Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 65

سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 65

دوستو،پروگرام تو یہ تھا کہ پی ایس ایل کے لاہور فائنل کے بعد سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط پیش کرونگا۔۔ لیکن ایک تو پپو کی مخبریوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔۔ دوسرے کچھ ایسے عوامل پیدا ہوگئے تھے کہ جس کیلئے فوری تازہ قسط ضروری ہوگئی تھی۔۔

سب سے پہلے تو آپ کو پھر یاددہانی کرادوں کہ سینہ بہ سینہ ہو یا وقفے وقفے سے میڈیا کے حوالے سے آنے والی میری پوسٹیں، جن میں میڈیا کی جو بھی خبریں یا بریکنگ ہوتی ہیں وہ سب پپو کی جانب سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔۔ لیکن میرے نادان دوست اسے میرے سر تھوپنے کی کوششوں میں سرتوڑ مصروف ہیں، اس سلسلے میں باقاعدہ پراپیگنڈا مہم بھی جاری ہے۔۔ جس میں انہیں میرے خلاف کچھ نہیں مل رہا تو ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔۔ پپو کا اپنا فیس بک پیچ بھی ہے۔۔ پپو پان والا کے نام سے۔۔ لیکن چونکہ اس بیچارے کی مجبوری ہے کہ اسے اپنے الفاظوں میں ٹھیک سے اپنا مدعا بیان کرنا نہیں آتا تو وہ میرا سہارا لیتا ہے۔۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ پپو خیالی کردار ہے اور سب کچھ عمران جونیئر کررہا ہے۔۔۔

سینہ بہ سینہ میں سب سے پہلے تو ایک ” غازی ” کا ذکر ہوجائے۔۔۔نام نہیں لوں گا۔۔ نہ ان کی ذات، کردار یا پروفیشن پر کوئی بات یا طنز کرونگا۔۔۔ لیکن وہ یہ سب ایک روز پہلے اپنی ایک تحریر میں براہ راست مجھ پر کرچکے ہیں۔۔۔ بہت سارے الزامات اور حقائق کے منافی باتیں انہوں نے بیان کیں۔۔ میں چونکہ کسی مجبوری کی وجہ سے ایک دن سوشل میڈیا سے دور تھا اس لئے وہ تحریر آج کچھ دیر پہلے پڑھی۔۔۔موصوف نے پپو کی ایک مخبری کے حوالے سے بجائے پپو پر بات کرنے کے مجھے رگڑ دیا۔۔ پپو کی بریکنگ کچھ یوں تھی کہ سما سے فرحان ملک کو فارغ کرنے کا فیصلہ، دنیا کے ایک بڑے صاحب کے آنے کا امکان۔۔ معاملات میں تیزی آگئی۔۔۔ پپو کی بریکنگ۔۔۔۔۔ اس پر موصوف کہتے ہیں اداروں میں کسی کا آنا جانا کوئی قابل تذکرہ معاملہ نہیں۔۔۔۔ ارے بھائی جب ایسا ہی ہے تو لمبی دو لائنوں کی پپو کی مخبری پر دوسو دو لائنوں کے تبصرے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟؟۔۔۔ آگے فرماتے ہیں۔۔ اس خبر سے میڈیا کے دو معتبر ناموں کو خوامخواہ چہ مگوئیوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔ ان دونوں کو متنازع بنایا۔۔ پھر موصوف نوکری پکی کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں کہ بطور ذمہ دار صحافی میرا فرض ہے صورتحال کو درست بیان کروں۔۔۔

چلیں بھائی کریں بیان۔۔۔کبھی تو کر ہی دیں بیان۔۔ چلیں وہی باتیں کردیں جو آپ کراچی پریس کلب میں اس وقت کیا کرتے تھے جب ہم بول کے احتجاجی کیمپ میں ہوتے تھے اورایک طرف ہم تمام بول والاز کے حقوق کیلئے سڑکوں پر تھے اور آپ اپنے “صاحب ” کے چہینے اور لاڈلے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے سما میں نوکری پر جالگے۔۔۔ پھر انہی کے خلاف مجھ سے باتیں کیا کرتے تھے۔۔۔ یاد آیا؟۔۔ میرا خیال ہے یاد نہیں آئے گا کیونکہ سچ کہنے کی ہمت نہیں آپ میں۔۔ ورنہ آپ کے ادارے میں جو کچھ کارکنوں کے ساتھ ہورہا ہے آپ اسے بھی اپنی فلسفیانہ تحریروں کا حصہ بناتے۔۔ لیکن آپ کی نظریں کبھی کارکنوں کےمسائل پہ نہیں اپنے وسائل اور صاحب کے خصائل بیان کرنے میں لگی رہی۔۔۔ میری ان دو باتوں سے آپ کی ” ذمہ داری” میرا خیال ہے سب پہ عیاں ہوگئی ہوگی۔۔۔ آگے اپنی تحریر میں موصوف فرماتے ہیں کہ علی عمران جونیئر کو میں نے دو دن پہلے فون کیا۔۔۔۔ پہلا جھوٹ تو یہی ہے دو دن پہلے نہیں جناب 26 فروری کو صبح گیارہ بجکر پچاس منٹ پر آپ نے کال کی تھی۔۔ جب آپ کو یہ یاد نہیں کہ آپ نے مجھے کال کب کی تھی تو پھر کال کے دوران ہونے والی باتیں جس انداز میں منظر کشی کے ساتھ آپ نے بیان کی۔۔۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ بھی ویسی ہی جھوٹی باتیں ہیں جیسی دو دن پہلے فون والی بات ہے۔۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ اورمیں اپنے موبائل فون کا ڈیٹا کمپنی سے نکلواتے ہیں سچ سامنے آجائے گا کہ کال دو دن پہلے کی تھی یا 26 فروری کی اور ٹائم وہی جو میں نے آپ کو بتایا۔۔ چیلنج قبول ہے؟؟۔۔۔ اور یہ بات بھی کلیئر کرلیں کہ میں کئی بار یہ بات لکھ چکا ہوں کہ میری تحریروں کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا، کسی کی دل آزاری یا کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہوتا، یہ میڈیا کی گوسپز ہوتی ہیں، جو میڈیا کے ہی دیگر دوستوں اور میڈیا سے باہر کے لوگوں کیلئے ہوتی ہیں۔۔ مجھ سے پہلے یہ ہمت شاید کسی نے نہیں کی۔۔ اور سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانکس و پرنٹ میڈیا، جب آپ روایتی کام سے ہٹ کر کوئی کام کرینگے تو لوگ اسے ضرور پسند کرینگے، میں نے روایت سے بغاوت کی تو آپ جیسے لوگوں کو شاید یہ چیزیں ہضم نہیں ہورہیں۔۔۔ اور بجائے خبروں پر ڈسکس کرنے کے ذاتی حملے شروع کردیئے۔۔۔آپ نے اپنی تحریر میں فریال عارف کا بھی تذکرہ کیا۔۔ اور اپنی تنگ نظری اور اینگلنگ والی حرکت سے باز نہ آئے، دو فضول سوال کردیئے کیا آپ ورکنگ جرنلٹس کے خلاف ہیں؟ کیا آپ صحافت میں عورتوں کی ترقی کے خلاف ہیں؟۔۔۔۔ میرے بھائی۔۔ فریال عارف کو جب بیوروچیف لگایا گیا تو میں نے اسے سراہا تھا، میری ٹائم لائن اس کی گواہ ہے، میں نے اپنے اسی سلسلے میں بھی سما کے اس اقدام کو سراہا۔ صحافت میں عورتوں کی ترقی کے خلاف اور ورکنگ جرنلٹس کے خلاف والے سوالات سے آپ نے ” تہلکہ” مچانے کی کوشش کی، لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میرا یہ بلاگ ہمیشہ ورکنگ جرنلٹس کے حق میں ہی ہوتا ہے، میں نے آپ کی طرح کسی ڈی این یا مالک کی چاپلوسی میں لمباچوڑا قصیدہ کبھی نہیں لکھا، نہ اللہ کبھی ایسا کرنے کی توفیق دے، جو اچھا کام کرتا ہے، ویل ڈن، جو غلط کرے گا، نشاندہی اپنا فرض سمجھتا ہوں، کیونکہ میں بھی ایک ذمہ دار صحافی ہوں، ساری ” ذمہ داریاں” آپ پہ ختم نہیں ہوتیں۔۔

فیصل شکیل صاحب نے مجھے کال کی،جدید سیٹلائٹ کی “لائیو” کال تھی شاید، جس میں آپ نے میری گھگھی بندھی ہوئی بھی دیکھ لی، اور اسے تحریر بھی کردیا۔۔ بہت اعلا۔۔ آگے چل کر آپ کو مجھ پر افسوس ہوتا ہے اور آپ لکھتے ہیں کہ آپ کس راستے پر چل پڑے کہ اپھے ہی خلاف فضا بنارہے ہیں، صحافی آپ کو گالیاں دے رہے ہیں؟، سب آپ کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں، ان سب کا کیا فائدہ ہے؟

جی بھائی ،میرے خلاف آپ نے فضا کدھر دیکھ لی؟ صرف سما میں؟ اس کےعلاوہ کونسا چینل ہے جہاں کے نیوز روم میں یا عمارت میں آپ کی رسائی ہے اور آپ وہاں جاکر اس “فضا” کی کوریج کررہے ہیں؟ کون سے صحافی گالیاں دے رہے ہیں؟ کون مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے؟ یار۔۔۔ بے سروپا باتیں سے گریز کرو پلیز۔۔۔ گالی وہی کالی بھیڑ دیتی ہے جس کی میں نشاندہی کرتا ہوں، جھوٹا وہی کہتا ہے، جس کا نام میرے سینہ بہ سینہ میں آتا ہے اور اس کے “کرتوت” عیاں ہوتے ہیں۔۔۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ آپ کو یہ سمجھ نہیں آسکا کہ ان سب کا کیا فائدہ ہے؟ ۔۔ میرے دوست، فائدہ یا نقصان ہمیشہ تجارت میں دیکھا جاتا ہے، اور میں نے صحافت کو کبھی تجارت نہیں سمجھا، آپ فیصلہ خود کرلیں کہ کون صحافت کررہا ہے اور کون تجارت کررہا ہے؟

آگے چل کر آپ نے اپنی منطق جھاڑی ہے، علمیت کا رعب جھاڑا، مجھ پر الزام لگایا کہ سالار میں جو کرچکے تھے، اور سالار کی جھوٹی خبر کی وجہ سے اس کی تعداد لاکھوں تک پہنچی مگر پھر بدنام ہوکر بند بھی ہوگیا۔۔۔ یہاں آپ کی تصیح کردوں۔۔۔ میں سالار میں ایڈیٹر تھا، کیا تھا ” ایڈیٹر” اور اس وقت آپ شاید کسی اخبار میں ٹرینی سب ایڈیٹر۔۔۔۔آپ کو سالار کی ہسٹری تک تو پتہ نہیں۔۔ اور اس کے بند ہونے کی پہلے اصل وجوہات جانیں پھر اس پر مزید بات کرلیں گے۔۔۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ جس موضوع پر بات کی جائے پہلے اس کا ” ہوم ورک” کیا جائے، یہی ہماری بنیادی تربیت کا ایک نکتہ ہے۔۔

آگے چل کر میرا ” غازی” دوست مزید لکھتا ہے کہ ابھی جس طرح آپ کے بلاگز کی افواہیں غلط ثابت ہورہی ہیں، آپ تو کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔ جب کہ فون پر آپ ہی کے لفظ تھے کہ عامر اسحاق سہروردی کی جب پپو نے بریکنگ دی تھی تو میں خود پریشان تھا، حیران بھی تھا کہ جو خبر مجھ تک لیٹ پہنچی وہ پپو کے پاس پہلے کیسے پہنچ گئی۔۔۔ یاد آیا کچھ؟؟ ۔۔۔ اب ذرا ایک خبر تو بلاگ کی بتائیں جو غلط ثابت ہوئی، ہوا میں باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟۔۔۔۔ میرا خیال ہے ، میں نے صرف انہی باتوں کا جواب دیا ہے، جس میں میرے غازی نے مجھ پر براہ راست حملے کئے، میں نے کبھی ان کے خلاف لکھا، نہ کبھی ان کو اپنا موضوع بنایا، کیونکہ یہ میرا لیول نہیں، دوست کہا تھا دوست سمجھا تھا، لیکن جس طرح انہوں نے دو مارچ کو مجھ پرالزامات کی بوچھاڑ کی، اس سے دکھ پہنچا، اور جواب دینا اپنا فرض سمجھا۔۔۔ آپ کو شکایت تھی تو صرف خبر پہ بات کرتے، فیصل شکیل ہو یا مونس، یا کوئی اور، جس کو میرے بلاگ سے شکایت پہنچی، اس کی شکایت کا ازالہ اس کی تردید یا اس کی وضاحت میں نے اپنے بلاگ میں لازمی دی، لیکن میرے غازی نے اپنی دو مارچ کی تحریر میں بار بار تصدیق کرنے کا مشورہ تو دیا لیکن میرے حوالے سے پھر کئی معاملات اپنی منشا سے مجھ سے تصدیق کئے بغیر لکھ دیئے۔۔۔میں نے تو آپ کو فون نہیں کیا، کیونکہ میرے پاس ایسا کوئی “سسٹم” نہیں کہ میں آپ کی گھگھی بندھی دیکھوں۔۔۔ ان سب کے بعد اقبال کا ایک شعر کچھ تبدیلی کے ساتھ پیش خدمت ہے۔۔۔

یہ “غازی” یہ تیرے “پراسرار” بندے،

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالی جگہ میں آپ گدائی، کے ہم قافیہ کوئی بھی لفظ ڈال سکتے ہیں۔۔۔۔ چلیں اب فرحان ملک صاحب کے حوالے سے پپو کی ابتدائی بریکنگ کے بعد کی صورتحال پر بھی بات ہوجائے۔۔۔۔

” مجھ کو دیکھ کر آپ لوگوں کو حیرت تو نہیں ہوئی۔۔۔” یہ الفاظ تھے آج نیوزروم میں فرحان ملک صاحب کے۔۔۔ کل رات 17 ویں منزل پر “اہم میٹنگ ” کے بعد جب وہ واپس اپنے کمرے میں آئے تو ان کا ایک جملہ یہ بھی تھا” ایسی آسانی سے جانے والا نہیں میں۔۔۔۔” دو مختلف دنوں میں دو مختلف جملے، یہ دو مختلف حالتیں ہیں۔۔۔ ان کا تجزیہ میں نہیں کرونگا یہ کام آپ کریں۔۔۔ میں تو آپ کو اس حوالے سے پپو کی مزید مخبریاں بتارہا ہوں۔۔ پپو کہتا ہے کہ ۔۔۔۔ فرض کریں عمران بھائی آج تین مارچ ہے، اور آپ کے گھر والوں نے آپ کی شادی گیارہ مارچ کو طے کردی ہے، تو آپ کے گھر والے، اہل محلہ یا رشتہ دار اور دوست احباب کیا یہ نہیں بولیں گے کہ عمران بھائی کی شادی طے ہوگئی؟۔۔۔ میں نے کہا بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔ پپو نے مسکرا کر کہا کہ تو پھر جب میں نے آپ کو بریکنگ دی ہے کہ فرحان ملک صاحب کو فارغ کرنے کا فیصلہ۔۔۔ تو میں نے اس میں کوئی ڈیڈلائن دی ؟ کوئی تاریخ دی؟ ۔۔۔ پپو نے مزید کہا کہ جب شادی کا فیصلہ ہوگیا، شادی ہونی ہے تو وہ گیارہ مارچ کو ہی ہوگی۔۔۔ اسی طرح جب فرحان ملک صاحب کو نکالنے کا فیصلہ ہوگیا تو پھر یہ سما کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا کام ہے یا اس کے مالک کا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کب کیا جاتا ہے؟ اس میں سیخ پا ہونے، خبر کو جھوٹا قرار دینے یا شوروغل مچانے والی کیا بات ہے؟۔۔۔ پپو نے مزید انکشاف کیا کہ عمران بھائی اب آپ سنیں سما کے سینیئر کنٹرولر عامر اسحاق سہروردی کو کیوں نکالا گیا؟۔۔۔ میں نے انہیں ٹوکا۔۔ پپو بھائی پہلے یہ بتاؤ نکالا کیسے گیا؟ جس پر پپو نے بتایا کہ ۔۔۔ عامر اسحاق سہروردی کی ہفتے کے روز ویکلی آف ہوتی ہے، وہ گھر پر اپنی فیملی کے ساتھ چھٹی منارہے تھے، انہیں سما کا ایچ آر ہیڈ خود برطرفی کا پروانہ دینے گیا۔۔ اس سے پہلے انہیں کچھ ایسی آفرز بھی کی گئی جو اگر عمران بھائی آپ کو بھی ایسے موقع پر کی جاتی تو آپ بھی تذلیل محسوس کرتے اور اسے کبھی قبول نہ کرتے، اسی لئے وہ آفرز عامر صاحب نے بھی قبول نہیں کی،اور پچیس فروری کو انہیں برطرف کردیا گیا، پپو کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطرفی کا یہ طریقہ کار بالکل غیرقانونی تھا، اگر عامر صاحب کوئی تگڑا سا وکیل کرلیں تو وہ اس حکم نامے کی ایسی تیسی کردے۔۔ پپو کا مزید کہنا تھا کہ سما کے مالک تین دن سے کراچی میں ہیں اور ان کے آتے ہی سی او او ( یہی وہی صاحب ہیں جن کے دستخط عامر اسحاق صاحب کے برطرفی کے لیٹر پر تھے) فوری طور پر دبئی روانہ ہوگئے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ فرحان ملک صاحب سے عامر اسحاق سہروردی صاحب کے بارے میں باز پرس کی گئی ہے، پپو نے اپنے ذرائع سے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ فرحان ملک صاحب کو ایک مخصوص ڈیڈلائن دی گئی ہے جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ سما کی ریٹنگ واپس پہلے نمبر پر لاکر دکھائیں۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ پپو بھائی تو کیا وہ ریٹنگ بحال کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ ۔۔۔۔ میرے سوال پر پپو نے مکروہ قہقہہ لگایا اور بازاری زبان میں کہا۔۔۔ کدو۔۔۔ وہ کدو بھی ریٹنگ نہیں لاسکتا اب۔۔۔ یار پپو بھائی اس کی وجہ؟؟؟ وجہ صاف ہے، ماسٹر مائنڈ عامر اسحاق اب اس کے ساتھ نہیں۔۔ دوسری وجہ سارے کام والے ایک ایک کرکے دیگر چینلز کا رخ کررہے ہیں۔۔۔ اچھے رپورٹرز چلے گئے۔۔ اچھے اسائنمنٹ والے چلے گئے۔۔۔ اچھے کاپی لکھنے والے چلے گئے۔۔ کسی بھی چینل کی کامیابی ٹیم ورک سے ملتی ہے۔۔ جب چاپلوس، خوشامدی، ایک دوسرے کی واہ واہ کرنے والے ایک جگہ جمع ہوجائیں تو پھر کام کم، اور واہ واہ زیادہ ہوتی ہے، اور جہاں کام کم ہووہاں کامیابی کی امید ایسی ہی ہے جیسے کسی خواجہ سرا سے صاحب اولاد ہونے کی امید رکھنا۔۔۔ پپو نے سما کے حوالے سے مزید انکشاف کیا کہ ۔۔۔اب تک تو جو لوگ جاچکے وہ جاچکے۔۔ مزید نے بھی کمر کس لی ہے، اسائنمنٹ سے مزید دو لوگ جیو اور اے آر وائی جارہے ہیں۔۔۔ہیڈلائنز لکھنے والا بھی استعفا دے کر جیو جارہا ہے۔۔۔ تین رن ڈاؤن پرڈیوسر بھی جلد اڑان بھرنے والے ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک کی سالگرہ کا کیک تو آج ڈی این صاحب نے اپنی جیب خاص سے منگوا کر نیوزروم میں کٹوایا، پھر ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔۔۔ پپو کا کہنا تھا کہ جب اہل لوگوں کی جگہ نااہل اور پرچی والے مسلط ہونگے تو پھر کام بھی ویسا ہی ہوگا، گندم بونے سے گندم ہی اگے گی کبھی بادام یا اخروٹ نہیں اگیں گے۔۔۔

اب ذرا دیگر چینلز کی بھی کچھ بات ہوجائے۔۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ 24 چینل سے نکالا گیا ایک رپورٹر ڈان نیوز میں اسائنمنٹ ڈیسک پر آگیا ہے۔۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ اے آر وائی میں ایک ” صاحب ” نے ایک محترمہ کو اے آر وائی ڈیجیٹل سے نیوز کے ” پی ڈی” میں ٹرانسفر کرایا، اس سلسلے میں اپنے پورے پورے اختیارات استعمال کئے۔۔ ان صاحبہ کو الگ کمرہ دلوایا، اور اس کی آفس ٹائمنگ بھی وہی رکھی ہیں جو ” صاحب ” کی ہیں۔۔۔۔

پپو کا کہنا ہے کہ ندیم رضا صاحب نے گورمے کا جاگ چینل چینل جوائن کرلیا۔۔ جلد وہ اپنی ٹیم بھی بلا لیں گے۔۔۔جو مختلف چینلز میں بکھری ہوئی ہے۔۔ لیکن ہائرنگ میں ابھی دو ماہ لگ سکتے ہیں۔۔۔ پپو کے مطابق۔۔۔ یہاں عمران یعقوب صاحب ہوتے تھے۔ انہیں ایڈوائزر ٹو چیئرمین بنایا گیا جس کا سرکلر بھی جاری ہوگیا۔۔ لیکن وہ کچھ دنوں سے دفتر نہیں آرہے۔۔۔ پپو نے مخبری دی ہے کہ وہ اب تک کے شاہ صاحبان سے قریبی رابطے میں چل رہے ہیں۔۔۔ کیونکہ اطلاعات ہیں کہ اب تک اب لاہور شفٹ ہونے کی تیاریاں ہیں اور کراچی میں وہ سٹی چینل لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ ابتک کے ڈی این کی تبدیلی کے بھی آثار نظر آرہے ہیں۔۔۔۔ اب تک کے حوالے سے ہی پپو کا مزید کہنا تھا کہ ۔۔۔ اب تک کے ایک پروگرام کی سوشل میڈیا پر بہت واٹ لگی ہے۔۔۔ اس پروگرام کے حوالے سے انتظامیہ نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔۔۔ اس سلسلے میں چینل کے دو کرائم رپورٹرز کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے۔۔ انتظامیہ کو پتہ لگا ہے کہ پروگرام “خفیہ” کا 64 گیگابائٹ کا ڈیٹا چوری ہوگیا ہے۔۔۔ جس کی تلاش کا کام دو رپورٹرز کے سپرد کیاگیا ہے۔۔۔

24 چینل کی ایک خاتون اینکر آج پیا دیس سدھار گئیں۔۔۔۔رخصتی کراچی کے ایک شادی ہال میں ہوئی۔۔۔

پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۔۔۔ اے نیوز کیلئے مارچ کے آخر تک لاہور میں ہائرنگ شروع ہوجائے گی۔۔۔

پپو کی ابھی ڈھیر ساری خبریں مزید بھی باقی ہیں۔۔۔ وہ پیر تک کیلئے رکھتے ہیں۔۔ جب تک مجھے اجازت دیں۔۔۔ زندگی رہی پھر ملاقات ہوگی۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں