سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 66
دوستو، سب سے پہلے تو بی بی سی کے محمد حنیف صاحب کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے کراچی پریس کلب میں کے یو جے کے بلاگرز والی تقریب میں “سینہ بہ سینہ” کا ذکر خیر کیا۔۔ اور یہ تک کہا کہ سینہ بہ سینہ میڈیا کی فیلڈ سے تعلق رکھنے والا ہر صحافی پڑھتا ہے۔۔۔ میں اس تقریب میں نہیں تھا، لیکن کچھ دوستوں نے مجھے اس بارے میں بتایا جو اس تقریب میں موجود تھے۔۔ بس یہی محبتیں اور حوصلہ افزائی ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔۔۔ پپو کی باتیں اور مخبریاں تو بہت ہیں۔۔ لیکن آپ سے صرف چھ چینلز اور چھ مخبریاں ہی شیئر کرسکوں گا۔۔ کیونکہ زیادہ لمبی بات کرنے سے آپ لوگ شاید بور ہوجائیں۔۔۔ چلیں جلدی جلدی کام کی باتیں کرلیتے ہیں۔۔۔ اب اس کے نیچے ساری باتیں اور مخبریاں پپو کی زبانی حاضر ہیں۔۔۔
پپو بتاتا ہے کہ ۔۔ ایک پرڈیوسر صاحب کسی زمانے میں ایکسپریس میں ہوتے تھے پھران کا نیا چینل ہیرو آیا تو وہ اس میں چلے گئے۔۔ پھریہاں سے سی این بی سی چلے گئے۔۔ جس کا موجودہ نام ” جاگ” ہے۔۔ یہاں انہوں نے چھاپہ مارکارروائی والا پروگرام کرنا شروع کیا۔۔ کورنگی کا یہ نوجوان شروع سے ہی کافی لگژری انداز سے رہتا تھا، بہرحال وہاں اس نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کیا۔۔ ایک پروگرام کیا جس کی بڑی شوشا بھی کی۔۔۔ لیکن بدقسمتی کسی وقت بھی جاگ جاسکتی ہے اسی لئے ڈیل تو کرلی لیکن اب پروگرام کیسے روکے کیونکہ شوشا پہلے ہی بہت کرلی تھی۔۔ اس نے پروگرام نہ چلایا تو سینیئر پروڈیوسر نے جو اب سما میں ایگزیکٹیو پرڈیوسر ہیں اس کی وجہ پوچھی۔۔ وہ صاحب کہنے لگے میری جان کو خطرہ ہے۔۔آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔۔۔ پھرایک دن ٹیکنوسٹی( سما اورجاگ آفس کی بلڈنگ، جاگ اب گورمے نے لے لیا تو اس کا دفتر کارساز،کراچی منتقل ہوگیا ہے۔۔) کے گیٹ پر دونوں میں توتومیں میں اور ہاتھاپائی ہوگئی۔۔ جس کے بعد وہ صاحب نیچے سے ہی گھر چلے گئے۔۔ جس کے بعد فرحان ملک صاحب نے جو اس وقت سی این بی سی کے ڈائریکٹر نیوز ہوتے تھے، ان صاحب کو “فائر” کردیا۔۔ پھر وہ صاحب اپنے موجودہ چینل میں آگئے۔۔ یہاں انہوں نے سیٹنگ ڈالی کہ وہ ایک “خفیہ” پروگرام کرنا چاہ رہے ہیں، جس کے سارے معاملات خفیہ ہونگے اس لئے انہیں علیحدہ سے کمرہ دیا جائے۔۔۔ انہیں تمام سہولتیں فراہم کردی گئیں۔۔ ٹیم بنی اور کام شروع ہوگیا۔۔ اب یہ صاحب یہاں چھ، سات پروگرام ریکارڈ کرتے تھے، دو،تین میں ڈیل کرتے، چار پروگرام چلادیتے۔۔ اس طرح پیسہ ہن کی طرح برسنے لگا۔۔۔ ان لوگوں نے کافی “ڈرامے” کئے۔۔ کتے تک کٹوا دیئے۔۔۔ پھر ایک بار ایک ” ولیج” پر چھاپہ مارا، ایک کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی، پچاس سے 80 لاکھ میں ڈیل ہونے لگی تھی لیکن کسی وجہ سے رک گئی، انہوں نے پروگرام چلادیا، کچھ نہیں ہوا۔۔ پھر ایک آٹا مل کے خلاف انہوں نے پروگرام ریکارڈ کیا 80 لاکھ روپے ڈیمانڈ کی۔۔۔ اس نے لفٹ ہی نہیں کرائی۔۔۔باقی چھوٹی موٹی ڈیلز تو درمیان میں ہوتی رہیں۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے کا “اوپر” والوں کو علم ہے کیونکہ یہ ایک “کماؤ پوت” پروگرام ہے۔۔ جب ٹھیک ٹھاک پیسہ آنے لگا تو “اوپر” والوں نے سوچا کہ ایسا ہی ایک اور پروگرام شروع کرتے ہیں۔۔ انہوں نے تیاریاں شروع کردیں۔۔ اب وہ پروگرام کون کرے گا۔۔۔ اگر اسی بندے سے کراتے ہیں تو پہلے والا پروگرام ڈسٹرب ہوجائے گا۔۔ اس لئے قرعہ ان صاحب کے اسسٹنٹ پرڈیوسر کے نام پہ نکلا۔۔۔ ترقی کا خواہشمند کون نہیں ہوتا وہ لڑکا بھی تیار ہوگیا جس سے ان صاحب کو لگا کہ اب کمائی کم ہوجائے گی۔۔کیونکہ وہ بھی عرصے سے ان کی ٹیم میں تھا تو اسے وہ سارے “دھندے” اور “طریقے” معلوم تھے، جو یہ صاحب اپنے پروگرام کیلئے کرتے تھے۔۔ ان صاحب نے اسے دھمکیاں دیں، وہ ڈٹ گیا۔۔ جس پر دونوں میں سردجنگ شروع ہوگئی۔۔ پھر ایک روز دفتر کے ایڈریس پر ایک پیکٹ آیا۔۔ جس میں گولیاں اور پرچی نکلی۔۔ ان صاحب نے کہا کہ وہ سراغ لگائیں گے کہ یہ کس کی حرکت ہے۔۔ پھر ان صاحب نے تگڑم لگائی اور اپنے اسسٹنٹ پرڈیوسر کو رگڑ دیا۔۔ اس کے خلاف ایف آئی آر کرادی۔۔۔جس پر اسے گرفتار کرلیاگیا۔۔۔ صحافتی تنظیموں کو جب اس معاملے کا علم ہوا تو کچھ ” بڑے” اسٹنٹ پرڈیوسر سے ملنے جیل گئے، پوری کہانی سمجھی، پھر تفتیشی افسر سے ملے۔۔ جس کے بعد دفتر کی سی سی ٹی وی نکلوائی گئی تو حقیقت کا علم ہوا کہ ۔۔۔وہ ڈبہ آدھے گھنٹے سے زائد تک کیمرے کے سامنے سے غائب رہا، پھر اچانک اس میں سے گولیاں اور پرچی نکل آئی۔۔۔ جس کے بعد اسسٹنٹ پرڈیوسر جیل سے رہا ہوگیا۔۔ اور کیس ختم ہوگیا۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ صاحب اب بھی ” دھندے” سے لگے ہوئے ہیں۔۔۔ اور پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔۔۔ باقی کی داستان پھر سہی۔۔۔
ایسا ہی ایک چھاپہ مار پروگرام ” رنگے ہاتھ” کے نام سے ” جاگ ” چینل پر ہوتا ہے۔۔ جس کا اینکر معظم شاہ ہے۔۔۔۔ پپو کے مطابق یہ نوجوان صحافی بہت ٹیلنٹڈ اور اپنے کام سے مخلص ہے۔۔ اسی لئے جاگ جب نئی انتظامیہ نے لیا تو اسے پروگرام جاری رکھنے کا کہا گیا۔۔ گزشتہ دنوں اس ٹیم کو کراچی کے ایک کرپٹ ایس ایچ او نے تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ پانچ لاکھ روپے ہفتہ لینے والا ایس ایچ او طارق بیگ دودھ سے دھلا ہوا نہیں ہے۔۔ یہ جس تھانے میں جاتا ہے کرپشن کی داستان چھوڑ آتا ہے، اس کی اپنی ٹیم ہوتی ہے، یہ مخصوص لوگ پولیس اہلکار نہیں ہوتے، بلکہ اس کے ذاتی ملازم ہیں، جنہیں یہ اپنے معاملات سیدھے رکھنے کیلئے پال رکھتا ہے۔۔معظم شاہ کو پولیس تشدد کے نتیجے میں اتنی چوٹیں آئیں کہ اسے آغاخان اسپتال داخل کرنا پڑا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز طور پر اس معاملے میں اس کے چینل نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔۔ الٹا چینل کی طرف سے ٹیم کو رہائی دلانے کیلئے تھانے جانے والے دو رپورٹرز صاحبان نے ایس ایچ او کے ساتھ کھانا نوش فرمایا، پھر ایس ایچ او کی بتائی ہوئی رپورٹ ہی انتظامیہ کو دے دی۔۔ اور یہ تک انتظامیہ کو بتایا کہ قبلہ و کعبہ محترم جناب حاجی ایس ایچ او صاحب تو اتنے شریف ہیں کہ انہوں نے چھینا ہوا کیمرہ ٹیم کو واپس کردیا اب وہ قیمتی کیمرہ ٹیم نے ہی ادھر ادھر کردیا ہوگا۔۔۔ بہرحال کچھ صحافی دوستوں کی مہربانی سے ایس ایچ او کو آئی جی سندھ نے ڈنڈا کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ کیمرہ نہیں تو پھر اس کے پیسے دو، تو اس کی قیمتی ” ویگو” سے کیمرہ نکال کر انہی رپورٹرز کے حوالے کیاگیا جو پہلے قبلہ حاجی ایس ایچ او کی پاکیزگی کے گن گا رہے تھے۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انہی دنوں ہوا جب ایک چینل کی “خفیہ” وڈیو لیکس کا سوشل میڈیا پر چرچا تھا۔۔ لوگوں نے اسے بھی اسی ٹائپ کا دو نمبر صحافی سمجھ لیا اور کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔۔ چینل انتظامیہ نے اینکر کے اسپتال کا بل دینے سے انکار کردیا۔۔ جس کے بعد اس کی ٹیم نے اپنے پروڈکشن بجٹ سے اسپتال کا بل ادا کیا۔۔۔ یہ سارا معاملہ عمران یعقوب صاحب کے علم میں بہت تفصیل سے ہے۔۔۔ اب ندیم رضا صاحب نے کمان سنبھال لی ہے تو امید ہے کہ ورکردوست ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے پروگرام اینکر کو انصاف دلائیں گے۔۔ ان کی ٹیم پر تشدد کرنے والے ایس ایچ او سے حساب لیں گے۔۔ اور اپنی کراچی ٹیم کو یہ احساس دلائیں گے کہ اب ان کا سرپرست آگیا ہے جو انہیں کبھی ایسے موقعوں پر تنہا نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔
اب تک چینل کے ڈیٹا چوری ہونے سے متعلق پپو نے گزشتہ قسط میں بتایا تھا کہ دو رپورٹرز کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔۔ دونوں نے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیئے اور چور کا پتہ لگا کر اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرادی۔۔جس پر مالک نے خوش ہوکر ایک رپورٹر کو کراچی کا بیوروچیف بنانے کا اعلان بھی کیا۔۔۔لیکن جیسے ہی یہ سارا کام مکمل ہوا۔۔۔ تو ایچ آر نے فوری طور پر ایک دوسرے رپورٹر کو ڈپٹی بیوروچیف بنانے کی ای میل جاری کردی۔۔۔ ان صاحب نے رپورٹرز کی میٹنگ بلا کر سب کو مٹھائی بھی کھلادی اور یہ بھی سمجھا دیا کہ اب اسے ہی بیوروچیف سمجھا جائے۔۔۔ ڈیٹا چوری کا سراغ لگانے والے دونوں رپورٹرز اب خالی ہاتھ شکوے کررہے ہیں۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ انتظامی معاملات میں براہ راست ” اوپر” سے مداخلت نے ڈی این اور کنٹرولر کو بھی ڈی بناکر رکھ دیا ہے۔۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ بہت جلد صحافت کا ایک بڑا نام بطور ڈائریکٹر نیوز اس چینل کو جوائن کرنے والا ہے۔۔۔ دوسری طرف حالات یہ ہے کہ کراچی بیورو کے رپورٹرز اور اسائنمنٹ والے روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر دیگر چینلز کے چکر لگارہے ہیں۔۔ اور کچھ لوگوں کی جنوری کی تنخواہ جو روک لی تھی ابھی تک نہیں دی گئی۔۔۔ حیرت ہے ایسی انتظامیہ پر جو اپنے ورکرز کو سپرمین سمجھتی ہے اور کسی دوسرے گولے کا باسی سمجھتی ہے۔۔۔
لاہور ہیڈ آفس ہے فیصل آباد کا سٹی چینل ہے۔۔۔ جس کا ایک پروگرام سونا چاندی بھی کرپشن کی وجہ سے انتظامیہ بند کرنے پر مجبور ہوگئی۔۔۔۔ اطلاعات کے مطابق پروگرام کے میزبانوں نے ایک رکن قومی اسمبلی سے ایک خطیر رقم کی شاپنگ کی اور ایک رکن پنجاب اسمبلی سے پیسے بھی لئے۔۔۔ اس سارے معاملے کی آڈیو،وڈیو ریکارڈنگ چینل انتظامیہ کو پہنچادی گئی۔۔ جس کی وجہ سے اب اس پروگرام کو بند کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔۔۔
فیصل آباد سے موٹروے پر آجائیں اور سیدھے اسلام آباد چلتے ہیں۔۔ جہاں ایکسپریس نیوز، روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹریبیون کی دفاتر کی عمارت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔۔۔ عمار میں دراڑیں پڑچکی ہیں کچھ دیواریں خستہ حالی کے باعث پھول چکی ہیں۔۔ انتظامیہ کو اس حوالے سے آگاہ کیاگیا ہے جس پر مالکان نے عمارت تبدیل کرنے یا عمارت کی مرمت کے بجائے اسی خستہ حال عمارت کی دراڑوں کو سمینٹ سے بھردیا۔۔ دو اخبارات اور ایک چینل کے دفاتر کی وجہ سے اس عمارت میں بیک وقت سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں۔۔ ویسے بھی اسلام آباد زلزلے کے حوالے سے ریڈزون میں ہے۔۔ خدشہ ہے کہ مستقبل میں اس خستہ حال عمارت کی وجہ سے کوئی سانحہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔۔۔
اے آر وائی نیوز میں کنٹرولر اور نائب صدر کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔۔ گزشتہ دنوں پی ایس ایل فائنل سے پہلے راشد لطیف نے میچ فکسنگ اور سٹہ بازی کے حوالے سے کوئی بیان دیا تھا، جس کے ٹکرز اے آر وائی پہ بھی چلے، ٹکرز کے چلتے ہی واٹس ایپ گروپ میں نائب صدر نے گالی دے کر کہا کہ یہ کس کی حرکت ہے۔۔ جس پر فوری طور پر کنٹرولر اس گروپ سے نکل گیا۔۔۔
یہ تو تھیں پپو کی چھ مخبریاں۔۔ اب چھ چینلز کی کچھ بات چیت بھی پپو کی زبانی کرلیتے ہیں۔۔۔
دنیا نیوزمیں کارکنوں کو نکالے جانے کا واقعہ جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو لاہور کی صحافتی تنظیموں نے بھی غیرت دکھائی اورپھر لاہورپریس کلب میں ایم ڈی دنیا نیوز گروپ نے تمام کارکنوں کی بحالی کا اعلان کیا ۔۔۔ لیکن پپو کا کہنا ہے کہ تمام کارکنان بحال تو ہوگئے مگر ان سے کوئی کام نہیں لیا جارہا۔۔ یہاں تک کہ وہ جو کام پہلے کرتے تھے، اس سے بھی دور رکھا گیا ہے۔۔۔ صحافتی تنظیموں کو اس معاملے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔۔
اب سما کی کچھ بات ہوجائے۔۔۔ کراچی والوں کو یاد ہوگا کہ اورنگی ٹاؤن میں ایک زمانے میں بہاری قومی موومنٹ بنی تھی، لیکن اس کے سربراہ کے قتل کے بعد یہ تنظیم اپنی موت آپ مرگئی۔۔۔ یہ تو میں نے ایویں ہی ذکر کردیا۔۔۔اصل میں میڈیا (پرنٹ و الیکٹرانکس) میں لسانیت نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔ سما میں اس وقت لسانیت عروج پر ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص گروپ کے لوگ اہم عہدوں پر ہیں۔۔ ڈائریکٹر نیوز۔۔ چیف آپریٹنگ آفیسر۔۔۔ سمیت کئی اہم عہدے پر بیٹھے لوگ ایک ہی “قبیلے” سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی بھرپور سپورٹ بھی کرتے ہیں۔۔۔ فرحان ملک صاحب نے ہائرنگ کا سلسلہ تیز کیا ہوا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ جونیئر رپورٹرز کے دھڑادھڑ انٹرویو ہورہے ہیں، کیوں کہ فرحان ملک صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی جونیئر رپورٹر کو ایک بڑا رپورٹر بناسکتا ہوں۔۔۔اپنے باس کے حواری بھی یہی پراپیگنڈا کرتے پھر رہے ہیں کہ سما کو نمبر ون بنانے والا فرحان ملک ہی ہے۔۔ یہ حواری بیچارے کچھ عرصے پہلے کا زمانہ بھول گئے جب یہی فرحان ملک صاحب سی این بی سی اور جاگ کے ڈائریکٹر نیوز تھے، بھرپور اختیارات تھے، سارے وسائل تھے، لیکن یہ چینلز کبھی ٹاپ فائیو میں بھی نہیں آیا۔۔۔ سما پہلی پوزیشن پر کیسے آیا، کبھی ان عوامل پر ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو پتہ لگ جائے گا۔۔۔جن برسوں کی اعدادوشمار “حواری” سوشل میڈیا پہ شیئر کررہے ہیں کہ فلاں فلاں سال سما نمبر ون رہا۔۔ تو یہ بھی دیکھنے کی توفیق کرلو کہ فلاں فلاں سال کیا جیو چل رہا تھا؟ ۔۔ کیا دھرنا چل رہا تھا؟۔۔۔ کیا عامر اسحاق سہروردی کام کررہے تھے؟؟ کیا یہاں سے جانے والی اچھی ٹیم ( رپورٹرز، اسائنمنٹ، کیمرہ مین) کام کررہی تھی ؟؟۔۔ فلاں فلاں سال کی مثالیں دینے والوں ذرا یہ تو بتادو کہ سما کیا رواں سال جنوری سے اب تک (مارچ) کبھی نمبر ون آیا؟۔۔۔ قوت برداشت نہ ڈی این صاحب میں ہیں نہ ان کے حواریوں میں۔۔ فوری پھٹ پڑتے ہیں۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ سما کے کسی کارکن نے ڈی این صاحب کے فیس بک وال پر کسی جگہ ایک کمنٹس کئے اور عامر اسحاق صاحب کی تعریف کردی۔۔ بس اس پر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔۔۔
92 چینل کا اخبار اسی ماہ 23 مارچ کو لانچ ہونے جارہا ہے۔۔ جس کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔۔
وڈے چینل کے ورچوئل ڈپارٹمنٹ کے چار لوگوں نے اجتماعی استعفا دے دیا۔۔۔یہ خبر پپو نے پچھلے ہفتے دی تھی ، تازہ اپ ڈیٹس یہ ہے کہ ان بیچاروں کے پیسے تو بڑھائے نہیں لیکن اب منہ مانگے معاوضوں پر نئے لوگوں کو مختلف چینلز سے توڑ کر رکھا جارہا ہے۔۔۔
آج ٹی وی میں جنوری کی تنخواہ اکثریت کو ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔۔۔ فروری کی کب ملے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔ جب کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کئی لوگوں کی تنزلی بھی کردی گئی۔۔ یعنی ان کے عہدے کم کردیئے گئے۔۔۔
تو جناب، چھ مخبریاں اور چھ چینلز کی باتیں ختم ہوگئیں۔۔ میرا خیال ہے آپ بور تو نہیں ہوئے ہونگے۔۔ فی الحال اسی پر اکتفا کریں۔۔ ملتے ہیں ایک مختصر سے بریک کے بعد۔۔۔ تب تک اپنا خیال رکھئے اور پپو کو لازمی اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔۔ ساتھ ہی ٹائم ملے تو میرے لئے بھی دعا کردیجئے گا۔۔۔ (علی عمران جونیئر)۔۔۔۔