیار نہیں، چینل کی ریٹنگ مسلسل زوال کا شکار ہے،ایسے میں ڈی این صاحب کا اچانک چھٹیوں پر چلے جانا ملین ڈالر سوال ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹر کو کہاگیا کہ گدھاگاڑی ریس کی کوریج کرو۔۔ رپورٹر نے جب کہا کہ ایسی کوئی ریس ہی نہیں ہورہی کراچی شہر میں ۔۔ جس پر اسے حکم دیاگیا کہ آپ گدھا گاڑی ریس آرگنائز کریں پھر اس پر پیکیج بناکردیں، جس پر رپورٹر نے خاموشی سے استعفا دیا اور گھر چلاگیا، آج سے اس نے ” اب تک ” جوائن کیا ہے۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ مزید تین رپورٹرز استعفوں کیلئے تلے بیٹھے ہیں، بس ڈی این صاحب کی واپسی کا انتظار ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ کوئی رپورٹر سما آنے کو تیار نہیں ہورہا ، پہلا اعتراض تو بیوروچیف پرہوتا ہے۔۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ وہاں نوکری کسی کی محفوظ نہیں، ڈی این صاحب کا جب موڈ ہو کسی کو بھی گھر بھیج دیتے ہیں،جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں دیکھی گئی جب سما کے ایک صاحب چھٹیاں لے کر گئے تو چھٹیوں کے دوران ہی انہیں برطرف کردیاگیا اور کہا گیا کہ آپ بغیر اجازت چھٹیوں پر کیسے چلے گئے؟۔۔ڈی این صاحب کا رویہ بھی لوگوں کو سما میں آنے سے روک رہا ہے جو یہ نہیں دیکھتے کہ نیوزروم میں خواتین بھی ہیں اور شدت جذبات میں کسی کی بھی ماں بہن ایک کردیتے ہیں۔۔پپو نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ماہرین نفسیات سے سما کے ملازمین کا طبی معاینہ کرایا جائے تو اکثریت ذہنی مریض نکلیں گے، جو شدید ذہنی دباؤ اور ٹینشن میں بحالت مجبوری وہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔۔پچھلے دو سال کے دوران پچاس سے زائد ملازمین سما کو خیرباد کہہ چکے اور جس سے بھی پوچھو کہ سماکیوں چھوڑا تو وہ نجی محفلوں میں صرف ایک ہی نام زبان پر لاکر کہتے ہیں۔۔ فرحان ملک کی وجہ سے، ان کا رویہ برداشت نہیں ہوتا۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سما چھوڑنے والے بہترین اور باصلاحیت لوگوں کی جگہ جونیئرز اور ٹرینی لوگوں کو رکھا جارہا ہے، جس سے نہ صرف سما کی ریٹنگ گرنے لگی ہے بلکہ اس کی کوالٹی بھی مزید خراب ہوئی ہے۔۔
اے آر وائی کی بھی بات کرلیتے ہیں۔۔پچھلے سینہ بہ سینہ میں پپو نے بتایاتھا کہ اے آروائی کے واٹس ایپ گروپ میں گالی گلوچ کا کوئی واقعہ ہوا جس پر کنٹرولر نے گروپ چھوڑ دیا۔۔ یہ خبر سینہ بہ سینہ میں آتے ہی، انکوائری بٹھادی گئی کہ یہ خبر لیک کس نے کی۔۔ ایک صاحب نے میرا فون نمبر بھی حاصل کرلیا کہ وہ مجھ سے پوچھ گچھ کرسکیں اب اس بیچارے کو یہ نہیں معلوم کہ میں نے تو صاف لکھا تھا”پپو” نے بتایا ہے۔۔ اب یہ اگر اپنے آفس میں پپو کو تلاش کرسکیں تو ان کی انکوائری مکمل ہوجائے گی، ورنہ یہ اسی طرح ٹامک ٹوئیاں کرتے رہیں ۔۔خیر اب پپو کی مزید مخبریاں بھی سن لیں۔۔اے آر وائی میں کئی لوگوں کی نوکری خراب اور ختم کرانے والی اور سینیئر نائب صدر کی منظورنظر “خاتون” کی چھٹی ہوگئی، جس سے دیگر ملازمین کو اشارہ دیا گیا ہے کہ وہاں اب کوئی بھی محفوظ نہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص ٹولہ اے آروائی کے ملازمین میں خوف و ہراس پھیلارہا ہے کہ اپریل میں اس ادارے میں بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہونگی، جس کیلئے لسٹیں تیارکی جارہی ہیں۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ ، ملازمین کو پریشان کرنے کیلئے یہاں بھی نت نئے جرمانے متعارف کرائے جارہے ہیں۔۔
گھی فروش سیٹھ کے لال چینل سے متعلق پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔اس چینل کا بھی بہت برا حال ہے۔۔ ایک بڑی ٹیم ادارہ چھوڑنے کو تیار بیٹھی ہے۔۔کئی بیوروچیفس استعفا دے چکے۔۔ان سب کا کہنا ہے کہ اب ایسے لوگ ادارے کا حصہ بن گئے ہیں جن کا کام صرف اور صرف مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دن رات ان کی خوشامد میں لگے رہنا ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ پرانے سارے لوگ ایک ایک کرکے دیگر چینلز کا رخ کررہے ہیں۔۔سنجیدہ مزاج اور باصلاحیت اینکر طارق متین بھی اسی سلوک کا شکار ہوکر24 چینل جانے پر مجبور ہوا۔۔چنیوٹ کے ڈاکٹر مزمل، سیالکوٹ کے بیوروچیف مبین قمرملک، رحیم یارخان سے عاصم صدیق،گوجرانوالہ سے تنویربٹ سمیت کئی لوگ اب 92 کا حصہ نہیں رہے۔۔پپو نے جب استعفے دینے والے کچھ بیوروچیفس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ صحافی ہیں کسی کے ذاتی غلام نہیں کہ خبروں کے علاوہ گھریلو ملازموں والا کام لیا جائے۔۔پپو کا کہنا ہے ایک رپورٹر سے سیٹھ صاحب کی شوگر مل کے ساتھ شراب کے کارخانے کا کوٹہ تین لاکھ لیٹر روزانہ کرایاگیا۔۔۔ایک شہر میں ڈی پی او نے جب شہر کے نامور جرائم پیشہ اشتہاری ملزم کو گرفتارکیا تو اس کی رہائی کیلئے ایک رپورٹرکو فون کئے گئے جس پر اس نے معذرت کرلی۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ فیصل آباد کی ایک خاتون رپورٹرکے پیچھے جب اسے مارنے کیلئے جرائم پیسہ افراد بھاگ رہے تھے تو جان بچا کر بھاگنے والی لیڈی رپورٹر نے بھاگتے بھاگتے ون فائیو کو فون کیا کہ وہ 92 کی رپورٹر ہے۔۔ اور اس کی جان خطرے میں ہے فوری مدد کی جائے۔۔ قصہ مختصر پولیس نے جان تو بچالی لیکن اس لیڈی رپورٹر کوچینل انتظامیہ نے کھری کھری سنائی کہ تم نے 92 کا نام کیسے لیااس طرح چینل کا “امیج” خراب ہوا ہے۔۔ کچھ عرصے پہلے ایک مل کے اندر جب یہ لیڈی رپورٹراورکیمرہ مین گئے تو دونوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا، کیمرہ چھین کر توڑ دیا گیا، بیوروچیف نے کیمرہ کا نقصان تین لاکھ روپے لے کر پورا کرلیا لیکن اسی لیڈی رپورٹر کو اخلاقیات اور مذہبی درس دیاگیا کہ اللہ بھی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔ دونوں واقعات میں اس ادارے کی لیڈی رپورٹر کو نشانہ بنایاگیا لیکن ادارے کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ مارچ کے مہینے میں اب تک بیس سے زائد لوگ چینل چھوڑ چکے اور فروری سے اب تک یہ تعداد پینتیس کے قریب بنتی ہے۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ جب اس ادارے کی پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا کے ساتھ ٹسل چلی تھی تو اس دوران ان کی خاتون پروگرام ہیڈ چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر نوکری چھوڑ چھاڑ کر کراچی واپس چلی گئیں۔۔ ان کی جگہ کراچی سے ہی عدنان اعوان کو لایاگیا جس نے لاہور پہنچتے ہی سب سے پہلے رہائش کا بندوبست کیاتین ماہ کا ایڈوانس دیا لیکن پھر اچانک ہی دوماہ بعد وہی محترمہ واپس آگئیں اور عدنان اعوان کی چھٹی کردی گئی۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ 92 میں کچھ خواتین اینکرز ایسی بھی ہیں جنہیں بطور سزا آف ائر کردیاجاتا ہے۔۔ اور یہ سلسلہ کئی کئی ہفتے جاری رہتا ہے۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ ایک محترمہ کو سوشل میڈیا پر جاب کیلئے بلایا گیا پھر اچانک ہی وہ محترمہ چھوڑ کر چلی گئیں۔۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ محترمہ واپس آئیں تو سنیٹرل نیوزروم میں اہم عہدے پر فائز ہوگئیں۔۔۔پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اینکرز کاڈیوٹی شیڈول(روسٹر) بہت ہی “اوپر” سے بن کر آتا ہے۔۔جس کے بعد وہ روسٹر ایک “مخصوص” بندے کو بھجوایا جاتا ہے جو اس پر “عمل درآمد” کراتا ہے۔۔
اب پپو کی کچھ مختصر مختصر مخبریاں بھی سن لیں۔۔۔
وڈے چینل پر تنخواہوں کا بحران ابھی تک ختم نہیں ہوسکا۔۔فروری میں آخری ہفتے میں سیلری دی گئی، اس مہینےکا بھی کچھ پتہ نہیں ۔۔اوپر سے پیمرا نے اس کے مارننگ شو میں نازیبا مناظر دکھانے پر شوکاز جاری کردیا۔۔شوکاز تو میوزک چینل ” 8ایکس ایم” کو بھی
دیاگیا ہے جس پر غیراخلاقی گانے دکھائے گئے تھے۔۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ ڈب فلمیں دکھائے جانے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے “راوی” ٹی وی کو نئی انتظامیہ نے لے لیا ہے۔۔
اسلام آباد کے پولی کلینک کی نرس نے 24 چینل کی لیڈی رپورٹر کو تھپڑ رسید کردیا۔۔ خاتون رپورٹر کے مطابق اسے نرس نے دھمکیاں بھی جب کہ نرس کا کہناہے کہ منع کرنے کے باوجود خاتون رپورٹر اس کی وڈیو بنارہی تھی۔۔
تنخواہوں کا بحران تو لاہور کے تقریبا تمام ہی چینلز پر ہے۔۔کوئی دس سے بیس تاریخ کے درمیان تنخوا ہ دیتا ہے تو کوئی مہینے کے آخری عشرے میں تنخواہیں “عطیہ” کرتا ہے۔۔کراچی میں بول، ڈان،سما اور جاگ کے علاوہ کوئی چینل ایسا نہیں جو پہلی تاریخ کو ہی پسینہ خشک ہونے سے پہلے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دے دے۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صحافتی تنظیمیں یہ سب جانتے بوجھتے نظراندازکررہی ہیں، ان کے علم میں سارے معاملات ہیں مگر وہ اس پر آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے۔۔
اور اب آخر میں ذکر بول کا ۔۔۔ پرانے بول والاز فکرمند ہیں کہ چینل سات ماہ سے چل رہا ہے لیکن انہیں واجبات اب تک ادا کیوں کئے جارہے؟۔۔ شعیب شیخ صاحب نے رہائی کے بعد بول ہیڈآفس میں اعلان کیا تھا کہ وہ جلد سب کے واجبات بمعہ”انٹرسٹ” ادا کرینگے، فروری میں اس حوالے سے کمیٹی بھی بنائی گئی، پپو کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے رپورٹ دے دی۔۔ واجبات کی ادائیگیاں مختلف درجوں میں کی جائے گی۔۔اے ون گریڈ، اے گریڈ، بی، سی ، ڈی، ای ، ایف گریڈ وغیرہ میں بول والازکی درجہ بندی کی جائے گی۔۔ اے ون کٹیگری میں جیل جانے والے کارکنان شامل ہونگے۔۔ اے گریڈ میں بول کی تحریک چلانے والے شامل ہونگے۔۔اسی طرح بی ، سی، ڈی وغیرہ ۔۔ اگلے ماہ کی بائیس تاریخ کو بول کی ٹیم میٹ رکھی گئی ہے۔۔ جس میں دعویٰ کیا جارہا ہے پچیس ہزار مہمانوں کو مدعو کیا جائے گا۔۔ حیرت انگیز طور پر ایچ آر ہیڈ سے واجبات کے سلسلے میں رابطہ کیا جائے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔۔ بول والاز کی اکثریت مجھ سے آئے روز یہ سوال پوچھتی ہے کہ واجبات کب ملیں گے، کمیٹی کا کیا بنا؟ جو بول والاز ابتک بیروزگار ہیں انہیں واپس کیوں نہیں لیاجارہا؟ ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان سوالوں کے جواب صرف منیجمنٹ کا کوئی ذمہ دار ہی دے سکتا ہے، اور یہاں حالت یہ ہے کہ کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔۔شعیب شیخ صاحب کو ابھی تک سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جارہی ہے۔۔ کراچی سے لاہور تک میڈیا مارکیٹ میں بول سے متعلق کیا چہ مگوئیاں ہورہی ہیں انہیں مسلسل بے خبر رکھا جارہا ہے۔۔ بول کے حوالے سے صحافتی تنظیموں کو کیا تحفظات ہیں اور کتنی شکایات ہیں یہ بھی شعیب شیخ سے چھپایاجارہا ہے۔۔ شعیب شیخ صاحب کو اللہ کا کوئی نیک بندہ یہ سمجھا دے کہ وہ جیو،ایکسپریس، دنیا اور 92 سے سبق سیکھ لیں۔۔ ان چینلز نے صحافتی تنظیموں اور ان کے لیڈران کو ہاتھ میں رکھا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب ان چینلز کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے ، تنظیمیں اور لیڈران “چیل” بن کر میدان میں اترجاتے ہیں اور اتنا شور مچاتے ہیں کہ وہ مسئلہ ختم ہوکر بے جان ہوجاتا ہے۔۔۔ لیکن بول میں معاملہ بالکل الٹ ہے، شعیب شیخ صاحب کو صحافتی تنظیموں سے مسلسل دور رکھا جارہا ہے۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی پریس کلب جو بول بحالی تحریک کے دوران تمام وقت مرکز بناہواتھا، اس کے عہدیداروں سے بھی ملاقات نہیں کرائی گئی، شعیب شیخ صاحب کو کراچی پریس کلب کا وزٹ نہیں کرایاگیا جہاں ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ بول کا احتجاجی کیمپ لگا اور احتجاج ہوتا رہا ۔۔کے یو جے نے بول کی حمایت میں ریلیاں نکالیں، کسی بھی کے یوجے لیڈر کو شعیب شیخ صاحب تک رسائی نہیں۔۔ خیر دیکھتے ہیں۔۔۔ کب تک یہ سب چلے گا، ایک نہ ایک دن تو شعیب شیخ صاحب کو حقائق کا علم ہوگا ۔۔
باتیں بہت ہوگئیں۔۔۔ پپو کی مزید مخبریوں کا اگلے ہفتے تک انتظار کیجئے گا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔
سینہ بہ سینہ قسط نمبر 67
Facebook Comments