سینہ بہ سینہ(آف دا ریکارڈ) پارٹ 62
دوستو،آپ کے پسندیدہ سلسلے سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط کے ہمراہ پھر حاضر ہوں۔۔ اس بار بھی پپو میرے ساتھ ہے۔۔ کئی باتیں کرنی ہیں۔۔ خبریں بہت زیادہ ہیں اسی لئے زیادہ باتیں نہیں کرنی، آپ اور پپو کے درمیان رکاوٹ نہیں بنتا۔۔
سب سے پہلے تو آپ کو شاید یہ اہم خبر پتہ نہ ہو کہ پاکستان کے دوست ملک ترکی نے میڈیا پر رپورٹنگ کے دوران چلنے والی بریکنگ نیوز پر پابندی لگادی ہے۔۔اس کی تفصیل تو آپ گوگل کرکے پڑھ لیں۔۔ خاص بات یہ بتانی ہے کہ ترکی کے ٹی وی چینلز کو حکم دیاگیا ہے کہ چینلز صرف وہی معلومات نشر کرسکتے ہیں جو متعلقہ حکام یا نشریات کی اجازت دینے نہ دینے سے متعلق وزیراعظم کی طرف سے مختص کئے گئے حکام کی طرف سے دی جائیں گی۔۔ اسی طرح گھنٹوں ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوز لکھ کر چلانے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔۔نیوزرپورٹرز اور اینکرز کو بھی متنازع ریمارکس یا تبصرے سے روکا گیا ہے۔۔اس خبر کی طرف میری توجہ پپو نے مبذول کرائی ۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران ترکی کے بہت قریب ہیں، وہاں کا انداز حکمرانی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے اب پاکستانی میڈیا بھی “سیمرا” اوہ۔۔ سوری پیمرا کی جانب سے ایسے احکامات وصول کرنے کیلئے خود کو تیار رکھے۔۔۔ کیوں کہ یہ معاملات اعلیٰ پیمانے پر ڈسکس کئے جارہے ہیں۔۔
تیاری تو ایک اور چینل کی ہورہی ہے۔۔۔ پپو نے بریکنگ نیوز دی ہے کہ مسلم لیگ نون بہت جلد اپنا ٹی وی چینل لارہی ہے۔۔ جس کے سربراہ سابق ایم ڈی پی ٹی وی ہونگے۔۔۔اس چینل میں نظریاتی طور پر نون لیگ کے قریبی صحافیوں، اینکرز کو رکھا جائے گا۔۔۔اطلاعات ہیں کہ یہ چینل اگلے سال الیکشن سے پہلے لایا جائے گا۔۔
تیار تو پپو اس خبر کو ماننے کیلئے بھی نہیں کہ وڈے چینل سے مقدمہ ہارنےکے بعد برطانیہ نے اے آروائی کے چھ چینلز بند کردیئے۔۔ وڈے چینل اور وڈے اخبارات میں تو مسلسل یہی پراپیگنڈا کیاجارہا ہے کہ جیسے انہوں نے کوئی میدان مار لیا،جھوٹ کو شکست دے دی۔۔ برطانوی عدالت سے مسلمان اور محب وطن ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کرلیا۔۔اس پر کہنے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن پپو نے جو بہت ساری تفصیل دی ہے اس میں سے صرف خاص ہی لکھوں گا۔۔ کیوں کہ یہ دو ہاتھیوں کی لڑائی ہے اور اس میں پپو ہو یا میں، ہم گھانس یا گنا نہیں بننا چاہتے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔اے آر وائی برطانوی عدالت میں وڈے چینل کے خلاف کیس ہارگیا۔۔ اتنی بات درست ہے بس۔۔ آگے کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح پاکستان میں پیمرا چینلز کے معاملات دیکھتا ہے اسی طرح برطانیہ میں ” آف کام” نامی ادارہ چینلز کے معاملات دیکھتا ہے۔۔ اس کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق “سروس کی عد م فراہمی” پر اے آر وائی نیٹ کو جاری تمام لائسنس منسوخ کردیئے گئے۔۔ پریس ریلیز کے مطابق برطانیہ کے براڈکاسٹنگ ایکٹ 1990 کے تحت اے آر وائی کے پاس چھ ٹی وی لائسنس ایبل کانٹینٹ سروس ( ٹی ایل سی ایس ) لائسنس موجود تھے۔۔جن کے ذریعے اے آر وائی نیوز، اے آر وائی ڈیجیٹل، آے آر وائی کیوٹی وی، کیوٹی وی، اسلامک ایجوکیشنل چینل اور اے آر وائی انٹرٹینمنٹ کو نشرکیاجاتا تھا۔۔پریس ریلزمیں وضاحت کی گئی کہ اے آر وائی نیٹ ورک نے اکتیس دسمبر 2016 سے ٹریڈنگ ختم کی اور 12 جنوری 2017 سے اسے رضاکارانہ فروخت کی کٹیگری میں ڈال دیا۔۔پپو کے مطابق اس معاملے پر اے آر وائی کا موقف ہے کہ برطانیہ میں دکھایاجانے والا اے آر وائی کا مواد(کانٹینٹ) دبئی کی ایک کمپنی اے آر وائی ڈیجیٹل زیڈ ایل ایل سی کی ملکیت ہے جس نے سیلزاور مارکیٹنگ کی ایک فرم کو آؤٹ سورس کیا تھا جو اس مواد کو دکھانے کی مکمل طور پرذمہ دار تھی۔۔ اے آر وائی کے مطابق برطانیہ میں وڈے چینل کی جانب سے کیاگیامقدمہ اسی آؤٹ سورس کمپنی کے خلاف تھا نہ کہ اے آر وائی پاکستان کے خلاف۔۔اور دبئی کی کمپنی نے اس فیصلے کے بعد برطانیہ میں اپنا آپریشن بند کردیا۔۔یعنی پپو کی تحقیق کے مطابق یہ چینلز برطانوی حکومت نے بند نہیں کئے، اے آر وائی پاکستان پر کوئی کیس نہیں تھا۔۔ اور اے آر وائی کے برطانیہ میں تمام چینلز رضاکارانہ طور پر بند کئے گئے۔۔۔ اب وڈے چینل کی جانب سے مسلسل برطانوی عدالت کے فیصلے پر بھنگڑے کیوں ڈالے جارہے ہیں، یہ وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔۔ کسی کو پپو کی بات پر یقین نہیں آرہا تو وہ برطانوی سرکاری ادارے”آف کام” کا جاری کردہ اعلامیہ پڑھ سکتا ہے۔۔جسے آپ لوگوں کے سامنے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنےکیلئے اسی بلاگ میں دے رہا ہوں۔۔۔
اے آر وائی کے حوالے سے پپو کا مزید کہنا ہے کہ وہاں کنٹرولر فرحان رضا ان دنوں فرعون رضا بناہوا ہے، ماتھے پہ آنکھیں ہیں اور حد سے زیادہ سرگرمی دکھارہا ہے۔۔ پپو کے مطابق حیرت انگیز طور پر حماد یوسف صاحب سائیڈ لائن پر ہیں۔۔ جس کی وجہ جاننے کی کوششوں میں پپو لگا ہوا ہے۔۔
پپو نے مخبری دی ہے کہ ریحام خان جلد لاہور کے ایک چینل کی اسکرین پر نظر آئیں گی۔۔۔
معروف اینکر مسعود رضا جو ان دنوں دنیانیوزمیں ہیں، خیر سے شادی شدہ ہوگئے ہیں۔۔گزشتہ ہفتے کو ان کا ولیمہ کراچی میں تھا۔۔
رانا عظیم کے بعد دنیا نیوز کو ایک اور دھچکا لگا ہے۔۔ پارلیمنٹ ہاؤس سے بازارحسن تک جیسی شہرت یافتہ کتاب کے خالق ظہیرالدین بابر نے دنیا گروپ چھوڑ کر نیونیوز جوائن کرلیا ہے۔۔۔
لاہور ہی کے ایک چینل اسٹارایشیا کے ملازمین کی کئی ماہ سے رکی تنخواہیں ادا کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں، لیکن انتظامیہ نے یہ سب اپنی خوشی سے نہیں کیا، پی ایف یو جے، اینکا اور ایمرا کے لیڈران نے چینل کے دفتر میں جاکر دھرنا دے دیا تھا۔۔جس کے بعد انتظامیہ کو بحالت مجبوری تمام رکی ہوئی تنخواہیں ادا کرنا پڑیں۔۔اس کے ساتھ ہی ادارے کے مرحوم کارکن شاہد چودھری کے لواحقین کو ایک لاکھ روپے اور ماہانہ دس ہزار روپے دینے کا بھی وعدہ کیا۔۔ اب ذرا ” کیپٹل” کی جانب بھی توجہ دے لی جائے، جہاں کے ملازمین زمانے سے تین ماہ پیچھے چل رہے ہیں اور تنخواہیں بہت لیٹ ہیں۔۔کارکنان کتنے بیزار ہیں اس کی ایک مثال بھی سن لیں۔۔ کیپٹل لاہور کے بیوروچیف لاہور پریس کلب کے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے،اور انہیں ان کے ادارے کے لوگوں نے ہی ووٹ نہیں دیئے، کیوں کہ ان کا کہنا تھا جو اپنے ادارے میں ملازمین کی تنخواہیں نہیں دلاسکتا وہ کلب کا عہدیدار بن کر برادری کے مفادات کا کیسے خیال رکھے گا۔۔۔
پپو نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی وی کے ایک نیوز پرڈیوسر کی گرفتاری کیلئے پولیس نے پی ٹی وی سینٹر کے باہر ناکے لگادیئے اور پرڈیوسر کی گاڑی بھی بند کردی۔۔۔پپو نے اس ڈرامے کی ساری کہانی کچھ یوں بیان کی ہے کہ ۔۔کچھ روز پہلے تھانہ سیکرٹریٹ کے اے ایس آئی شفقت عباسی نے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ پی ٹی وی کے فاروقی گیٹ پر سادہ کپٹروں میں ناکا لگاکر پی ٹی وی سے باہر آنے والے ہر شخص کو روک کر پوچھ گچھ شروع کردی۔۔ اسی دوران تین چار سادہ لباس اہلکار اندر بھی گھس گئے جنہیں سیکورٹی گارڈز نے روکا تو ان میں سے ایک “اقبال ” نامی اہلکار پی ٹی وی کی ایک خاتون اینکر کا ڈرائیورنکلا۔۔جس کی جیب سے پولیس کا کارڈ بھی نکلا۔۔ سیکورٹی گارڈز نے اس کی دھلائی کردی۔۔ یہ لوگ پی ٹی وی کے ایک نیوزپرڈیوسر علی افضل کو گرفتارکرنا چاہتے تھے۔۔کیوں گرفتارکرناچاہتے تھے؟ پپو نے عجیب انکشاف کیا کہتا ہے۔۔ نیوز پرڈیوسر نے خاتون اینکر کے ہمراہ “کمیٹی” ڈالی تھی، نو لاکھ روپے کا معاملہ تھا، لین دین پر کوئی تنازع ہوا تو خاتون اینکر نے ایک “وفاقی وزیر” کے ذریعے پولیس بلوالی۔۔ وفاقی وزیرکا تعلق لاہور سے ہے۔۔۔ اور خاتون اینکر کے ساتھ ان کی خفیہ شادی کی خبریں کچھ عرصے پہلے مارکیٹ میں گردش کرتی رہی تھیں۔۔۔پولیس کا دعوی ہے کہ علی افضل نے خاتون اینکر کے نو لاکھ روپے دینے ہیں۔۔۔۔۔تھانے میں درخواست آئی ہوئی ہے جس کیلئے علی افضل کو بلانے پولیس پارٹی پی ٹی وی گئی تھی۔۔
پی ٹی وی کی ایک اورخبر پپو کی زبانی سن لیں۔۔۔انکوائری میں کلین چٹ ملنے کے بعد پی ٹی کے ڈائریکٹر نے جنسی طور پر ہراساں کرنےکا الزام لگانے والی دو خواتین کے خلاف ہتک عزت کا کیس دائر کردیا ہے۔۔۔یہ دعوی ایسے وقت میں دائرکیاگیاہے کہ جب الزام لگانے والی خواتین اینکرزکوپی ٹی وی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے پر نوکری سے فارغ کیاگیا ہے۔۔
اب ذکر دنیا کے سٹی چینل لاہور نیوزکا ۔۔جس نے اپنے کارکنوں کو لانچنگ کی خوشی تنخواہ کا دس فیصد بونس دیا ہے۔۔یہ ایک اچھی روایت ہے۔۔ ہمارے یہاں چینلز پر تنخواہیں پہلے تو وقت پر نہیں ملتیں۔۔ لاہور میں خاص طور سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک تو یہاں میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کا اسکیل بہت کم ہے، دوسرا یہ کہ ڈیڑھ ماہ بعد انہیں تنخواہ دی جاتی ہے۔۔ آدھا مہینہ گزرنےکے بعد خیال آتا ہے کہ تنخواہ بھی کوئی چیز ہے جو کام کرنے والے ملازمین کو دی جاتی ہے۔۔تنخواہوں میں تاخیر سے ہزاروں روپے والا نچلا طبقہ ہی متاثر ہوتا ہے۔۔جنہیں وقت پر اسکول کے بچوں کی فیسیں، مکان کا کرایہ، راشن،دودھ کا بل دینا پڑتا ہے۔۔ لاکھوں روپے لینے والا اعلا طبقہ تو ڈیڑھ مہینہ برداشت کرسکتا ہے۔۔چینل انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ نچلے درجے کے ملازمین کے مسائل کا خیال رکھیں۔۔ اگر انتظامیہ ان کا خیال رکھے گی تو وہ لازمی آپ کا خیال رکھیں گے۔۔۔
پپو نے بہت دلچسپ خبر دی ہے کہ حکومت کی جانب سے لاہور نیوز پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے۔۔ جس کے لئے تمام لاہور پولیس کو احکامات دیئے گئے ہیں کہ جب بھی کوئی خبر ہوپہلے لاہور نیوز کودی جائے، سٹی 42 کو نظرانداز کیا جائے۔ ۔
سٹی چینل کی بات ہورہی ہے تو ایک اور سٹی چینل ۔۔ چینل 41 کی بات بھی کرلیتے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ چینل 41 کے اسٹوڈیو میں موٹے تازے چوہوں کا راج ہے، جو دوران بلیٹن ادھر سے ادھر گشت کرتے نظر آتے ہیں، ایک بار تو خاتون اینکر نے بلیٹن کے دوران ہی چوہے دیکھ کر چیخیں مار دیں۔۔یہ تو چلیں صفائی کے ناقص انتظامات کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔۔ لیکن اس مسئلے کا کیا حل ہے کہ ایک “انٹرنی” کو اس چینل میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بیوروچیف بنادیاگیا۔۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ریحان گل نامی یہ بندہ صحافت کے نام پر علاقے میں ڈٹ کر بلیک میلنگ کررہا ہے۔۔اشتہارات کی جگہ” ڈیل” کی جاتی ہے۔۔پپو نے اس کی بلیک میلنگ کا ایک قصہ سناتے ہوئے بتایاکہ ۔۔ کچھ عرصہ پہلے ڈی ایس پی کی گاڑی سے ایک لڑکی زخمی ہوگئی۔۔ گاڑی ڈی ایس پی کا ڈرائیور چلارہاتھا۔۔ بیوروچیف صاحب نے ڈی ایس پی فرحت عباس گادھی کو فون کیا، خبر کا بتایا اور خبر نہ چلانے کے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگے۔۔ پپو کا دعوی ہے کہ ڈی ایس پی نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا جس پر اس کے خلاف خبر چلادی گئی۔۔۔ میڈیا پر خبر چلنے کا مطلب ہے کہ اس کا نوٹس لیاجائے، پھر اعلیٰ حکام نے تحقیقات سے پہلے ہی ڈی ایس پی کو معطل کردیا اور اس کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کردی۔۔ چینل 41 سے متعلق ہی پپو نے یہ خبر بھی دی ہے کہ اس چینل کی انتظامیہ نے اپنے ملازمین پر پریس کلب جانے پر پابندی لگادی ہے۔۔ پریس کلب جانے پر پہلی بار پانچ ہزار اور دوسری بار دس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا تیسری بار جرمانہ نہیں نوکری سے فارغ کردیاجائے گا۔۔ جب ملازمین نے احتجاج کیا تو چینل انتظامیہ نے اپنے احکامات میں ذرا سی ترمیم کردی اور کہا کہ ۔۔ دوران ڈیوٹی پریس کلب جانے پر پابندی ہوگی۔۔ جو کلب میں پایاگیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔۔
اب سٹی چینل سے نکلتے ہیں۔۔پپو نے سما کے بارے میں کچھ اطلاعات دی ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ سما میں کراچی بیوروکے حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔۔بیوروچیف نے ڈائریکٹر نیوز کا روایتی پریشر اب رپورٹرز اور کیمرہ مینوں پر ڈالنا شروع کردیا ہے۔۔آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد اگر ایونٹ پر موجود رپورٹر یا کیمرہ مین ریلیف مانگے تو ایک آدھے گھنٹے بعد متبادل بندہ بھیج دیاجاتا ہے یا پھر اس سے محبت بھرے انداز میں درخواست کی جاتی ہے کہ یار یہ ایونٹ تو مکمل کرلو، پھر چھٹی کرلینا۔۔۔لیکن نئے بیوروچیف نے نیا جملہ متعارف کرایا ہے کہ ۔۔ کام کرنا ہے تو کرو ورنہ کل سے گھر پہ ہی بیٹھ جانا۔۔۔ایک رپورٹر نے کسی معاملے پر کہا کہ اچھا میں فرحان ملک(ڈائریکٹر نیوز) سے بات کرلیتا ہوں تو سب کے سامنے کہا گیا کہ ۔۔ یہ سمجھ لو یہ سب فرحان ملک نے ہی کہا ہے۔۔۔کیمرہ مینوں کو سیکوینس کے ساتھ فوٹیج نہ بنانے پر کھلے عام چیخ چیخ کر گالیاں دی جاتی ہیں۔۔ اس تمام صورتحال کے بعد تین رپورٹرز اور دو کیمرہ مینز نے دنیا کے بیوروچیف اسلم خان سے رابطہ کیا ہے۔۔ امکان ہے کہ بہت جلد لاہور سے اجازت ملتے ہی یہ لوگ سما سے دنیا نیوز ہجرت کرجائیں۔۔۔نیوزڈیسک اور اسائنمنٹ سے پہلے ہی کئی لوگ بول اور اے آر وائی جاچکے ہیں۔۔ جب کہ ان کی خالی ہونے والی جگہوں پر کوئی آنے کو تیار نہیں۔۔ ریٹنگ کے معاملے میں بھی یہ چینل اپنی پوزیشن سے مسلسل نیچے ہی آرہا ہے۔۔۔کچھ روز پہلے پیمرا کی شکایت کونسل نے بھی الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے جرم میں سما پر تین لاکھ روپے جرمانے کی سفارش کی ہے۔۔ سما کے بیورو چیف اسلام آباد شکایات کونسل میں الزامات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد یہ جرمانہ عائد کیا گیا۔۔
سما کے بعد اے آر وائی کی مائنڈ بلوئنگ گرل کا بھی ذکر ہوجائے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال چھٹیوں پر لاہورجارہی ہیں۔۔
کراچی میں ان کے متعلق یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وہ جلد اے آر وائی کو خیرباد کہنے والی ہیں۔۔ ساتھ ہی پپو کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے پرانے چینل 24 کی جانب سے کی گئی آفر پر وہاں میٹنگ بھی کرسکتی ہیں۔۔ کیوں کہ اب 24 میں وہی صاحب کنٹرولر آگئے ہیں جو اس سے پہلے سٹی چینل میں تھے جہاں سے مائنڈ بلوئنگ نے سال بھر پہلے بطور انٹرنی اپنے کیرئر کی شروعات کی تھی۔۔پپو نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ مائنڈ بلوئنگ گرل کو چینل 24 سے آفر ملی ہے۔۔ لیکن شاید آفر مائنڈ بلوئنگ گرل کو پسند نہیں ، اس پر مزید بات لاہور میں کی جائے گی۔۔
سگریٹ فروش کےلال چینل کے ایک صحافی کو گزشتہ دنوں لاہور کے قریب مناواں میں مارےجانے والے 4 ڈاکوؤں کی پہلے سے اطلاع تھی شاید یہی وجہ ہےکہ اس نے سب سے پہلے اپنے چینل پر یہ خبر بریک کی۔۔
پپو کا کہنا ہےکہ پاکستانی میڈیا ہم جنس پرستی کو فروغ دینے لگ گیا ہے۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیمرا کے چیئرمین کو یہ نظر نہیں آئے گا کیونکہ ان کے حوالے سے پہلے ہی مارکیٹ میں یہ اڑی ہوئی ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کی ایک تنظیم کے پاکستان میں سربراہ رہ چکے ہیں۔۔زیادتی، بچوں سے بدکاری۔۔اور ناجائزتعلقات کے موضوعات پر ہم گھروں میں بات کرنا پسند نہیں کرتے لیکن ہمارے ٹی وی ڈراموں میں یہ موضوعات عام ہوگئے ہیں۔۔ جن پر پیمرا ستو پی کے سورہاہے۔۔۔”ہم” ٹی وی پر ڈرامہ سیریل” کتنی گرہیں باقی ہیں” میں اداکارہ ثانیہ سعید اور فرح شاہ ہم جنس پرستی کا کردار کررہی ہیں۔۔ لیکن پیمرا اس کا نوٹس ابھی تک نہیں لے سکا۔۔۔
اور آخر میں ذکر اپنے پیارے بول کا۔۔۔ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیا کو خیرباد کہنے کے سلسلے میں سنجیدگی سے غور شروع کردیا۔۔نیوزون کے پروگرام میں نادیہ مرزا سے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ۔۔ وہ سنجیدگی سے میڈیاسے سے کنارہ کشی کا سوچ رہے ہیں اور جب وہ کوئی فیصلہ کرلیں تو انہیں روکنا مشکل ہوتا ہے۔۔ پیمرا کی شکایات کونسل کے 42 ویں اجلاس میں بول ٹی وی کے اینکرز ڈاکٹر عامر لیاقت اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف مولانا فضل الرحمان اور اسحاق ڈار کی شکایات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ بول ٹی وی کے وکیل نے ایک گھنٹہ دلائل دیے جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی جس پر پیمرا نے بول ٹی وی کو دفاع کا ایک اور موقع دینے کیلئے سماعت 10 فروری تک ملتوی کردی۔
بول کے پروگرام ایسے نہیں چلے گا پر سپریم کورٹ نے تاحکم ثانی پابندی لگادی ہے۔۔جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بول ٹی وی کی لائسنس منسوخی کے حوالے پیمرا کی درخواست کی سماعت کی۔۔۔بول نے بھی تحریری طور پر لکھ کر دے دیا کہ اب یہ پروگرام نہیں چلائیں گے۔۔ اس موقع پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ اگلے احکامات تک پروگرام نشر ہونے کی صورت میں اینکر اوردیگر معاونین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔۔سماعت اب 8 فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔۔
پچھلی بار کہا تھا پپو نےکہاتھا کہ بول کو ملک بھر سے لیگل نوٹسز بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔۔۔ اس کا آغاز کردیاگیا ہے۔۔ کئی لوگوں نے اپنے واجبات کیلئے بول مینجمنٹ کو قانونی نوٹس بھجوائے ہیں۔۔ دیگر بول والاز جو ابھی تک بول میں صرف اس لئے واپس نہیں لئے گئے کہ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پرانے بول والاز تھے اور بول کے خلاف حکومتی اقدامات کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے، بلامعاوضہ بول بحالی کی کمپین چلائی۔۔اور بول کی بحالی میں سب نے اپنا اپنا کردار اداکیا۔۔ پرانے بول والاز کو انتظار ہے کہ واجبات کی کمیٹی جلد اپنی رپورٹ تیار کرے تاکہ ان کے واجبات ملنے کا سلسلہ شروع ہوسکے۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔ پاک نیوزکی بھرپورتیاریاں جاری ہیں۔۔ “موک” بھی روز ہورہی ہیں۔۔ سندھی کے بعد اب بول پشتو بھی جلدآرہا ہے۔۔ بول انٹرٹینمنٹ کی بھی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔۔ دیکھتے ہیں اللہ خیر کرے۔۔۔۔ ان سب کے باوجود پرانے بول والاز پر انتظامیہ نظر کرم کب تک کرتی ہے۔۔ اس کا بھی انتظار ہے۔۔
آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ اب آپ دوستوں سے ایک لمبا بریک چاہوں گا۔۔۔ دیکھتے ہیں اب کب موڈ بنتا ہے سینہ بہ سینہ لکھنے کا۔۔۔ جب تک کیلئے اجازت دیں۔۔ (علی عمران جونیئر)۔۔۔۔۔۔