سینہ بہ سینہ(آف دا ریکارڈ) پارٹ 64
دوستو، گزشتہ سینہ بہ سینہ میں صرف کرکٹ کے حوالے سے بات کی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے پڑھنے والوں کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں، میں نے سوچا تھا کہ پی ایس ایل اسٹارٹ ہوگئی ہے، پورا ملک کرکٹ فوبیا کا شکار ہے، سب کو کرکٹ کا بخار ہے ۔۔خیر کوئی بات نہیں۔۔ اب سمجھ آگیا ہے کہ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں۔۔ سنجیدہ نوعیت کی چیزیں شاید آپ لوگوں کو پسند نہیں۔۔ چلیں پپو کی تازہ مخبریاں شیئر کرنے سے پہلے آپ کو یہ خوشخبری سنادوں کہ ۔۔۔پچھلے سینہ بہ سینہ میں پپو نے جن باتوں کی نشاندہی کی تھی اس کا اعلیٰ حکام نے فوری نوٹس لے لیا۔۔ اور پی ٹی وی کے ڈائریکٹر اسپورٹس ڈاکٹر نعمان نیاز کو فوری بحال کردیا۔۔( ان کے ساتھ ہوا کیاتھا۔۔اس کی تفصیلات گزشتہ سینہ بہ سینہ میں درج ہے۔۔۔)۔۔۔حکام بالا ڈاکٹر صاحب میں اتنے سنجیدہ تھے کہ ایم ڈی پی ٹی وی اور سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی بحالی کرائی گئی۔۔ انہوں نے جمعہ کوبطور ڈائریکٹر اسپورٹس اور پی ٹی وی اسپورٹس کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔۔۔ پپو نے گزشتہ سینہ بہ سینہ میں ہم ٹی وی کے ایک ڈرامے کا بھی تذکرہ کیا تھا جس میں ” ہم جنس پرستی” کو اجاگر کیاگیا تھا۔۔اوریا مقبول جان نے اس پر پورا پروگرام کردیا۔۔ اور شکر ہے پیمرا نے بھی اس کا نوٹس لےلیا۔۔ اور ہم ٹی وی سے ستائیس فروری تک جواب طلب کرلیا ہے۔۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستان سپرلیگ کا آغاز ہوچکا ہے۔۔ مفت خور سرگرم ہوگئے۔۔جو بورڈ کے خرچے پہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ عیاشی کررہے ہیں۔۔ایسے بہت سے مفت خوروں کے نام پپو نے بتائے ہیں لیکن چونکہ آپ لوگوں کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے اس کی تفصیل سے گریز کررہا ہوں۔۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نےا یک حکم نامے کے ذریعے لائسنس یافتہ کیبل آپریٹرز کو بالی وڈ کی فلمیں دکھانے کی اجازت دے دی ہے۔۔ ہائی کورٹ کی جانب سے وفاق سے جواب طلب کیاگیا ہے کہ کیا پاکستانی ٹی وی چینلز پر انڈین ڈرامے نشر کئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔ چیف جسٹس نے یہ آرڈر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے 19 اکتوبر 2016 کو جاری سرکلر کے جواب میں دیا ہے جس میں کیبل آپریٹرز پر بھارتی مواد چلانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیونیوزکے اینکر احمد قریشی کی درخوات پر چیئرمین پیمرا سے 28 فروری کو جواب طلب کیا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی درست ثابت کریں۔۔ آرڈر میں کہاگیا ہے کہ اگر چیئرمین پیمرا جواب جمع نہ کرسکتے تو انہیں معطل کردیا جائے گا اور وہ چیئرمین پیمرا کی حیثیت سے کام نہیں کرسکیں گے۔۔
ادھر حکومت سندھ کی جانب سے سندھ سینسر بورڈ کے چیئرمین فخرعالم کا استعفا دسویں ماہ بھی بھی منظور نہیں کیاگیا، یہ عہدہ اب بھی خالی ہے۔۔ سیکرٹری سینسر بورڈ کا کہنا ہے کہ سینسر بورڈ جیسے پہلے کام کررہا تھا،اب بھی اسی طرح فعال ہے، چیئرمین کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
اب بات کرتے ہیں ” اب تک ” چینل کی۔۔۔ جو اس وقت اپنی “خفیہ اینکر” کی زبردست سرپرستی میں مصروف ہے، سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی تو چینل انتظامیہ بھی جاگ گئی، اور اپنی اینکر کی تعریف و توصیف میں بھرپور پریس ریلیز جاری کردی۔۔ دوسری جانب اس وڈیو کو ریلیز کرنے والے کیمرہ مین ساجد علی پر زندگی تنگ کردی گئی ہے، اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ بیچارہ اتنا خوفزدہ ہے کہ اپنے گھر تک نہیں جارہا ، دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر راتیں گزار رہا ہے۔۔میری کے یو جے جو صحافیوں کے حقوق کی کراچی میں سب سے بڑی تنظیم ہے، ان کے کرتا دھرتاؤں سے اپیل ہے کہ وہ ساجد کے مسئلے پر سنجیدہ ایکشن لیں، کیونکہ یہ وعدہ معاف گواہ ہے ان تمام کالے کرتوتوں کا جو پروگرام “خفیہ”میں خفیہ طور پر ہوتی رہیں۔۔اس پروگرام کے حوالے سے پپو کی تحقیقات جاری ہیں بہت جلد سنسنی خیز انکشافات کے ساتھ الگ سے سینہ بہ سینہ ” خفیہ” پر ہوگا، لیکن خفیہ نہیں ہوگا ، پپو حقائق سب کے سامنے لائے گا۔۔۔
ابھی اس چینل کی مزید مخبریاں بھی پپو سے سن لیں۔۔ ابتک میں تنخواہیں روکنے اور کاٹنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔پپو نے کئی ایسے کارکنوں کے نام بتائے ہیں جنہیں اس ماہ تنخوا ہ ہی نہیں دی گئی۔۔لیکن صرف اس ڈر سے ان کے نام نہیں دے رہا کہ کہیں انتظامیہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے لے کہ شاید انہوں نے رابطہ کرکے مجھے یہ سب بتایا ہے۔۔۔
ابتک نیوز میں کراچی کے رپورٹرز نے جب انتظامیہ سے انکریمنٹ کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں انتظامیہ نے تمام رپورٹرز کو گروم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔میک اپ روم میں بلا بلا کر تمام رپورٹرز کے ” ہیئراسٹائل” چیک کئے جارہے ہیں۔۔ ڈی ایس این جی وینز میں میک اپ کٹ رکھوادی گئی ہے، اس حکم کے ساتھ کہ ہر ” لائیو” بیپر سے پہلے منہ پر ” پفنگ” یعنی سفیدی کرنا لازم ہے ورنہ جرمانہ عائد کیا جائے گا۔۔ ہر رپورٹر کو کچھ شرٹس فراہم کی گئی ہیں اس حکم کےساتھ یہی پہن کر بیپر دینا۔۔ اب جنہوں نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا وہ بیچارے پریشان گھوم رہے ہیں کہ ہیئراسٹائل ، میک اپ اور مخصوص شرٹس پہننے کی سزا کیسے اور کب تک بھگتیں۔۔۔؟؟؟ اب کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ جس رپورٹر کو نیا ہیئراسٹائل دے رہے ہو، وہ بیچارہ دن بھر بائیک پر گھومتا ہے، ہیئر تو رہ جائیں گے مگر تیز ہوا سارے اسٹائل کو بگاڑ کے رکھ دے گی۔۔۔ ویسے بھی سیٹھ کو تو صرف رپورٹرز “بالوں” کی فکر ہے”بال بچوں” کی نہیں۔۔ کیونکہ انہیں اپنی اسکرین بیچنی ہے چاہے اس کے لئے رپورٹر بیچارے کے اہل خانہ بھوکے کیوں نہ مرجائے۔۔
کچھ روز پہلے آپ کو بتایا تھا کہ اے آروائی ذوق اور اے آر وائی میوزک کے سینیئر نائب صدر دانش خواجہ سے استعفا لے لیا گیا۔۔ معاملے کی کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ موصوف اپنا “کاروبار ” اسٹارٹ کرچکے تھے، اے آر وائی کی نوکری بونس میں کررہے تھے، ادارے میں اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بزنس ڈیل کرتے اور کمائی ذاتی منافع سمجھ کر رکھ لیتے،اطلاعات کے مطابق ایسی ہی ایک ڈیل کے دوران جرجیس (جے جے) نے چھاپہ مارا اور رنگے ہاتھوں پکڑلیا۔۔ جس کے بعد استعفا لے لیاگیا۔۔ویسے بھی اس ادارے میں بڑے عہدیداروں کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ جب پی ایس ایل کیلئے ان کی ٹیم کراچی کنگز کی لانچنگ تقریب تھی تو اے آر وائی کراچی کے ڈپٹی بیوروچیف کاشف حسین اور سینیئر وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف صاحب کی ڈیوٹی گیٹ پر لگائی گئی، سارا وقت گیٹ پر کھڑے پاس چیک کرتے رہے، “بڑے صاحب “نے انہیں کوئی لفٹ نہیں کرائی جس پہ عماد یوسف صاحب بہت غصے میں نظر آئے، پپو کے مطابق اس دوران وہ فون پر بھی کسی سے شکوے کرتے نظر آئے کہ کیا میں ہی رہ گیا سب کو انٹرٹین کرنے کیلئے۔۔پپو نے مزید انکشاف کیا ہے کہ اے آر وائی کی نائٹ شفٹ میں درویشوں کا نشہ (چرس) خوب چل رہا ہے۔۔ پپو نے پانچ لوگوں کے نام بھی بتائے ہیں جو روز یہ نشہ کرنے کیلئے کونا کھدرا تلاش کرتے ہیں اور پھر لگے دم مٹے غم کی تصویر بنے دھواں چھوڑتا انجن بنتے ہیں اور چند لمحوں بعد “جہاز” بنے نظر آتے ہیں۔۔ اگر یہ لوگ اب بھی نہیں سدھرے تو پھر ان کے نام کسی وقت بھی “پھوڑ ” دونگا۔۔۔
سمامیں فرعون ملک کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے۔۔ سینئر رپورٹر ارباب چانڈیو کے بعد سما کے سب سے پرانے رپورٹر فیصل شکیل بھی دنیا نیوز کو پیارے ہوگئے، فیصل خان جو ایجوکیشن کے معاملات دیکھتے ہیں وہ بھی بیوروچیف کے خراب رویہ کے خلاف بطور احتجاج استعفا دے کر دنیا نیوز جوائن کرچکے۔۔فیصل شکیل نے تو ایک تفصیلی میل بھی سما کے مالک کو بھیجی ہے جس نے شاید مالک کی آنکھیں کھول دی اسی لئے انہوں نے کچھ اہم فیصلے کرلئے ہیں، جن کے اثرات بہت جلد سما میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔۔ سما کا ایک رپورٹر مونس بھی بیوروچیف کے خراب رویہ کا شکار بنا اور دنیا نیوزکو پیارا ہوگیا، مونس کے والد شدید بیمار اور اسپتال میں داخل تھے،اسے چھٹی چاہیئے تھی لیکن اسے زبردستی بحری مشقوں کے اسائنمنٹ پر بھیجا گیا، انکار کی صورت میں فارغ کرنے کی دھمکی دی گئی ، دلبرداشتہ مونس نے استعفا دے کر عزت بچائی۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ دنیا نیوزکے بیوروچیف اسلم خان سے سما کے مزید رپورٹرز بھی رابطے میں ہیں، سما کی جلد کچھ اور وکٹیں گرنے کا امکان ہے۔۔ دوسری طرف سما ٹی وی نے دبئی آفس بھی بند کردیا ہے۔۔
صحافت اور میڈیا کے ایک بڑے نام کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔۔ محترم ناصر بیگ چغتائی صاحب کو فیلڈ میں این بی سی کے نام سے جانا جاتا ہے، جب کہ معروف اینکر حامد میر این بی سی کواین بی سی کی تشریح کچھ اس طرح کرتے تھے۔۔” نیوز بریکنگ کمپنی ” ۔۔این بی سی وڈے چینل کی لانچنگ ٹیم کے بانی رکن تھے، ابتک نیوز بھی انہوں نے ہی لانچ کیا، اے آر وائی دبئی کے سربراہ کی حیثیت سے کافی عرصہ کام کیا۔۔این بی سی صاحب 92 میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیوزکی حیثیت سے ذمہ داریاں سبنھالے ہوئے تھے، ان کے استعفوں کی اکثر اطلاعات آتی رہتی تھی لیکن پپو کا کہنا ہے انہوں نے 92 چینل “ذاتی” وجوہات کی بنا پر چھوڑ دیا، ان دنوں وہ نوٹس پیریڈ پر ہیں،لاہور میں ہی رہ رہے ہیں۔۔انہوں نے اپریل 2016 میں یہ چینل جوائن کیا تھا۔۔این بی سی بلاشبہ صحافت اور میڈیا کے “گرو” ہیں، جن کے فیلڈ میں بے شمار اسٹوڈنٹس ہیں،پپو کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ماہ کراچی جائیں گے جہاں ان کے لئے دو،تین بہت شاندار آپشن موجود ہیں، این بی سی کونسا چینل یا میڈیا گروپ جوائن کریں گے، پپو کا دعوی ہے کہ وہ سب سے پہلے اس حوالے سے بریکنگ دے گا۔۔
پپو نے ایک چینل کے بارے میں عجیب و غریب انکشاف بھی کیا ہے۔۔۔ پپو نے دعوی کیا ہے کہ ایک چینل کے نیوزاسٹوڈیو میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، جہاں خواتین اینکرز سمیت ہر قسم کی سرگرمیوں کو چینل کا مالک خود مانیٹر کرتا ہے، اور مانیٹر بھی چینل میں موجود اپنے دفتر سے نہیں بلکہ گھر سے کرتا ہے، پپو کا کہنا ہے کہ اس چینل کے حوالے سے مزید سنسنی خیز انکشافات کی پوری سیریز وہ جلد سامنے لائے گا۔۔
اب وڈے چینل کے وڈے شو کے وڈے اینکر کے بارے میں پپو کی کچھ مخبریاں ہوجائیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ شاہ زیب خانزادہ ان دنوں مشکلات کا شکار ہیں۔۔برسوں کا ایک پرانا ساتھی تو پہلے ہی ساتھ چھوڑ کر اے آر وائی کو پیارا ہوگیا۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ خانزادہ کی ٹیم کے مزید 2 ارکان بھی جلد پروازکرنے والے ہیں۔۔ کیونکہ وہ روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچکے ہیں۔۔ شوکی روزانہ میٹنگ کسی اسکول اٹینڈنس کی طرح ہوتی ہے، دیر سے آنے پر لال،پیلے، ہرے، نیلے اسٹار دیئے جاتے ہیں۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شو کے ایگزیکٹیو پرڈیوسرکی الیکٹرانک میڈیا پر یہ پہلی جاب ہے، اس سے پہلے وہ ایکسپریس کے انگریزی اخبار کے ویب ایڈیٹر ہوتے تھے۔۔ پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ شاہ زیب خانزادہ کا پورا شو دبئی سے وڈے مالک ڈیل کرتے ہیں، پروگرام کا اسکرپٹ دبئی سے اوکے ہوتا ہے تو پھر آن ائر ہوتا ہے۔۔ اکثر شوکے موضوعات بھی دبئی سے ہی تجویز کئے جاتے ہیں کہ فلاں خبر پر آج شو کیا جائے۔۔۔
معروف نیوز اینکر ماریہ میمن پیاگھر سدھا ر گئی ہیں ، ان کی شادی لاہور میں سی ایس ایس کے ٹاپر عمرریاض کیساتھ انجام پائی۔
وڈے چینل کی ایک اور خاتون اینکر بھی پیادیس سدھار گئیں۔۔
24 چینل کی ایک خاتون اینکر مارچ کے پہلے ہفتے میں کراچی میں بابل کی دعائیں لے کر رخصت ہونےجارہی ہیں۔۔
میڈیا کے ایک اور معتبر نام انصار نقوی صاحب نے ” آج” ٹی وی میں اہم ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔۔
دنیانیوزکے مشہور پروگرام مذاق رات کے ڈی جے اور سابق اینکر محسن عباس حیدر اور اینکرپرسن فاطمہ نقوی نے باہمی رضامندی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی۔۔ دونوں نے ڈیڑھ سال قبل اکتوبر 2015 میں شادی کی تھی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جوڑے نے خفیہ طور پر طلاق لے لی ہے لیکن اس کے اعلان سے گریز کررہے ہیں۔۔ ( کچھ دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ پبلک فورم پر ایسے موضوعات پر ڈسکس نہ کیا جائے، ان کا مشورہ سر آنکھوں پر، میرا بس یہ اختلاف ہے کہ اینکرز پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں، نیوزچینل میں انہیں اسٹارز کا درجہ حاصل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی یہ لوگ ایک چینل سے دوسرے چینل سوئچ کرتے ہیں تو ان کی بولیاں لگتی ہیں، کسی تقریب میں جاتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ سیلفیز بنوانے کو اعزاز سمجھتے ہیں،انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، تو پھر ان کی کوئی خبر ہوتو وہ کیوں نہ شیئر کی جائے؟؟ توپھر کیوں نہ ان کا ذکر کیا جائے؟) ۔۔
اب کچھ ذکر بول پشتو کا۔۔ جس کا حال پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی طرح مخدوش نظر آرہا ہے۔۔پشتو ٹرانسلیٹر، وائس اوور آرٹسٹ، پشتو کمپوزر ان لوگوں کو رکھاگیا ہے جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔۔پشتو ان لوگوں سے لکھوائی جارہی ہے جنہوں نے کبھی پشتو کی کوئی کتاب تک نہیں پڑھی، کیونکہ بھرتی ہونے والے یہ بچے کراچی میں پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے، یہیں تعلیم حاصل کی، گھر میں پشتو بولی جاتی تھی تو انہوں نے بھی سیکھ لی۔۔اب پشتو حروف تہجی کیا ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں، کس طرح لکھے جاتے ہیں، انہیں کچھ نہیں پتہ، پپو نے انکشاف کیا ہے کہ بول پشتو میں سبزی فروٹ بیچنے والے، مکئی کے دانے فروخت کرنے والے، بس کنڈیکٹرز اور ڈرائیورز کو رکھا گیا ہے ، وجہ صرف یہ ہے کہ انہیں پشتو بولنا آتی ہے۔۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ بول پشتو کیوں لایا گیا،شاید اس کےلانے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں اس سے پہلے چلنے والے پشتو زبان کے چینلز پشتو 1 بری طرح ناکام ہوچکا ہے، مشرق ٹی وی بھی آخری سانسیں لےرہا ہے،خیبرنیوز بھی بس آئی سی یو میں ہے اور گزارہ چل رہا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ بول پشتو کو وحید خان صاحب ( 65 سالہ وائس اوور آرٹسٹ) دیکھ رہے ہیں،پپو کا کہنا ہے کہ یہ صاحب پانچ ماہ قبل اسلام آباد سے کراچی آئے تھے، یہ خیبر نیوز میں سٹی نیوز کے نام سے ایک الگ ٹرانسمیشن کرتے تھے جو ناکامی کا شکار رہا،جس پر چینل نے ان سے معذرت کرلی۔۔اس کے بعد خان صاحب نے پتہ نہیں کون سے گیدڑ سنگھی کے ذریعے بول تک رسائی حاصل کرلی اور جاب بھی لے لی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ حیرت تو یہ ہے بلا تحقیق کے ایسے شخص کو بول پشتو کیلئے رکھ کیسے لیا؟ پپو نے ان صاحب کے کارنامے بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان صاحب نے بول پشتو میں سبزی فروشوں اور گلی محلوں کے گمنام شاعروں کو صحافی بنا کر بول میں ملازمتیں دلوادیں۔۔ڈرائیورز اور بس کنڈیکٹرز کی بھی چاندی کرادی۔۔
بول سندھی، بول بلوچی، بول پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں کیلئے جس طرح نیم خواندہ افراد کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے پپو کا کہنا ہے کہ بولستان (بول ہیڈآفس) میں روز لطیفے جنم لیتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے ان نیم خواندہ لوگوں نے جنہیں صحافت کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ، اکثریت تو میٹرک پاس بھی نہیں، بس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ انہیں سندھی، بلوچی یا پشتو بولنی آتی ہے۔۔ ان لوگوں نے بول کے صاف و شفاف آئینہ کی طرح چمکتے باتھ رومز(2015 میں جب میں بول میں تھا ،یہ اس وقت کی عکاسی کی ہے) کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے، کموڈ کا استعمال تک نہیں جانتے یہ لوگ، واش بیسن میں حساس سینسرز نصب ہیں یعنی آپ نلکے کے نیچے ہاتھ لائیں گے تو خودبخود پانی آنا شروع ہوجائے گا، یہ لوگ ان نلکوں کو کھولنے کی نت نئی تکنیکس ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔
فروری کا مہینہ ختم ہونے میں صرف 6 روز باقی رہ گئے، کراچی سے لاہور تک کئی چینلز کی تنخواہیں ابھی تک کارکنوں کو نہیں ملیں، کیا پی بی اے اس ایشو کا نوٹس نہیں لے گا؟۔۔۔ کیا پیمرا کی خودساختہ شکایات کونسلز تنخواہوں کے مسئلے پر ستو پی کر سوتی رہے گی؟۔۔۔ صحافتی تنظیمیں، پریس کلبس اور نام نہاد صحافی لیڈرز اس معاملے پر آواز بلند نہیں کریں گے۔۔ کب تک غریب ، محنت کشوں اس ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے، حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو، لیکن یہاں سب بے حسی کا شکار ہیں۔۔
بول کی فی الحال اتنی ہی خبر ، سینہ بہ سینہ کافی طوالت کا شکار ہوگیا ہے، اس لئے چلتے چلتے چینل 41 کے ایک صاحب رحیم گل کا ذکر بھی کرتا چلوں، پپو نے ان کے بارے میں گزشتہ سے پیوستہ سینہ بہ سینہ میں کچھ انکشافات کئے تھے، ان صاحب نے میرا نمبر ڈھونڈ کر مجھے فون کیا، کافی تڑیاں لگائیں،دھمکیاں دیں، جس پر ان کا شکرگذار ہوں، ان صاحب نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ انہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈی ایس پی کو بلیک میل نہیں کیا، بحیثیت مسلمان مجھے کلمے پر پورا یقین ہے، اس لئے میں یہ معاملہ رحیم گل کے ایمان پر چھوڑتا ہوں، پپو کی ان صاحب کے حوالے سے مزید مخبریوں کو شیئر نہیں کرونگا۔۔ لیکن ان صاحب کو پیشگی خبردار کررہا ہوں کہ اب میں خود اس کی مانیٹرنگ کرونگا، اور وہ آئندہ کسی نئے معاملے پر میری طرف سے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہونگے۔۔دو اخبار اور ایک چینل میں کام کرنے سے اگر کوئی خود کو بہت بڑا صحافی سمجھنے لگا ہے تو یہ فی الحال اس کا بچگانہ پن ہے، یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیئے۔۔
آخر میں اجازت سے پہلے آپ لوگوں کو یہ بتاتا چلوں کہ مارچ کا پہلا ہفتہ کراچی میں گزاروں گا۔۔ جسے ملنا ہو،حسرت پوری کرلے ۔۔ اپنا خیال رکھئے گا۔۔ ( علی عمران جونیئر)۔۔۔۔۔